سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی پاکیزہ سیرت
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی پاکیزہ سیرت کے عنوان سے ایک مضمون ماہنامہ ’’خالد‘‘ فروری 2002ء میں مکرم عطاء الوحید باجوہ صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم صوفی بشارت الرحمن صاحب ، مکرم مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب اور مکرم میاں عباس احمد صاحب ایک بار ڈلہوزی میں سیر کرتے ہوئے فرقہ رادھا سوامی کے گرو کے درس میں شامل ہوگئے اور وہاں کچھ اعتراضات کئے اور مجلس سے اٹھ کر آگئے۔ گرو صاحب نے ان کی شکایت حضرت مصلح موعودؓ سے کردی۔ اگلے روز حضورؓ نے مسجد میں بہت غصہ میں ان تینوں سے پوچھا کہ یہ کیوں اُن کے درس میں مخل ہوئے۔ اس پر صوفی صاحب نے عرض کیا کہ گرو صاحب نے حضرت نوحؑ کے بارہ میں نامناسب بات کی تو مَیں نے کھڑے ہوکر اعتراض کیا۔ اس پر گرو صاحب نے پوچھا: ’’تُو اندر گیاویں؟‘‘ تو مَیں نے اُن کے کمروں کی طرف دیکھنا شروع کردیا اور کہا کہ کیھڑے اندر؟۔ اس پر حضورؓ کھلکھلاکر ہنس پڑے اور فرمایا کہ یہ اُن کا خاص محاورہ ہے، اُن کی مراد تھی کہ کشف وغیرہ کا تجربہ تمہیں ہے؟… اب حضورؓ کا موڈ بدل چکا تھا، فرمانے لگے کہ اُن کا کوئی نوجوان میرے درس میں آکر اعتراضات کرنے لگے تو تمہارا ردّعمل کیا ہوگا۔ ہم نے عرض کی آئندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی۔ پھر حضورؓ نے ہمیں رادھا سوامی مذہب کی تفصیل بتائی۔
ایک بار بٹالہ میں احمدیوں اور غیراحمدیوں کا ایک مناظرہ تھا۔ مخالفت زوروں پر تھی۔ دوکانداروں سے احمدیوں کا بائیکاٹ کروا دیا گیا۔ ایک رات عشاء کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کو قادیان میں رپورٹ پہنچی کہ مناظرہ کے سلسلہ میں باہر سے جانے والے جو احمدی باغ میں مقیم ہیں، اُنہیں کھانا نہیں ملا۔ حضورؓ یہ سنتے ہی بے چین ہوگئے۔ آپؓ نے خود بھی اُس وقت تک کھانا نہیں کھایا تھا۔ اُسی وقت مقامی عہدیداروں کو بلایا کہ ابھی یہ رپورٹ آئی ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ صبح ہوتے ہی انتظام کردیا جائے گا۔ فرمایا کہ پھر مجھے تمام رات جاگنا پڑے گا۔ یہ سنتے ہی اُنہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور عرض کیا کہ ابھی انتظام کرتے ہیں۔ دوسرے دن علم ہوا کہ جب حضورؓ کو بٹالہ کے احمدیوں کو کھانا پہنچانے کی اطلاع رات گئے دی گئی تو اس کے بعد حضورؓ نے کھانا کھایا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے ایک موقع پر فرمایا: ’’ہر احمدی باپ کا فرض تھا کہ اپنی اولاد کے لئے تفسیر کبیر خریدتا… مَیں نے تو سب سے پہلے اسے خریدا اور حق تصنیف کے طور پر اس کا ایک نسخہ لینا پسند نہیں کیا کیونکہ مَیں اس پر اپنا کوئی حق نہ سمجھتا تھا۔ مَیں نے سوچا کہ مجھے علم خدا تعالیٰ نے دیا ہے، وقت بھی اُسی نے دیا ہے اور اُسی کی توفیق سے مَیں یہ کام کرنے کے قابل ہوا ہوں۔‘‘
سنّت کی پیروی اور استاد کے ادب کے حوالہ سے یہ واقعہ اہم ہے کہ 1929ء میں ایک بار حضورؓ نے کشمیر کا سفر اختیار فرمایا اور اس دوران خواجہ کمال الدین صاحب کی عیادت کیلئے بھی تشریف لے گئے۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضورؓ نے فرمایا:
’’اسلامی سنّت کو پورا کرنے کیلئے اور اس وجہ سے کہ مَیں چھوٹا تھا اور مدرسہ میں پڑھتا تھا، خواجہ صاحب نے تین چار دن مجھے حساب پڑھایا تھا اور اس طرح وہ میرے استاد ہیں، مَیں اُن کی عیادت کیلئے گیا تھا۔‘‘
مفتی ضیاء الدین ضیاء صاحب سابق مفتی اعظم پونچھ اپنے ایک منظوم کتابچہ ’’نوحہ کشمیر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ کشمیر کی تحریک آزادی کے آغاز پر مظلوموں کی مدد کرنے کیلئے بہت سے زعماء ہندوستان کی خدمت میں خطوط بھیجے گئے جن میں علامہ اقبال، شیخ صادق حسین امرتسری، امام جماعت احمدیہ اور خواجہ حسن نظامی دہلوی شامل ہیں۔ امام جماعت احمدیہ کی طرف سے یکمشت ایک خطیر رقم موصول ہوئی لیکن باقی سب کی طرف سے یہ جواب آیا کہ آپ نے ایسے خطرناک کام میں کیوں ہاتھ ڈالا؟۔