سیرالیون میں میرے ابتدائی ایّام
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 31؍مئی 2012ء میں مکرم محمد صدیق شاہد صاحب گورداسپوری کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے سیرالیون میں اپنے ابتدائی ایّام کے احوال پر روشنی ڈالی ہے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ خاکسار پہلی بار دسمبر 1952ء میں بطور مبلغ سیرالیون پہنچا تو اُن دنوں Bo میں جماعت احمدیہ سیرالیون کا سالانہ جلسہ منعقد ہو رہا تھا۔ جس میں چند منٹ کی تقریر میں مجھے سیرالیونی احمدیوں تک حضرت مصلح موعودؓ اور پاکستانی احمدیوں کا سلام پہنچانے کا موقع ملا۔ میرے دائیں بائیں مینڈے اور ٹمنی زبانوں کے ترجمان کھڑے تھے جو میرے ہر فقرہ کے بعد اس کا ترجمہ بیان کرتے۔ جلسہ کے آخری دن تمام حاضرین ایک جلوس کی شکل میں شہر کی سڑکوں سے نعرۂ ہائے تکبیر بلند کرتے ہوئے گزرتے تو یہ ایک ایمان افروز نظارہ تھا کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ کو الہاماً بتایا گیا تھا کہ ’’مَیں تیرے خالص اور دلی محبّوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور اُن کے نفوس اور اموال میں برکت دوں گا اور اُن میں کثرت بخشوں گا‘‘۔
چند دن بعد مکرم چوہدری نذیر احمد صاحب رائیونڈی امیر و مبلغ انچارج کی ہدایت پر احمدیہ مرکز Bajibu کے لئے روانہ ہوا۔ پہلے بذریعہ گاڑی Balama تک پہنچا جس کی رفتار گیارہ بارہ میل فی گھنٹہ تھی۔ باقی سفر ایک ٹرک میں کیا جس میں چاولوں کی بوریاں لدی ہوئی تھیں۔
باجے بو جماعت کا قیام حضرت مولوی نذیر احمد علی صاحب کے ذریعہ قریباً 1939ء میں عمل میں آیا تھا جس کے صدر عزّت مآب پیراماؤنٹ چیف ناصرالدین گمانگا (M.B.E) تھے۔ (جن کا ذکر خیر قبل ازیں 15 مئی 1998ء کے شمارہ میں ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں مضمون نگار کے حوالہ سے ہی شامل اشاعت کیا جاچکا ہے۔)
چند دن بعد ایک قریبی گاؤں تبلیغ کے لئے جانے لگا تو صرف ڈیڑھ روٹی پڑی تھی۔ مَیں نے سوچا کہ ناشتہ کے طور پر کچھ پھل کھا لیتا ہوں تاکہ یہ روٹی رات کے کھانے میں کام آجائے (کیونکہ روٹی Balama سے منگوانی پڑتی تھی)۔ پھر خیال آیا کہ جس کے کام کے لئے نکل رہا ہوں، کیا وہ روٹی کا انتظام نہیں کرے گا۔ چنانچہ اس روٹی سے ناشتہ کیا اور پھر تبلیغی دورہ مکمل کرکے شام کو واپس پہنچا تو ایک شخص آیا اور بتایا کہ وہ بلاما سے آرہا تھا اور میرے لئے تحفۃً وہاں سے بارہ روٹیاں لیتا آیا ہے۔ سالن محترم گمانگا صاحب کی ایک بیوی کے ہاں سے آتا تھا۔
ایک روز چیف گمانگا صاحب میرے پاس آئے تو کہا کہ انہوں نے اپنی دوسری بیوی کو کھانا بھجوانے کا کہہ دیا ہے اور آئندہ پہلی بیوی کی طرف سے آنے والا کھانا نہیں لینا۔ چنانچہ مَیں نے ایسا ہی کیا۔ بعد میں انہوں نے بتایا کہ جو بیوی کھانا بھجوایا کرتی تھی وہ گاؤں کی ایک ایسی محفل میں شامل ہوئی ہے جس میں ناچ گانا ہو رہا تھا۔ چنانچہ انہوں نے یہ بات ناپسند کی کہ ایسی عورت جو گانے کی محفل میں شامل ہوئی ہو وہ ایک مبلغ سلسلہ کا کھانا بھی پکائے۔ بعد میں اُس بیوی نے اُن سے بہت معافیاں مانگیں اور کہا کہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کرے گی۔ چنانچہ کچھ عرصہ بعد اُسے دوبارہ میرے لئے کھانا تیار کرنے کی اجازت مل گئی۔
چیف گمانگا صاحب نہایت مخلص اور فدائی احمدی تھے۔ انہوں نے اپنے لئے علیحدہ ایک کمرہ، برآمدہ اور بیت الخلاء تعمیر کروایا ہوا تھا جس میں کسی اَور کو جانے کی اجازت نہیں تھی لیکن اس کی ایک چابی مجھے دی ہوئی تھی۔
30نومبر 1953ء کو مَیں ایک نئے مقام مگبورؔ میں متعیّن ہوا۔ وہاں ایک پرانی جماعت قائم تھی، مسجد اور ایک پرائمری سکول بھی تھا۔ مشن کی عمارت کچّی اور خستہ حالت میں تھی جس کے ایک حصہ میں ٹیچر رہتا تھا، دو کمرے مبلغ کے لئے تھے جو گردوغبار سے اَٹے پڑے تھے۔ فرنیچر بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ ایک میز اور لوہے کی چند ٹوٹی پھوٹی کرسیاں تھیں۔ بستر کے بغیر چارپائی تھی۔ بیت الخلاء نہیں تھا اور اس کے لئے سکول جانا پڑتا تھا۔ الاؤنس 9 پاؤنڈ ماہوار تھا جو باقاعدہ نہیں تھا۔ گزارہ کرنے کے لئے چندہ جمع کرنے اور کتابیں وغیرہ فروخت کرنے کی ہدایت تھی۔ 2فروری 1953ء کو سیرالیون کے انگریز گورنرجنرل مگبورؔ کے دورہ پر آئے اس موقع پر معززینِ شہر کو مدعو کیا گیا جن میں احمدی مبلغین بھی شامل تھے۔ لیکن ہمارے مشن کی حالت یہ تھی کہ سائیکل تک لینے کی گنجائش نہیں تھی۔ سامان سے لدے ہوئے ٹرکوں میں سفر کرکے تبلیغی دورے کرتے۔