سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ

حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ

سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پاکیزہ سیرت کے حوالے سے حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کی ایک تقریر (برموقع جلسہ سالانہ ربوہ 1979ء) رسالہ ’’انصارالدین‘‘ مئی وجون 2014ء میں شامل اشاعت ہے۔ تاریخی واقعات اور ذاتی مشاہدات پر مبنی اس نہایت اہم خطاب کا خلاصہ ہدیۂ قارئین ہے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ
جمّوں میں قیام کے دوران

حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ ریاست جموں و کشمیر میں شاہی طبیب تھے۔ ایک دن ریاست کے وزیراعظم نے آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کا ایک اشتہار پڑھنے کو دیا جو آپؑ نے اپنے دعویٰ ماموریت کے بعد نشان نمائی کی عالمگیر دعوت کے لیے ایشیا، امریکہ اور یورپ کے تمام مذہبی عمائد اور مفکرین کو بھجوایا تھا۔ وہ اشتہار پڑھتے ہی آپؓ عازم قایان ہوگئے۔ حضرت اقدسؑ کے رُخ مبارک پر جب آپؓ کی نظر پڑی تو آپؓ کے الفاظ ہیں: ’’مَیں نے دل میں کہا یہی مرزا ہے، اس پر میں سارا ہی قربان جاؤں‘‘۔ پھر آپؑ کے پوچھنے پر ہواخوری کے لیے آپؑ کے ساتھ چلاگیا تو آپؑ نے مجھے فرمایا کہ ’’امید ہے آپ جلد واپس آجائیں گے۔‘‘ حالانکہ مَیں ملازم تھا اور بیعت وغیرہ کا سلسلہ بھی نہیں تھا۔ چنانچہ پھر مَیں واپس آیا اور ایسا آیا کہ پھر وہیں کا ہوگیا۔
ایک عربی تحریر میں آپؓ نے بیان کیا: ’’مجھے ایسے کامل مرد کے دیکھنے کا انتہائی شوق تھا جو یگانہ روزگار ہو اور میدان میں تائید دین اور مخالفین کا منہ بند کرنے کے لیے سینہ سپر ہو کر کھڑا ہونے والا ہو اسی اثنا میں مجھے حضرت سید الاجل اور بہت ہی بڑے علامہ اس صدی کے مجدد، مہدی زمان، مسیح دوران، مؤلف براہین احمدیہ کی طرف سے خوشخبری ملی۔ میں ان کے پاس پہنچا۔ تا حقیقت حال کا مشاہدہ کروں۔ میں نے فوراً بھانپ لیا۔ یہی موعود حکم و عدل ہے اور یہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تجدید دین کے لیے مقرر فرمایا۔ میں نے فوراً اللہ تعالیٰ کے حضور لبیک کہا اور اس عظیم الشان احسان پر اس کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدے میں گر گیا اے ارحم الراحمین خدا !تیری حمد اور تیرا شکر اور تیرا احسان ہے کہ میں نے مہدیٔ زمان کی محبت کو اختیار کرلیا اور آپ کی بیعت صدق دل سے کی۔ یہاں تک کہ مجھے آپ کی مہربانی اور لطف و کرم نے ڈھانپ لیا اور میں دل کی گہرائیوں سے ان سے محبت کرنے لگا۔ میں نے انہیں اپنی جائیداد اور اپنے سارے اموال پر ترجیح دی۔ بلکہ اپنی جان اپنے اہل و عیال اور والدین اور دوسرے سب عزیز و اقارب پر انہیں مقدم جانا۔ ان کے علم و عرفان نے میرے دل کو والا و شیدا بنالیا۔ اس خدا کا شکر ہے جس نے میرے لیے ان کی ملاقات مقدر فرمائی اور میری یہ خوش بختی ہے کہ میں نے انہیں باقی تمام لوگوں پر ترجیح دی اور میں ان کی خدمت کے لیے اُس جاں نثار کی طرح کمربستہ ہوگیا۔ جو کسی میدان میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا۔ پس اسی اللہ کا شکر ہے جس نے مجھ پر احسان فرمایا اور وہ بہتر احسان کرنے والا ہے۔‘‘

یہ تو تھی کیفیت جاں نثار محبّ کی۔ اورکیفیت اس محبوب کی یہ تھی کہ حضورؑ فرماتے ہیں: ’’جب سے میں اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے مامور کیا گیا ہوں اور حیی و قیوم کی طرف سے زندہ کیا گیا ہوں۔ دین کے چیدہ مددگاروں کی طرف شوق کرتا رہا ہوں اور وہ شوق اس شوق سے بڑھ کر ہے جو ایک پیاسے کو پانی کی طرف ہوتا ہے اور میں رات دن خداتعالیٰ کے حضور چلّاتا تھا اور کہتا تھا کہ اے میرے ربّ! میرا کون ناصر و مددگار ہوگا۔ میں تنہا اور ذلیل ہوں۔ پس جب دعا کا ہاتھ پے درپے اٹھا اور آسمان کی فضا میری دعا سے بھرگئی اور اللہ تعالیٰ نے میری عاجزی اور دعا کو قبول کیا اور رب العالمین کی رحمت نے جوش مارا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک مخلص صدیق عطا فرمایا جو میرے مددگاروں کی آنکھ ہے اور میرے ان مخلص دوستوں کا خلاصہ ہے جو دین کے بارے میں میرے دوست ہیں۔ اس کا نام اس کی نورانی صفات کی طرح نورالدین ہے۔ وہ جائے ولادت کے لحاظ سے بھیروی اور نسل کے لحاظ سے قریشی ہے جوکہ اسلام کے سرداروں میں سے اور شریف والدین کی اولاد میں سے ہے۔ پس مجھ کو اس کے ملنے سے ایسی خوشی ہوئی کہ گویا کوئی ضائع شدہ عضو مل گیا۔ … جب وہ میرے پاس آیا اور مجھ سے ملا اور میری نظر اس پر پڑی تو میں نے دیکھا کہ وہ میرے ربّ کی آیات میں سے ایک آیت ہے اور مجھے یقین ہوگیا کہ وہ میری اسی دعا کا نتیجہ ہے جس پر میں مداومت کرتا تھا اور میری فراست نے مجھے بتادیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے منتخب بندوں میں سے ہے۔‘‘
پھر فرمایا: ’’وہ ہر ایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتا ہے جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ اس کے لبوں پر حکمت بہتی ہے اور آسمان کے نور اس پر نازل ہوتے ہیں۔ … سب حمد اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جس نے مجھ کو یہ دوست ایسے وقت میں بخشا کہ اس کی سخت ضرورت تھی۔ سو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اس کی عمر، صحت اور ثروت میں برکت دے۔ خداتعالیٰ کی قسم میں اس کے کلام میں ایک نئی شان دیکھتا ہوں اور قرآن شریف کے اسرار کھولنے میں اس کے کلام اور مفہوم کے سمجھنے میں اس کو صادقین میں سے پاتا ہوں۔…‘‘


پھر فرمایا: ’’میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایسے اعلیٰ درجے کا صدیق دیا ہے جو راست باز اور جلیل القدر فاضل ہے اور باریک بین اور نکتہ رس۔ اللہ تعالیٰ کے لیے مجاہدہ کرنے والا اور کمال اخلاص سے اس کے لیے ایسی اعلیٰ درجے کی محبت رکھنے والا ہے کہ کوئی محبّ اس سے سبقت نہیں لے گیا۔‘‘ ؎

چہ خوش بودے اگر ہر یک ز امت نور دیں بودے
ہمیں بودے اگر ہر دل پُراز نورِ یقیں بودے

فرمایا:’’ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم مولوی صاحب کو کہیں، آگ میں کود جاؤ یا پانی میں پھلانگ پڑو انہیں عذر نہ ہو۔‘‘
ایک بار کچھ مستورات کے درمیان تکرار ہوگئی کہ حضرت مسیح موعودؑکو کون زیادہ عزیز ہے۔ حضرت اماں جانؓ نے فرمایا کہ یہ فیصلہ تو بالکل آسان ہے۔ پھر آپؓ نے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ کے سب سے پیارے رفیق!۔ ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ حضورؑ نے پریشانی میں دریافت فرمایا: کیا ہوا مولوی نورالدین صاحب کو؟
1907ء کا واقعہ ہے کہ آپؓ شدید بیمار ہوگئے۔ حضرت مسیح موعودؑ متواتر دعا بھی کررہے تھے اور ہر روز عیادت کے لیے بھی تشریف لے جاتے۔ ایک روز عیادت سے واپسی پر آپؓ کے لیے خود نسخہ تیار کررہے تھے کہ حضرت اماں جانؓ نے حضورؑ کی پریشانی کو دیکھ کر بغرض تسکین دہی کہا: ’’مولوی عبدالکریم صاحب فوت ہوگئے۔ مولوی برہان الدین صاحب فوت ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مولوی صاحب کو جلد تندرستی عطا فرمائے‘‘۔ جس پر حضورؑ نے فرمایا: ’’یہ شخص ہزار عبدالکریم کے برابر ہے۔‘‘
ایک دفعہ حضورؑ نے مجلس میں فرمایا کہ تم میں سے بعض ایسے ہیں کہ بےشمار نشان دیکھنے کے بعد بھی ان کا ایمان ابھی پختہ نہیں۔ لیکن ایسے بھی ہیں جنہوں نے کسی نشان کی ضرورت نہیں سمجھی۔ مولوی نورالدین صاحب ہیں کہ انہوں نے سنتے ہی اٰمنّا کہا اور فاروقی ہوتے ہوئے صدیقی عمل کیا۔ اس پر مولوی صاحب فرط جوش میں کھڑے ہوئے اور عرض کی کہ حضرت عمرؓ نے اپنے ایمان کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا کہ رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ نَّبِیًّا۔ خاکسار کو آپ کے دعویٰ کے متعلق کبھی شک نہیں ہوا اور خاکسار یہ کہتا ہے کہ رَضِیْنَا بِاللّٰہِ رَبًّا وَ بِکَ مَسِیْحًا وَّ مَھْدِیًّا۔
آپؓ اعلیٰ درجہ کے حاذق طبیب تھے۔ کئی دفعہ کسی متموّل یا بلند مرتبہ مریض کے لیے آپؓ سے قادیان سے باہر جانے کی درخواست کی گئی تو آپؓ کا یہی جواب ہوتا کہ میر اایک آقا ہے بدوں اُس کے اذن کے مَیں حرکت نہیں کرسکتا۔
اپنی ضروریات کے لیے آپؓ کا کامل توکل اللہ تعالیٰ کی ذات پر تھا اور وہی ارحم الراحمین خیرالرازقین ہر حالت میں آپ کا والی اور کفیل تھا۔ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا … کی بیشمار حیران کن مثالوں کا مشاہدہ آپ کی زندگی کے ہر ایک مرحلے پر ہوتا ہے۔


آپؓ کے بلند اخلاق اور عالی حوصلگی کی مثال یہ بھی ہے کہ جب ہنری مارٹن کلارک نے حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف اقدام قتل کا استغاثہ کیا جس کی سماعت کیپٹن ڈگلس کے روبرو ہوئی تو حضورؑ کو عدالت میں کرسی دی گئی اورحضورؑ کے خلاف گواہی دینے والے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی کرسی دیے جانے کی درخواست ردّ کردی گئی۔ وہ جب کمرۂ عدالت سے باہر نکلے تو ایک خالی کرسی دیکھ کر بیٹھنا چاہا لیکن سپاہی نے انہیں روک دیا۔ انہوں نے ایک دری پر بیٹھنا چاہا تو دری کے مالک نے دری کھینچ لی کہ مسلمانوں کا سرغنہ ہو کر جھوٹ بولتا ہے۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے یہ کیفیت دیکھی تو مولوی محمد حسین صاحب سے کہا کہ مولوی صاحب آئیں ہمارے پاس بیٹھ جائیں۔
حضرت مسیح موعودؑ کا وصال 26؍مئی 1908ء کی صبح لاہور میں ہوا۔ جسد اطہر دوسرے دن صبح آٹھ بجے قادیان پہنچا اور باغ والے مکان میں رکھا گیا۔ جماعت کے اہل رائے احباب حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کے مکان پر جمع ہوئے اور حضرت اماں جانؓ اور صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحبؓ اور حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ سے مشورہ کرنے کے بعد اتفاق رائے سے یہ تحریر تیار کی کہ ’’… امّا بعد مطابق فرمان حضرت مسیح موعود مندرجہ رسالہ الوصیت ہمہ احمدیان جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں۔ اس امر پر صدق دل سے متفق ہیں کہ اوّل المہاجرین حضرت حاجی مولوی حکیم نورالدین صاحب جو ہم سب میںسے اعلم اور اتقیٰ ہیں اور حضرت امام کے سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی دوست ہیں اور جن کے وجود کو حضرت امام اسوۂ حسنہ قرار فرما چکے ہیں۔ جیسا کہ آپؑ کے شعر ؎

چہ خوش بودے اگر ہر یک ز امت نور دیں بودے
ہمیں بودے اگر ہر دل پُراز نور یقیں بودے

سے ظاہر ہے، کہ آپ کے ہاتھ پر احمد کے نام پر تمام احمدی جماعت موجودہ اور آئندہ نئے ممبر بیعت کریں اور حضرت مولوی صاحب موصوف کا فرمان ہمارے لیے ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود کا تھا۔‘‘
اس تحریر کے نیچے بہت سے احباب نے دستخط کیے جن میں شیخ رحمت اللہ صاحب۔ سید محمد احسن صاحب۔ ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب۔ مولوی محمد علی صاحب۔ خواجہ کمال الدین صاحب۔ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب۔ مولوی غلام حسن خان صاحب اور ڈاکٹر بشارت احمد صاحب شامل تھے۔

پھر یہ سب احباب حضرت مولوی نورالدین صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا منشاء گزارش کیا۔ آپؓ نے کچھ سوچ کے بعد فرمایا۔ مَیں دعا کے بعد جواب دوں گا۔ پھر حضورؓ نے دو نفل ادا کیے اور دعاؤں سے فارغ ہو کر فرمایا: چلو ہم وہیں چلیں جہاں ہمارے آقا کا جسد اطہر اور ہمارے بھائی انتظار میں ہیں۔ چنانچہ یہ مجلس برخاست ہو کر باغ پہنچی جہاں حضرت مولوی مفتی محمد صادق صاحبؓ نے مندرجہ بالا تحریر حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں بطور درخواست پڑھ کر سنائی۔ اس کے جواب میں آپؓ نے تشہد و تعوذ کے بعد آیت وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ … تلاوت فرمائی اور ایک درد انگیز تقریر کے دوران فرمایا کہ میری پچھلی زندگی پر غور کرلو مَیں کبھی امام بننے کا خواہش مند نہیں ہوا۔ میں … اپنی حالت سے خوب واقف ہوں اور میرا رب مجھ سے بھی زیادہ واقف ہے۔ میں دنیا میں ظاہر داری کا خواہشمند نہیں۔ مگر خواہش ہے تو یہ کہ میرا مولیٰ مجھ سے راضی ہو جائے۔ اس خواہش کے لیے میں دعائیں کرتا ہوں اور قادیان بھی اسی لیے رہا اور رہتا ہوں اور رہوں گا۔ میں نے اسی فکر میں کئی دن گزارے کہ ہماری حالت حضرت صاحب کے بعد کیا ہوگی۔ اسی لیے میں کوشش کرتا رہا کہ میاں محمود کی تعلیم اس درجہ تک پہنچ جائے۔ حضرت صاحب کے اقارب میں تین آدمی موجود ہیں۔ اوّل میاں محمود احمد وہ میرا بھائی ہے اور بیٹا بھی۔ اس کے ساتھ میرے خاص تعلقات ہیں۔ قرابت کے لحاظ سے میر ناصر نواب صاحب ہمارے حضرت کے ادب کا مقام ہیں۔ تیسرے قریبی نواب محمد علی خان صاحب ہیں۔ اسی طرح خدمت گزاران دین میں سے سید محمد احسن صاحب اعلیٰ درجہ کی لیاقت رکھتے ہیں۔ آپ نے ضعیف العمری میں بہت سی تصانیف حضرت کی تائید میں لکھیں۔ بعد اس کے مولوی محمد علی صاحب ہیں جو ایسی خدمات کرتے ہیں جو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتیں۔ سب لوگ موجود ہیں۔ باہر کے لوگوں میں سے سید حامد شاہ اور مولوی غلام حسن ہیں، اَور بھی ہیں۔
یہ ایک بڑا اور خطرناک بوجھ ہے۔ اس کا اٹھانا مامور کا کام ہوسکتا ہے کیونکہ اُس سے خدا کے عجب در عجیب وعدے ہوتے ہیں جو ایسے دکھوں کے لیے جو پیٹھ توڑ دیں عصا بن جاتے ہیں۔ پس مَیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جن عمائد کا نام لیا ہے ان میں سے کوئی منتخب کرلو مَیں تمہارے ساتھ بیعت کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اگر تم میری ہی بیعت کرنا چاہتے ہو تو سن لو بیعت بِک جانے کا نام ہے۔ ایک شخص دوسرے کے لیے اپنی تمام حریت اور بلند پروازیوں کو چھوڑ دیتا ہے۔ اب تمہاری طبیعتوں کے رخ خواہ کسی طرف ہوں تمہیں میرے احکام کی تعمیل کرنی ہوگی۔ اگر تمہیں یہ بات منظور ہو تو مَیں طوعاً و کرہاً اس بوجھ کو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اٹھاتا ہوں جس نے فرمایا کہ وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ … یاد رکھو ساری خوبیاں وحدت میں ہیں۔

اس تقریر کو سن کر قریباً بارہ صد حاضرین نے یک زبان ہو کر کہا کہ آپ ہماری بیعت لیں ہم آپ کے احکام مانیں گے آپ ہمارے امیر ہیں اور ہمارے مسیح کے جانشین۔ اس کے بعد تمام حاضرین نے آپ کو خلیفۃالمسیح الاول تسلیم کرکے آپ کی بیعت کی۔ بیعت کے بعد آپؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ جس کے بعد نماز عصر ادا کی گئی اور نماز کے بعد حضرت اقدسؑ کے نورانی چہرہ کی آخری زیارت کی گئی اور شام کے قریب جسد اطہر کو بہشتی مقبرہ میں دفن کیا گیا۔ خواجہ کمال الدین صاحب نے بحیثیت سیکرٹری صدرانجمن یہ اعلان شائع کیا کہ حضورؑ کا جنازہ پڑھانے سے پہلے آپؑ کے وصایا مندرجہ رسالہ الوصیت کے مطابق حسب مشورہ معتمدین صدرانجمن احمدیہ موجودہ قادیان و اقربا حضرت مسیح موعودؑ و باجازت حضرت اماں جان کُل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی حضرت حاجی الحرمین شریفین حضرت حکیم نورالدین صاحب سلمہٗ کو آپؑ کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ یہ خط بطور اطلاع کُل ممبران کو لکھا جاتا ہے کہ وہ فی الفور حضرت حکیم الامت مولوی نورالدین صاحب کی خدمت میں بذات خود یا تحریری بیعت کریں۔
حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے وصال سے ڈیڑھ ماہ پیشتر فرمایا تھا: صوفیاء نے لکھا ہے جو شخص کسی شاہد یا نبی اور رسول کے بعد خلیفہ ہونے والا ہوتا ہے سب سے پہلے حق اس کے دل میں ڈالا جاتا ہے۔ یہ صریح اشارہ تھا کہ حضورؑ کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ آپ کے خلیفہ ہوں گے۔

خواجہ کمال الدین صاحب
مولوی محمد علی صاحب

بیعت کرتے ہی بعض احباب کے دل میں شبہات پیدا ہونے شروع ہوگئے۔ مولوی محمدعلی صاحب کو تو بیعت میں بھی تأمل تھا۔ وہ خود لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد خواجہ کمال الدین صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ یہ تجویز ہوئی ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے جانشین حضرت مولوی نورالدین ہوں اور سب احمدی ان کے ہاتھ پر بیعت کریں۔ لیکن مَیں اب بھی اس پر قائم ہوں کہ جو لوگ نئے سلسلہ میں داخل ہوں گے انہیں بیعت کی ضرورت ہے اور حضرت مسیح موعودؑ کی جن لوگوں نے بیعت کی ہے اُنہیں آپ کی وفات کے بعد کسی دوسرے شخص کی بیعت کی ضرورت نہیں اور نہ بیعت لازمی ہے۔ لیکن بایں ہمہ میں نے بیعت کر بھی لی کیونکہ اس میں جماعت کا اتحاد تھا۔
مولوی محمدعلی صاحب نے بیعت کے بعد یہ اعلان لکھا: ’’مرید اپنے تئیں اپنے مرشد کے سامنے ایک بےجان کی طرح ڈال دیں اور اپنی جملہ خواہشات کو اس کے سپرد کردیں نہ یہ کہ مرشد کہتا ہے کہ ایک بات درست ہے تو مرید کہتا ہے کہ مرشد نے سمجھائی نہیں، مَیں اس سے بہتر سمجھتا ہوں۔ بیعت کرلینے کے بعد یہ حضرت خلیفۃالمسیح کی گستاخی ہے اور بیعت کے مفہوم کے ساتھ ہنسی ہے۔‘‘
غیرمبائعین کا امیر بننے کے بعد مولوی محمدعلی صاحب نے امیر کے اختیارات اور حیثیت کی عین وہی تعریف کی جو خلیفہ پر صادق آتی ہے۔ گویا انہیں وہ حیثیت حاصل ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے اپنے مختصر زمانۂ خلافت میں کئی کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ واعظین سلسلہ اور علمائے دین کی ایک جماعت تیار کی۔ دینی تعلیم کا نظام قائم کیا۔ قرآن کریم کے علوم و حقائق کا سلسلہ صحت اور بیماری میں جاری رکھا۔ یتامیٰ اور مساکین کی متواتر خبرگیری فرمائی۔ طلبہ کی ہرلحظہ ہمت افزائی کی۔ کسب خیر کی تمام راہوں پر گامزن رہنے کا عملی نمونہ پیش کرتے چلے گئے۔ لیکن آپؓ کا سب سے ممتاز کارنامہ استحکامِ خلافت تھا۔ اس مقصد کے حصول میں آپؓ نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ آپؓ نے ان حقائق میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہنے دی کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور وہ واجب الاطاعت امیر ہوتا ہے۔ سلسلے کے تمام ادارے خلیفہ کے تابع ہیں اور خلیفہ ان کا مطاع ہے۔
آج خلیفہ سے متعلقہ اختلافی مسائل پر کسی بحث مباحثے کی ضرورت باقی نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت نے سب مسائل حل کردیے ہیں۔ غیرمبائعین جنہوں نے اپنے زعم کے مطابق حضرت مسیح موعودؑ کو ان کے صحیح اور اصل مقام پر رکھا اورجن کا ابتدائی دعویٰ تھا کہ جماعت کی اکثریت ان کی تائید میں ہے، گرتے گرتے مٹھی بھر رہ گئے۔ جبکہ جماعت احمدیہ بفضل اللہ تعالیٰ ہر نوع کی شدید مخالفت کے اور طرح طرح کی ایذا دہی کے باوجود پیہم شاہراہ ترقی پر گامزن رہی۔ اگر حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ اختلافی مسائل کی بار بار وضاحت نہ فرماچکے ہوتے اور جماعت کو محکم بنیادوں پر قائم نہ کرچکے ہوتے تو جماعت کا شیرازہ کبھی کا بکھر چکا ہوتا۔

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ

شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے لکھا تھا کہ قادیان میں باہر سے جب کوئی شخص آتا ہے تو حضرت خلیفۃ المسیح کو اس کی آنکھیں تلاش کرتی ہیں تو وہ اُن کے دربار میں پہنچ کر سخت حیران ہوتا ہے جب دیکھتا ہے کہ معمولی چٹائیوں کے فرش پر بہت سے لوگ نہایت بےتکلفی اور سادگی سے بیٹھے ہوئے ہیں اور ان میں بظاہر کسی قسم کا امتیاز نظر نہیں آتا۔ وہ اتنا تو دیکھتا ہے کہ ایک وجیہ پُرنور پُرہیبت بوڑھا ان میں موجود ہے۔ مگر اُس کا لباس، نشست و برخاست، اس کا انداز گفتگو ایسا نہیں کہ جس سے سمجھ سکے کہ یہ نورانی وجود مسندِ خلافت پر متمکن ہے۔ وہ نہایت سادگی اور بے تکلفی کے ساتھ مریدوں کے ہجوم کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ مریضوں کے مرضوں کی تشخیص کرتا ہے اور ان کا علاج کرتا ہے۔ کئی قسم کے مذہبی سوالوں کے جواب بھی دیتا ہے۔ ہمارا خلیفہ اور امام نہایت سادہ مزاج اور نہایت بے تکلف امام ہے۔ وہ ادنیٰ اور اعلیٰ کے ساتھ اس طور پر کلام کرتا ہے کہ ہر شخص یقین کرتا ہے کہ جو محبت اور بےتکلّفی اسے اس کے ساتھ ہے شاید کسی اَور کے ساتھ نہ ہو۔ مگر وہ سب کے ساتھ وہی ہمدردی اور محبت رکھتا ہے۔ اسے عام لوگوں میں سے جو چیز ممتاز کرتی ہے۔ وہ اس کا پُرشوکت اور نورانی چہرہ اور اس کی عام ہمدردی اور خدمت دین ہے جس میں وہ تمام وقت مصروف رہتا ہے۔
18؍نومبر1910ء جمعہ کی نماز کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح گھوڑے سے گرگئے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ایک کشف میں دیکھا تھا کہ مولوی نورالدین صاحب گھوڑے سے گرگئے ہیں۔ آپؓ کو بہت سی ضربات آئیں اور دائیں کنپٹی پر گہرا زخم پہنچا جو بعد میں ناسور کی شکل اختیار کرگیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحم سے ایسی حالت میں جان بخشی فرمائی کہ حضرت مسیح موعودؑ کے دو الہام پورے ہوئے:’’دوبارہ زندگی‘‘ اور ’’منسوخ شدہ زندگی‘‘۔ ایک لمبے عرصے تک آپ اپنی نشست کے کمرے سے باہر تشریف نہ لے جاسکے پھر بھی تعلیم و تدریس اور تشخیص و علاجِ امراض اور دیگر فرائض کی ادائیگی کا سلسلہ جاری رہا اور آپ کے چشمۂ فیض کی روانی میں کمی نہ آئی۔ استحکام خلافت کے سلسلے میں بعض معرکہ آراء تقاریر اس حادثہ کے بعد کے زمانے کی ہیں۔
کچھ تذکرہ ان نوازشات اور احسانات کا کرتا ہوں جو آپؓ کی طرف سے اس عاجز پر بطور مرحمت خسروانہ ہوئے۔ اس عاجز کو حضرت مسیح موعودؑ کی پہلی زیارت کا شرف 3؍ستمبر 1904ء کو لاہور میں حاصل ہوا۔ میری عمر اس وقت ساڑھے گیارہ سال تھی۔ اجلاس میں حضورؑ کا ایک مضمون پڑھا جارہا تھا لیکن اس دوران تمام وقت یہ عاجز حضور اقدسؑ کے مبارک چہرے پر ٹکٹکی باندھے رہا اور حضورؑ کی صداقت ہرلحظہ میرے دل میں محکم سے محکم تر ہوتی گئی۔ اس کے قریب 8 ہفتے بعد 27؍اکتوبر کی شام کو حضور علیہ السلام سیالکوٹ تشریف لائے۔ دوسرے روز میری والدہ خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئیں اور بیعت سے مشرف ہوئیں۔ خاکسار بھی اُن کے ہمراہ تھا۔ میرے والد صاحب اس وقت تک حضورؑ کی صداقت کے قائل ہوچکے تھے لیکن ابھی بیعت نہیں کرپائے تھے۔ ان کے دوست چودھری محمدامین صاحب بھی سلسلہ کے متعلق حسن ظن رکھتے تھے لیکن بیعت کرنے میں انہیں کچھ تردد تھا۔ حضور علیہ السلام کے ساتھ جو اصحاب تشریف لائے تھے اُن میں حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ بھی شامل تھے۔ میرے والد اور چودھری محمد امین صاحب کے اطمینان کے لیے حضرت مولوی صاحبؓ کے ساتھ مغرب کے بعد دونوں کی ملاقات کا سلسلہ تین چار دن جاری رہا۔ خاکسار بھی اس مجلس میں حاضر ہوتا رہا جس کا ایک عظیم فائدہ یہ ہوا کہ حضرت مولوی صاحبؓ خاکسار کو پہچاننے لگ گئے۔ والد صاحب نے ان ملاقاتوں کے سلسلے کے اختتام پر دوسری صبح ہی نماز فجر کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کے دست مبارک پر بیعت کرلی۔ لیکن چودھری صاحب اس سعادت سے محروم رہے۔
بیعت کرنے کے بعد والد صاحب کا دستور تھا کہ دسمبر کے آخر اور ماہ ستمبر کے آغاز کی عدالتی تعطیلات کے دوران قادیان حاضر ہوتے اور خاکسار کو بھی ساتھ لے جاتے۔ ان ایام میں حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کی مجلس میں حاضری کا شرف حاصل ہوتا۔ آپؓ کا ایک عظیم الشان احسان اس ذرّۂ ناچیز پر یہ ہوا کہ جولائی 1907ء میں والد صاحب کو آپؓ کا ارشاد پہنچا کہ آپ اپنے بچے کی بیعت کرادیں۔ اگرچہ یہ خاکسار 3؍ستمبر 1904ء سے ہی اپنے تئیں جماعت میں شمار کرتا تھا اور اپنے والدین کی بیعت میں خود کو شامل سمجھتا تھا لیکن حضرت مولوی صاحبؓ کے اس ارشاد کے بعد 16؍ستمبر 1907ء کو بدوں اپنے والد صاحب کی تحریک کے خاکسار نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت اقدس میں بیعت کی اجازت کی درخواست کی اور حضورؑ کے اذن سے دست مبارک پر شرفِ بیعت سے مشرف ہوا۔ اگر حضرت مولوی صاحبؓ یہ ارشاد نہ فرماتے تو یہ عاجز اس سعادت عظمیٰ سے محروم رہتا۔
حضرت مسیح موعودؑ کے وصال کے وقت خاکسار گورنمنٹ کالج لاہور میں زیرتعلیم تھا۔ خاکسار حضوؑر کے جسد اطہر کے جلو میں قادیان حاضر ہوا اور حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی بیعت سے مشرف ہوا۔ اس کے بعد قادیان میں حاضری کے مواقع میسر آنے پر زیادہ تر وقت حضورؓ کی مجلس میں گزارتا اور حضور کی طرف سے پیہم شفقت کا مورد ہوتا۔

قادیان دارالامان

اپریل 1911ء میں بی اے کے امتحان سے فارغ ہوکر خاکسار نے چند دن سیالکوٹ میں والدین کی خدمت میں گزارے اور پھر قادیان حاضر ہوگیا۔ جہاں چند ہفتے حضرت خلیفۃالمسیح ؓکی مجلس میں حاضر رہنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ابھی آپ نشست کے کمرے ہی میں دن بسر فرماتے تھے۔ کنپٹی کے ناسور پر روز پٹی ہوتی تھی۔ پٹی کے بعد شاگردوں میں سے کوئی کچھ دیر کے لیے آپ کا بدن دباتے تھے۔ خاکسار کی حاضری کے پہلے دن جب ظہر کی نماز پر آپ نے حاضرین کو یہ ارشاد فرمایا کہ جاؤ نماز ادا کرو تو خاکسار بھی تعمیلِ ارشاد کے لیے کھڑا ہو گیا۔ جس پر آپؓ نے فرمایا میاں تم یہیں ہمارے ساتھ نماز پڑھا کرو۔ نماز کے لیے آپ پلنگ کے ساتھ قبلہ رو ہوکر بیٹھ جاتے۔ خاکسار آپؓ کے دائیں جانب ذرا وقفہ چھوڑ کر کھڑا ہو جاتا۔ آپؓ کمال شفقت سے خاکسار کو دائیں جانب سے اپنے قریب کرلیتے۔ تین چار شاگرد بھی خاکسار کی دائیں جانب کھڑے ہوجاتے۔ شیخ تیمور صاحب نماز پڑھاتے۔ ایک دن عصر کی نماز کے وقت اتفاقاً شیخ تیمور صاحب موجود نہیں تھے۔ آپ نے خاکسار کو فرمایا میاں تم نے قرآن پڑھا ہے، تم نماز پڑھاؤ۔ تعمیل ارشاد کے بغیر چارہ نہ تھا۔
ایک دن ڈاکٹر صاحبان پٹی کرکے رخصت ہوگئے۔ کوئی شاگرد موجود نہیں تھا۔ خاکسار اکیلا ہی حاضر تھا۔ خاکسار کو بدن دبانے کی مشق نہیں تھی لیکن جرأت کرکے خاکسار پلنگ پر آپؓ کی پیٹھ کی طرف بیٹھ گیا اور ڈرتے ڈرتے اناڑی ہاتھوں سے آپؓ کے دائیں بازو کو دبانا شروع کیا۔ چند لمحوں کے بعد جب خاکسار نے اندازہ کیا کہ اب سو گئے ہوں گے تو خاکسار نے دبانا بند کردیا۔ آپؓ نے دایاں بازو اٹھا کر خاکسار کی گردن کے گرد ڈال کر خاکسار کے چہرے کو اپنے مبارک چہرے کے قریب کرلیا اور فرمایا میاں! ہم نے آپ کے لیے بہت بہت دعائیں کی ہیں۔
عصر کے بعد آپ نشست کے کمرے سے باہر صحن میں تشریف فرما ہوتے۔ وہاں بھی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہتا۔ ایک دن خاکسار سے فرمایا: میاں! یہ کھیل کود کا وقت ہے تمہارا دل باہر جا کر کھیلنے کو نہیں چاہتا؟ خاکسار نے عرض کیا: حضور! مَیں جہاں ہوں وہیں خوش ہوں۔
خاکسار کو والد صاحب کا خط ملا کہ اب تمہارا نتیجہ نکلنے والا ہے۔ تم امید رکھتے ہو کہ تم بفضل اللہ پاس ہو جاؤگے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے تم انگلستان جاؤ۔ اس لیے حضرت خلیفۃالمسیح کی خدمت میں اجازت کے لیے عرض کرو۔ خاکسار نے ایک عریضے میں چند معروضات درج کرکے حضور کی خدمت میں عریضہ پیش کردیا۔ آپ بہت مختصر گو اور مختصر نویس تھے۔ عریضہ کے ایک حاشیہ پر گزارش کے متعلق اپنا ارشاد درج فرما کر واپس کردیا۔ انگلستان جانے کے متعلق تحریر فرمایا: استخارہ کریں۔ آپ بھی اور آپ کے والد صاحب بھی، اطمینان ہو تو جائیے۔
چند دن بعد شیخ مبارک اسمٰعیل صاحب کا کارڈ لاہور سے لکھا ہوا مجھے ملا کہ تم اول درجہ میں پاس ہوگئے ہو۔ خاکسار نے کارڈ حضورؓ کی خدمت میں پیش کردیا۔ بہت خوش ہوئے۔ ہر آنے والے سے فرماتے کہ ہم آج بہت خوش ہیں، یہ پاس ہوگئے، تعجب ہے کہ انہیں پہلے سے ہی معلوم تھا۔
چند دن بعد خاکسار انگلستان کے سفر کی تیاری کے لیے سیالکوٹ چلا گیا اور پھر والد صاحب اور ماموں کے ساتھ حضورؓ کی خدمت اقدس میں رخصت کے لیے حاضر ہوا۔ آپؓ نے بڑی شفقت سے چند دعائیں اور ہدایات فرمائیں اور فرمایا: ہمیں خط لکھتے رہنا۔
خاکسار کے انگلستان سے ارسال کردہ ہر عریضہ کا جواب دست مبارک سے تحریر فرماتے اور چھوٹی سے چھوٹی بات میں دلچسپی کا اظہار فرماتے، مشورہ دیتے اور مشفقانہ دعائیں اور القاب ظفراللہ باشی ارشد و ارجمند باشی سے نوازتے۔ خاکسار کی انگلستان سے واپسی آپؓ کے وصال کے چند ماہ بعد ہوئی۔
صاحبزادہ عبدالحیٔ صاحب نے بتایا کہ تمہارا خط ملنے کے بعد جمعہ کی تیاری کے دوران فرماتے: اس کا خط دے دو۔ ہم جیب میں رکھیں گے اور اس کے لیے دعائیں کریں گے۔
شروع 1914ء میں آپؓ کی صحت کمزور ہونا شروع ہوئی اور کمزوری بتدریج بڑھتی چلی گئی۔ وسط فروری میں سِل کی صورت پیدا ہوگئی۔ 14؍فروری کو لاہور سے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ کو بلوایا گیا۔ انہوں نے دیر تک معائنہ کرنے کے بعد آپ کے ڈاکٹروں کی رائے کے ساتھ اتفاق کیا اور وہی نسخہ تجویز کیا جو زیر استعمال تھا اور مقوّی غذا بتائی۔ جب وہ چلے گئے تو آپؓ نے فرمایا: اس ڈاکٹر نے میرے پر یونہی وقت صرف کیا۔ ورنہ مجھے جو مرض ہے اس کی تشخیص تو اتنی آسان ہے۔ مَیں جب مطب میں بیٹھتا ہوں اور کوئی شخص باہر سے آتا ہے اور مجھے کہتا ہے مولوی صاحب سلام تو مجھے آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ مَیں اس کی آواز سے ہی پہچان جاتا ہوں کہ اسے یہ مرض ہے۔
26؍فروری کو ڈاکٹر صاحبان کی رائے کے موافق آپؓ کو نواب محمد علی خاں صاحب کی کوٹھی دارالسلام میں منتقل کر دیا گیا۔ 7؍مارچ کو آپؓ نے یہ وصیت لکھی: خاکسار بقائمی حواس لکھتا ہے ۔ لٓا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہ مُحمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ ۔ میرے بچے چھوٹے ہیں۔ ہمارے گھر میں مال نہیں۔ ان کا اللہ حافظ ہے۔ ان کی پرورش یتامیٰ مساکین فنڈ سے نہیں۔ کچھ قرضہ حسنہ جمع کیا جاوے۔ لائق لڑکے ادا کریں یا کتب جائیداد وقف علی الاولاد ہو۔ میرا جانشین متقی ہو۔ ہردلعزیز عالم باعمل۔ حضرت صاحب کے پرانے اور نئے احباب سے سلوک چشم پوشی درگزر کو کام میں لاوے۔ میں سب کا خیر خواہ تھا وہ بھی خیر خواہ رہے۔ قرآن و حدیث کا درس جاری رہے۔ والسلام نورالدین
پھر مولوی محمد علی صاحب کو ارشاد فرمایا: اسے پڑھ کر لوگوں کو سنا دیں۔ پھر دوبارہ اور سہ بارہ پڑھوائی۔ پھر پوچھا کہ کوئی چیز رہ تو نہیں گئی؟ عرض کیا گیا کہ یہ بالکل ٹھیک ہے۔

اس کے 9؍دن بعد بروز جمعہ سوا دو بجے بعد دوپہر نماز جمعہ سے فارغ ہوتے ہی اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوگئے اور حضرت مسیح موعودؑ کے پہلو میں دفن ہوئے۔ ملک کے اخبارات اور جرائد نے آپؓ کی وفات پر یک زبان ہو کر خراج تحسین پیش کیا۔ مثلاً مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے اخبار میں لکھا:
’’مجھے افسوس ہے کہ میں تحریک احمدیہ کے کاروانِ سالار و حقائقِ معنوی کے نباض حکیم نورالدین کی قلمی تعزیت میں سب سے پیچھے ہوں۔ ایک ایسی شخصیت جو وسعت علمی کے ساتھ زہد و تورع کے عملی مظاہر کا گنجینہ تھی۔ …معارف دینیہ اور دقائق طیبہ کے ساتھ ایک پُروسعت مطالعہ کے امتزاج نے جو صحف آسمانی سے لے کر عام افسانوں پر محیط تھا۔ نورالدین کو ایک ایسی اوج نظر پر فائز کردیا تھا جہاں نوع انسانی کے جذبات کے طلسم کا بھید سرآشکار ہو جاتا ہے۔ یہی باعث تھا کہ اس کے معانی پرورتکلّم کا ایک ہلکا سا تموّج کسی مخالف کی فسوں پرور بلند آہنگیوں پر ایک مُہرِسکوت بن جاتا تھا۔ اس کی تمام آب و گل جوشِ دینی اور وُسعت ِعلمی کا ایک پُرندرت مجموعہ تھی اور اس کی جہاں پیما تارِنظر ایک پُرجذب کمند حکمت تھی۔ اس کے حکیمانہ تجسّس نے کمالِ تورع کے ساتھ مل کر لطائف سپہری کی آغوش اس کے لیے کھول دی تھی اور حکمتِ ازل کی کارسازیوں پر اس کا اعتماد سطحِ علمیت پر فائز ہوگیا تھا۔ اس کی آخری زندگی کا بیشتر حصہ تحریک احمدیہ کے ساتھ وابستہ رہا ہے اور اس کے لیل و نہار اسی جہد دینی کے پُرلطف مظاہر میں وقف ہوئے ہیں۔ … نورالدین کی ذات گرامی ہماری مادی نگاہوں سے مستور ہے لیکن مساحت گیتی پر اس کے نقش پا بدستور ثبت ہیں اور منزل استقامت کی جانب ہماری رہبری کررہے ہیں۔ لطف ازل اس کی خاک پر عنبر بار ہو …۔‘‘ (رسالہ البلاغ جولائی 1914ء جلد1 نمبر2 ازمالیر کوٹلہ)
جب ایک غیر ازجماعت عالم کی نگاہ میں آپؓ کا یہ مقام تھا تو فدایان احمدؑ کی نگاہ میں اس مقام کی رفعت کیا ہوگی۔
اب مَیں اُس دعا کے ساتھ اپنی گزارشات ختم کرتا ہوں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی وفات پر اُن کے حق میں کی تھی ؎

اے خدا بر تربت او ابر رحمت ہا ببار
داخلش کن از کمال فضل در بیت النعیم

سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ” ایک تبصرہ

  1. سب حمد و ثنا اللہ تعالیٰ کے لئے جس نے میرے مسیح پاک علیہ السلام کو ایسا جلیل القدر دوست بوقت ضرورت عطا فرمایا۔
    بہت عمدہ مضمون ہے۔ جزاک اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں