سو سال پہلے – 1899ء تاریخ احمدیت میں

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے سالانہ نمبر 1998ء میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں مکرم محمد اشرف کاہلوں صاحب نے تاریخ احمدیت کے حوالہ سے 1899ء میں کی جانے والی حضرت مسیح موعودؑ کی پُردرد دعاؤں، الہامات و کشوف اوراہم واقعات تفصیل سے بیان کئے ہیں۔

الہامات:
1899ء میں حضور علیہ السلام کو جو الہامات ہوئے ان میں سے کچھ حسب ذیل ہیں:-
= تیری عزت اور جان سلامت رہے گی اور دشمنوں کے حملے جو اس بدغرض کے لئے ہیں، اُن سے تجھے بچایا جائے گا۔
= خدا نے ارادہ کیا ہے کہ تیرا نام بڑھادے اور تیرے نام کی خوب چمک آفاق سے دکھا دے۔
= حضورؑ فرماتے ہیں: ایک دفعہ مجھے دانت میں سخت درد ہوئی۔ ایک دم قرار نہ تھا۔ کسی شخص سے مَیں نے دریافت کیا کہ اس کا کوئی علاج بھی ہے؟۔ اس نے کہا کہ علاج دندان اخراج دندان۔ اور دانت نکالنے سے میرا دل ڈرا۔ تب اس وقت مجھے غنودگی آگئی اور میںزمین پر بے تابی کی حالت میں بیٹھا ہوا تھا اور چارپائی پاس بچھی ہوئی تھی۔ میں نے بے تابی کی حالت میں اس چارپائی کی پائینتی پر اپنا سر رکھ دیا اور تھوڑی سی نیند آگئی۔ جب میں بیدار ہوا تو درد کا نام و نشان نہ تھا اور زبان پر یہ الہام جاری تھا … (یعنی) جب تُو بیمار ہوتا ہے تو وہ تجھے شفا دیتا ہے۔
= رحمتِ الٰہی کے چپکے سامان۔
= مبشروں کا زوال نہیں ہوتا۔ گورنر جنرل کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا وقت آگیا۔
= فرمایا ’’مجھے الہام ہوا ہے کہ گورنرجنرل کی دعاؤں کی قبولیت کا وقت آگیا‘‘۔ فرمایا گورنر جنرل سے مراد ’’روحانی عہدہ‘‘ ہے۔
= خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ تیرے ساتھ آشتی اور صلح پھیلے گی۔ ایک درندہ بکری کے ساتھ صلح کرے گا اور ایک سانپ بچوں کے ساتھ کھیلے گا۔ یہ خدا کا ارادہ ہے گو لوگ تعجب کی راہ سے دیکھیں ۔
٭ فرمایا ’’مجھے بڑے ہی کشف صحیح سے معلوم ہوا ہے کہ ملوک بھی اس سلسلہ میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ وہ ملوک مجھے دکھائے بھی گئے ہیں۔ وہ گھوڑوں پر سوار تھے۔ اور یہ بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں تجھے یہاں تک برکت دوں گا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘۔
= ’’اللہ ایک زمانہ کے بعد ہماری جماعت میں ایسے لوگوں کو داخل کرے گا اور پھر ان کے ساتھ ایک دنیا اس طرف رجوع کرے گی۔‘‘
واقعات:
= 1899ء میں مولوی محمد حسین بٹالوی نے اپنی مسلسل نامرادیوں کا بدلہ لینے کیلئے حضرت اقدسؑ کے خلاف ایک فوجداری مقدمہ دائر کیا کہ ’’مجھے مرزا صاحب کی طرف سے اپنی جان کا خطرہ ہے اس لئے اُن سے حفظ امن کی ضمانت لی جائے‘‘۔ یہ مقدمہ دائر کرنے کی جسارت مولوی صاحب کو یوں ہوئی کہ بٹالہ کے تھانہ میں ایک نہایت معاند تھانیدار محمد بخش متعین تھا اور چونکہ ایسے مقدمات میں پولیس کی رپورٹ پر ہی فیصلہ کیا جاتا ہے اس لئے محمد بخش نے ایک مجلس میں بڑی تحدی سے کہا کہ ’’آج تک تو مرزا بچ جاتا رہا ہے لیکن اب وہ میرے ہاتھ دیکھے گا‘‘۔ کسی نے یہ بات حضورؑ تک پہنچا دی تو آپ نے مذکورہ شخص کی طرف دیکھا اور بے ساختہ فرمایا ’’وہ کیا سمجھتا ہے! اُس کا اپنا ہاتھ کاٹا جائے گا‘‘۔ چنانچہ مقدمہ چلا اور حضور علیہ السلام بَری کئے گئے لیکن محمد بخش کے ہاتھ پر ایک زہریلی قسم کا پھوڑا نکل آیا جسکے درد سے وہ دن رات تڑپتا رہا اور کچھ عرصہ بعد اس دنیا سے کُوچ کرگیا۔ اس کے علاوہ ایک نشان اَور بھی ظاہر ہوا کہ اُسی تھانیدار کا اکلوتا بیٹا حضرت اقدسؑ کے غلاموں میں داخل ہوگیا۔
اسی مقدمہ کے سلسلہ میں حضور علیہ السلام کو ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں پیشی کے سلسلہ میں پٹھانکوٹ کا سفر اختیار کرنا پڑا۔ وہاں مسٹر جی۔ایم۔ ڈوئی (ڈی۔سی) اور حضورؑ کی رہائشگاہ کے درمیانی میدان میں جب مغرب کی نماز حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے پڑھائی تو آپؓ کی خوش الحانی اور پُرسوز آواز سے مسٹر ڈوئی اپنے خیمہ سے باہر آگئے اور قرآن کریم سنتے رہے۔ نماز کے اختتام پر انہوں نے تحصیلدار راجہ غلام حیدر صاحب سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں اور کیا یہ پھر نماز پڑھیں گے تو مجھے قریب سے قرآن سننے کا موقع دیں گے۔ راجہ صاحب نے یہ ماجرا حضور اقدسؑ کی خدمت میں عرض کیا تو آپؑ کے ارشاد پر مسٹر ڈوئی کے لئے ایک کرسی بچھادی گئی جس پر بیٹھ کر وہ تلاوت قرآن کے وقت مسحور ہوکر جھومتے رہے۔
= اسی سال حضور علیہ السلام کے فوٹو گراف بنائے گئے۔ ایک فوٹو گراف پورے قد کا ہے جبکہ دو گروپ فوٹو ہیں۔
= اسی سال 1927؍ستمبر کو حضورؑ نے حکومت کے نام ایک میموریل شائع فرمایا جس میں جلسہ مذاہب کے انعقاد پر زوردار الفاظ میں توجہ دلائی اور فرمایا کہ ’’اگر اس جلسہ کے بعد … ایک سال کے اندر میرے نشان تمام دنیا میں غالب نہ ہوں تو میں خدا کی طرف سے نہیں‘‘۔
= جنوری 1897ء کے ایک اشتہار کے نتیجہ میں اصغرحسین نامی ایک شخص نے لالہ جوتی پرشاد مجسٹریٹ کی عدالت میں حضورعلیہ السلام کے خلاف نالش کردی۔ حضورؑ نے چند احباب کو عدالت میں پیش ہونے کے لئے بھجوایا۔ مجسٹریٹ نے سرسری سماعت کے بعد مقدمہ خارج کردیا اور ساتھ ہی کہا کہ مقدمہ سماعت کے قابل نہیںتھا، یہ تو محض حضرت مرزا صاحب کی زیارت کا بہانہ تھا مگر وہ تشریف ہی نہیں لائے۔
= 1899ء میں حضرت خلیفہ نورالدین صاحبؓ نے قبر مسیح کی تحقیق کی خاطر چار ماہ کشمیر میں قیام کیا۔ انہوں نے قبر کا نقشہ تیار کیا اوہ 556؍افراد کی تصدیق بھی لی کہ یہی حضرت مسیح ؑ کی قبر ہے۔
= حضرت الحاج حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ کا ایک بیٹا جب فوت ہوا تو سعداللہ لدھیانوی نے کہا کہ ’’حضرت مرزا صاحب کی موجودگی میں تمہارے جیسے مشہور و ممتاز حواری کا بچہ نہیں مرنا چاہئے تھا …‘‘۔ اگرچہ موت و حیات کا معاملہ قبضہ قدرت باری تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے اور اس لحاظ سے سعداللہ کا اعتراض لغو اور جہالت پر مبنی تھا تاہم
اللہ تعالیٰ کی غیرت جوش میں آئی اور حضرت مسیح موعودؑ کو رؤیا میں حضرت مولوی صاحبؓ کا ایک بچہ دکھایا گیا۔ اس کشف کے عین مطابق 15؍فروری 1899ء کو میاں عبدالحئی صاحب پیدا ہوئے۔
= 1899ء میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی پیدائش کے ساتھ یہ پیشگوئی پوری ہوئی ’عبدالحق نہیں مریگا جب تک چوتھا لڑکا نہ دیکھ لے‘۔
= 1899ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے نام تقریباً پانچ ہزار خطوط آئے جبکہ قادیان آنے والے مہمانوں کی تعداد اوسطاً تیس سے پچاس تک روزانہ رہی اور سال بھر میں اٹھارہ ہزار نفوس قادیان آئے۔ جبکہ پندرہ کنبے قادیان آکر آباد ہوئے۔
اشاعتِ کتب:
1899ء میں حضرت اقدسؑ کی جو کتب شائع ہوئیں وہ یہ ہیں: حقیقۃالمہدی(21؍فروری1899ء) ، مسیح ہندوستان میں (اپریل1899ء)، تریاق القلوب ، ستارہِ قیصریہ (24؍اگست1899ء)۔
اصحابِ احمدؑ:
= اس سال جن قدوسیوں کو جماعت احمدیہ میں شمولیت کی سعادت حاصل ہوئی ان میں سے ایک حضرت شیخ حسن صاحب یادگیری حیدرآبادی بھی تھے۔ آپ قریباً 1835ء میں پیدا ہوئے۔ عربی النسل تھے اور بحیثیت تاجر دکن میں مقیم تھے۔ مالی وسائل کے فقدان کے سبب دنیاوی رسمی تعلیم سے محروم رہے لیکن نہایت محنتی انسان تھے۔ صرف دو روپے سے کاروبار شروع کیا اور اللہ تعالیٰ نے اتنی برکت دی کہ دینی و دنیوی دولت سے مالا مال ہوگئے۔ ایک وقت آیا کہ آپؓ کے کارخانہ میں چار ہزار مزدور کام کرتے تھے۔ آپؓ نے مالی قربانیوں میں بھی دل کھول کر حصہ لیا۔ اپنے علاقہ میں مسجد احمدیہ اور احمدیہ ہال تعمیر کروایا اور احمدیہ لائبریری قائم کی۔تحریک تراجم القرآن میں دل کھول کر چندہ دیا۔ آپؓ کا احمدیت سے تعارف مولوی محمد سعید صاحب آف حیدرآباد دکن کے ذریعہ ہوا تھا جو دکن میں جماعت احمدیہ کے پُرجوش مربی تھے۔
حضرت سیٹھ صاحبؓ 1899ء میں پہلی بار قادیان تشریف لائے۔ چاول آپ کی مرغوب غذا تھی اسلئے حضورؑ نے خاص خیال رکھا۔ آپؓ حضورؑ کی زندگی میں تین مرتبہ قادیان آئے۔اکثر حضرت اقدسؑ کے چہرہ پر نظر رکھتے اور وجدان میں چلے جاتے۔ قبول احمدیت کے بعد آپؓ کی زندگی میں انقلاب آگیا اور آپ کے رؤیا و کشوف حقیقت ثابتہ بن گئے۔ 1945ء میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی اور اسی دوران 17؍دسمبر 1945ء کو 110؍سال کی عمر میں آپ کی وفات مدینہ منورہ میں ہوئی۔ جنت البقیع میں حضرت عثمان غنیؓ کی قبر کے عقب میں دفن ہوئے۔
= اسی سال حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب آف پٹیالہ کو بھی قبول احمدیت کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپؓ حضرت مولوی عبدالقادر لدھیانوی صاحبؓ کے ذریعہ احمدی ہوئے جنہیں حضورؑ نے بیعت لینے کی اجازت عطا فرما رکھی تھی۔ آپؓ یکم جنوری 1887ء کو پیدا ہوئے اور 13؍اپریل 1967ء کو آپؓ کی وفات ہوئی۔ حضرت ڈاکٹر صاحبؓ 1905ء میں پہلی بار قادیان تشریف لائے اور زیارت سے فیضیاب ہوئے۔ میٹرک کے بعد میڈیکل سکول لاہور میں داخل ہوئے۔ بعدہ ریاست پٹیالہ میں ملازم ہوگئے۔ حضرت مصلح موعودؓ سے عقیدت و محبت 1919ء میں آپؓ کو قادیان کھینچ لائی اور پھر 1954ء میں ریٹائرمنٹ تک سلسلہ کی جلیل القدر خدمات بجالاتے رہے۔
= 1899ء میں ہی حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ نے بھی قبول احمدیت کی توفیق پائی۔ آپؓ کا تفصیلی ذکر 19؍فروری 1999ء کے اخبار کے اسی کالم میں کیا جاچکا ہے۔ آپؓ کے والد حضرت چودھری نظام الدین صاحب سیالؓ نے بھی اسی سال قادیان آکر حضرت مسیح موعودؑ کے دست مبارک پر بیعت کرنے کی سعادت پائی۔
ارشادات:
= اپریل 1899ء میں ایک موقعہ پر حضورؑ نے فرمایا: ’سوائے دینی معاملات کی مخالفت کے باقی معاملات میں خواہ کتنا ہی نقصان ہوتا ہو، انسان برداشت کرے اور والدین کے حکم کی نافرمانی نہ کرے‘۔
= بابو محمد افضل صاحبؓ مخلص فدائی نوجوان تھے۔ ان کی دو بیویاں تھیں۔ ایک موقعہ پر انہوں نے افریقہ سے حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کے نام اپنے خط میں ایک بیوی کو افریقہ بھجوانے کے بارے میں لکھا۔ نیز لکھا کہ جو بیوی بھی انکار کرے اُسے طلاق دےدی جائے۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے یہ خط حضور علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا تو آپؑ نے فرمایا کہ ایسے شخص کا ہمارے ساتھ تعلق نہیں رہ سکتا کیونکہ جو اتنے عزیز رشتہ کو ذرا سی بات پر قطع کر سکتا ہے ، وہ ہمارے تعلقات میں وفاداری سے کیا کام لے گا!۔

اپنا تبصرہ بھیجیں