سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ
ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ مئی 2004ء میں حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کی حضرت مسیح موعودؑ سے متعلق بعض روایات شائع ہوئی ہیں۔
٭ حضور علیہ السلام پرندوں کا گوشت بہت پسند فرمایا کرتے تھے۔ خصوصاً بھٹڑ ، تلیر اور ممولا۔ ممولا کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ یہ درد گردہ کے لئے بہت مفید ہے۔
٭ ایک دفعہ ایک نانبائی کے متعلق شکایت ہوئی کہ یہ کھانے میں چوری کرتا ہے تو حضور ہنس پڑے اور فرمایا: اگر یہ ولی اللہ ہوتا تو خدا تعالیٰ اسے ایسے کام میں کیوں ڈالتا ۔ یہ ایک روٹی کے لئے دودفعہ جہنم میں جاتا ہے۔
٭ حضورؑ عموماً رات دس گیارہ بجے تک کام کیا کرتے تھے اور پھر سونے کی تیاری کیا کرتے تھے۔
٭ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جن دنوں اپنا لاہور کا آخری سفر کرنا تھا (تو اس میں کئی دفعہ کئی قسم کی روکیں پیدا ہوتی رہیں۔ ایک دفعہ تو حضور دو دن کے لئے اس لئے بھی رک گئے کہ مجھے تیز بخار اور پیچش کی شکایت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد چونکہ بٹالہ سے لاہور تک کے لئے گاڑی ریزرو ہو چکی تھی اس لئے حضور کو بہر حال جانا پڑنا تھا)۔ حضورؑ قادیان سے بٹالہ تشریف لے گئے۔ رات بٹالہ میں رہے جہاں کی جماعت نے حضور کو رات کھانے کی دعوت دی تھی۔ جب شام کے قریب حضورؑ بٹالہ پہنچے تو جماعت کے لوگ کافی وقت گئے تک حضورؑ سے ملتے رہے اور بہت رات گئے تک بھی انہوں نے کھانے وغیرہ کا کوئی انتظام نہ کیا۔
جب سب دوست مل ملا کر فارغ ہوئے تو پھر اس طرف متوجہ ہوئے۔ حتّٰی کہ رات کے کوئی دو بج گئے۔ میں تو چھوٹی عمر میں تھا اور بیمار بھی تھا اس لئے زیادہ دیر تک برداشت نہ کر سکا۔ چنانچہ مجھے تنور کی روٹی بازار سے منگوا کر شوربے میں بھگو کر دی گئی اور وہی میں نے کھالی۔ اسی طرح خود حضرت اماں جانؓ نے اپنی کا بھوک کا بڑی شدت سے اظہار فرمایا تھا لیکن اتنی دیر ہونے اور تکلیف کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق کا یہ عالم تھا کہ آپؑ نے کسی معمولی اشارہ سے بھی اپنی تکلیف یاناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا بلکہ نہایت صبر اور سکون سے وقت گذارا بلکہ علیحدگی میں اپنے گھر والوں سے بھی اس تکلیف کا ذکر نہیں فرمایا۔
٭ مئی 1908ء میں لاہور جاتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ نے حجرہ بند کیا۔ حجرہ وہ کمرہ ہے جس میں آخری عمر میں آپؑ تصنیف فرمایا کرتے تھے۔ اس کا ایک دروازہ امّ ناصر کے مکان کی طرف کھلتا تھا۔ دوسرا بیت الدعا میں اور تیسرا میرے سابقہ مکان کے صحن میں۔ اس حجرہ کو بند کرتے ہوئے آپؑ نے فرمایا: ’’اب ہم اس کو نہیں کھولیں گے‘‘۔ چنانچہ اس کے بعد حضور کی وفات ہو گئی اور پھر حضور کو یہ حجرہ کھولنے کا موقع نہیں ملا۔
اسی طرح حضورؑ کی وفات سے ایک دن پہلے عصر کی نماز کے وقت ایک ڈاکٹر حضور کے پاس آیا۔ اس نے چند سولات کئے جن کے جوابات حضور نے بڑے اختصار سے دئیے اور فرمایا کہ یہ تمام باتیں میں اپنی کتاب میں لکھ چکا ہوں۔ اس کے بعد اس ڈاکٹر نے پھر اصرار کیا اور کچھ اور باتیں پوچھیں تو حضورؑ نے فرمایا : اب ہم اپنا کام ختم کر چکے ہیں۔