سنگاپور میں قیام کی یادیں

روزنامہ ’’الفضل‘‘ 15 جون 2006ء میں ہومیوڈاکٹر محترم سلطان احمد صاحب مجاہد کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں آپ نے سنگاپور میں اپنے قیام کی 61سال پرانی یادیں بیان کی ہیں۔
1945ء میں خاکسار برطانیہ کی فوج میں بحیثیت سپاہی فٹر موٹر مکینک سنگاپور میں تعینات تھا جبکہ میری عمر قریباً انیس سال تھی۔ سنگاپور کو برطانیہ نے جاپانیوں سے لے لیا تھا۔ ایک دن اچانک ایک احمدی بھائی سے کھیل کے میدان میں ملاقات ہوگئی۔ اُن کے ساتھ ہی مَیں پہلی بار احمدیہ مرکز تبلیغ میں حضرت مولانا غلام حسین صاحب کے پاس ملنے گیا۔ تقریباً 10 تا 15 میل کا سفر تھا۔ حضرت مولانا صاحب نے فرمایا کہ ہر اتوار کو (جبکہ تمام فوجیوں کو رخصت ہوتی ہے) یہاں آیا کریں ۔ چنانچہ ہر اتوار کو ہم پندرہ بیس احمدی فوجی مرکز میں حاضر ہوتے۔ مجھے دعوت الی اللہ میں بذریعہ تقسیم اشتہار حصہ لینے کی سعادت بھی حاصل ہوتی رہی۔
اُس وقت حضرت مولانا صاحب کو گیارہ بارہ سال کا عرصہ وہاں گزر چکا تھا۔ 15 تا 20 خاندان اس وقت احمدی ہوچکے تھے۔ ایک دو منزلہ جگہ آپ نے کرایہ پرلی ہوئی تھی نچلی منزل میں ایک چھوٹا سا ہینڈ پریس اشتہار چھاپنے کے لئے تھا اور اوپر والا حصہ برائے مسجد تھا جس میں قریباً بیس تیس آدمی نماز ادا کرسکتے تھے۔ ایک چھوٹی سی ملائی (Malay) احباب کی جماعت تھی۔ ہم آپس میں تعارف تو حاصل کرچکے تھے لیکن نہ ہم ملائی بول سکتے تھے اور نہ وہ اردو۔ حضرت مولانا صاحب کی دعاؤں شفقت اور محبت کا مجھ پر اس قدر اثر تھا کہ میں اپنی کمپنی سے رات کے کھانے کے بعد بعض دفعہ عازم سفر ہوتا۔ تقریباً 10 میل ٹرام کا سفر کرکے آپ کے ساتھ نماز عشاء ادا کرکے رات دس بجے واپس پہنچتا۔
ایک میٹنگ میں کسی نے حضرت مولانا صاحب سے سنگاپور میں احمدیت کے آغاز کے بارہ میں پوچھا تو فرمایا کہ آج مجھے یہاں 12 سال آئے ہوگئے ہیں۔ پہلے چھ سال میں میں ایک احمدی بھی نہ بنا سکا بلکہ یہاں مخالفت کے پہاڑ کھڑے ہوگئے۔ جب میں الفضل میں دوسرے مربیان کی کارروائی پڑھتا تو شرم سے ڈوب جاتا کہ اے اللہ تعالیٰ یہاں کوئی میری بات سننے کو بھی تیار نہیں ایک دوست کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: یہ پہلا دوست ہے جس نے چھ سال بعد بیعت کی تھی اور اب چھ سال مزید بعد 12 سال میں ایک چھوٹی سی جماعت بنی ہے۔
حضرت مولوی صاحب بہت بلند حوصلہ تھے۔ کسی نے کہا کہ آپ حضور سے رخصت لے کر اپنی بیوی اور بچی کو مل آئیں جو بارہ سال سے آپ کے بغیر ہندوستان میں مقیم ہیں۔ آپ نے فوراً فرمایا کہ میں واقف زندگی ہوں، میرے آقا حضور کو پتہ ہے کہ غلام حسین وہاں بارہ سال سے ہے، اس کی جوان بی بی وہاں بیٹھی ہے۔ جبکہ میں نے اپنی جان دیدی ہے۔ اپنا حق ختم کردیا ہے تو کیوں اجازت مانگوں۔ جب ارشاد ہوگا چلا جاؤں گا۔
حضرت مولوی صاحب بہت ہی دعاگو تھے۔ ایک اتوار کو جب میںمشن ہاؤس میں جارہا تھا ٹرام سے اتر کر غلطی سے ممنوعہ راستہ پر چل پڑا۔ فوجیوں نے مجھے وردی سے پہچان کر چالان کردیا اور میری کمپنی میں بھجوا دیا کہ اسے سزادی جائے۔ میں نے حضرت مولانا صاحب سے دعا کی درخواست کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے معاملہ رفع دفع ہوگیا۔
ایک اتوار کے دن ڈاکٹر عمرالدین صاحب سدھو نے واپسی پر مجھے اپنی جیپ میں بٹھا لیا کہ راستہ میں اتار دیں گے۔ لیکن راستہ میں جیپ کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ ہم دونوں سخت زخمی ہوئے اور ہسپتال میں داخل ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحب تو دو تین دن میں فارغ ہوگئے جبکہ خاکسار کو ایک ہفتہ تک ہسپتال میں رہنا پڑا۔ ایک دن اچانک چھ سات معزز ملائی احمدی، حضرت مولوی صاحب اور ڈاکٹر سدھو صاحب میری تیمارداری کے لئے کئی تحائف لے کر ہسپتال آئے۔ اُن کے جانے کے بعد ایک فوجی مریض نے حیرت سے پوچھا کہ ان غیرملکیوں سے میرا کیا رشتہ ہے۔ میں نے بتایا کہ میں تو ایک غریب سپاہی ہوں۔ یہ معززین احمدی ہونے کی بناء پر میرے حقیقی بھائیوں کی طرح ہیں۔
1946ء کی ابتداء میں بذریعہ بحری جہاز میں کلکتہ پہنچا۔ کچھ دن بعد فوج سے ڈسچارج کردیا گیا۔ ایک میٹنگ میں حضرت مولانا نے فرمایا تھا کہ میرا ایمان ہے کہ یہاں احمدیت ضرور پھیلے گی۔ آج 61 سال بعد جب MTA پر حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا سنگاپور کا دورہ دیکھا اور سنگاپور کی اتنی بڑی مسجد دیکھی تو یاد آیا کہ ایک وہ وقت تھا جب حضرت مولانا مرحوم کو مار مار کر بے ہوش کرکے سڑک کے کنارے پھینک دیا گیا تھا۔ اور آج اس قدر جماعتی ترقی!۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں