سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4 جون 2009ء میں سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒ کی سیرۃ پر ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
٭ مکرم محمود احمد صاحب شاہد سابق صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ حضورؒ کا ذکرخیر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: مسلمانوں سے ہمدردی اور پیار کا جذبہ بے نظیر تھا۔ ایک موقعہ پر نصیحت فرمائی کہ کوئی احمدی ایسا کام نہ کرے جس سے امت مسلمہ کو کوئی تکلیف ہو۔ میں نے ایک مرتبہ کہا کہ فلاں فلاں جگہ احمدیوں کو بہت تکلیف ہے، خدا تعالیٰ بدلہ لے۔ آپ چونک گئے اورکہنے لگے ایسی باتیں کرنا مناسب نہیں ہے۔ ہم تو اس نبی ؐ کے غلام ہیں جن کو رحمۃ للعالمین کہا گیا ہے۔ آخر یہ آنحضرت ﷺ کی امت میں سے ہیں۔ ان کے لئے تو درد دل سے دعا کرنا فرض ہے۔
اسی طرح ایک مرتبہ میں نے کہا کہ ہمارے لوگ بہت تکلیف اٹھا رہے ہیں۔ میں نے غصہ میں کوئی بات کہی تو میری طرف گھور کے دیکھا اور فرمایا کہ قرآن شریف میں کیا آیا ہے۔ ہمارے نبی ﷺ تو رحمۃ للعالمین ہیں۔ ہمیں تو حضور پر نور کے نمونہ کو اپنانا ہے اور حضرت اقدس کی تعلیم کو کہ ’’گالیاں سن کر دعا دو پاکے دکھ آرام دو‘‘۔
کئی مرتبہ فرمایا کہ اگر کسی بات کا علم نہ ہو تو صاف صاف کہنا چاہیے۔ اندازاً یا تُکّا لگا کر بات نہیں کرنا چاہیے۔ انسان اگلے کو مطمئن نہیں کر سکتا اور اپنے دل کو خواہ مخوا ہ الجھاتا ہے۔ پھر فرمایا ہر بات کا جواب قرآن شریف میں موجود ہے اس لئے سب سے پہلے قرآن پاک کی طرف رجوع کیا جائے۔ قرآن شریف کو بار بار پڑھا جائے۔ یاد رکھنے کے لحاظ سے، مفہوم کے لحاظ سے، مضمون کے لحاظ سے، پھر روابط کے لحاظ سے بھی جس نقطئہ نظر سے کوئی پڑھے وہ اپنے فہم و تقویٰ کے معیار کے مطابق کچھ نہ کچھ حاصل کرتا ہے قرآنی علوم کے خزائن تو پاک دلوں میں محفوظ رہتے ہیں۔ دل ٹھیک نہ ہو تو اس پاکیزہ کلام کو کس طرح دل میں اتارا جاسکتا ہے۔
٭ عرب اسرائیل جنگ کے دوران پریشان کن خبروں سے بے قرار ہوکر خدائے ذوالجلال کے آستانے پر جھک جاتے اور دوسروں کو بھی عربوں کے لئے دعا کرنے کی تلقین فرماتے۔ مسلمانوں کے لئے اتنی غیرت تھی کہ ایک دفعہ بیرون ملک پاکستان جانے کا پروگرام بننے لگا۔ کسی نے تجویز کیا کہ فلپائن ائر لائن پر سفر کریں۔ یہ سستی بھی رہے گی اور اچھی بھی۔ فرمانے لگے ہرگز نہیں، مَیں اُس ملک کی ائرلائن پر سفر نہیں کروں گا جہاں پر مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔
٭ آپؒ اپنے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے عاشق حقیقی تھے۔ آنحضرتﷺ کی سیرت کا کوئی واقعہ بیان کرتے ہوئے آپؒ کی عجیب کیفیت ہو جاتی۔ آنحضورﷺ کے چھوٹے چھوٹے احکامات پر بھی عمل کرنے کا خیال رکھتے۔ کھانے کی میز پر جب تک پانی نہ آ جاتا کھانا نہ شروع کرتے کہ آنحضوؐر کا حکم ہے کہ جب تک پانی سامنے نہ ہو کھانا شروع نہ کرو۔
ایک دفعہ ایک زمین پر باغ لگانا تھا۔ ایک دوست نے جو باغات کے ماہر سمجھے جاتے تھے مشورہ دیاکہ ایک ایکڑ میں جتنے درخت لگتے ہیں اس سے زیادہ لگوائیں اور پھر دو سال بعد جتنی ضرورت ہے رکھ لیں باقی کاٹ دیں۔ فرمایا: نہیں بالکل نہیں آنحضرت ﷺ نے پھلدار درخت کاٹنے سے منع کیا ہے۔
٭ آپ جب دیکھتے کسی دوست یا عزیز نے آنحضور ﷺ کی سنت پر عمل کیا ہے تو بہت خوش ہوتے۔ آپ کے ایک بیٹے نے داڑھی رکھی تو بہت خوش ہوئے اور تین بار فرمایا: الحمدللہ۔ اور پھر اپنی بہو سے کہنے لگے: اس کو داڑھی منڈوانے کو نہ کہنا۔
٭ ایک دفعہ ایک سربراہ مملکت (بھٹو) سے جماعت کو تکلیف پہنچی اور اس کے بعد انہوں نے حضور کو ملاقات کے لئے بلایا۔ حضور چلے گئے۔ دوران ملاقات چائے و دیگر لوازمات آئے تو حضور نے کھانے سے انکار کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں جو آپ کے پاس آیا ہوں ، وہ میرے منصب اور فرائض کا تقاضا تھا۔ آپ نے ایک سربراہ مملکت کی حیثیت سے مجھے بلایا اور میں آگیا۔ جہاں تک کھانے پینے کا تعلق ہے۔ جو تکلیف آپ سے جماعت کو پہنچی ہے، میری غیرت کا تقاضا ہے کہ یہ میں (استعمال) نہ کروں‘‘ ۔
٭ مکرم مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب تحریر کرتے ہیں: حضور ہمیشہ فرماتے کہ جب مجھے کوئی پریشانی لا حق ہوتی ہے تو میں دین کے کاموں میں پوری طرح لگ جاتا ہوں اور اللہ تعالیٰ میری پریشانی کو دور کر دیتا ہے۔
٭ مکرم ڈاکٹر عبدالرشید تبسم صاحب کو گورنمنٹ کالج لاہور میں حضور کا کلاس فیلو اور ہم نشست ہونے کا شرف حاصل رہا۔ آپ بیان کرتے ہیں: میں 1932ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوا۔ اس سے قبل دو سال سے میں روزنامہ ’’سیاست‘‘ کا ایڈیٹر تھا۔ بہت جلد حضور کی تین خوبیاں کھل کر مجھ پر نمایاں ہو گئیں۔ پہلی خوبی حضور کی یہ تھی کہ بڑے سے بڑے حادثے کا روشن پہلو تلاش کر لیتے۔ دوسری خوبی نہایت لطیف مزاح تھا اور خندہ پیشانی ، ہونٹوں پر مسکراہٹ، آنکھوں میں غیر معمولی اور پر کشش چمک جادو کا اثر کرتی۔ تیسری خوبی یہ تھی کہ حضور کسی کی غیبت کبھی نہ فرماتے۔ کسی دوست میں کوئی کمزوری دیکھتے تو اسے لطیفے کی شکل دے کر اس کا ذکر اس لطیف انداز سے کرتے کہ وہ دوست خود بھی ہنسے بغیر نہ رہ سکتا اور آئندہ کے لئے اپنی اصلاح بھی کر لیتا۔
حضورؒ نے دس احمدی طلبہ کو ملاکر ایک تنظیم عشرہ کاملہ بھی قائم کی جس کا مقصد دعوت الی اللہ تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کا کوئی منتخب اقتباس اشتہار کی صورت میں شائع کرکے تقسیم کیا جاتا۔ اس کی وجہ سے کچھ عناصر سخت برہم ہوئے۔ اپنی برہمی کا ہدف انہوں نے حضورؒ کو بنا لیا ۔ حضورؒ کے خلاف سازشیں ہونے لگیں اور حملہ کی کوششیںبھی ہوئیں۔ لیکن ہر ایسے موقع پر حضورؒ انتہائی ضبط سے کام لیتے اور صرف اتنا فرماتے ’’دیکھا ان بے ایمانوں نے پھر میر ے خلاف سازش کی‘‘۔
٭ محترم بشیر احمد رفیق خانصاحب تحریر کرتے ہیں : ڈیون شائر (انگلستان) کے علاقہ میں ایک انگریز خاندان کا اپنا فارم ہے اور خوشحال لوگ ہیں۔ حضورؒ جب آکسفورڈ میں طالب علم تھے تو رخصتوں میں مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی معیت میں چھٹیاں گزارنے اس فارم پر تشریف لے جایا کرتے تھے اور اس خاندان کے ساتھ گھل مل کر ایام رخصت گزارا کرتے تھے۔ اس خاندان کی ایک بڑی بو ڑھی سے میں نے دوران گفتگو حضورؒکے بارہ میں دریافت کیا تو وہ کہنے لگیں کہ صبح صبح جب میں ان کے کمرہ کے آگے سے گزرتی تو ایک عجیب بھنبھناہٹ سنا کرتی۔ ایک دن میں نے پوچھا کہ تم صبح سویرے کیا پڑھتے رہتے ہو جس میں کبھی ناغہ نہیں ہوتاتو ناصر نے بتایا کہ وہ اپنی مقدس کتاب قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں ۔
اسی خاتون نے یہ بھی بتایا کہ ایک شام کھانے پر جب حضورؒ اور دوسرے صاحبزادگان موجود تھے یہ ذکر چل پڑا کہ مستقبل میں کس کا کیا ارادہ ہے۔ حضورؒ نے اپنی باری پر فرمایا کہ میں خدمت دین کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ اس پر میرے منہ سے نکلا What a waste of time۔ لیکن اب میں جب دیکھتی ہوں کہ وہ جماعت کے سربراہ ہیں تو ندامت ہوتی ہے کہ کتنا غلط فقرہ منہ سے نکل گیا تھا، حقیقی اور بامراد زندگی تو انہیں ملی ہے۔