سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 22 و 29 جولائی 2009ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی پاکیزہ سیرت کے حوالہ سے مضامین شامل اشاعت ہیں جو ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ کے سیدنا ناصرؒ نمبر سے ماخوذ ہیں۔
٭ محترمہ صاحبزادی امۃالحلیم صاحبہ بنت حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ تحریر فرماتی ہیں:
ابّا ہر قدم پر خدا کی رضا پر راضی رہتے تھے ۔ ہر کام پر خدا پر توکل کرتے تھے۔ اور زندگی کے ہر موڑ پر دعاؤں کا سہارا لیتے تھے۔تمام زندگی اسی راستے پر چلے اور دوسروں کو بھی اس پر تلقین کی۔یہ ایک مضبوط سہارا ہے جسے پکڑا اور تا دم آخر پکڑے رہے۔یہ ایک ایسا کامل یقین اور ایمان تھا کہ کبھی کوئی گھبراہٹ ،کوئی مایوسی یا خوف و ہراس طبیعت پر طاری نہ ہوا۔ بیماری کے آخری ایام میں فرمایا: کہ ’’خدایا اگر یہ وقت آ گیا ہے تو میں تو تیری رضا پر پوری طرح راضی ہوں‘‘۔
1953ء میں بظاہر دنیا کے لحاظ سے جماعت پر ایک کڑا وقت آیا اور دنیا دار لوگ سمجھنے لگے کہ یہ مٹھی بھر جماعت مقابلہ نہ کر سکے گی اور (خدا نہ کرے)ختم ہو جائے گی ۔ان دنوں ابّا کے پاس لاہور میں شیعہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ آئے اور کہنے لگے کہ میاں صاحب !آپ کے بعد ہماری باری آنے والی ہے۔ تو ابّا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: آپ فکر نہ کریں نہ ہمارا بعد آئے گا نہ آپ کی باری۔
٭ مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب لکھتے ہیں: کبھی بھی اپنی بڑ ا ئی بیان نہ کرتے۔ ہر بات پر عاجزی کا اظہار ہوتا۔ بریگیڈئیر وقیع الزماں صاحب نے بتایا کہ ان کو ایک کام کے سلسلہ میں کچھ پریشانی تھی۔ انہوں نے حضورؒ کی خدمت میں درخواستِ دعا کی۔ کچھ عرصہ کے بعد اللہ کے فضل سے وہ کام ہو گیا تو انہوں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ کی دعا سے میرا کام ہو گیا۔ حضورؒ نے جواباً فرمایا تمام کام اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کر دیتا ہے۔
لندن میں ایک احمدی دوست نے آئندہ پیدا ہونے والے بچہ کا نام تجویز کرنے کی درخواست کی تو حضور نے لڑکے کا نام تجویز کردیا جبکہ تمام لیڈی ڈاکٹر نے جدیدآلات سے معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ ضرور لڑکی ہی پیدا ہو گی کیونکہ ہمارے آلات جھوٹ نہیں بتاسکتے۔ لیکن خدا کے فضل سے لڑکے کی پیدائش ہوئی۔ حضور نے یہ واقعہ اپنے ایک خطاب میں بیان کرکے فرمایا کہ: ’’غیب کی بات بتانا یا کسی عاجزانسان کے منہ سے نکلی ہوئی بات کو پورا کر دکھانا یہ اللہ کی قدرت کا کام ہے۔ انسان کا دخل تو ہے نہیں اس میں‘‘۔
٭ حضور کے ایک بیٹے لکھتے ہیں : اپنے فرائض کی ادائیگی میں کبھی یہ بات سامنے نہ رکھی کہ دنیا یا دنیا والے مجھے کیا کہتے ہیں۔ ایک بار نظام جماعت کی طرف سے ایک شخص پرایکشن کیا گیا تو میں نے اس سلسلہ میں حضور کو ایک خط لکھا۔ حضور کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا ۔ دوبارہ لکھا اور نادانی میں آخر میں یہ فقرہ لکھا کہ اس ایکشن کا لوگوں پر برا اثر پڑے گا اور وہ باتیں بنائیں گے۔ مجھے جواب آیا کہ ’’جہاں تک لوگوں کا تعلق ہے میں کسی سے نہیں ڈرتا نہ پہلے کبھی ڈرا ہوں۔ میں صرف خدا سے ڈرتا ہوں۔ مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ لوگ کیا کہتے ہیں یا آنے والا مؤرخ میرے بارہ میں کیا لکھے گا ۔میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ جب اس دنیا سے رخصت ہو کر اپنے خدا کے دربار میں جاؤں تو سر خرو ہو سکوں کہ جو میں نے اس دنیا میں کیا وہ دیانتداری کے ساتھ جماعتی مفاد میں کیا ٰہے‘‘۔
ایک دفعہ جماعت کے انتہائی پُر آشوب دَور میں کسی نے کہا: حضور ہمیں یہ کرنا چاہیے، وہ کرنا چاہیے۔ فرمانے لگے :نہیں صرف دعا کرنی چاہیے، جس دن آپ نے اپنا انتقام خود لینے کی کوشش کی اس دن خدا نے آپ کی خاطر انتقام لینا چھوڑ دینا ہے۔آپ بس دعا کریں اور دیکھیں کہ خدا کا انتقام کیسا ہوتا ہے۔
اپنی آخری بیماری میں ایک دن فرمانے لگے کہ میں نے ہمیشہ غم کو اپنی مسکراہٹوں میں چھپائے رکھا اور دیکھنے والے یہ سمجھتے رہے کہ مجھے کبھی کوئی تکلیف یا غم نہیں پہنچا لیکن اگر کوئی میرا دل چیر کر دیکھے تو اسے اندازہ ہوگا کہ میں نے کتنے غم اٹھائے ہیں اور ان غموں کا سلسلہ 73سالوں پر محیط ہے لیکن خدا تعالیٰ نے جو اپنے انعامات بارش کے قطروںکی طرح مجھ پر نازل فرمائے ہیں ان کا سلسلہ بھی 73سالوں پرپھیلا ہوا ہے اور یہ بھی وہی شخص دیکھ سکتا ہے جو میرا دل چیر کر دیکھے۔
کبھی مایوس نہیں ہوتے تھے۔مایوسی کو گناہ سمجھتے تھے اورکبھی نہ مایوس ہونے کا ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ جب ہماری امی کی طبیعت بہت بگڑ گئی اور وہ زندگی اور موت کی کشمکش سے گزر رہی تھیں تو آپ نے ڈاکٹروں کی طرف دیکھا اور شاید ڈاکٹروں کے چہروں پر مایوسی کی لہر کو محسوس کیا۔ فوراً انہیں مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا۔ ہمارا کام کوشش کرنا ہے اور آخری سانس تک کوشش نہ کریں تو دہریہ ہوں گے۔ خدا کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوں۔ کبھی کوئی مایوسی کی بات کرتا تو آپ کو غصہ بہت چڑھتا، فرماتے دعاؤں اور کوششوں کو انتہا تک پہنچا دو۔ نتیجہ تو خدا کے ہاتھ میں ہوتا ہے اسی پر چھوڑ دواور جو وہ کرے اس پر راضی ہوجاؤ۔
امّی کی وفات کے چند گھنٹے بعد آپ کی نظر مجھ پر پڑی تو دیکھا کہ میں رو رہا ہوں۔ بڑے پیار سے قریب بلایا اور فرمایا: رونا نہیں، اس کی رضا پر راضی ہو جاؤ ۔ تم اس وقت نہیں روئے جب تین سال کے تھے اور تمہارے سامنے مجھے گرفتار کر کے لے گئے تھے اور آج جب ہوش مند ہو، حوصلہ والی عمر میں ہو تو رو رہے ہو؟
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے خطبہ جمعہ 28 جون 1974ء میں فرمایا: مجھے خداتعالیٰ نے جس قدر کڑواہٹوں کو برداشت کرنے کی طاقت دی ہے کم ہی لوگوں کو ملی ہو گی۔ان حالات میںہر دُکھ جو کسی فردیا خاندان کو پہنچااس کا زخم میں اپنے سینے میں بھی محسوس کرتا ہوں۔پس کئی ہزار پریشانیاں نیزے کی اَنِّی کی طرح میرے سینے میں پیوست ہیںاور میرے جسم کوبھی عادت ہے۔ مجھے گرمی میںخون کی شکرکے نظام میں خرابی کی وجہ سے تکلیف ہو جاتی ہے اس کے لئے مَیں کبھی کبھی نیم کے پتوں کا جوشاندہ استعمال کرتا ہوں۔ ایک دفعہ مَیں وہی جوشاندہ پی رہا تھاکہ ہماری ایک عزیزہ اس وقت آگئیں۔ وہ سمجھیںکہ پتہ نہیں مَیںکیا شربت پی رہا ہوں۔ تو مَیںنے ایک گھونٹ چھوڑ دیا۔ مَیںنے کہا پئیں گی؟ تو انہوں نے کہا لائیں پیتی ہوں تو جونہی نیم کاجوشاندہ منہ کو لگایااور چہرے کی حالت بدلی اور اعصاب کھنچے تو وہ حالت دیکھنے والی تھی۔
ایک دفعہ ہمارے ایک زمیندار ساتھی تھے۔ ملیریا کے دن تھے۔ مَیں کونین کی گولی کھانے لگا۔ ہمارے زمینداربھائی اگر جوش میںہوںتو اپنے دعویٰ میں بڑے سخت بھی ہو جاتے ہیں۔ مَیںنے کہا کونین کھائی جائے۔ کہنے لگے: ہاں میاںصاحب کھائی جائے۔ مَیںنے کونین کی ایک گولی منہ میں ڈال کر دانتوں سے اچھی طرح چبائی اور پھر منہ کھول کر کہا کہ اس طرح کھائی جائے۔ وہ کہنے لگے ہاں جی اسی طرح کھائی جائے۔ مَیں نے گولی دیدی اور چونکہ انہوں نے کہا ہوا تھااسی ’پچ‘ میں انہوں نے اسی طرح کونین کی گولی چبائی اور مجھے بڑی مشکل سے منہ کھول کر کہااس طرح ؟ اور منہ اور گردن کے سارے پٹھے اکڑ گئے اور اڑتالیس گھنٹے تک وہ ہنستے تھے اوردنیا سمجھتی تھی کہ یہ رو رہے ہیں۔
٭ محترم پروفیسر بشارت الرحمن صاحب لکھتے ہیں کہ حضورؒ کے کردار کا ایک نمایاں وصف اطاعت امام میں فنا کا مقام تھا ۔ 1947ء کے پُرآشوب زمانہ میں خلیفۂ وقت کی طرف سے حفاظت مرکز کا کام آپ کے سپرد ہوا تو آپؒ نے نہایت بہادری اور جواں مردی سے اپنی جان کو خطرات میں ڈال کر اسے سرانجام دیا۔ باؤنڈری کمیشن کے سامنے مسلمان اکثریت والے ضلعوں اور تحصیلوں کے نقشے پیش کرنے کا کام ملا تو آپ نے کالج کے پروفیسروں اور طلبہ کو رات دن اسی کام میں لگا دیا۔ خاکسار کالج کے طلبہ کی ٹیمیں لے کر قادیان سے لاہور سول سیکرٹریٹ میں آتا اور خواجہ عبدالرحیم صاحب جو چیف سیکرٹری یا کمشنر تھے اُن کی مدد سے ہم سیکرٹریٹ کے ریکارڈ سے قصبات و دیہات کی ہندو اور سکھ آبادی کو نوٹ کیا کرتے تھے اور پھر اس کے مطابق تھانہ وائز، تحصیل وائز اور ضلع وائز مسلم اکثریت رکھنے والے علاقوں کے نقشے تیار کرتے تھے۔
ہمارے کالج کے زمانۂ لاہور کے آخری ایام کا واقعہ ہے کہ گورنر نے اسلامیہ کالج کی ایک تقریب میں اعلان کیا کہ سابق DAV کالج کی عمارت ٹی آئی کالج سے واپس لے کر اسلامیہ کالج کو دیدی جائے گی کیونکہ اسلامیہ کالج کی ضرورت زیادہ اہم ہے۔ ٹی آئی کالج کے لئے کسی اور جگہ انتظام کیا جائے گا۔ خاکسار نے جب یہ خبر سنی تو سخت گھبراہٹ میں سائیکل پر فوراً جناب پرنسپل (حضورؒ) کو یہ خبر سنانے رتن با غ پہنچا اور حضور کو اندر سے بلا کر بھرائی ہوئی آواز میں یہ اندوہناک خبر سنائی۔ اس پر حضرت میاں صاحب مسکراکر فرمانے لگے: صوفی صاحب! کالج کا پرنسپل مَیں ہوں یا آپ ہیں۔ اگر گھبرانے کی بات ہے تو گھبرانا تو مجھے چاہئے۔ پھر فرمایا: کیا آپ کو یقین ہے کہ ہمارے کالج کا لاہور میں ہی رہنا جماعت احمدیہ کے مفاد میں ہے ۔ شاید اللہ تعالیٰ کے علم میں جماعت کا مفاد اسی میں ہو کہ ہمارا کالج اب ربوہ چلا جائے۔ مت گھبرائیں اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ وہی معاملہ کرے گا جو ہمارے حق میں مفید ہوگا ۔ اس واقعہ سے پتہ لگتا ہے کہ ابتلا کے دوران حضرت صاحب کس طرح اللہ تعالیٰ کی نصرت پر کامل یقین اور اس کے فیصلہ پر کامل طور پر راضی رہتے تھے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے جب حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کو کالج کو ربوہ منتقل کرنے کا ارشاد فرمایا تو اس ارشاد کے ملنے پر یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپؒ کی زندگی کا سب سے اہم کام یہی ہے۔ تن تنہا ربوہ تشریف لے آئے۔ گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ اور ناقابل برداشت لُو میں صبح سے شام تک ایک چھتری لے کر کھڑے رہتے اور کالج کی ابتدائی تعمیر کا کام اپنی آنکھوں کے سامنے کرواتے۔ لنگرخانہ سے معمولی دال اور روٹی آپ کو دوپہر کے وقت وہیں پہنچ جاتی جس کی آپ قیمت ادا کرتے۔ اپنے بھائیوں اور بہنوں کے گھروں میں کھانا کھانے نہیں جاتے تھے تاوقت ضائع نہ ہو۔ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مصلح موعودؓ نے مجھے ایک لاکھ روپے کالج کی تعمیر کے لئے پچاس ہزار ہوسٹل کے لئے اورسولہ ہزار دیگر لواحقات کے لئے دیئے تھے اور فرمایا کہ بس اسی رقم میں اگر تم یہ تعمیر مکمل کر وا سکتے ہو تو کرواؤ۔ مَیں نے اللہ تعالیٰ پر توکّل کر کے اس کام کی حامی بھر لی اور کام شروع کر دیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ روپیہ کہاں سے آتا گیا اور کس طرح آتا گیا۔ اللہ تعالیٰ خود ہی سامان پیدا کرتا چلا گیا اور قلیل ہی عرصہ میں کئی لاکھ کی عمارت تیار ہو گئی۔
1954ء میں کالج لاہور سے ربوہ منتقل ہو گیا۔ یہ کام حضور کی اولو العزمی کی ایک یادگار ہے۔ اس زمانہ میںایک لطیفہ بھی ہوا۔ حضورؒ نے چلچلاتی ہوئی دھوپ سے بچنے کے لئے تعمیراتی فنڈ سے ہی صرف اڑھائی روپے کی ایک چھتری بھی خریدی تھی کیونکہ اسی کام کے لئے ہی اسے خریدا گیا تھا۔ اس زمانہ کے آڈیٹر ایک بہت ہی سخت بزرگ ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے چھتری کو تعمیراتی سامان ماننے سے انکار کردیا۔ پرنسپل صاحب کا اصرار تھا کہ اس چھتری کی مدد سے جو نگرانی کا کام کیا گیا ہے وہ ہزارہا روپیہ کسی دوسرے کودے کر بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ طرفین اپنی اپنی بات پر سختی سے قائم تھے۔ یہاں تک کہ صدر انجمن نے اپنے ریزولیوشن سے اس چھتری کو تعمیراتی سامان میں شامل کرنا منظور کرلیا اور اس طرح آڈیٹر صاحب کو خاموشی اختیار کرنا پڑی۔ اب یہ بات ایک اصول کی تھی ورنہ اڑھائی روپے کی کیا بات تھی۔
٭ محترم محمد شبیر صاحب زیروی لاہور کو 1953ء کے مارشل لاء میں گرفتار ہو کر حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ اور حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کے ساتھ جیل میں رہنے کی سعادت ملی ۔ اُس دور کی یادیں تازہ کرتے ہوئے آپ تحریر کرتے ہیں: جیل سے ہمارا ناشتہ آگیا جو کالے ابلے ہوئے چنوں کا تھا۔ مَیں نے ترچھی نظروں سے چنوں کی طرف دیکھا۔ آپؒ میرے چہرے کے تأثرات ہی سے میرے دل کی کیفیت بھانپ گئے اور فوراً ان کو چادر پر ہاتھ سے بکھیرنے کے بعد مزے لے کر کھانا شروع کردیا۔ آپؒ کھاتے ہوئے فرماتے جاتے: بشیر صاحب! دیکھئے یہ تو بہت لذیذ ہیں۔ آپؒ نے مجھے تکلیف کے ان دنوں کو حوصلہ اور بشاشت سے گزارنے کے آداب سکھائے۔ چنانچہ میں نے بھی کھانا شروع کردیا۔ اپنے عمل سے گویا آپ نے بڑے لطیف انداز میں مجھے یہ بات ذہن نشین کرا دی کہ ہم جیل میں ہیں اور پھرمارشل لاء کی جیل میں۔ اس لئے ہمیں بشاشت کے ساتھ حالات کے تقاضوںکے مطابق ڈھل جانا چاہئے۔ غالباً اسی دن دوپہر سے حضرت صاحب کے گھر سے کھانا آنا شروع ہوگیا جو اس قدر ہوتا تھا کہ ہم سب سیر ہوکر کھالیتے تھے تو پھر بھی بچ جاتا تھا ۔
میں نے ایک دن عرض کی کہ میری گرفتاری اچانک اور بالکل غیرمتوقع تھی اس لئے پہلے پہل میں بہت پریشان ہو گیا اور میری بھوک پیاس بالکل ختم ہوگئی لہٰذا ناشتہ بھی نہ کر پایا۔ ماسوائے کپ چائے کے مَیںکچھ نہ کھا سکا۔ یہ سن کر حضورؒ نے فرمایا: جب مجھے گرفتار کیا گیا تو میں نے پہلے نہایت ہی اطمینان سے غسل کیا پھر خوب سیر ہوکر ناشتہ کیا کیونکہ ایسے وقتوں میں مجھے خوب بھوک لگتی ہے۔ اس کے بعد کپڑے تبدیل کئے۔ نیز فرمایا: خدا کے فضل سے میرے جوہر بحران میں کھلتے ہیں ۔اور میری اندرونی طاقتیں نمایاں ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔
حضورؒ ہر وقت خوش رہتے اور ہمیں خوش رکھنے کی کوشش فرماتے اور ہمارے ذہنوں میں یہ احساس پیدا کرتے رہتے کہ یہ آزمائش اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔ اس میں کامیابی کے بعد ہم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات کی بے شمار بارشیں ہوں گی۔ لہٰذا ہمیں استقلال کے ساتھ اور دعاؤں کے ساتھ ان لمحات کو مسکراتے ہوئے گزارنا چاہئے۔
٭ اللہ تعالیٰ کی حمدسے آپ کی زبان ہمیشہ تر رہتی تھی۔ دوستوں کو بھی شکر کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ ایک دوست کو اپنے پاس سے دوائی مرحمت فرمائی تو فرمایا کہ اس کے ساتھ شہد کا استعمال کریں۔ اس نے عرض کیا حضور ! خالص شہد ملنا بہت مشکل ہے۔ فرمایا: مَیں شہد بھی اپنے پاس سے دینے کو تیار ہوں۔ لیکن ایک شرط پر اور وہ یہ کہ ہر چمچہ شہد کھانے کے ساتھ آپ کو دو ہزار مرتبہ الحمدللہ کا ورد کرنا پڑے گا۔ نیز فرمایا ایک چمچہ شہد کی تیاری کے لئے (اللہ) دو ہزار مکھیوں کو حکم دیتا ہے کہ اس کام میں لگ جاؤ۔ یہ مکھیاں ڈیڑھ ڈیڑھ میل تک کے فاصلے سے پھولوں کا رس نچوڑ کر لاتی ہیں اور نہایت مصفیٰ خوشبودار اور صحت افزا قدرتی میٹھا تیار کرتی ہیں اس لئے ہم پر یہ فرض ہے کہ ہر قطرہ شہد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا تصور ذہن میں لائیں کہ اس نے اپنے فضل سے ہمارے لئے لاکھوں مزدور مکھیوں کے ذریعہ میٹھا بنانے کا کام جاری فرمایا ہوا ہے۔
٭ مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں: ایک روز حضورؒ نے فرمایا کہ منصورہ کی وفات کے دوسرے روزمیں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ میری ایک دفعہ منصورہ سے ملاقات کرا دے تو اس رات کشفی حالت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال شفقت سے اس خواہش کو پورا کیا۔ … منصورہ بیگم نے نہایت خوبصورت رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا اور ستونوں والی ٹیرس کی شکل کی ایک عمارت میں جو سات طبقات میں تقسیم شدہ تھی اس میں ملاقات کے لئے مجھے لے جایا گیا۔ایک مقام پر پہنچ کر مجھے آواز آئی کہ اس سے آگے نہ تم اوپر جا سکتے ہو اور نہ نیچے وہ آسکتی ہیں۔ نہایت ہی خوشنما منظر تھا اور منصورہ بیگم بہت خوش تھیں اور میرے دل میں اس ملاقات سے بڑاسکون پیدا ہوا۔
٭ محترم مسعود احمد صاحب دہلوی تحریر کرتے ہیں : 1960ء میں حضورؒ نے صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ کی حیثیت سے ماہنامہ ’’انصار اللہ‘‘ جاری فرمایا اور مجھے اس کا پہلا ایڈیٹر مقرر کیا۔ حضور نے دلی شغف، محنت اور جاں سوزی سے اس علمی اور تربیتی پودے کی آبیاری کی اسے معیاری مجلہ کی حیثیت سے پروان چڑھانے میں بیش بہا ہدایات اور نصائح سے مجھے سرفراز فرمایا۔ ان میں سے ایک ہدایت یہ تھی کہ مَیں حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا گہری نظر سے مطالعہ کرنے کی اہلیت اپنے اندر پیدا کروں۔ حضورؒ نے فرمایا: ’’اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی تمام کتب اور ملفوظات و ارشادات قرآن مجید کی تفسیر ہیں۔ حضرت اقدس جو بات کسی قرآنی آیت کاحوالہ دیئے بغیر بظاہر اپنی طرف سے بیان فرماتے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی آیت کی تفسیر ہوتی ہے۔حضورؒ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے۔ وہی کچھ کہتے ہیں جو قرآن مجید نے بیان کیا ہے۔‘‘
٭ مکرم مولاناسلطان محمود صاحب انور تحریر کرتے ہیں: 1965ء میں جب حضور مسند خلافت پہ متمکن ہوئے تو خاکسار منڈی بہاء الدین میں بطو ر مربی متعین تھا۔ مجھے ایک مرتبہ پیٹ میں دائیں جانب درد سی رہنے لگی۔ دو ڈاکٹر صاحبان نے معائنہ کے بعد یہ رائے قائم کی کہ اپنڈکس بڑھنے کا قوی امکان ہے اور اس صورت میں آپریشن کی ضرورت ہو گی۔ خاکسار کو یہ سن کر تشویش ہوئی اور اگلے ہی روز ربوہ پہنچ کرحضورؒ کی خدمت میں ساری کیفیت بیان کرکے دعا کی عاجزانہ درخواست کی۔ حضورؒ نے نہایت توجہ سے ساری باتیں سن کر خاکسار کو تسلی دی کہ انشاء اللہ میں دعا کروں گا اور اپنڈکس کی تکلیف ہرگز نہ ہو گی۔ چنانچہ اگر کوئی تکلیف پردۂ غیب میں مقدّر بھی تھی تو میرے آقا کی دعاؤں کے طفیل اللہ تعالیٰ نے فضل فرمادیا۔
٭ محترم کرنل داؤد احمد صاحب تحریر کرتے ہیں: حضرت مصلح موعودؓ کی شدید بیماری کے دوران اور خصوصاً حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی وفات کے بعد آپؒ کی ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی تھیں۔ اس تمام عرصہ میں حددرجہ وفا اور نہایت اعلیٰ تابعداری کا نمونہ آپ نے دکھایا اور حضرت مصلح موعود کو تمام جماعتی امور سے باخبر رکھا۔ حضرت مصلح موعود کی چھپن سالہ تربیت نے آپؒ کو کندن بنا دیا تھا۔ اسی لائحہ عمل پر چلے جس کا خاکہ حضرت مصلح موعودؓ کھینچ چکے تھے۔ پھر تقدیر الٰہی کے مطابق مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو اس بات کی عملی شہادت مل گئی کہ حضرت مصلح موعودؓ اور سیدنااخی المکرم کی خلافت ایک دوسرے سے کتنی پیوست ہے گویا کہ باپ اور بیٹے کی خلافت ستر سالہ دور ایک ہی تھا۔ سلسلہ کے بعض خادموں نے ایسی خوابیں بھی دیکھیں جن سے یہی تفہیم ہوتی تھی۔
٭ مکرم آفتاب احمد صاحب بسمل تحریر کرتے ہیں: مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد پہلی مرتبہ کراچی تشریف لائے۔ زبردست دینی مصروفیات کی وجہ سے آرام کے لئے وقت کم ہی ملتا تھا۔ بہرحال جماعت کراچی نے سمندر کے کنارے پکنک کا انتظام کیا تھا۔ دوHuts حاصل کئے گئے۔ ایک میں احباب جماعت اور دوسرے Hut میں حضورؒ مع بیگم صاحبہ قیام پذیر تھے۔ مجلس شعروسخن کا انعقاد بھی ہوا۔ حضورؒ نے فرمائش کر کے خاکسار کی نظم ’’کراچی نامہ‘‘ سماعت فرمائی۔ پھر مکرم مولانا عبدالمالک خانصاحب کی درخواست پر حضورؒ نے نظم ’’خلافت‘‘ پیش کرنے کی اجازت دی۔ اس نظم میں حضرت مصلح موعودؓ کی وفات کے بعد مَیں نے مزید دو بندوں کا اضافہ کردیا تھا۔ جب وہ بند سنائے تو مجلس کا ماحول یکدم اداس ہو گیا۔ حضورؒ آبدیدہ ہو گئے اور تھوڑی دیر کے بعد اٹھ کر تشریف لے گئے۔ حضور کے جاتے ہی محترم ثاقب زیروی صاحب اور چند دوسرے احباب خاکسار پر خفگی کا اظہار کرنے لگے۔ مولانا عبدالمالک خانصاحب استغفار کرنے لگے اور کہا کہ مجھے بالکل علم نہیں تھا کہ اس نظم میں دو بند مزید بڑھ گئے ہیں۔ خاکسار اپنی جگہ شرمندہ تھا۔ اتنے میں ایک محافظ نے آکر اطلاع دی کہ حضورؒنے بسمل صاحب اور ثاقب صاحب کو یاد فرمایا ہے۔ چنانچہ ہم دونوں حاضر ہوئے۔ حضور برآمدہ میں کرسی پر تشریف فرما تھے اور سامنے دو کرسیاں ہمارے لئے رکھی ہوئی تھیں۔ خاکسار سے ارشاد فرمایا ’’وہی نظم پھر سنائیں۔ میں نے منصورہ بیگم سے ذکر کیا تو انہوں نے بھی سننے کی خواہش ظاہر کی ہے‘‘۔ چنانچہ خاکسار نے دوبارہ وہ طویل نظم سنائی جسے حضرت سیدہ نے پردہ میں بیٹھے ہوئے سماعت فرمایا۔
٭ محترم محبوب عالم خالد صاحب تحریر کرتے ہیں: حضورؒ 1938ء کے آخر میں انگلستان سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے واپس تشریف لائے تو اُسی سال کے آغاز میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے زیر ارشاد مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام عمل میں آچکا تھا۔ اس زمانہ میں مجلس خدام الاحمدیہ کی رکنیت طوعی تھی لازمی نہیں تھی۔ خاکسار نے آپؒ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ بھی اس مجلس کے ممبر بن جائیں۔ آپ نے کچھ ہچکچاہٹ محسوس کی۔ لیکن جب خاکسار نے عرض کیا کہ یہ حضرت مصلح موعودؓ کے منشاء کے مطابق قائم ہوئی ہے تو آپ نے فوراً اس کی رکنیت اختیار کر لی اور پھر لمبا عرصہ اس کے صدر بھی رہے۔
آپ جن دنوں مدرسہ احمدیہ کے طالب علم تھے تو 1927ء کے جلسہ سالانہ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کی عمارت کے سامنے کے میدان میں سٹیج کے اردگرد ایک چھوٹی سی جگہ میں جلسہ گاہ تیار کی گئی تھی۔ جس کے چاروں طرف سیڑھیوں پر شہتیریاںرکھ کر گیلریاں بنا دی گئی تھیں۔ پہلے دن ہی حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ جلسہ گاہ تنگ ہے۔ اس پر حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؓ اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ رات بھر شدید سردی اور اندھیرے میں کم و بیش پون میل کے فاصلہ سے شہتیریاں اپنے کندھوں پر اٹھا کر لاتے رہے پھر خود سیڑھیاں بنائیں اور اس پر شہتیریاں رکھ کر راتوں رات جلسہ گاہ میں توسیع کر دی۔ جس پر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے اگلے روز بے حد خوشنودی کا اظہار فرمایا۔
اس خدمت کی سعادت بوائے سکاؤٹس کی انجمن کو حاصل ہوئی تھی جس کا قیام 1927ء میں ہی مدرسہ احمدیہ قادیان میں عمل میں آیا تھا۔ سکاؤٹ ماسٹر صاحب کی تجویز پر سیدنا حضرت مصلح موعود کی طرف سے مدرسہ کے تمام سکاؤٹس کے گروپ لیڈر بنا دیئے گئے اور مدرسہ کے تمام سکاؤٹس چار سیکشنوں میں تقسیم کر دیئے گئے جن کے نگران اعلیٰ حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ تھے۔ ان احمدی بوائے سکاؤٹس کو رفاہ عامہ اور خدمت خلق کے سلسلہ میں قادیان میں لاتعداد خدمات بجالانے کی توفیق ملی۔ مگر سب سے اہم ترین کارنامہ جلسہ گاہ کو ایک رات کے اندر تین اطراف سے وسیع کرنا تھا۔ سکاؤٹس کے جوش و جذبہ اور جانفشانی اور اخلاص کو محسوس کرکے جلسہ کے دوسرے روز کی تقریر میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور تمام کارکنان کے لئے خاص دعا کی اور افسر جلسہ سالانہ حضرت سید میر محمد اسحاق صاحبؓ کو ارشاد فرمایا کہ اُن کی طرف سے یاد گار کے طور پر ہر ایک سکاؤٹ کو نقرئی تمغہ سے نوازا جائے۔