سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی سیرت طیبہ
ماہنامہ ’’مصباح‘‘ ربوہ فروری 2004ء میں حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے قلم سے حضرت مصلح موعودؓ کی سیرت طیبہ کے تعلق میں مختلف واقعات شامل اشاعت ہیں۔
آپؓ فرماتی ہیں کہ حضرت اماں جانؓ نے فرمایا کہ جب حضرت مصلح موعودؓ پیدا ہونے کو تھے تو ایام حمل میں مَیں نے دیکھا کہ میری شادی مرزا نظام الدین سے ہورہی ہے۔ اس خواب کا میرے دل پر مرزا نظام الدین کے اشد مخالف ہونے کی وجہ سے بہت برا اثر پڑا۔ میں تین روز تک برابر مغموم اور اکثر روتی رہی۔ حضرت مسیح موعودؑ کے بہت اصرار پر میں نے ڈرتے ڈرتے یہ خواب بیان کیا تو آپؑ بے حد خوش ہو گئے اور فرمایا اتنا مبارک خواب … تمہارے ہاں لڑکا اسی حمل سے پیدا ہوگا۔
مَیں نے بچپن میں خواب دیکھا کہ ہمارے صحن کا کنواں لبالب پانی سے بھرا ہے اور ایک نوجوان نوعمر (جو پشت سے حضرت مصلح موعودؓ ہی معلوم ہوتے تھے) تیز تیز اس کنواں کے گرد گھوم رہا ہے۔ اور اس کی زبان پر اونچی آواز سے الفاظ جاری ہیں:
اِنِّیْ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ۔
(یقینا مَیں ان لوگوں کو جنہوں نے تیری پیروی کی ہے ان لوگوں پر جنہوں نے انکار کیا ہے قیامت کے دن تک بالادست کرنے والا ہوں۔)
آنکھ کھلی تو میرے بڑے بھائی صاحب کا سر شانوں تک میرے تکیہ پر تھا پہلے تو میں دیکھتی رہی۔ مگر جب وہ کیفیت دُور ہو گئی تو ڈر کر حضرت مسیح موعودؑ کو پکارا اور کہا میں نے اس طرح دیکھا ہے۔ آپؑ نے فرمایا: یہ کشف تھا، ڈرو نہیں بہت مبارک خواب اور کشف ہے۔
بچوں کی پیدائش پر حضورؑ خود اذان دیتے تھے، عقیقہ پر علاوہ بکرے کے، احباب کی دعوت بھی کرتے تھے کیونکہ آپ اپنی اولاد کو نشان سمجھتے تھے۔ چلّہ میں خادماؤں اور معتبر عورتوں کا پہرہ ضرور ہوتا تھا۔ جن کے جاگتے رہنے کا آپ خیال رکھتے تھے۔ چائے اور موسم کے مطابق اُن کیلئے کھانے کو مٹھائی وغیرہ رکھی جاتی۔ آپ رات کو بھی دو تین دفعہ تشریف لاتے اور سب کو جاگنے کی تاکید فرماتے۔
اپنے گھر میں بسم اللہ وغیرہ کی کوئی تقریب میں نے نہیں سنی، نہ دیکھی۔ آمین بے شک ہم سب کی ہوئی اور بہت دھوم سے ہوئی۔
حضورؓ کو اکثر آشوب چشم بھی ہو جاتا۔ کمزوری سے حرارت بھی ہو جاتی۔ قوی بدن نہ تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے پڑھائی کیلئے کبھی بھی نہیں کہا کہ محنت کرو وغیرہ۔ مگر ابتداء سے اپنی دینی کتب قرآن مجید حدیث اور دیگر مذاہب کی کتابیں اور اس کے علاوہ کہانی قصے بھی پڑھ لیتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی انگریزی ابتدائی کتابیں اور الف لیلہ بھی۔ مجھے بھی چھوٹی چھوٹی کہانیاں الف لیلہ کی بھی سنادیتے تھے۔ دیوان غالب وغیرہ اور آپ کے استاد جن سے کچھ عرصہ شاعری میں اصلاح لی تھی، جلال لکھنوی کے دیوان بھی آپ کے پاس تھے۔ آپ گھر میں کھیلتے بھی تھے۔ اکثر گیند بَلّا وغیرہ اور اس کے علاوہ گھر کے باہر آپ کے مشاغل غلیل سے نشانہ بازی، کشتی چلانا، تیرنا وغیرہ تھا۔ مٹّی کے غلے بنانے میں ہم سب شریک ہو جاتے۔ مگر گھر میں نہیں چلاتے تھے۔ ذرا بڑے ہوئے تو سواری سیکھی اور گھوڑے کی سواری کو بہت پسند کرتے تھے۔
آپؓ ہم بچوں سے بہت پیار کرنے والے، بے حد خیال رکھنے والے تھے۔ مجھ سے تو خاص طور پر محبت کی، بہت ناز اٹھائے۔ کبھی خفا ہونا یاد میں نہیں۔ ایک بار لڑکیوں کے ساتھ کوئی تالی بجانے والا کھیل کھیل رہی تھی۔ میں بھی بجانے لگی تو مجھے کہا کھیلو مگر تم نہ کبھی تالی بجانا، یہ لوگ بجایا کریں۔
منجھلے بھائی صاحب سے تو اکثر لمبی باتیں کرتے مگر ہر وقت اچھے موضوع پر میرے بھائی اور ماموں مل کر باتیں کرتے تھے۔ کبھی فضول بات میں نے نہیں سنی۔ مجھ سے بچپن سے بے تکلف رہے۔ ہر بات مجھ سے کر لیتے اور میں ہر بات جو نئی سنی یا سمجھ سے باہر ہوئی ان سے پوچھتی میری کھل کر بات حضرت مسیح موعودؑ سے ہوتی تھی یا بڑے بھائی سے۔ حضرت مسیح موعودؑ بھی جانتے تھے کہ ہم دونوں کا آپس میں زیادہ پیار اور بے تکلفی ہے اور آپ نے تین چار بار مجھے کہا کہ محمود کچھ چُپ چُپ ہے۔ یہ کبھی اپنی حاجت ظاہر نہیں کرتا، تم پوچھو تو سہی کہ کیا چاہئے۔ میں نے پوچھا اور آپ نے بتا دیا۔ ایک بار بخاری کی سب جلدیں منگانے کے لئے کہا تھا۔ ایک بار ’’سول اخبار‘‘ جاری کروانے کو۔
ہم لوگ لڑتے نہیں تھے۔ مبارک احمد اور میں چھوٹے تھے۔ تینوں بھائیوں نے کبھی کچھ نہیں کہا۔ آپس میں منجھلے بھائی چھوٹے بھائی کبھی تکیوں سے لڑائی کیا کرتے تھے یا چھوٹے بھائی کو منجھلے بھائی صاحب چڑاتے تھے۔ وہ چڑتے مگر اس سے زیادہ ہرگز نہیں۔ نہ مار نہ کٹائی۔ ایک بار کوٹلہ چھپائی کھیلتے ہوئے چھوٹے بھائی نے مبارک کی پیٹھ پر کوڑا زور سے مار دیا۔ وہ نازک سابچہ رونے لگا۔ مجھے آج تک افسوس ہے کہ مَیں نے پکار کر حضرت مسیح موعود ؑ کو کہا کہ مبارک کو چھوٹے بھائی نے زور سے کوڑا ماردیا تو آپ چھوٹے بھائی پر بہت خفا ہوئے تھے۔ اصل میں ہم دونوں آپس میں بہت مانوس تھے (مبارک اور مَیں) حضرت مسیح موعود ؑ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ دونوں بہت ایک دوسرے سے جڑے رہتے ہیں، دراصل نام ایک ہے صرف ’’ہ‘‘ کا ہی فرق ہے۔ مگر میں نے بڑے بھائی کو حضرت مسیح موعودؑ کی مانند محبت کرنے والا پایا۔ ذرا بڑے ہو کر یہ محبت ایک دوستی کا رنگ بھی اختیار کر گئی۔ میری شادی کے بعد قریباً روزانہ دارالسلام کا پھیرا ہوتا تھا۔ سفر پر جاتے تو سخت تاکید کرتے کہ میرے ساتھ چلو۔
حضرت اماں جانؓ سے بچپن سے ہم بہت مانوس تھے اور آپ کی عزت اور محبت، ہر وقت آپ کے آرام کا خیال حضرت مسیح موعودؑ کے وصال کے بعد بہت بڑھ گیا ۔ایک بار اماں جان بیمار ہوئیں تو حضرت مصلح موعودؓ نے مجھے الگ لے جا کر کہا کہ میں بھی دعا کرتا ہوں اور تم بھی کرو اور کرتی رہو کہ اب اماں جان کو ہم میں سے خداتعالیٰ کسی کا غم نہ دکھائے اور اماں جان کی زندگی میں برکت بخشے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت اماں جانؓ سے مبارک کی وفات سے پہلے فرمایا تھا کہ تین امتحان تمہارے ہوں گے۔ حضورؑ کی وفات کے وقت آپؓ نے فرمایا کہ دو امتحان ہو چکے، ایک باقی ہے۔ جب پارٹیشن ہوئی تو قادیان چھوڑنا پڑا اس وقت اماں جانؓ کی تڑپ اور صدمہ دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ تیسرا امتحان یہ تھا۔
حضرت بڑے بھائی صاحب جب پاس آتے تو کہتی تھیں میاں دیکھو مجھے قادیان ضرور پہنچانا بہشتی مقبرہ میں- بڑے بھائی صاحب کی آنکھیں تر ہو جاتیں اور کمرہ سے نکل جاتے یہ حالت یہ تڑپ دیکھ کر۔
حضورؓ اپنے بہن بھائیوں کی دلداری تو کرتے ہی تھے بہن بھائیوں کی اولاد سے بہت پیار اور محبت کا ہمیشہ سلوک کیا۔ حضرت اماں جانؓ کے دہلی والے عزیزوں کا بھی خاص خیال رکھتے۔ اور بہت ان کی خاطر داری فرماتے۔
رجحان طبع اصل تو دین تھا جس کی دھن تھی کہ اسلام احمدیت تمام عالم میں پھیلے۔ ہر احمدی کی تکلیف کو اپنی تکلیف جانتے تھے اور یہ بھی تڑپ کہ جو خلافت سے الگ ہو چکے تھے، ان کی اصلاح ہو۔ آپ نے تمام بیٹے اپنی جانب سے وقف صدقِ دل سے کئے اور یہ خواہش تھی کہ لڑکیاں بھی واقفین زندگی کو دوں۔ سندھ کے ذکر پر ایک دفعہ مجھے کہا کہ میں نے زمین خریدنے اورجائیداد کو ترقی دینے کا اب جو کام شروع کیا ہے یہ اپنے لئے نہیں بلکہ میری نیت یہ ہے کہ زمانہ بدل رہا ہے۔ رہائش کے سٹینڈرڈ بدل رہے ہیں۔ گرانی دن بدن زیادہ ہوتی نظر آتی ہے۔ میں نے چونکہ سب لڑکوں کو وقف کیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کبھی تنگی ان کے دل میں دنیا کی رغبت پیدا کرے اور ان میں سے کوئی بھی یہ نہ سوچے کہ ہمیں تنگی میں ڈال دیا ہے۔ ان کی اوسط درجہ کی خوشحال زندگی ان کو حاصل رہے۔ یہ کبھی لوگوں کو دیکھ کر اپنے آپ کو مقابلۃً تنگ دست محسوس کر کے خدا نہ کرے ابتلاء میں پڑجائیں۔
پہلے شادی شدہ بچوں کو بھی آپؓ نے محض اتنا خرچ دیا کہ مشکل سے گزارا ہو سکے۔ جب آزمالیا کہ بفضلہ تعالیٰ ہر حال میں شکر گزار ہیں تو اخراجات بڑھاتے رہے اور زچگی بیماریوں وغیرہ پر اخراجات بھی امداداً خود کئے۔ اور دیگر کوئی کام کرنے کی بھی بہت دیر کے بعد اس شرط سے اجازت دی تھی کہ سلسلہ کے کاموں پر ذرا بھی اثر انداز نہ ہو۔
میری لڑکی منصورہ بیگم سے بھی بچپن میں بہت محبت کی۔ بہت شفقت فرماتے تھے۔ 1941ء یا 1942ء میں وہ بیمار ہوئی تو بغرض علاج دہلی بھیجا اور تمام خرچ اٹھایا۔ لمبا علاج چلا۔ منصورہ بیگم کو بہت احساس تھا کہ ماموں جان پر بہت بوجھ میری وجہ سے پڑ رہا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ آپ پر اتنا خرچ میری وجہ سے پڑ رہا ہے۔ مجھے شرم آتی ہے۔ تو ان کو لکھا تھا کہ تمہاری جان سے زیادہ مجھے روپیہ عزیز نہیں، تم ہزاروں کا لکھتی ہو، اگر ایک لاکھ بھی علاج پر خرچ ہو جائے تمہاری صحت کی خاطر تو مجھے پرواہ نہیں۔
ایک شفیق مگر دوراندیش باپ تھے۔ لڑکوں پر کڑی نظر رکھتے(لڑکیوں پر بظاہر نرمی)۔
عزیزم ناصر احمد کو پہلے قرآن مجید حفظ کرایا گیا، دوسری تعلیم برائے نام ساتھ ساتھ چلتی تھی۔ ایک دن حضرت اماں جانؓ کے پاس محمداحمد، منصور احمداور ناصر تینوں بیٹھے تھے، میں بھی تھی۔ بچوں نے بات کی شاید حساب یا انگریزی ناصر احمد کو نہیں آتا، ہمیں زیادہ آتا ہے۔ اتنے میں حضرت مصلح موعودؓ تشریف لائے۔ حضرت اماں جان نے فرمایا کہ ’’میاں قرآن شریف تو ضرور حفظ کرواؤ مگر دوسری پڑھائی کا بھی انتظام ساتھ ساتھ ہو جائے کہیں ناصر دوسرے بچوں سے پیچھے نہ رہ جائے۔ مجھے یہ فکر ہے‘‘۔ اس پر آپؓ مسکرائے اور فرمایا: اماں جان آپ اس کا فکر بالکل نہ کریں۔ ایک دن سب سے آگے ہوگا۔
حضورؓ کا رات کو بہت دیر تک کام کرنا، پھر سونا، پھر ذرا دیر بعد تہجد کیلئے اٹھنا گو یا رات جاگ کر ہی گزرتی۔ اسلئے بعد نماز صبح سونے کی عادت تھی۔
مالیر کوٹلہ میں رہائش کا زمانہ 1923ء سے لے کر 1943ء تک میرا بہت لمبا رہا۔ چند روز کے لئے قادیان آتی تو آپؓ بہت خیال رکھتے تھے۔ کبھی کوئی خاص کھانا پکواتے، کبھی پھل لا کرخود کھلاتے۔ رات کو گرمی میں کام کرتے کرتے اٹھ کر اماں جان کے صحن میں آتے۔ کوئی پھل ٹھنڈا آلو بخارا، آڑو وغیرہ خود بھی کھاتے اور مجھے بھی دیتے۔ عطر اور خوشبو آپ کو پسند تھی۔ اکثر سامان منگوا کر خود تیار کرتے۔ جب میں آتی خاص نمونے تیار کرتے۔ اتنا عطر مجھے دیا ہے کہ اس وقت منگوانے کی ضرورت نہ پڑتی تھی۔ میرے میاں کی وفات کو 7-5روز گزرے تھے۔ آپ آئے اور حسبِ عادت جلدی سے عطر کی شیشی کھول کر مجھے لگایا۔ حضرت اماں جان گھبرا کر بولیں میاں! عطر لگانا ان دنوں میں ٹھیک نہیں (بوجہ ایام عدت)۔ جس طرح انہوں نے مجھے دیکھا اور پشت پھیر کر جلدی سے کمرہ سے باہر نکل گئے وہ درد بھری نگاہیں میں بھول نہیں سکتی۔
میرا پیارا بھائی اپنے رتبہ اور مقام اور قربِ الٰہی کی وجہ سے تو تھا ہی ایک بندہ خاص۔ مگر بھائی ہونے کے لحاظ سے بھی وہ ایک بیش بہا ہیرا تھا۔ جس کا بدل نہیں۔
لطائف سنایا کرتے۔ طبیعت میں مزاح بھی تھا۔ اور کاموں سے تھک ہار کر یہی دل بہلاوا تھا۔ یہ مجھ سے ایک چھیڑ تھی۔ مذاق بھی کہ آدھا لطیفہ یا ایک مصرعہ شعر کا سنا کر فرماتے آگے میں بھول گیا مجھے آدھی بات سے گھبراہٹ ہوتی ہے۔ مذاق میرے ساتھ ہمیشہ رہا پھر ذرا چڑا کر سنا دیتے تھے۔
ایک دوباربے تکلفی میں (گستاخی مطلب نہ تھا) میں نے آپ کے اشعار میں سے ایک دو مصرعوں کا ردّوبدل کر دیا کہ یوں ہوتا تو اچھا ہوتا۔ ذرا بُرا نہیں مانا۔
وہ عاشقِ ربّ کریم تھے۔ توحید کو مضبوطی سے پکڑنے والے، ان کی زندگی ان کی موت سب کچھ اپنے مولیٰ کے لئے تھا۔ غلط کاموں پر اکثر جھنجھلا جاتے مگر فوراً نرم پڑ جاتے۔ ان کا غصہ تادیبی رنگ رکھتا تھا۔ ’’دل کا حلیم‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس لئے فرما دیا تھا۔ہمیشہ خدا تعالیٰ ان کے درجات بلند سے بلند تا ابد فرماتا چلا جائے-