سکھوں کے گردوارہ میں جمعہ کی نماز
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ 11 جنوری 2019ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2نومبر 2012ء میں شامل اشاعت ایک مضمون میں مکرم محمد ابراہیم بھامبڑی صاحب نے اپنی زندگی کا ایک یادگاری واقعہ بیان کیا ہے جس سے علم ہوتا ہے کہ ایک صدی قبل بھی قادیان اور اس کے نواحی علاقوں میں بلاتخصیص مذہب، باہمی احترام پر مبنی، بہت پُرامن ماحول قائم تھا۔ لوگ اچھی باتوں کو سنتے تھے اور ان کی قدر کرتے تھے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ 1924-25 ء میں مَیں اور میرا چھوٹا بھائی عبدالعزیز مرحوم اپنے گاؤں بھامبڑی کے پرائمری سکول میں پڑھا کرتے تھے جو سکھوں کے حلقہ میں تھا۔ ہماری اور سکھوں کی برادری ایک ہی تھی۔ بڑا پُرامن زمانہ تھا۔ باہمی مراسم بہت اچھے تھے۔ گاؤں کے نصف حصہ میں مسلمان بستے تھے اور دوسرے نصف میں سکھوں کی آبادی تھی۔ مسلمان اکثر اہلحدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ گاؤں میں صرف ہمارا گھر ہی احمدی تھا۔ ہمارا گاؤں قادیان سے پانچ میل کے فاصلہ پر ہے۔ ہمارے والد صاحب ہر جمعہ قادیان پڑھا کرتے تھے۔ کسی مجبوری کی وجہ سے اگر نہ جاسکتے تو ہم دونوں بھائیوں کو ساتھ لے کر گاؤں کی مسجد میں جمعہ پڑھ لیا کرتے تھے۔ گاؤں میں تین مساجد تھیں۔ اہلحدیث سارے ایک مسجد میں جمعہ ادا کرتے تھے۔ ہمارے حلقہ کی جو مسجد خالی ہوتی تھی، ہم وہاں جمعہ پڑھ لیا کرتے تھے۔
ایک دفعہ جب ہمارے والد صاحب جمعہ کے لئے قادیان نہ جاسکے اور ہمیں مدرسہ سے ساتھ لے کر گھر آرہے تھے۔ راستہ میں سکھوں کا گردوارہ پڑتا تھا۔ جب ہم گردوارہ کے پاس سے گزر رہے تھے تو وہاں پر ہماری برادری کے سکھ سردار ایک درخت کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ ہمارے والد چوہدری عبدالکریم صاحب کو دیکھ کرکہنے لگے میاں صاحب لڑکوں کو کہاں لے جارہے ہیں؟ والد صاحب نے کہا کہ آج میں جمعہ پڑھنے کے لئے قادیان نہیں جا سکا، اب ہم اپنی مسجد جا کر جمعہ کی نماز ادا کریں گے۔ سکھوں نے کہا کہ آج ہمارے گردوارہ کو رونق بخشیں اور اس میں عبادت کر لیں۔ والد صاحب نے کہا ٹھیک ہے۔ چنانچہ ہم نے ہاتھ منہ دھو کر نماز کے لئے تیاری کی۔ میرے چھوٹے بھائی عبدالعزیز نے اونچی سریلی آواز میں اذان کہی۔ سکھ دوست بھی ہماری عبادت کا طریق دیکھنے کے لئے ہمارے ساتھ بیٹھ گئے۔ ہال کے ایک کونہ میں گرنتھ بھی رکھا ہوا تھا۔
والد صاحب نے دنیا کی بے ثباتی پر پندرہ بیس منٹ پنجابی زبان میں خطبہ دیا کہ اصل زندگی موت کے بعد شروع ہوتی ہے اور اگلے جہان کی کیفیت صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ سب سے عقلمند وہ آدمی ہے جو اگلے جہان کے لئے تیاری کرتا ہے۔ یہ دنیا فانی ہے۔ اک نہ اک دن ہم سب نے خدا کے سامنے پیش ہونا ہے۔
سکھ صاحبان خوش تھے کہ ہم نے اُن کے گردوارہ میں عبادت کی ہے اور خطبہ کی بھی تعریف کی کہ بہت اچھی نصائح کی ہیں۔