سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی سیرۃ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے سیدنا طاہر نمبر میں حضورؒ کی شفقت کے بعض واقعات مکرم چودھری محمد عبدالرشید صاحب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ حضورؒ کی ذرّہ نوازی تھی کہ میرے کم علمی اور کم عقلی کے سوالات کو حضورؒ پہلے درست فرماتے اور پھر ان کا ہر زاویہ سے نہایت مدلّل اور احسن و جامع جواب عطا فرماتے۔ حضورؒ نے یادداشت بھی کمال درجہ کی پائی تھی۔
خدا تعالیٰ کے فضل سے مَیں نے دو خلفاء کے ساتھ قریبی تعلق کا لطف اٹھایا ہے۔ پہلے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ جب لندن تشریف لاتے تو حضورؒ سے اکثر ملاقات ہوجاتی۔ 1969ء میں میرے والد محترم چودھری محمد حسین صاحب امیر جماعت احمدیہ ملتان کی وفات ہوئی تو ہم سب بھائی حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے عرض کیا کہ ہم سات بھائی اور دو بہنیں یتیم ہوگئے ہیں، ہمارے والد ماجد ہمارے لئے دعا کیا کرتے تھے، اب وہ نہیں رہے۔ حضورؒ نے فرمایا کہ مَیں آپ کے روحانی باپ کا مقام رکھتا ہوں، مَیں دعا کروں گا۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضور دعا کریں کہ بھائی جان ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو نوبل پرائز مل جائے، یہ اس کی ساری رقم نصرت جہاں فنڈ میں دے دیں گے۔ حضورؒ یہ سنتے ہی اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ نصرت جہاں فنڈ کیلئے رقم اللہ تعالیٰ خود مہیا کردے گا ، البتہ مَیں دعا کروں گا، آئندہ دس سال میں ڈاکٹر صاحب کو نوبل انعام بھی مل جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ اکتوبر 1979ء میں حضورؒ کی بات پوری ہوگئی اور مکرم ڈاکٹر صاحب کو نوبل پرائز مل گیا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی پدرانہ شفقت کا سلوک اور احسانات یاد آتے ہیں تو حضورؒ کے لئے دلی دعائیں نکلتی ہیں۔ آپؒ کی عظمت تھی کہ اگر کسی معاملہ میں معلومات مستحضر نہ ہوتیں تو آپؒ صاف صاف فرمادیتے کہ پتہ کرکے اگلی بار جواب دوں گا۔
حضورؒ بہت محنت کے عادی تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ دو یا تین گھنٹوں کی نیند میرے لئے کافی ہوتی ہے۔ دعا پر اتنا یقین تھا کہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ جب قرآن مجید کی کسی آیت کا مطلب مجھے سمجھ نہیں آتا تو دعا کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ وہ مطلب سمجھا دیتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں