سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی شفقت
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍دسمبر 2003ء میں مکرم شیخ محمد عامر صاحب کا مضمون شامل اشاعت ہے۔ آپ رقمطراز ہیں کہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی خلافت کا ابتدائی سال تھا جب مَیں گورنمنٹ کالج لاہور میں فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا۔ کالج کی طرف سے مجھے سکالرشپ ملا جو مَیں نے سارا حضورؒ سے ملاقات کے دوران آپؒ کی خدمت میں پیش کردیا۔ حضورؒ نے مجھے دعا دی اور اُسی وقت پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے فرمایا کہ یہ رقم ’’بیوت الحمد‘‘ میں جمع کروادیں۔ حضورؒ کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے مجھے گورنمنٹ کالج کا سب سے بڑا اعزاز سینئرز کلب ’’رول آف آنر‘‘، یونیورسٹی بلیو اور سائنس کالج کا رول آف آنر بھی عطا فرمائے۔
ایک بار ہالینڈ میں حضورؒ کے ساتھ صبح کی سیر کا موقع ملتا رہا۔ صبح بہت ٹھنڈی ہوتی تھی۔ مَیں نے ایک عدد دستانہ کی جوڑی حضورؒ کو تحفۃً پیش کی۔ حضورؒ نے محبت سے قبول فرمائی۔ پھر کچھ دیر بعد اندر سے رقم لاکر مجھے دی اور فرمایا کہ میرے ساتھ جو لوگ ہوتے ہیں اُن کے لئے بھی ایک ایک جوڑی لے آؤں۔ مَیں نے پیسوں کا انکار کرنا چاہا تو فرمایا: یہ مَیں منگوا رہا ہوں، پہلا تم نے دیا ہے۔
میرے لئے حضورؒ نے جو دعا بھی کی وہ مَیں نے پوری ہوتے دیکھی۔ ایک بار مَیں نے عرض کیا کہ ہم پر بینک کا بہت بڑا قرض ہے جو ہم ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، نہ ہی کوئی صورت نظر آتی ہے۔ آپؒ نے فرمایا: اتر جائیگا، ہمت سے کام لو۔ چھ ماہ کے اندر بینک کے قوانین میں ایسی تبدیلی آئی کہ شرائط بہت نرم کردی گئیں اور ہمارا سارا قرض اتر گیا۔
ہالینڈ میں حضورؒ اپنی ذاتی کشتی میں سیر اور مچھلی کے شکار کے لئے تشریف لے گئے۔ ہم کشتی میں ہوا بھر رہے تھے کہ اُس کے لکڑی کے کچھ حصے مجھ سے ٹوٹ گئے۔ سب ہکابکا رہ گئے کہ اب میری شامت آئی۔ حضورؒ کی فیملی بھی ساتھ تھی۔ اچانک میرے منہ سے نکلا: حضور! اب نئی کشتی مبارک ہو۔ حضورؒ کھلکھلاکر ہنس پڑے اور ایک غلام سے جو ذاتی نقصان ہوا تھا اُس کا احساس ہی نہیں ہونے دیا۔