سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللّٰہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا جلسہ سالانہ جرمنی 2004ء کے موقع پر مستورات سے خطاب

عورت بھی معاشرے کا اسی طرح اہم حصہ ہے جس طرح مرد۔
اور دونوں اگر صحیح ہوں گے تو اگلی نسل بھی صحیح طریق پر پروان چڑھے گی
(آیات قرآنیہ کے حوالہ سے مردوں اور عورتوں کو مختلف معاشرتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے سلسلہ میں نہایت اہم نصائح)
(جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر 21؍ اگست 2004ء کو بمقام منہائیم جرمنی
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مستورات سے خطاب)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوااللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ۔ وَاتَّقُوْاللّٰہَ۔ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِّمَا تَعْمَلُوْنَ(الحشر19:)

کسی بھی قوم یا معاشرے کی ترقی کا زیادہ تر دارومدار اس قوم کی عورتوں کے اعلیٰ معیار میں ہے۔ اس لئے اسلام نے عورت کو ایک اعلیٰ مقام عطا فرمایا ہے۔ بیوی کی حیثیت سے بھی ایک مقام ہے اور ماں کی حیثیت سے بھی ایک مقام ہے۔ مرد کو

وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء :20)

کہہ کر یہ ہدایت فرما دی کہ عورت کا ایک مقام ہے۔ بلاوجہ بہانے بنا بنا کر اسے تنگ کرنے کی کوشش نہ کرو۔ یہ عورت ہی ہے جس کی وجہ سے تمہاری نسل چل رہی ہے۔ اور کیونکہ ہر انسان کو بعض حالات کا علم نہیں ہوتا اور مرد اس کم علمی کی وجہ سے عورتوں پر بعض دفعہ زیادتی کر جاتے ہیں اس لئے فرمایا کہ ہو سکتا ہے کہ اپنی اس کم علمی اور بات کی گہرائی تک نہ پہنچنے کی وجہ سے تم ان عورتوں سے ناپسندیدگی کا اظہار کرو،انہیں پسند نہ کرو۔ لیکن یاد رکھو کہ خداتعالیٰ جس کو ہر چیز کا علم ہے،جو ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے،اس نے اس میں تمہارے لئے بہتری کا سامان رکھ دیا ہے۔ اس لئے عورت کے بارے میں کسی بھی فیصلے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہئے۔
اسی طرح ماں کی حیثیت سے عورت کا یہ مقام بتایا کہ جنت اس کے قدموں کے نیچے ہے۔ یعنی عورت کی تربیت ہی ایسی ہے جو بچوں کو جنتوں کا وارث بنا سکتی ہے۔ پھر مردوں کو یہ بھی فرمایا کہ عورت کے جذبات کا بھی خیال رکھا کرو جیسے فرمایا

وَاللّٰہُ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجاً(النحل: 73)

یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تم میں سے ہی تمہارے جیسے جذبات رکھنے والی بیویاں بنائی ہیں۔ یعنی مردوں کو یہ تلقین فرما دی کہ بلاوجہ ذرا ذرا سی بات پر عورتوں سے بدکلامی یا تلخی کا سلوک نہ کرو۔ وہ بھی انسان ہیں، ان کے بھی تمہارے جیسے جذبات ہیں۔ ان سے ہی تمہاری نسل چل رہی ہے۔ اگر ان کو بلاوجہ کے صدمات پہنچاؤ گے تو ہو سکتا ہے کہ تمہاری نسل ہی تمہارے خلاف ہو جائے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ عورت پر مرد کے ظلم کی وجہ سے، سختی کی وجہ سے جبکہ عورت فرمانبرداری دکھانے والی بھی ہو اور اطاعت گزار بھی ہو مرد کا کہنا ماننے والی بھی ہو، اس کے گھر کی حفاظت بھی کرنے والی ہو، اس کے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والی بھی ہو اگر پھر بھی مرد اس پر زیادتی کرتا ہے تو یہ ظلم اور زیادتی ہو گی۔ پھر چونکہ یہ سب چیزیں ایسی ہیں جو عورت کے تقویٰ پر قائم رہنے کی دلیل ہیں تو مرد کے بے جا ظلم کی وجہ سے بعض دفعہ اولاد اپنے باپ کے خلاف ہو جاتی ہے۔ تودیکھیں کس طرح اللہ تعالیٰ نے عورت کے حقوق و جذبات کا خیال رکھا ہے۔ فرمایا اس لئے اپنے اوپر کنٹرول رکھو اور اس طرح تم نہ صرف عورت کے جذبات کا خیال رکھ رہے ہو گے بلکہ اپنے اور اپنی اولاد کا بھی بھلا کر رہے ہوگے۔
جیسے کہ مَیں نے کہا، بعض دفعہ اولاد صرف اس لئے بگڑ جاتی ہے،باپ کی نافرمان ہو جاتی ہے کہ وہ اپنی بیویوں سے حسن سلوک نہیں کرتے۔ پھر یہ بھی حکم دیا کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لباس ہیں یعنی مرد اور عورت ایک دوسرے کے راز داربھی ہیں۔ یہاں مردوں اور عورتوں دونوں کو حکم ہے۔ یہ راز داری ہمیشہ راز داری ہی رہنی چاہئے۔ یہ نہیں کہ کبھی جھگڑے ہوئے تو ایک دوسرے کی غیر ضروری باتوں کی تشہیر شروع کر دو،لوگوں کو بتانا شروع کر دو۔ پھر یہ بھی ہے کہ خاوند بیوی کے اگر آپس میں اچھے تعلقات ہیں،معاشرے کو پتہ ہے کہ اچھے تعلقات ہیں، تو معاشرے میں بھی عورت اور مرد کا ایک مقام بنا رہتا ہے۔ کسی کو نہ عورت پر انگلی اٹھانے کی جرأت ہوتی ہے اور نہ کسی کو مرد پر انگلی اٹھانے کی جرأت ہوتی ہے۔ تو یہاں خاوند اور بیوی کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ نہ مرد، عورت کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے اور نہ عورت، مرد کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے۔ فرمایاکہ اس سے نہ صرف تم اپنی گھریلو زندگی خوشگوار بناؤ گے، اچھے تعلقات رکھ کر، بلکہ اپنی نسلوں کو بھی محفوظ کر رہے ہو گے۔ ان کو محفوظ کرنے کے بھی سامان کر رہے ہو گے۔ تو اس طرح بہت سے حقوق اور فرائض اللہ تعالیٰ نے عورت اور مردکے رکھے ہیں اور دونوں پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ ان کی ادائیگی کریں۔ عورت بھی معاشرے کا اسی طرح اہم حصہ ہے جس طرح مرد۔ اور دونوں اگر صحیح ہوں گے تو اگلی نسل بھی صحیح طریق پر پروان چڑھے گی، اس کی تربیت بھی صحیح ہو گی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے دونوں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اور اسی لئے نکاح کے خطبے میں جس میں سے ایک آیت کی مَیں نے تلاوت کی ہے، انہی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے دونوں کو تقویٰ پر قائم رہنے کی نصیحت فرمائی ہے۔ ان میں آپس کے پیار اور محبت کے تعلقات کے بارے میں بھی فرمایا ہے۔ ایک دوسرے کے رحمی رشتوں کے بارے میں بھی فرمایا ہے۔ پھر سچ پر قائم رہنے کے بارے میں بھی فرمایا ہے کیونکہ سچ پر قائم رہ کر ہی ایک دوسرے پر اعتماد قائم ہوتا ہے اور سچ پر قائم رہ کر ہی آپس کے تعلقات کو اچھی طرح ادا کر سکتے ہو اور سچ پر قائم ہوکر ہی اپنی نسلوں کی صحیح تربیت کر سکتے ہو اور ان کو معاشرے کا ایک مفید وجود بنا سکتے ہو۔
بہت سے جھگڑے خاوند بیوی کے اس لئے ہو رہے ہوتے ہیں کہ بے اعتمادی کا شکار ہوئے ہوتے ہیں۔ عورت کو شکوہ ہوتا ہے کہ مرد سچ نہیں بولتا۔ مرد کو شکوہ ہوتا ہے کہ عورت سچ نہیں بولتی اور اس کوسچ بولنے کی عادت ہی نہیں۔ اور اکثر معاملات میں یہ ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہوتے ہیں کہ میرے سے غلط بیانی سے کام لیا یا مستقل ہر بات میں غلط بیانی کرتے ہیں یا کرتی ہے۔ پھر سچ پر قائم نہ رہنے کی وجہ سے بچوں پر بھی اثر پڑتا ہے اور بچے بھی جھوٹ بولنے کی عادت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
پھر یہ بھی نصیحت ہے کہ اگر تم اس طرح سچ پر قائم رہو گے اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش کرتے رہو گے تو خداتعالیٰ تمہاری ان کوششوں کے نتیجہ میں تمہاری اصلاح کرتا رہے گا۔ تمہیں نیکیوں پر چلنے کی توفیق دیتا رہے گا۔ تمہارے گناہوں سے، تمہاری غلطیوں سے،صَرفِ نظر کرتے ہوئے تمہارے گھروں کو جنت نظیر بنا دے گا۔ اور یاد رکھو کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کرنے سے ہی تمہیں فوز عظیم یا بڑی کامیابی عطا ہو گی۔ اور بڑی کامیابی کیا ہے؟ ہر کوئی یہ چاہتا ہے، ہر مومن کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ بڑی کامیابی حاصل کرے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی رضا اوراس کی جنتوں کو حاصل کرنا۔ اور یاد رکھو یہ کامیابیاں اور اللہ تعالیٰ کی جنتوں کا حصول اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اپنے اعمال پر نظر نہ ہو۔ حقوق اللہ بھی ادا کرو اور حقوق العباد بھی ادا کرو۔ جب تک یہ دونوں حقوق ادا نہیں ہو رہے ہوں گے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں ہو سکتی۔
جیسا کہ مَیں نے کل کے خطبے میں بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے جو درجے ہیں تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے، اللہ کا خوف اور اس کی خشیت کو دل میں قائم کرتے ہوئے، ان میں سے ہر ایک پر قدم رکھنا ضروری ہے۔ ان میں سے ہر ایک پر قدم رکھنا ہو گا۔ ہر حکم کو بجا لانا ہو گا۔ تب ہی فلاح بھی حاصل کرو گے اور جنتوں کے بھی وارث ٹھہرو گے۔ اور وہ حکم ہیں (کل مَیں نے گن کربتائے تھے۔) پہلا یہ ہے کہ اپنی نمازوں کو خشوع و خضوع سے،عاجزی سے ادا کرو۔ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو تو یہ سوچ کر کہ خدا میرے سامنے ہے پھر اس سے مانگو۔ اپنے لئے بھی مانگو، اپنے خاندوں کے لئے بھی مانگو، اپنی اولاد کے لئے بھی مانگو کہ اے اللہ تُو ہی ہمیں نیکیوں پر قائم رکھنے والا ہے۔ تُو ہمیں توفیق دے کہ ہم تیری عبادات بجا لا سکیں۔ اے اللہ ہمیں،ہماری اولاد اور ہمارے خاوندوں کو ان نیکیوں پر قائم کر۔ اور نماز کے بارے میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے حضورحاضر ہو توعاجزی دکھاتے ہوئے۔ یہ عاجزی اس وقت پیدا ہو گی جب یہ احساس ہو کہ مَیں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوں۔ حدیث میں ہے کہ اگر یہ نہیں، یہ احساس نہیں کہ مَیں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں یا اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں تو کم از کم یہ احساس ضرور ہونا چاہئے کہ خداتعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔ تبھی عاجزی بھی پیدا ہوتی ہے۔ اور عبادات میں بھی توجہ تبھی قائم رہے گی جب مختلف قسم کی جو لغویات اور فضول باتیں ہیں ان سے بچیں گی۔ اس کے لئے کوشش بھی کریں اور نمازوں میں بھی دعا کریں کہ اے اللہ ہمیں اور ہماری اولادوں کو اور ہمارے خاوندوں کو ان سے بچا، ان لغویات سے بچا۔
عورتوں کو خاص طور پر بیٹھ کرباتیں کرنے کی،لغو باتیں کرنے کی زیادہ عادت ہوتی ہے۔ ویسے یہ مردوں کو بھی ہے۔ اس سے بہرحال بچنا چاہئے۔ مثلاً یہ کہ فلاں کے کپڑے ایسے ہیں، فلاں کا گھر ایسا ہے، فلاں کے بچوں کو یہ یہ گندی عادتیں ہیں، فلاں میاں بیوی کے ایسے تعلقات ہیں۔ یہ ساری فضول باتیں ہیں، لغو باتیں ہیں۔ اگر تو واقعی ایسے ہیں تو تمہارا کام یہ ہے کہ دعا کرو۔ اللہ تعالیٰ سے مدد چاہو کہ وہ بھی ہمارے بھائی بند ہیں، وہ بھی ہماری بہنیں ہیں،اللہ تعالیٰ بہتر کرے۔ اور اگر یہ یہ برائیاں ہیں، یہ خامیاں ہیں تو وہ دور ہو جائیں۔ اگر وہ لوگ ایسے نہیں اور یہ باتیں تم صرف باتوں کا مزہ لینے کے لئے کر رہے ہو تو یہ گناہ ہے۔ اور اسلام نے عورت کا جو مقام رکھاہے یا جس مقام کی توقع کی ہے اس کا یہ تقاضا ہے کہ ہر عورت،خاص طور پر ہر احمدی عورت، ان لغویات اور گناہ کی باتوں سے پرہیز کرے۔
پھر فرمایا جب نمازوں میں توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرو گے اور لغویات سے بھی پرہیز کرنے کی کوشش کرو گے پھر اگلا قدم زکوٰۃ کی ادائیگی ہے یا مالی قربانی ہے۔ عورتوں پر عموماً زکوٰۃ فرض ہوتی ہے۔ یہاں ان ملکوں میں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب کشائش پیدا ہو چکی ہے۔ ہر ایک نے کچھ نہ کچھ زیور بنایا ہوا ہے۔ تقریباً ہر ایک پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہو گی۔ کیونکہ جو نصاب مقرر ہے جو زکوٰۃ کے لئے شرائط ہیں ان کے مطابق تقریباً پاکستانی کرنسی میں تو ڈیڑھ تولے سونے کے برابر زیور پر زکوٰۃ فرض ہو جاتی ہے۔ تو اس لحاظ سے ہر ایک کے پاس اتنا سونا ہوتا ہے کم از کم۔ اس لئے اس پہ زکوٰۃ ادا کرنی چاہئے یا بہرحال ہرملک میں قیمت کا جائزہ لے کر اندازہ کرکے تو زکوٰۃ ادا کرنی چاہئے۔ اس کے علاوہ پھر اور بھی مالی قربانیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں عورتوں نے ہمیشہ مالی قربانیوں کی اعلیٰ مثالیں قائم کی ہیں اور کرتی ہیں اور اللہ کرے کہ ہمیشہ کرتی رہیں۔
ایسی مثالیں جماعت میں ملتی ہیں جہاں بوڑھی عورتوں نے کسی تحریک پر حالانکہ خود وہ وظیفہ پر گزارہ کر رہی ہوتی تھیں یا چند مرغیاں پالی ہوئی ہیں کہ انڈے بیچ کرگزارہ کرتی تھیں روتی ہوئی آتی رہیں خلیفۂ وقت کے پاس اور وہ معمولی رقم جو ان غریب عورتوں کے لئے یقینا ایک بڑی رقم تھی خلیفۂ وقت کے ہاتھ پر رکھ دیتی رہیں۔ اور یہ مثالیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا آج بھی ملتی ہیں۔ ہر کوئی اپنی توفیق کے مطابق آج بھی مالی قربانیو ں میں حصہ لیتی ہے۔ آج بھی اپنے زیوراتار اتار کر جماعتی مقاصد کے لئے عورتیں پیش کرتی ہیں۔ بعض تو اپنے تمام زیور ہی کسی تحریک یا کسی مد میں جمع کروا دیتی ہیں یا دے دیتی ہیں۔ اور پھرساتھ ہی یہ اظہار بھی ہوتاہے کہ ہم مالی قربانیوں میں پوری طرح حصہ نہیں لے سکتے۔ تو یہ مقام آج ایک احمدی عورت کا مقام ہی ہے اور اس کو آپ نے قائم بھی رکھنا ہے انشاء اللہ تعالیٰ۔ اس کو اپنی اگلی نسلوں میں بھی پیدا کرنا اور چلانا ہے۔ تو اس طرح کی مثالیں قائم کرکے یہ عورتیں پہلوں کی وہ مثالیں قائم کرتی ہیں جہاں ہمیں یہ نظارے نظر آتے ہیں۔
جیسا کہ ایک روایت میں آتا ہے کہ’’ عبدالرحمن بن عابس روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے یہ سنا ہے کہ ان سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی عیدالاضحیٰ یا عید الفطر پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں اور اگر میرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بچپن میں ہی تعلق نہ ہوتا تو مَیں اس عہد کا مشاہدہ نہ کر پاتا۔ پھر حضرت ابن عباسؓنے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے لئے تشریف لے گئے۔ خطبہ عید دیا۔ انہوں نے اذان اور اقامت کا ذکر نہیں کیا۔ ‘‘ یہ مسئلہ بھی یہاں حل ہو گیا کہ عید پہ اذان اور اقامت وغیرہ کوئی نہیں ہوتی۔ ’’ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے پاس تشریف لے گئے ان کو وعظ و نصیحت کی اور ان کو صدقہ دینے کی تلقین فرمائی۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے عورتوں کو دیکھا کہ وہ اپنے کانوں اور اپنی گردنوں کی طرف لپکیں یعنی ان کے ہاتھ اپنے کانوں اور اپنی گردنوں کے ہاروں کی طرف گئے اور اپنے زیورات اتار اتار کر بلالؓ کو دینے لگیں۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت بلالؓاٹھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف لے گئے۔ ‘‘(بخاری کتاب النکاح باب والذین لم یبلغوا الحلم منکم)
تو یہ تھے قربانیوں کے وہ اعلیٰ معیار جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کی وجہ سے ان لوگوں میں اور پھر اس زمانے میں قائم ہوئے اور ان لوگوں میں قائم ہوئے جن کو لوگ جاہل اجڈ اور گنوار کہا کرتے تھے۔ جو اس وقت کی civilizedدنیا تھی اس زمانے میں لوگ ان کو بدّو کہا کرتے تھے۔ پس آج بھی ہمیں یہی مثالیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق آپ کے غلام صادق کی جماعت کی عورتوں میں نظر آتی ہیں۔ یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی تھی کہ وہ مسیح و مہدی جب آئے گا تو وہ آخرین کو بھی ان پہلوں سے ملائے گا۔ پس آپ وہ خوش قسمت ہیں جو ان قربانیوں میں پہلوں سے مل رہی ہیں لیکن تقویٰ میں بھی پہلوں سے ملنا ہوگا۔ ہر قدم جو اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والا ہے اس میں بھی پہلوں سے ملنا ہو گا۔ اس کے لئے بھی محنت کرنی ہو گی۔ جس طرح خوبصورت کرکے حضرت اقدس مسیح موعود نے ہمیں اسلام کی تعلیم کی خوبیاں بتائی ہیں،اس کے حسن کو اجاگر کیا ہے، اس پر عمل کرنا ہو گا۔ اور کسی پہلو سے بھی ہمارے اعمال ایسے نہ ہوں جو پہلوں سے ملانے والے نہ ہوں۔ اور احمدی عورت پر تو بہت زیادہ ذمہ داری ہے کیونکہ اس نے اگلی نسل کی بھی تربیت کرنی ہے۔
مالی قربانی کے ضمن میں یہ بات بھی یاد آ گئی کہ لجنہ جرمنی نے ایک عہد کیا ہوا ہے، ایک وعدہ کیا ہوا ہے کہ وہ برلن کی مسجد کی تعمیر کریں گی۔ اس کے لئے بھی بھرپور کوشش کریں۔ حضرت مصلح موعودؓنے اس کی تعمیر کے سلسلے میں میرا خیال ہے کہ آج سے 80سال پہلے تحریک کی تھی اور لجنہ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ ہم یہ مسجد تعمیر کریں گی۔ لیکن بہرحال اس وقت حالات ایسے نہیں تھے اور حالات نے اجازت نہیں دی، مسجد نہ بن سکی تو شاید یہی رقم مسجد فضل لندن میں استعمال ہوئی۔ تو بہرحال اس و قت بھی لجنہ نے ہی برلن میں مسجد بنانے کا عہد کیا تھا۔ پس وہ عہد جو اس وقت آپ میں سے بہت سوں کی دادیوں نے یا نانیوں نے یا ماؤں نے کیا ہو گا آپ اب اس عہد کو پوراکرنے کی کوشش کریں۔ اس وقت کی نسبت آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو بہت کشائش ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت کی نسبت سے بہت کچھ دیا ہے اس وقت جو قربانیاں لجنہ نے کرنی تھیں وہ بہت بڑی قربانیاں تھیں آج شاید اس محنت سے اتنی قربانی کا احساس نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی توفیق بڑھا دی ہے اس لئے شکرانے کے طور پر اس وعدے کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔
پھر فرمایا کہ اگلا قدم جو ہے وہ یہ ہے کہ فروج کی حفاظت کرنے والیاں یعنی حیا کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرنے والیاں ہوں اور یہ بھی کہ اپنے کان،آنکھ، منہ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچانے والی ہوں، ان کی حفاظت کرنے والی ہوں۔ اس میں جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا تھا لغویات کے سننے اور کہنے سے پرہیز کرنے والی بھی ہوں۔ کسی کو بھی آپ کی زبان سے تکلیف نہ پہنچے۔ یہاں بھی ان دنوں میں، ان جلسے کے دنوں میں خاص طور پر اور عموماً کسی کے خلاف کوئی سخت کلمہ آپ کے منہ سے نہ نکلے اور اگر کوئی لفظ نکلے تو وہ دعا ہی کا لفظ ہو جو ایک احمدی عورت کی شان ہے بلکہ ہر احمدی کی شان ہے۔ بعض دفعہ یہاں سے بعض ایسی شکائتیں بھی آتی رہیں کہ بعض اجلاسوں میں ذرا ذرا سی بات پر تُو تکار ہوئی اور پھر لڑائی شروع ہو گئی اور مرد بھی اس میں شامل ہو گئے۔ تویہ تقویٰ نہیں ہے بلکہ انتہائی گری ہوئی حرکت ہے۔ تقویٰ تو ایک طرف رہا۔
پھر ایسی مجلسوں میں بیٹھ کرباتیں بھی نہیں سننی چاہئیں جہاں کسی کے خلاف کوئی چغلی ہو رہی ہو۔ کسی کے خلاف کوئی بات ہو رہی ہو۔ کسی کا مذاق اڑایا جا رہا ہو، استہزا ء کیا جا رہا ہو، ٹھٹھّا کیا جا رہا ہو۔ پھر آنکھوں کو بھی حیا سے رکھیں۔ نظریں نیچی رکھیں اور تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم کریں۔ اسی حکم میں اللہ تعالیٰ کا ایک حکم پردے کا بھی ہے، اس کی پابندی کرنی بھی ضروری ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ آج کل پردہ پر حملے کئے جاتے ہیں لیکن یہ لوگ نہیں جانتے کہ اسلامی پردہ سے مراد زنداں نہیں ‘‘یعنی قید خانہ نہیں ہے’’ بلکہ ایک قسم کی روک ہے کہ غیر مرد اور عورت ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکے۔ جب پردہ ہو گا ٹھوکر سے بچیں گے۔ ایک منصف مزاج کہہ سکتا ہے کہ ایسے لوگوں میں جہاں غیر مرد و عورت اکٹھے بلا تأمل اور بے محابا مل سکیں، سیریں کریں، کیونکر جذبات نفس سے اضطرارًا ٹھوکر نہ کھائیں گے۔ بسا اوقات سننے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی قومیں غیر مرد اور عورت کے ایک مکان میں تنہا رہنے کو حالانکہ دروازہ بھی بند ہو، کوئی عیب نہیں سمجھتیں۔ یہ گویا تہذیب ہے۔ انہی بدنتائج کو روکنے کے لئے شارع الاسلام نے وہ باتیں کرنے کی اجازت ہی نہ دی جو کسی کی ٹھوکر کا باعث ہوں۔ ایسے موقعہ پر یہ کہہ دیا کہ جہاں اس طرح غیر محرم مرد و عورت ہر دو جمع ہوں تیسرا ان میں شیطان ہوتا ہے۔ ان ناپاک نتائج پر غور کرو جو یورپ اس خلیع الرسن تعلیم سے بھگت رہا ہے۔ ‘‘ یعنی کہ بالکل آزادی کی جو رسم ہے۔ ’’بعض جگہ بالکل قابل شرم طوائفانہ زندگی بسر کی جا رہی ہے۔ یہ انہیں تعلیمات کا نتیجہ ہے۔ اگر کسی چیز کو خیانت سے بچانا چاہتے ہو تو حفاظت کرو۔ لیکن اگر حفاظت نہ کرو اور یہ سمجھ رکھو کہ بھلے مانس لوگ ہیں تو یاد رکھو کہ ضرور وہ چیز تباہ ہو گی۔ اسلامی تعلیم کیسی پاکیزہ تعلیم ہے کہ جس نے مرد و عورت کو الگ رکھ کر ٹھوکر سے بچایا اور انسان کی زندگی حرام اور تلخ نہیں کی جس کے باعث یورپ نے آئے دن کی خانہ جنگیاں اور خود کشیاں دیکھیں۔ بعض شریف عورتوں کا طوائفانہ زندگی بسر کرنا ایک عملی نتیجہ اس اجازت کا ہے جو غیر عورت کو دیکھنے کے لئے دی گئی‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 22-21۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
تو یہ جو فروج کی حفاظت کا حکم ہے اس کے لئے بھی پردہ انتہائی ضروری ہے اس لئے اس خدائی حکم کو بھی کوئی معمولی حکم نہ سمجھیں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ پردے کے خلاف جو لوگ بولتے ہیں وہ پہلے مردوں کی اصلاح تو کر لیں پھر اس بات کو چھیڑیں کہ آیا پردہ ضروری ہے یا نہیں۔
پھر فرمایا کہ اپنی امانتوں اور عہدوں کا پاس کرنے والے اصل فلاح پانے والے اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے ہیں۔
اب میاں بیوی کے نکاح کا عہد بھی ایک عہدہے کہ ایک دوسرے کے وفادار رہیں گے۔ ایک عہدہے کہ ایک دوسرے کے رازوں کو راز رکھیں گے۔ اس بار ے میں پہلے بھی مَیں کہہ آیا ہوں۔ پھر اپنے معاشرے میں اپنے روزمرہ معمولات میں انسان بہت سے وعدے کرتا ہے ان کو پورا کرنا بھی ضروری ہے۔ پھر امانتوں کا پاس کرنا ہے۔ اب صرف کسی کی رقم یا کسی کی چیز کی امانت ہی امانت نہیں ہے بلکہ اگر کسی کا راز پتہ چلے تو یہ بھی امانت ہے۔ کسی کا راز آپ کے علم میں آتا ہے تو وہ راز آپ کے پاس امانت ہے۔ اگر آپ کی وجہ سے وہ کہیں باہر نکلتا ہے تو اس میں خیانت کر رہی ہیں۔ اگر کسی مجلس میں گئی ہیں اور وہاں کسی کی کوئی بات سن لیں تو یہ بھی امانت ہے۔ اگر کسی سہیلی نے، دوست نے، آپ سے کوئی مشورہ مانگ لیا تو یہ بھی امانت ہے۔ تو جو بات اس نے کہی ہے وہ آگے کسی اور تک نہ پہنچے۔ اور دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ دوسرے کو یہ باتیں پتہ نہ لگیں ورنہ خداتعالیٰ کی نظر میں آپ خائن کہلائیں گی، خیانت کرنے والی کہلائیں گی۔ تو دیکھیں کس باریکی سے ہمیں امانتوں کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
پھر فرمایا ہے کہ یہ سب کام تقویٰ کے کام ہیں،اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا کرنے والے کام ہیں۔ اس کا پیار حاصل کرنے والے کام ہیں اور اس کی جنتوں کو حاصل کرنے والے کام ہیں۔ لیکن یہ کام، یہ سب کام سجا کر خوبصورت طریقے سے پیش کرنے کے تب قابل ہوں گے جب ہم اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کرنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کی غرض و غائت یا مقصد عبادت بتایا ہے اور فرمایا ہے کہ مَیں نے اس لئے جنوں اور انسانوں کو پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔ اور عبادت کا بہترین ذریعہ ہمیں یہ بتا دیا کہ نمازوں کی حفاظت کرو، نمازیں وقت پر ادا کرو۔ اور جو پہلے قدم پر خشوع و خضوع حاصل کرنے کی کوشش کی تھی اب اس پر قائم ہو جاؤ اور اس خشوع و خضوع اور ذوق عبادت کو قائم رکھو اور آپ کی چونکہ مزید ذمہ داری بھی ہے آپ کے سپرد ایک امانت بھی کی گئی ہے جس کی ادائیگی آپ نے کرنی ہے اس لئے ان نمازوں کی حفاظت نہ صرف خود کرنی ہے بلکہ اپنی اولادوں کو بھی اس کی عادت ڈالنی ہے۔ تبھی آپ اولاد کی تربیت کی جو امانت آپ کے سپرد کی گئی ہے اس کا صحیح حق ادا کرنے والی ہوں گی۔ ان میں بھی یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ وہ بھی نمازوں کی حفاظت کریں۔ جب یہ معیار آپ حاصل کرلیں گی تو پھر بے فکر ہو جائیں۔ نہ صرف آپ بلکہ آپ کی اولادیں بھی فلاح پاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی جنتوں کی وارث بنیں گی۔ اور یہ سلسلہ اگر یونہی چلتا رہا ایک کڑی سے دوسری کڑی ملتی گئی تو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں عبادالرحمن پیدا ہوتے رہیں گے۔ ہمیشہ تقویٰ پر قائم رہنے والے پیدا ہوتے رہیں گے۔ اور یوں آپ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں بھی آ جائیں گی۔ اور شیطان کبھی آپ کو یا آپ کی اولاد کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ پس یہ تقویٰ کے معیار پیدا کرنے بہت ضروری ہیں۔ اس طرف فکر سے توجہ کرنی چاہئے۔
عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ(الطلاق:4-3)۔ یعنی جوشخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے گا اس کو اللہ تعالیٰ ایسے طور سے رزق پہنچائے گا کہ جس طور سے معلوم بھی نہ ہو گا۔ ’’ عورتوں کو بعض دفعہ رزق کی بڑی فکر ہوتی ہے فرمایاکہ ’’رزق کا خاص طور سے اس واسطے ذکر کیا کہ بہت سے لوگ حرام مال جمع کرتے ہیں۔ اگر وہ خداتعالیٰ کے حکم پر عمل کریں اور تقویٰ سے کام لیویں تو خداتعالیٰ خود ان کو رزق پہنچاوے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ (الاعراف:197)جس طرح پر ماں بچے کی متولّی ہوتی ہے اسی طرح پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں صالحین کا متکفل ہوتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس کے دشمنوں کو ذلیل کرتا ہے اور اس کے مال میں طرح طرح کی برکتیں ڈال دیتا ہے۔ انسان بعض گناہ عمدًا بھی کرتاہے اور بعض گناہ اس سے ویسے بھی سرزد ہوتے ہیں۔ جتنے انسان کے عضو ہیں ہر ایک عضو اپنے اپنے گناہ کرتا ہے انسان کا اختیار نہیں کہ بچے۔ اللہ تعالیٰ اگر اپنے فضل سے بچاوے تو بچ سکتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے گناہ سے بچنے کے لئے یہ آیت ہے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن۔ جو لوگ اپنے رب کے آگے انکسار سے دعا کرتے رہتے ہیں شاید کوئی عاجزی منظور ہو جاوے تو ان کا اللہ تعالیٰ خود مددگار ہو جاتا ہے۔ کوئی شخص عابد بہت دعا کرتا تھا کہ یااللہ تعالیٰ مجھ کو گناہوں سے آزادی دے۔ اس نے بہت دعا کرنے کے بعد سوچا کہ سب سے زیادہ عاجزی کیونکر ہو۔ ‘‘یعنی عاجز بننا چاہئے گناہوں سے نجات حاصل کرنی چاہئے تو یہ جو عاجزی ہے کس طرح حاصل کی جائے۔ سب سے ایسا درجہ جو عاجزی کے لحاظ سے بڑا درجہ ہو وہ کیا ہو سکتا ہے۔ تو اس نے پھر سوچا۔ فرمایا کہ’’ معلوم ہوا کہ کتیّ سے زیادہ عاجز کوئی نہیں۔ ‘‘ کتّا ایسا ہے جو عاجز ہوتا ہے’’ تو اس نے اس کی آواز سے رونا شروع کیا۔ کسی اور شخص نے سمجھا کہ مسجد میں کتا آ گیا ہے‘‘ مسجد میں وہ عبادت کر رہا تھا تو اس نے کہا کہ ’’ایسا نہ ہو کہ کوئی میرا برتن پلید کر دیوے تو اس نے آ کر دیکھا تو عابدہی تھا۔ ‘‘وہ عبادت کرنے والا جو تھا وہی تھا وہاں۔ ’’کتا کہیں نہ دیکھا۔ آخر اس نے پوچھاکہ یہاں کتا رو رہا تھا۔ اس نے کہا کہ مَیں ہی کتا ہوں۔ پھر پوچھا کہ تم ایسے کیوں رو رہے تھے ؟کہا کہ خداتعالیٰ کو عاجزی پسند ہے اس واسطے مَیں نے سوچا کہ اس طرح میری عاجزی منظور ہو جاوے گی۔ ‘‘ تو بعض لوگوں نے اس طرح بھی طریق اختیار کئے ہیں۔ پھر فرمایا کہ ’’ حضرت ابراہیمؑنے اپنے لڑکے کے واسطے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جاوے۔ اسی طرح انسان کو چاہئے کہ دعا کرے بہت سے شخص ایسے ہوتے ہیں کہ کسی گناہ سے نہیں بچتے لیکن اگر ان کو کوئی شخص بے ایمان یا کچھ اور کہہ دیوے تو بڑے جوش میں آتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم تو کوئی گناہ نہیں کرتے پھر ہم کو یہ کیوں کہتا ہے۔ اس طرح انسان کو معلوم نہیں کہ کیاکیا گناہ اس سے سرزد ہوتے ہیں۔ پس اس کو کیا خبر ہے کہ کیا کچھ لکھا ہوا ہے۔ پس انسان کو چاہئے کہ اپنے عیبوں کو شمار کرے‘‘ اپنی جو غلطیاں ہیں، خامیاں ہیں کوتاہیاں ہیں ان کو گنتا رہے دیکھتا رہے ’’او ردعا کرے پھر اللہ تعالیٰ بچاوے تو بچ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں مانوں گا۔

اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ(المومن:61)‘‘

فرمایا:
’’ دو چیزیں ہیں ایک تو دعا کرنی چاہئے۔ دوسرا طریق یہ ہے

کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ۔

راستبازوں کی صحبت میں رہو تا کہ ان کی صحبت میں رہ کرکے تم کو پتہ لگ جا وے کہ تمہارا خدا قادر ہے،بینا ہے۔ ‘‘ یعنی دیکھنے والا ہے’’ سننے والا ہے۔ دعائیں قبول کرتا ہے اور اپنی رحمت سے بندوں کو صدہا نعمتیں دیتا ہے۔ جو لوگ ہر روز نئے گناہ کرتے ہیں وہ گناہ کو حلوے کی طرح شیریں خیال کرتے ہیں ‘‘۔ یعنی جن لوگوں کو گناہ کی عادت پڑ جاتی ہے ہر روز ایک نیا گناہ کرتے ہیں اور پھر اس کو کچھ سمجھتے بھی نہیں بلکہ جس طرح کوئی حلوہ کھا جاتا ہے میٹھا سمجھ کے، اس طرح کھا جاتے ہیں۔ ’’ ان کو خبر نہیں کہ یہ زہر ہے کیونکہ کوئی شخص سنکھیا جان کرنہیں کھا سکتا‘‘۔ سنکھیا ایک زہر ہے۔ ’’کوئی شخص بجلی کے نیچے نہیں کھڑا ہوتا اور کوئی شخص سانپ کے سوراخ میں ہاتھ نہیں ڈالتا۔ اور کوئی شخص کھانا شکی نہیں کھا سکتا۔ اگرچہ اس کو کوئی دو چار روپے بھی دے۔ پھر باوجود اس بات کے جو یہ گناہ کرتا ہے کیا اس کو خبر نہیں ہے۔ پھر کیوں کرتا ہے؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس کا دل مُضرّ یقین نہیں کرتا‘‘۔ اس کے دل میں یہ یقین نہیں ہے کہ یہ نقصان دہ ہے۔ ’’ اس واسطے ضرور ہے کہ آدمی پہلے یقین حاصل کرے۔ جب تک یقین نہیں، غور نہیں کرے گا اور کچھ نہ پائے گا۔ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے پیغمبروں کا زمانہ بھی دیکھ کر ان کو ایمان نہ آیا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے غور نہیں کی۔ دیکھو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا (بنی اسرائیل:16)

کہ ہم عذاب نہیں دیا کرتے جب تک کوئی رسول نہ بھیج دیویں اور

وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّھْلِکَ قَرْیَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْھَا فَفَسَقُوْا فِیْھَا فَحَقَّ عَلَیْھَا الْقَوْلَ فَدَمَّرْنَاھَا تَدْمِیْرًا(بنی اسرآئیل:17)۔

پہلے امراء کو اللہ تعالیٰ مہلت دیتا ہے۔ وہ ایسے افعال کرتے ہیں کہ آخر ان کی پاداش میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔ غرضیکہ ان باتوں کو یاد رکھو اور اولاد کی تربیت کرو۔ زنا نہ کرو۔ کسی شخص کا خون نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے ساری باتیں ایسی رکھی ہیں جو بہت عمدہ زندگی تک پہنچاتی ہیں۔ عہد کرو اور عہد کو پورا کرو۔ اگرتکبرکرو گی تو تم کو خدا ذلیل کرے گا۔ یہ ساری باتیں بری ہیں ‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 375-374۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
تکبر سے بھی بچنا چاہئے۔ بہت بُری عادت ہے۔
پھر فرمایا کہ:
’’ بیعت کی خالص اغراض کے ساتھ جو خدا ترسی اور تقویٰ پر مبنی ہیں دنیا کے اغراض کو ہرگز نہ ملاؤ۔ نمازوں کی پابندی کرو اور توبہ و استغفار میں مصروف رہو۔ نوع انسان کے حقوق کی حفاظت کرو اور کسی کو دکھ نہ دو۔ راستبازی اور پاکیزگی میں ترقی کرو تو اللہ تعالیٰ ہر قسم کا فضل کر دے گا ‘‘۔
مردوں کو یہ فرمایا کہ:
’’ عورتوں کو بھی اپنے گھروں میں نصیحت کرو کہ وہ نماز کی پابندی کریں اور ان کو گلہ شکوہ اور غیبت سے روکو۔ پاکبازی اور راستبازی ان کو سکھاؤ۔ ہماری طرف سے صرف سمجھانا شرط ہے اس پر عملدرآمد کرنا تمہارا کام ہے‘‘۔
پھر فرمایا:
’’ پانچ وقت اپنی نمازوں میں دعا کرو۔ اپنی زبان میں بھی دعا کرنی منع نہیں ہے۔ نماز کا مزا نہیں آتا ہے جب تک حضور نہ ہو اور حضورِ قلب نہیں ہوتا ہے جب تک عاجزی نہ ہو۔ عاجزی جب پیدا ہوتی ہے جو یہ سمجھ آ جائے کہ کیا پڑھتا ہے۔ اس لئے اپنی زبان میں اپنے مطالب پیش کرنے کے لئے جوش اور اضطراب پیدا ہو سکتا ہے۔ مگر اس سے یہ ہرگز نہیں سمجھنا چاہئے کہ نماز کو اپنی زبان ہی میں پڑھو۔ نہیں۔ میرا یہ مطلب ہے کہ مسنون ادعیہ اور اذکار‘‘ دعائیں ہیں اور ذکر ہیں جو مسنون ہیں جو عربی میں سکھائی گئیں اس’’ کے بعد اپنی زبان میں بھی دعا کیا کرو۔ ورنہ نماز کے ان الفاظ میں خدا نے ایک برکت رکھی ہوئی ہے۔ نماز دعا ہی کا نام ہے۔ اس لئے اس میں دعا کرو کہ وہ تم کو دنیا اور آخرت کی آفتوں سے بچاوے اور خاتمہ بالخیر ہو۔ اپنے بیوی بچوں کے لئے بھی دعا کرو۔ نیک انسان بنو اور ہر قسم کی بدی سے بچتے رہو۔ ‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 435-434۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
اب یہ مردوں کے لئے بھی نصیحت ہے،عورتوں کے لئے بھی نصیحت ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ تقویٰ پر رہتے ہوئے زندگیاں گزارنے کی توفیق عطافرمائے۔ ہم سب اس کے تمام احکام پر عمل کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق دے کہ آپ بحیثیت احمدی عورت کے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والی ہوں اور اپنی نسلوں کو بھی بچانے والی ہوں۔ اس معاشرے میں جہاں بچوں اور بچیوں کو آزادی کی عادت پڑ گئی ہے۔ جلدی عادت پڑ جاتی ہے بعضوں کو، اس طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ اگر مائیں اپنے آپ کو سنبھال لیں گی تو انشاء اللہ تعالیٰ پھر کوئی فکر نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اگلی نسلیں بھی سنبھلتی چلی جائیں گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنے اعلیٰ نمونے قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اب دعا کر لیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں