سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی پاکیزہ زندگی کے اہم واقعات
حضرت مصلح موعودؓ کی پاکیزہ زندگی میں بعض اوقات ایسے بھی آئے جب آپؓ کی دعا یا کسی واقعہ نے آپؓ کی زندگی میں ایک انقلاب پیدا کردیا چنانچہ اس بارہ میں ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ فروری 1999ء میں شامل اشاعت ایک مضمون میں مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب نے ایسے ہی واقعات بیان کئے ہیں جن کا تعلق حضورؓ کے دورِ خلافت کے پہلے کے زمانہ سے ہے۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’جب مَیں گیارہ سال کا ہوا تو یہ خیال پیدا ہوا کہ مَیں خدا تعالیٰ پر کیوں ایمان لاتا ہوں؟۔ اس کے وجود کا ثبوت کیا ہے؟۔ مَیں دیر تک رات کے وقت اس مسئلہ پر سوچتا رہا۔ آخر دس گیارہ بجے فیصلہ کیا کہ ہاں ایک خدا ہے۔ وہ گھڑی میرے لئے بڑی خوشی کی گھڑی تھی۔ جس طرح ایک بچہ کو اُس کی ماں مل جائے تو اسے خوشی ہوتی ہے، اسی طرح مجھے خوشی تھی کہ میرا پیدا کرنے والا مجھے مل گیا… مَیں نے اُس وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور ایک عرصہ تک کرتا رہا کہ خدایا مجھے تیری ذات کے متعلق کبھی شک پیدا نہ ہو۔ … آج بھی اس دعا کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں‘‘۔
’’جب میرے دل میں خیالات کی وہ موجیں پیدا ہوئیں جن کا مَیں نے اوپر ذکر کیا ہے تو ایک دن ضحی کے وقت یا اشراق کے وقت وضو کیا… تب مَیں نے اُس کوٹھڑی کا جس میں رہتا تھا، دروازہ بند کرلیا اور ایک کپڑا بچھا کر نماز پڑھنی شروع کی اور مَیں اُس میں خوب رویا خوب رویا، خوب رویا۔ اور اقرار کیا کہ اب نماز کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ اس گیارہ سال کی عمر میں کیسا عزم تھا اس اقرار کے بعد مَیں نے کبھی نماز نہیں چھوڑی‘‘۔
حضرت مصلح موعودؓ اگرچہ پیدائشی احمدی تھے لیکن آپؓ نے 1898ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر باقاعدہ بیعت بھی کی۔
حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظؓ کا بیان ہے کہ ایک رات جب مَیں مسجد مبارک میں نفل پڑھنے کے لئے پہنچا تو دیکھا کہ کوئی سجدے میں پڑا ہوا الحاح سے دعا کر رہا ہے۔ اُس کی دعا کا اثر یہ ہوا کہ مَیں نماز بھی نہ پڑھ سکا اور دعا میں محو ہوگیا کہ یا الٰہی یہ شخص تیرے حضور سے جو کچھ مانگ رہا ہے وہ اس کو دیدے اور مَیں کھڑا کھڑا تھک گیا کہ یہ شخص سر اٹھائے تو معلوم کروں کہ کون ہے۔ جب آپ نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ حضرت میاں محمود احمد صاحبؓ ہیں۔ مَیں نے السلام علیکم کہا اور پوچھا کہ میاں آج اللہ تعالیٰ سے کیا کچھ لے لیا؟۔ تو آپؓ نے فرمایا کہ ’’مَیں نے یہی مانگا کہ الٰہی مجھے میری آنکھوں سے دین کو زندہ کرکے دکھا‘‘۔
حضرت مصلح موعودؓ کو پندرہ سولہ سال کی عمر میں پہلا الہام ہوا، جس کا ترجمہ یہ تھا کہ وہ لوگ جو تیرے متبع ہیں وہ تیرے نہ ماننے والوں پر قیامت تک غالب رہیں گے۔
حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی 1905ء میں وفات ہوئی۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اُن کی وفات نے میری زندگی کے ایک نئے دَور کو شروع کیا۔ اسی دن سے میری طبیعت میں دین کے کاموں اور سلسلہ کی ضروریات سے دلچسپی پیدا ہونی شروع ہوئی اور وہ بیج بڑھتا ہی چلا گیا۔ سچ یہی ہے کہ کوئی دنیاوی سبب حضرت استاذی المکرم مولوی نورالدین صاحب کی زندگی اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی وفات سے زیادہ میری زندگی میں تغیر پیدا کرنے کا موجب نہیں ہوا۔
جنوری 1906ء میں نظام وصیت کے سلسلہ میں جب صدر انجمن احمدیہ کا قیام ہوا تو حضرت مسیح موعودؑ نے آپؓ کو مجلس معتمدین کا رُکن نامزد فرمایا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے 1906ء میں نوجوانان احمدیت کو اشاعت اسلام کے لئے تیار کرنے کے لئے ایک انجمن قائم کی جس کا نام حضرت مسیح موعود نے ’’تشحیذالاذہان‘‘ رکھا۔ مارچ 1906ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی ادارت میں رسالہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ کا اجراء عمل میں آیا جس نے نوجوانوں میں ایک نئی روح پھونک دی۔
سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں آپؓ پر ایک فرشتہ خواب میں ظاہر ہوا جس نے آپؓ کو سورۃ الفاتحہ کی تفسیر سکھائی۔ جلسہ سالانہ 1906ء کے موقع پر آپؓ نے پہلی پبلک تقریر فرمائی جس کا موضوع تھا ’’ردّ شرک‘‘۔ جو بعد ازاں ’’چشمہ توحید‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئی۔ 29؍جولائی 1910ء کو آپؓ نے پہلی مرتبہ خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔
حضرت مسیح موعودؑ کی وفات پر آپؓ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اب لوگ حضور پر طرح طرح کے اعتراض کریں گے۔ چنانچہ پہلا کام آپؓ نے یہ کیا کہ حضور کے سرہانے کھڑے ہوکر یہ عہد کیا کہ ’’اگر سارے لوگ بھی آپ کو چھوڑ دیں گے اور مَیں اکیلا رہ جاؤں گا تو مَیں اکیلا ہی ساری دنیا کا مقابلہ کروں گا اور کسی مخالفت اور دشمنی کی پرواہ نہیں کروں گا‘‘۔
’’تشحیذ الاذہان‘‘ آپؓ نے حضورؑ کی زندگی میں جاری فرمایا تھا اور جون 1912ء میں آپؓ نے اخبار ’’الفضل‘‘ بھی جاری فرمایا۔