سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس اید اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا لجنہ سے خطاب فرمودہ 25؍جون 2011ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحاً فَاِنَّہٗ یَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَاباً ۔ وَالَّذِیْنَ لَایَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا۔وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْھَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًَا ۔ وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا(سورۃ الفرقان72تا 75)
اور جو توبہ کرے اور نیک اعمال بجا لائے تو وہی ہے جو اللہ کی طرف توبہ کرتے ہوئے رجوع کرتا ہے۔ اور وہ لوگ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب لغویات کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزرتے ہیں۔ اور وہ لوگ کہ جب انہیں ان کے رب کی آیات یاد کروائی جاتی ہیں تو ان پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے۔ اور وہ لوگ جو کہتے ہیں ۔ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرمااور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے۔
یہ آیات جومَیں نے تلاوت کی ہیں اجلاس کے شروع میں بھی آپ کے سامنے تلاوت کی گئی تھیں۔ اسلام میں کسی گناہ کے کفّارہ کا تصور کسی کی خاطر کفّارہ ادا کرنے یا مرنے سے ادا ہونے کا نہیں ہے۔بلکہ ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے اور وہ اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ قرآنِ کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مختلف عہد جو تم نے کئے ہیں تم اُن سے متعلق پوچھے جاؤ گے۔ فرمایاکہ اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلًا (بنی اسرائیل:35) کہ اپنے عہد پورے کرو۔ہر عہد کے بارے میں یقینا ایک دن جواب طلبی ہو گی۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَلَاتَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَاُخْرٰی۔وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَۃٌ اِلٰی حِمْلِھَا لَایُحْمَلْ مِنْہُ شَیْئٌ وَّلَوْکَانَ ذَا قُرْبٰی۔ اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِ وَ اَقَامُواالصَّلٰوۃَ۔وَمَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفْسِہٖ۔وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ(سورۃ الفاطر:19)
اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی اور اگر کوئی بوجھ سے لدی ہوئی اپنے بوجھ کی طرف بلائے گی تو اس کے بوجھ میں سے کچھ بھی نہ اٹھایا جائے گا خواہ وہ قریبی ہی کیوں نہ ہو۔ تو صرف ان لوگوں کو ڈرا سکتا ہے جو اپنے رب سے اس کے غیب میں ہونے کے باوجود ترساں رہتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور جو بھی پاکیزگی اخیتار کرے تو اپنے ہی نفس کی خاطر پاکیزگی اختیار کرتا ہے اور اللہ کی طرف ہی آخری ٹھکانا ہے۔
پس ایک احمدی کی چاہے وہ عورت ہے یا مرد ہے پہلے تو یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عہد نبھائے اور جن شرائطِ بیعت پر ایک عورت اور ایک مرد نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کا عہد کیا ہے اُن کو پورا کرے۔ اگر اُن شرائط کو پورا نہیں کرے گا تو اللہ تعالیٰ کے آگے جوابدہ ہے۔ اگر ہمارا یہ ایمان ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ کی طرف ہی لوٹنا ہے اور یقیناً ہر احمدی کا یہ ایمان ہے اور ہونا چاہئے کیونکہ اس کے بغیر تو ایک کھوکھلا دعویٰ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا سب سے بڑا مقصد ہی یہ ہے کہ بندے کو خدا کے قریب کرنا اور خدا سے تعلق پیدا کرنا اور خدا کی پہچان کروانا تو پھر ہمیں اُن باتوں کو دیکھنا ہوگا جو خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ صرف اس بات پر راضی نہیں ہو جائے گا کہ تم نے مسیح موعود کو مان لیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کرنے والے اور آپ کے ارشاد کی تعمیل کرنے والے بن گئے یا بن گئی اور اس سے بخشش کے سامان ہو جائیں گے۔ اور یہی خالی خولی بیعت ہمارے گناہوں کا کفّا رہ بن جائے گی، یا اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی بن جائے گی۔ فرماتا ہے ایسا نہیں ہوگا بلکہ اپنے دل کو اللہ تعالیٰ کے خوف سے بھرا رکھتے ہوئے اُس کے احکامات پر عمل کرنا ہوگا۔ جیسا کہ اس آیت میں واضح ہے کہ اپنے بوجھ آپ ہی اُٹھانے پڑیں گے۔ اگر کوئی گناہ کرتا ہے، اگر کوئی خدا تعالیٰ کی باتوں پر کان نہیں دھرتا ،توجہ نہیں دیتا تو اس کا وہ خود ذمہ دار ہے۔ فرمایا کہ یہاں تک واضح ہو کہ تمہارے بڑے قریبی بھی جو تمہاری خاطر قربانیاں کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں وہ بھی اُس دن کسی کام نہیں آئیں گے بلکہ تمہارے عمل جو تم اللہ تعالیٰ کے خوف سے بجا لاتی رہی ہو، وہ تمہارے کام آئیں گے۔ تمہاری نمازیں جو خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے ادا کی جاتی ہیں وہ تمہارے کام آئیں گی۔ تمہاری اپنے نفس کو ہر غیر اللہ سے پاک رکھنے کی کوششیں تمہیں اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی بنیں گی۔ پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایک حقیقی مسلمان کے لئے کوئی کفّارہ کا تصور نہیں ہے بلکہ دلوں کی نیکیاں ہیں، پاک عمل ہیں، اللہ تعالیٰ کا غیب میں بھی خوف ہے جو انسانوں کے کام آنے والا ہے، ایک مومن کے کام آنے والا ہے۔
اب غیب کے حوالے سے قرآنِ کریم میں عورت کو کیا نصیحت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ (النسآء: 35) پس نیک عورتیں فرمانبردار اور غیب میں بھی ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں جن کی حفاظت کی اللہ تعالیٰ نے تاکید کی ہے۔ غیب میں بھی وہی نیکیوں پر قائم رہ سکتی ہے یا رہ سکتا ہے، وہی شخص فرمانبردار ہوسکتا ہے وہی عورت فرمانبردار ہو سکتی ہے، وہی اپنے اور اپنے خاوندوں کے رازوں کی حفاظت کر سکتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ پر یقین ہو، اُس کا خوف ہو۔ اللہ تعالیٰ کی خشیت اُس کے دل میں ہو۔
غیب میں جن چیزوں کی حفاظت کا حکم ہے اُن میں اپنے خاوند کے بچوں کی تربیت کی نگرانی اور اُن کی دیکھ بھال بھی ہے۔ یہ نہیں کہ خاوند گھر سے باہر اپنے کام کے لئے نکلا تو عورت نے بھی اپنا بیگ اُٹھایا اور بچوں کو گھر میں چھوڑا اور اپنی مجلسیں لگانے کے لئے نکل پڑی۔ یا بچوں کی تربیت کی طرف صحیح توجہ نہیں دی۔ ایک بہت بڑی ذمہ داری عورت پر بچوں کی تربیت کی ہے۔ اِس کو پورا نہ کر کے وہ نہ صَالِحَات میں شمار ہو سکتی ہے، نہ قَانِتَات میں شمار ہوسکتی ہے، نہ اُس نسل کی حفاظت کا حق ادا کر سکتی ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اُس پر ڈالی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عورت اپنے گھر کی نگران ہے اور اُس کے بارے میں اُس سے پوچھا جائے گا۔
(بخاری کتاب الاستقراض و اداء الدیوان… باب العبد راع فی مال سیدہ… حدیث 2409)
اوربچوں کی حفاظت اور تربیت کی بہت بڑی ذمہ داری عورت پر ہے۔ پس ہر احمدی عورت کو اس بات کو سامنے رکھنا چاہئے۔ اسی طرح ہر لڑکی جس کی ابھی شادی نہیں ہوئی اور نوجوانی کی عمر کو پہنچی ہوئی ہے اُس کا شمار حَافِظَات اور فرمانبرداروں میں تب ہو گا جب وہ اپنے تقدس کی حفاظت کر رہی ہو گی۔ گھر سے باہر نکلتے ہوئے اُس کو اللہ تعالیٰ کا خوف ہوگا۔ اُس کا لباس اُس کے تقدس کی پہچان ہوگی۔ یہ نہیں کہ مغربی معاشرے سے متاثر ہو کر اپنے لباسوں کو اتار دو۔ اپنے تقدس کا خیال نہ رکھو۔ اپنی حیا کا خیال نہ رکھو۔ نہیں۔جب یہ چیزیں ہوں گی تبھی آپ صَالِحَات کہلائیں گی۔ تبھی قَانِتَات کہلائیں گی۔ تبھی حفاظت کرنے والی کہلائیں گی۔ بیشک ماں باپ، بڑے رشتہ دار یا جماعت کے افراد کسی کو نہیں دیکھ رہے، لیکن ہمیشہ یہ یاد رہے کہ خدا تعالیٰ جو ہر غیب کا علم رکھتا ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے۔ وہ تمہارے ہر عہد کے بارے میں تم سے پوچھے گا۔ اور ہر احمدی عورت اور مرد نے تقویٰ پر چلنے کا عہد کیا ہے۔ اس لئے اپنی حالتوں پر نظر رکھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ورنہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ہر ایک اپنے بوجھ اُٹھا کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوگا اور یہ بڑے خوف کا مقام ہے۔ دنیا کی دولت، مال اسباب یہیں رہ جانے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور نیک اعمال ہی پیش ہونے ہیں۔ پس توبہ استغفار سے ہمیں اپنے اعمال کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مضمون کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحاً فَاِنَّہٗ یَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَابًاً (الفرقان:72) کہ اور جو توبہ کرے اور نیک اعمال بجا لائے وہی ہے جو حقیقی مومن ہوتا ہے۔
پس حقیقی توبہ صرف زبانی توبہ نہیں ہے بلکہ اعمالِ صالحہ کے ساتھ اُس کو سجانے کی ضرورت ہے۔ اب جس نے حقیقی توبہ کی ہے وہ ہمیشہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو سامنے رکھے گی۔ اس لئے کہ یہ بات اُس عمل سے اسے کراہت دلوائے گی، نفرت پیدا کرے گی۔ اور جب کراہت پیدا ہو گی تو پھر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے صدقہ اور خیرات کی طرف توجہ ہو گی۔ وہ عمل جو خدا تعالیٰ کو نا پسندیدہ ہیں کبھی نہ کرنے کا وہ عہد بھی کرے گی۔
پھر بعض لوگ ہیں، بعض عورتیں ہیں اپنی بعض رنجشوں میں مثلاً اُن کی یہ عادت ہوتی ہے کہ دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں یا کوشش کرتی ہیں۔ دلوں میں کینے اور بُغض پنپتے رہتے ہیں۔حقیقی توبہ یہ ہے کہ جن سے رنجشیں ہیں اُن سے نہ صرف صلح کرو بلکہ اُن کے نقصان کا ازالہ کرو۔ اور یہ ازالہ جب توبہ کے ساتھ ہو گا تو وہی نیک عمل ہو گا، وہی عملِ صالح ہو گا۔ بعض خاوند، بیویاں، ساس ،بہوئیں، نندیں، بھابیاں مجھے تو خط لکھ دیتی ہیں کہ ہم سے غلطی ہوگئی اور ہم آئندہ ایسا کریں گی یا نہیں کریں گی لیکن جن کو نقصان پہنچایا ہوتا ہے یا جس کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہوتی ہے، اس سے نہ معافی مانگتی ہیں نہ اظہارِ ندامت کرتی ہیں۔ بہرحال اس طرف عورتوں کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور مردوں کو بھی، کیونکہ مَردوں کا بھی یہی حال ہے۔ دنیاوی لالچیں اس طرح غالب آ جاتی ہیں کہ خدا کا خوف بالکل ختم ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ بعض لوگ ظاہری طور پر تو معذرت بھی کر لیتے ہیں لیکن بُغض اور کینے جیسا کہ میں نے کہا اندر ہی اندر پک رہے ہوتے ہیں اور جب بھی موقع ملے پھر نقصان پہنچانے کی کوشش ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حقیقی توبہ کو نیک عمل کے ساتھ مشروط کر دیا ہے، کہ اگر نیک عمل ہوگا تو حقیقی توبہ ہو گی۔ اگر کسی غلطی کا مداوا اور ازالہ ہو گا تو پھر ہی توبہ قبول ہو گی۔ اور جب یہ ہو تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسے لوگ حقیقی رنگ میں اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والے ہیں۔ اس بارے میں اَور جگہ بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ پس ہمیں ایسی توبہ اور استغفار کی ہر وقت تلاش رہنی چاہئے جو حقیقی توبہ ہو۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے۔ وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اھْتَدٰی (طٰہٰ:83) کہ اور یقیناً میں بہت بخشنے والا ہوں اُسے جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے پھر ہدایت پر قائم رہے۔ اب یہاں فرمایا کہ ہدایت پر قائم رہے۔ پس مزید واضح کر دیا کہ توبہ کے ساتھ عملِ صالح ضروری ہے اور یہاں عملِ صالح کی مزید ہدایت فرما دی اورتلقین فرما دی کہ کوئی غلط فہمی نہ رہے کہ مَیں نے خود آگے بڑھ کر صلح کرلی ہے بلکہ فرمایا کہ یہ جو ہدایت کا کام تم نے کیا ہے اگر یہ تمہارے نزدیک عملِ صالح ہے تو یہ ایک دفعہ کا عمل نہیں ہے کہ توبہ کرلی اور مَیں نے صلح کر لی اور معافی مانگ لی، بلکہ پھر اس پر ہمیشہ کے لئے قائم بھی رہنا ہے۔ اورہدایت پریہ قائم رہنا تمہیں پھر خدا تعالیٰ کا قرب دلائے گا۔
پس دل صاف ہونے کا دعویٰ تبھی قابلِ قبول ہے جب اس پر قائم بھی ہو اور ہدایت پر نہ صرف قائم ہو بلکہ پھر ہر عورت کی، ہر مرد کی، ہر احمدی کی عملِ صالح ایک پہچان بن جائے اور یہ پہچان دوسروں کے لئے بھی سبق اور نمونہ ہو۔ اب ہر کوئی اپنے دل کو ٹٹول کر دیکھ سکتا ہے۔ کیونکہ اگر حقیقت میں دل کو ٹٹولا جائے تو اپنے ضمیر کا فیصلہ سب سے اچھا فیصلہ ہوتا ہے بشرطیکہ دل صاف ہو، بشرطیکہ خدا تعالیٰ کا خوف ہو کہ کیا میری توبہ حقیقی ہے؟ کیا میرا عملِ صالح اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہے؟ اور اگر ہے تو کیا مَیں خالصتاً للہ اب نیکیوں کو اختیار کرنے اور برائیوں کو چھوڑنے پر سختی سے قائم ہوں؟ کچھ عرصے کے بعد جب آدمی جائزہ لیتا ہے تو پتہ لگ جاتا ہے کہ قائم ہوں کہ نہیں ہوں۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کا ایک ٹیسٹ ہے جو ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں، توبہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہدایت پر قائم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور وہ ٹیسٹ یہ ہے کہ لَایَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ (الفرقان :73) کہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ اللہ تعالیٰ ایک جگہ گواہی کے متعلق فرماتا ہے کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَٓاءَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ (النساء :136) کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر گواہ بنتے ہوئے انصاف کو مضبوطی سے قائم کرنے والے بن جاؤ خواہ خود اپنے خلاف گواہی دینی پڑے یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف گواہی دینی پڑے۔
پس دیکھیں یہ خوبصورت تعلیم اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہے۔ ہم دنیا کو بتانے کے لئے تو یہ دعوے کرتے رہتے ہیںکہ اسلام کی یہ خوبصورت تعلیم ہے اور اسلام کی وہ خوبصورت تعلیم ہے۔ اور جماعت احمدیہ دنیا میں انصاف اور محبت کا پرچار کرتی ہے لیکن اگر ہمارے عمل ہمارے قول کے خلاف ہیں تو ہم اپنے نفس کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں اور دنیا کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں۔ اب یہ بڑا مشکل مسئلہ ہے کہ انسان اپنے خلاف گواہی دے۔ صلح بھی کر لی، توبہ بھی کرلی، عملِ صالح بھی کر لیا لیکن کچھ عرصہ بعد اگرکہیں ایسا موقع آئے کہ جہاں سچ بول کر اپنے خلاف گواہی دینی پڑے تو دل کو ٹٹولیں کہ کیاہم ایسے ہیں جو سچائی پر قائم رہتے ہوئے اپنے خلاف گواہی دینے والے بنیں گے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ لوگ تو جھوٹ بول کر اپنے آپ کو بچاتے ہیں۔لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اگر اپنے گھروں میں امن قائم کرنا چاہتی ہو یا اپنے معاشرے میں امن قائم کرنا چاہتی ہو تو کبھی جھوٹ کا سہارا نہ لو یہاں تک کہ اپنے خلاف بھی گواہی دینی پڑے تو دو۔ اپنی غلطی کا اعتراف کرو۔ اپنے والدین کے خلاف گواہی دینی پڑے تو دو۔ اپنے قریبی دوستوں، رشتہ داروں کے خلاف گواہی دینی پڑے تو دو۔ اگر اس ایک بات کو ہر احمدی عورت اور مرد پلّے باندھ لے تو گھروں کے فساد ختم ہو جائیں۔ قضا میں معاملات آتے ہیں، اکثر میں نے دیکھا ہے، بات کو طول دینے کے لئے اپنے حق میں فیصلے کروانے کے لئے جھوٹ پر بنیاد ہو جاتی ہے۔ بعض دفعہ عورت کی طرف سے بھی اپنے کیس کو مضبوط کرنے کے لئے جھوٹ بولا جا رہا ہوتاہے اور مرد کی طرف سے بھی اپنے معاملے کو مضبوط کرنے کے لئے جھوٹ بولا جا رہا ہوتا ہے۔ اور پھر وکیل اور مشورہ دینے والے دوسرے لوگ جو اس کام پر مقرر کئے جاتے ہیں، وہ اس پر سونے پر سہاگہ، اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے کہ ہم نے بڑا اچھا کیس لڑا جھوٹ کی ترغیب دلاتے ہیں یا جھوٹے کیس بنا لیتے ہیں یا اپنے پاس سے بھی خود کچھ نہ کچھ addکر لیتے ہیں ۔ وکیل تو اپنی برتری اس لئے سمجھتے ہیں کہ اگر یہ کیس ہم جیت گئے تو ہماری بڑی واہ واہ ہو جائے گی اور ہمارا کام چمکے گا۔ گویا انہوں نے یہاں شرک شروع کر دیا اور جھوٹ کو اپنا رازق بنا لیا۔ لوگ کہیں گے بڑا اچھا وکیل ہے۔اگر اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں نہ ہو تو پھر برائیاں پھیلتی چلی جاتی ہیں۔ پس اللہ فرماتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہو تو اللہ تعالیٰ کی خاطر انصاف کے تقاضے پورے کرو اور اپنی اناؤں کے جال میں نہ پھنسو۔ اگر حقیقت میں ہر احمدی مرد اور عورت اس طرف توجہ دے تو بہت سے مسائل بڑی آسانی سے حل ہو سکتے ہیں۔ مثلاًعائلی معاملات میں بہت فکر مندی پیدا کرنے والی صورت پیدا ہو رہی ہے۔ آج کل ہر جگہ یہ صورتحال ہے اور جرمنی بھی اس میں شامل ہے۔ آج کل صبر نہیں رہا، حوصلہ نہیں رہا، برداشت نہیں رہی۔اگر ایک فریق زیادتی کرتا ہے تو دوسرا فریق پھر نہلے پہ دہلا ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ خلع اور طلاقوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ یہ خوفناک صورتحال ہے۔ یہ ایک جگہ قائم نہیں بلکہ میں نے جائزہ لیا ہے ہر سال خلع اور طلاقوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دونوں فریق کچھ سچ کچھ جھوٹ بول کر اپنا کیس مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر آپس میں بعض غلط بیانیاں کر کے اپنا اعتماد ایک دوسرے کے لئے کھو دیتے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ۔یہ بات میرے لئے قابلِ فکر اس لئے ہے کہ خلع کی تعداد جماعت میں بہت بڑھ رہی ہے اور خلع لڑکیوں کی طرف سے، عورتوں کی طرف سے لیا جاتا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے بتایاجرمنی میں بھی افسوسناک صورتحال ہے۔ بعض لڑکیاں والدین کے کہنے پر شادی کر لیتی ہیں۔ پہلے سچ بولنے اور حق کہنے کی جرأت نہیں ہوتی اور جب شادی ہو جاتی ہے تو پھر بعض ایسی حرکتیں کرتی ہیں جن سے میاں بیوی میں اعتماد کی کمی ہو جاتی ہے اور پھر لڑائیاں بڑھنی شروع ہو جاتی ہیں۔ بعض دفعہ پاکستان سے رشتے کر کے آ جاتی ہیں، جماعتی جائزے نہیں لئے جاتے، رپورٹیں نہیں لی جاتیں ۔پھر کہا جاتا ہے کہ جماعت نے ہماری مدد نہیں کی۔یہاں سے بعض لڑکے لڑکیوں کو بلا لیتے ہیں، اُن سے زیادتیاں کرتے ہیں اور پھر طلاقیں ہو جاتی ہیں۔ تو دونوں طرف سے ایک ایسی خوفناک صورتحال پیدا ہو رہی ہے جس کی جماعت کو فکر کرنی چاہئے۔
لڑکیاں بعض دفعہ شادی کے بعد بتاتی ہیں کہ ہمیں یہ رشتہ پسند نہیں ہے۔ ماں باپ نے کہا مجبوری تھی۔ بعض لڑکے بھی شادی کے بعد بتاتے ہیں۔ لڑکوں میں بھی اتنی جرأت نہیں ہے، یا پھر اُن کو پتہ چلتا ہے کہ وہ لڑکے یا لڑکی کہیں اور involveہیں یا کسی دوسرے رشتہ کو پسند کرتے ہیں۔ وہ اپنی پسند کے ر شتے شروع میں بتا دیں تو کم از کم دو گھروں کی زندگیاں تو برباد نہ ہوں۔ اور پھر ایسے بھی معاملات ہیں جہاں ماں باپ کو پہلے پتہ ہوتا ہے اور اس خیال سے شادی کروا دیتے ہیں کہ بعد میں ٹھیک ہو جائے گا لیکن یہ ہوتا نہیں ہے۔ لڑکا ہو یا لڑکی ٹھیک تو نہیں ہوتے البتہ دونوں میں سے کسی ایک کی زندگی برباد ہو جاتی ہے۔ ایسے بھی ہیں جو پاکستان میں بڑا اچھا کام کرتے ہیں۔ یہاں کی رہنے والی لڑکیاں اُن کے کام چھڑوا کر اُن کو وہاں سے بلوا لیتی ہیں اور یہاں آ کر پھر اُن کو کچھ بھی نہیں ملتا۔ پھرگھروں میں لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ لڑکیاں تو گھروں سے رخصت ہوا کرتی ہیں، اگر رخصت نہیں ہو سکتیں تو پھر ایسے دور کے مُلکوں میں شادی نہ کریں۔پھر یہیں یورپ میں رشتے تلاش کریں۔ پھر ایسے بھی لڑکے ہیں جو تعلیم وغیرہ کے بارہ میں جھوٹ بول کر رشتہ کرلیتے ہیں۔ غلط بیانی کرتے ہیں کہ ہماری اتنی تعلیم ہے۔ احمدی لڑکیاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے زیادہ پڑھی لکھی ہیں۔ لڑکے نکمّے ہوتے ہیں اوروہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے۔ اور جب وہ یہاں آتے ہیں اور ان کی حقیقت کا پتہ لگتا ہے تو پھر رشتوں میں دراڑیں پڑتی ہیں۔ جھوٹ ایک ایسی بنیاد ہے جو رشتوں میں دراڑیں ڈال رہا ہے اور یہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہوتا ہے۔ پھر پاکستان میں بھی ایسی لڑکیاں ہیں جو یہاں باہر آنے کے لئے رشتے کر لیتی ہیں تو پاکستان سے آنے والی لڑکیاں بھی سوچ سمجھ کر آیا کریں۔ غرض دونوں طرف سے جھوٹ بولا جاتا ہے اور یہ ایک جھوٹ کئی گھروں کو برباد کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ پھر جیسا کہ مَیں نے کہا جب مقدمے چلتے ہیں، خلع طلاق کی کارروائی ہوتی ہے تو پھر بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی خاطر حق بات بتائی جائے، ایک دوسرے پر اپنے حقوق ثابت کرنے کے لئے غلط الزامات لگائے جاتے ہیں۔ جہیز بری کے مطالبوں کے لئے کہ یہ سامان ہمیں واپس کرو، وہ سامان واپس کرو ۔بعض دفعہ غلط بیانی سے کام لیا جاتا ہے۔ بعض لڑکوں سے بڑی بڑی رقمیں حق مہر رکھوا لیا جاتا ہے کہ کونسا ہم نے لینا ہے۔ یا یہ کہہ دیتی ہیں ہم نے حق مہر معاف کر دیا۔ اگرلینا نہیں تو یہ بھی جھوٹ ہے۔ حق مہر مقرر ہی اس لئے کیا جاتا ہے کہ عورت لے اور یہ عورت کا حق ہے، اُس کو لینا چاہئے۔
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک صحابی نے کہا کہ حق مہر میری بیوی نے واپس کر دیا ہے۔ معاف کر دیا ہے۔ آپ نے کہا کہ جا کے پہلے بیوی کے ہاتھ پر حق مہر رکھو، پھر اگر وہ واپس کرتی ہے تب حق مہر معاف ہوتا ہے۔ نہیں تو نہیں۔ بے چارے کی دو بیویاں تھیں۔ خیر انہوں نے قرض لے کر جا کرجب دونوں کے ہاتھ میں برابر کا حق مہر رکھ دیا اور کہا کہ واپس کر دو، تم معاف کر چکی ہو۔ انہوں نے کہا ہم تو اس لئے معاف کر چکی تھیں کہ ہمارا خیال تھا کہ تمہیں دینے کی طاقت نہیں ہے اور تم نہیں دو گے۔ تو کیونکہ اب تو تم نے دے دیا ہے تو دوڑ جاؤ۔وہ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آئے تو آپ بڑے ہنسے اور آپ نے کہا ٹھیک ہے، ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 24جولائی 1925ء۔ خطبات محمود جلد 9صفحہ 217 مطبوعہ ربوہ) تو حق مہر لینے کے لئے ہوتا ہے، حق مہر معاف کرنے کے لئے نہیں ہوتا۔ اور یہ عورت کا حق ہے کہ لے۔ جنہوں نے معاف کرنا ہے وہ پہلے یہ کہیں کہ ہمارے ہاتھ پر رکھ دو۔ پھر اگر اتنا کھلا دل ہے، حوصلہ ہے تو پھر واپس کر دیں۔
بہر حال جب حق مہر زیادہ رکھوائے جاتے ہیں تو جب خلع طلاق کے فیصلے ہوتے ہیں تو قضا کو یہ اختیار ہے کہ اگر کسی شخص کی حیثیت نہیں ہے اورناجائز طور پر حق مہر رکھوایا گیا تھا تو اُس حق مہر کو خود مقرر کر دے اور یہ ہوتا ہے۔ بعض ایسے بھی ہیں جو عدالت میں اپنے مفادات لے لیتے ہیں اور لے لیتی ہیں، لڑکیاں بھی اور لڑکے بھی، اور پھر اس کے بعد کہتے ہیں ہمارا شرعی حق یہ بنتا تھا ۔پھر جماعت میں بھی آ جاتے ہیں۔ اگر شرعی حق بنتا تھا تو پھر شرعی حق لو یا قانونی حق لو۔ بعض دفعہ قانونی حق شرعی حق سے زیادہ ہو جاتا ہے اس لئے بہر حال حق ایک طرف کا ہی لینا چاہئے۔ ظلم جو ہے وہ نہیں ہونا چاہئے۔ ایک فریق پر زیادتی نہیں ہونی چاہئے۔ نہ لڑکے پر، نہ لڑکی پر۔ پھر اس کے لئے جھوٹ کا سہارالیا جاتاہے۔ پس یہ ایسے کراہت والے کام ہیں کہ ان کو دیکھ کر ایک شریف شخص کراہت کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتا۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم کہتے ہو کہ اے خدا! مجھے معاف کر دے۔ میری برائیوں کو دور کر دے۔مَیں توبہ کرتا ہوں۔ تو جن باتوں سے توبہ کر رہی ہو یا کر رہے ہو اُس کے مقابلے پر اعمالِ صالحہ پیش کرو تاکہ سمجھا جائے کہ توبہ حقیقی ہے۔ تم تو اپنے دنیاوی معاملات میں محض دنیاوی فائدے اُٹھانے کے لئے جھوٹ کا سہارا لیتے ہو۔ پھر توبہ کیسی؟ طلاق اور خلع اسلام میں گوجائز ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے اور مکروہ ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الطلاق باب فی کراھیۃ الطلاق حدیث 2178) پس ایک مومنہ اور مومن کی شان تو یہ ہے کہ اگر بامر مجبوری ایسی باتوں سے واسطہ پڑ بھی جائے تو پھر انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے، خدا تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے حق بات کہو۔ سچ کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دو، کیونکہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتا۔
پھر فرماتا ہے وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا(الفرقان :73) کہ مومن کی یہ شان بھی ہے کہ جب وہ لغو بات کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ بغیر اُن پر توجہ دیئے گزر جاتے ہیں۔ جب مومن کو چھوٹی چھوٹی دنیاوی باتوں میں الجھاکر نیکیوں سے دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایک مومن ان میں نہیں الجھتا بلکہ صَرفِ نظر کرتے ہوئے وہاں سے گزر جاتا ہے، اپنا پلو بچا کر وہاں سے گزر جاتا ہے۔بجائے اس کے کہ جھوٹ کے مقابلے میں جھوٹ گھڑے ایک مومن کا جواب ہمیشہ یہ ہو گا کہ یہ کراہت کا کام ہے، گناہ کا کام ہے، اللہ تعالیٰ مجھے اس سے محفوظ رکھے۔ اور جب یہ رویہ ہو گا تو جھگڑوں میں طُول پیدا نہیں ہو گا، معاشرے میں امن پیدا ہو گا، گھروں میں امن پیدا ہوگا۔ اگر معاملات اس انتہا پر پہنچ چکے ہیں کہ قاضی کے پاس ہیں تو عدالت میںجا کے جو حق بات ہے وہ کہنی چاہئے اور بس اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ ایسے بھی بعض ٹیڑھے قسم کے لوگ ہوتے ہیں کہ قضا میں جب اُن کی تسلی کا فیصلہ نہیں ہوتا تو باہر نکل کر دوسرے فریق کو لڑائی میں الجھانے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ لڑائی ہو اور پھر ایک نیا مقدمہ کر کے اُسے مقدمات میں پھنسایا جائے اور اُس کو طول دیا جائے۔ ایسی صورت میں مومن کو یہی حکم ہے کہ اگر حقیقی مومن ہو تو طَرح دے کر گزر جاؤ، کسی طرح بہانہ بنا کر وہاں سے چلے جاؤ، ہٹ جاؤ۔ اگر پھر بھی کوئی باز نہ آئے تو حُکّام سے یا انتظامیہ سے رابطہ کرو لیکن خود سے کسی قسم کی لڑائی میں کسی احمدی کو براہِ راست ملوث نہیں ہونا چاہئے۔ بعض عورتیں اگر لڑتی نہیں ہیں تو گالی گلوچ بھی کر لیتی ہیں، یہ نہیں ہونا چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ
’’جب انسان کسی کا مقابلہ کرتا ہے تو اسے کچھ نہ کچھ کہنا ہی پڑتا ہے‘‘ (جب لڑائی ہو گی تو ظاہر ہے کچھ نہ کچھ ایک بولے گا دوسرا بھی بولے گا) ’’جیسے مقدمات میں ہوتا ہے‘‘ فرمایا’’ اس لئے آرام اس میں ہے کہ تم ایسے لوگوں کا مقابلہ ہی نہ کرو۔ سدّباب کا طریق رکھو اور کسی سے جھگڑا مت کرو۔ زبان بند رکھو۔ گالیاں دینے والے کے پاس سے گزر جاؤ‘‘۔ ( وہ گالیاں دے رہا ہے تو اس کے پاس سے گزر جاؤ) ’’گویا سنا ہی نہیں‘‘۔(ملفوظات جلد 5صفحہ 131ایڈیشن 2003ء)
اب یہ بہت مشکل کام ہے لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو تو پھر اپنی طبیعت پر جبر بھی کرنا پڑتا ہے۔ پس اگر دل میں تقویٰ ہے توپھریہ تقویٰ انسان کو ناجائز غصہ سے باز رکھتاہے۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ اُسے غصہ آ جاتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کچھ نہ کچھ جواب دو گے۔ لیکن اگر انسان اُس جگہ کھڑا رہے جہاں غصہ دلانے والی حرکات ہو رہی ہیں تو پھر ایک وقت آئے گا کہ غصہ میں خود بخود بھڑک جائے گا۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنے آپ کو غصہ سے بچانے کے لئے ایسی جگہوں سے وقار سے اُٹھ کر چلے جاؤ۔
پھر اللہ تعالیٰ مومن کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْھَا صُمًّا وَّ عُمْیَانَا (الفرقان:74)۔ کہ اور وہ لوگ جب اُن کواُن کے رب ّکی ہدایات یاد دلوائی جاتی ہیں تو بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے۔ جب بھی کوئی حکم اُن کے سامنے اُن کے رب کے حوالے سے پیش کیا جاتا ہے تو اُس کو غور سے سنتے ہیں۔ توبہ کرنا، جھوٹ سے بچنا، لغویات سے بچنا، یہ چند حکم ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے بے شمار احکامات ہیں جن کو سامنے رکھتے ہوئے نصیحت کی جاتی ہے اور جن کے بارے میں اس زمانے کے امام اور مسیح و مہدی نے فرمایا کہ جو ان احکام پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتا اُس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
پس ہم احمدی کسی دنیاوی فائدے کے لئے احمدی نہیں ہوئے۔ جہاں جماعت پر سختیاں کی جا رہی ہیں وہاں لوگ اپنے ایمان کی حفاظت کرتے ہوئے اُن سختیوں کو برداشت کر رہے ہیں تو کیا اس کے مقابلے پر اُن کو کوئی دنیاوی فائدہ بھی مل رہا ہے؟ ہرگز نہیں۔ پس جب ہم دنیاداروں کے ظلم اس لئے سہہ رہے ہیں کہ زمانے کے امام کی بیعت میں آکر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کریں، اُس پیشگوئی کو پورا کریں جو خدا تعالیٰ اور اس کے رسول نے کی ہے کہ آخری زمانے میں جو مسیح و مہدی آئے اُسے قبول کرنا تو پھر یہ نہیں ہو سکتا کہ اُس آنے والے کی باتوں کی طرف توجہ نہ دیں۔ آپؑ اپنی جماعت کا ایک معیار دیکھنا چاہتے ہیں جس کی آپ نے بارہا جگہ پر نصیحت فرمائی ہے۔ ایک جگہ فرمایا کہ:
’’سو اے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اُس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے‘‘۔ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 15)
پس جب ہم تقویٰ پر چلیں گے تو قرآنِ کریم کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں گے۔ اُن لوگوں کی طرح نہیں ہوں گے جو ایک کان سے بات سنتے ہیں اور دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔
پس اگر ہماری عورتیں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ ہم نے ہر کام خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرنا ہے، ہم نے تمام احکامات پر عمل کرنا ہے، ہم نے زمانے کے امام کی نصائح پر عمل کرنا ہے تو ایک انقلاب پیدا ہو سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک نشان ہیں جو آپ کو نہیں مانتا وہ بہروں اور اندھوں میں شامل ہے۔ لیکن ہم یہ دعویٰ کر کے پھر آپ کی باتوں پر عمل نہیں کرتے۔آپ کی خواہشات کے مطابق اپنی زندگیوں کو نہیں ڈھالتے۔ قرآنِ کریم کو اپنی زندگیوں کا لائحہ عمل نہیں بناتے۔ ہم منہ سے توبیشک کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے مسیح موعود کو مان لیا ہے لیکن عملی طور پر ہم آپ سے صُمًّا وَّ عُمْیَانًَا کا معاملہ کر رہے ہیں۔ پس یہ بہت فکر کا مقام ہے۔
آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’تم لوگ جو بیعت میں داخل ہوئے ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ تم نے عہد کیا ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے۔ سو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ عہد تمہارا اللہ کے ساتھ ہے۔ جہاں تک ممکن ہو اس عہد پر مضبوط رہنا چاہئے۔ ہر ایک برائی اور شائبہ گناہ سے اجتناب کرنا چاہئے‘‘۔ ہر برائی سے اور ایسا گناہ جس کا شائبہ بھی ہو کہ یہ گناہ ہے اُس سے اجتناب کرنا چاہئے، بچنا چاہئے۔ فرمایا’’ ہماری جماعت کو ایک پاک نمونہ بن کر دکھانا چاہئے۔ زبانی لاف گزاف سے کچھ نہیں بنتا جب تک انسان کچھ کر کے نہ دکھائے‘‘۔(ملفوظات جلد سوم صفحہ 326 مطبوعہ ربوہ)
پس اپنے جائزے لیتے ہوئے یہ معیار قائم کرنے کی ہم کوشش کریں گے تو تبھی ہم اپنے مقصدِ بیعت کو پورا کرنے والے ہوں گے ورنہ غیر اگر آپ کو نہ مان کر صُمًّا وَّ عُمْیَانَا کا اظہار کر رہے ہیں تو ہم ظاہری بیعت کا اظہار کرکے اپنے عمل سیصُمًّا وَّ عُمْیَانًَا کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔
پس ہر عورت اور مرد کودعاؤں اور اپنی عملی حالت میں کوشش کے ساتھ تبدیلی کر کے حقیقی بیعت کنندگان میں شامل ہونے کا نمونہ دکھانا چاہئے تاکہ اُن لوگوں میں شامل ہوں جو نہ صرف اپنی نیک حالتوں کی فکر میں رہتے ہیں بلکہ اُنہیں اپنی نسلوں کی بھلائی کی بھی فکر رہتی ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھلائی ہے کہَ رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (سورۃ الفرقان آیت 75:) کہ اے ہمارے رب! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے۔
پس یہ دعا جہاں مردوں کے لئے اہم ہے وہاں عورتوں کے لئے بھی اہم ہے کہ ایک دوسرے کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں۔ اور جب ایک دوسرے کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بننے کے لئے دعا کر رہے ہوں گے تو ایک دوسرے کے ساتھ حسنِ سلوک کی طرف بھی نظر ہو گی۔ ایک دوسرے کی برائیوں سے صرفِ نظر ہو گی اور ایک دوسرے کی خوبیوں کی طرف نظر ہو گی۔ میرے پاس بعض دفعہ نئے جوڑے آتے ہیں کہ نصیحت کریں، اور جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ آجکل خلع اور طلاق کے حالات بڑے قابلِ فکر حد تک ہیں۔ تو مَیں اُن کو یہی کہتا ہوں کہ ایک دوسرے کی برائیوں سے صَرفِ نظر کرو اور ایک دوسرے کی خوبیوں پر نظر رکھو۔ اب جو شادیاں ہو گئی ہیں تو ان جوڑوں کو، ان رشتوں کو نبھاؤ اور پھر دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایک دوسرے کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔ جب دعاؤں سے اور کوشش سے یہ کر رہے ہو گے تو انشاءاللہ تعالیٰ رشتے بھی کامیاب ہوں گے۔ جب مرد اور عورت ایک دوسرے کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں گے تو آئندہ آنے والی نسلیں بھی ماں باپ کے نیک نمونے دیکھ کر ماں باپ کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بننے کی کوشش کریں گی۔ اور جب خدا تعالیٰ کے حضور مرد اور عورت ایک دوسرے کے لئے اور اپنے بچوںکے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک کی دعا کر رہے ہوں گے اور نسل میں سے متقی پیدا ہونے کی دعا کر رہے ہوں گے کہ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا۔ نیک نسل کی دعا ہی ہے۔ کیونکہ ایک گھرانے کا سربراہ ہی اپنے گھر کا امام ہے۔جویہ کہتا ہے کہ مجھے متقیوں کا امام بنا تواس کا مطلب ہے کہ میری نسل میں سے نیک لوگ ہی پیدا کر۔ پس جب مرد یہ دعا مانگ رہا ہو گاتو وہ اپنی بیوی اور بچوں کے متقی ہونے کی دعا مانگ رہا ہو گا۔ جب عورت دعا مانگ رہی ہوگی تو گھر کے نگران کی حیثیت سے وہ اپنے بچوںکے متقی ہونے کے لئے دعا مانگ رہی ہو گی۔ اور جب اس شوق کے ساتھ دعا ہو گی تو پھر اپنے آپ کو بھی تقویٰ پر قائم رکھنے کی کوشش ہو گی اور ایسا گھر پھر جنت کا نظارہ پیش کرنے والا گھر ہو گاجس میں بڑے ،بچے ،سب خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لئے کوشش کر رہے ہوں گے۔ اور پھر ایسے ماں باپ کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد یہ بچے اُن کے لئے ثواب کا موجب بھی بن رہے ہوں گے۔ بچوں کی نیک تربیت کا ماں باپ کو ثواب مل رہا ہو گا۔ باپ کو تو ثواب مل رہا ہو گا لیکن ماں کو بھی ثواب مل رہا ہو گا کیونکہ گھر کے نگران کی حیثیت سے ماں ذمہ وار ہے۔ بچوں کی نیکیاں اُن کے درجات کی بلندی کا ذریعہ بن رہی ہوں گی۔ اور کون مومن ہے جو ایمان کا دعویٰ کرے اور پھر یہ کہے کہ مرنے کے بعد مجھے درجات کی بلندی کی ضرورت نہیں ہے۔ پس یہ دعا ایک ایسی دعا ہے جو نسلوں کے سدھارنے کے بھی کام آتی ہے اور اپنی اصلاح کے بھی کام آتی ہے اور مرنے کے بعد نیک نسل کی دعاؤں اور اعمال کی وجہ سے درجات کی بلندی کے بھی کام آتی ہے۔
اور پھر اس میں مومن کی شان کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ مومن چھوٹی چھوٹی باتوں پر راضی نہیں ہوتا بلکہ ترقی کی منازل کی طرف قدم مارتا ہے۔ اُس کے قدم آگے بڑھتے ہیں۔ متقی خود بھی تقویٰ میں بڑھتا ہے اور اپنی نسل کو بھی تقویٰ میں بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ پس خوش قسمت ہیں وہ ماں باپ جو اپنے بچوںکی تربیت کی فکر میں رہتے ہیں۔ اُن کو دین کے قریب کرتے ہیں۔ اُن میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کرتے ہیں اور پھر اپنی حالتوں میں ایک پاک تبدیلی پیدا کر کے اپنی دنیا و عاقبت بھی سنوارتے ہیں۔ پس اس دعا کو بہت شدت سے اور سمجھ کر پڑھنے کی ہر احمدی عورت اور مرد کو ضرورت ہے۔ بہت سے لوگوں کو اولاد سے شکوہ ہوتا ہے کہ اولاد بگڑ گئی۔ اگر نیک تربیت اور دعاؤں کی طرف توجہ ہو تو اللہ تعالیٰ پھر فضل فرماتا ہے۔ اَولاد کو اِلَّا مَا شَآءاللّٰہ بگڑنے سے بچاتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’اولاد کی خواہش تو لوگ بڑی کرتے ہیں اور اولاد ہوتی بھی ہے مگر یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ وہ اولاد کی تربیت اور اُن کوعمدہ اور نیک چلن بنانے اور خدا تعالیٰ کے فرمانبردار بنانے کی سعی اور فکر کریں۔ نہ کبھی دعا کرتے ہیں اور نہ مراتبِ تربیت کو مدّ نظر رکھتے ہیں‘‘۔( تربیت کے جو مختلف مرتبے ہیں اُن کو بھی مدّنظر نہیں رکھتے۔ ہر عمر کے لحاظ سے تربیت کے مختلف پہلو ہیں اُن کو سامنے رکھنا چاہئے۔) فرمایا’’ میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں میں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لئے دعا نہیں کرتا‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 562 مطبوعہ ربوہ)
پس اپنی اور اپنی اولادوں کی دنیا و عاقبت سنوارنے کا یہ طریق ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے، جسے ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور خاص طور پر اگر ہماری عورتیں اس سوچ کے ساتھ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں تو انشاء اللہ تعالیٰ ہماری آئندہ نسلیں جماعت کا مفید وجود بن کر آئندہ آنے والی نسلوں کی تربیت کا بھی ذریعہ بن جائیں گی اور یوں یہ سلسلہ چلتا چلا جائے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ اور یہی زندہ قوموں کی نشانی ہے کہ اُن کی نیکیاں نسلوں میں بھی جاری رہتی ہیں۔ اُن میں تنزل نہیں آتا بلکہ قدم ترقی کی طرف بڑھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام عورتوں اور مردوں کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔