سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی شفقت
حضرت مصلح موعودؓ کی سیرۃ کے حوالہ سے مکرم جمعدار فضل دین صاحب کا بیان روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29؍اکتوبر 1996ء میں شائع ہوا ہے کہ 1954ء میں ربوہ کی بعض عمارات کی تعمیر کی نگرانی میرے سپرد تھی۔ ان دنوں لوہا کنٹرول ریٹ پر بکتا تھا۔ چنانچہ مجھے دفتر والوں نے آٹھ ہزار روپے دے کر لاہور بھیجا جہاں میں تیرہ چودہ روز چکر لگاتا رہا۔ ایک روز 5200؍ روپے لے کر بازار گیا تو بٹوا کہیں کھو گیا۔ مجبوراً بقیہ رقم کا لوہا خرید کر ربوہ پہنچا اور جن احباب سے رقم لے کر گیا تھا انہیں یہ تحریر دیدی کہ گمشدہ رقم مَیں اُنہیں ادا کردوں گا اور اگر میں ادا نہ کر سکا تو میری اولاد یہ روپیہ ادا کرے گی۔ یہ خبر کسی ذریعہ سے حضرت مصلح موعودؓ تک پہنچی تو آپؓ نے دریافت فرمایا کہ جب جمعدار فضل دین کو آٹھ ہزار روپیہ دیا گیا تھا تو روپے کی حفاظت کے لئے اس بوڑھے اور کمزور انسان کے ساتھ کیا کسی اور شخص کو بھی بھیجا گیا تھا؟ نفی میں جواب ملنے کے بعد حضورؓ نے فرمایا کہ یہ روپیہ اس سے وصول نہ کیا جائے۔
آپ مزید بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے اپنے بیٹے کے داخلہ اور فیس کے لئے رقم کی ضروت تھی۔ میں نے ناظراعلیٰ صاحب کو درخواست دی کہ مجھے یکصد روپیہ بطور قرض دیا جائے، میری کوئی جائیداد نہیں ہے اور صرف پینشن 23؍ روپے ہے جس میں سے 15؍ روپے بطور قسط ادا کرتا رہوں گا۔ یہ درخواست جب منظوری کے لئے حضورؓ کے پاس پہنچی تو آپؓ نے دفتر کے توسط سے مجھے ایک سو روپیہ بھجوا دیا اور یہ بھی فرمایا کہ یہ روپیہ واپس نہ لیا جائے۔