سیرت حضرت مسیح موعودؑ
سال 1901ء کے پیش آمدہ احوال کی روشنی میں حضرت مسیح موعودؑ کی سیرت کے چند روح پرور واقعات (مرتّبہ: مکرم ریاض محمود باجوہ صاحب) ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ مارچ 2001ء کی زینت ہیں۔
٭ کتاب ’’اعجازالمسیح‘‘ کی تصنیف کے دوران 15؍فروری کو سکول کے طلبہ کا ایک کرکٹ میچ تھا۔ حضورؑ کے ایک صاحبزادہ نے بچپن کی سادگی میں پوچھا کہ ابّا! آپ کرکٹ پر نہیں گئے۔ حضورؑ نے فرمایا: ’’وہ تو کھیل کر واپس آجائیں گے مگر مَیں وہ کرکٹ کھیل رہا ہوں جو قیامت تک قائم رہے گا‘‘۔
٭ 25؍فروری کو حضورؑ نے فرمایا کہ مَیں اس بات کے پیچھے لگا ہوں کہ اپنی جماعت کے واسطے ایک خاص دعا کروں۔ دعا تو ہمیشہ کی جاتی ہے مگر ایک نہایت جوش کی دعا کرنا چاہتا ہوں، جب اس کا موقع مل جائے۔
٭ حضرت اقدسؑ نے 5؍مارچ کو ایک اشتہار میں مخالف علماء کو صلح کی دعوت دیتے ہوئے تحریر فرمایا:
’’اگر یہ کاروبار خدا کی طرف سے نہیں ہے تو خود یہ تباہ ہوجائے گا اور اگر خدا کی طرف سے ہے تو کوئی دشمن اس کو تباہ نہیں کرسکتا اس لئے محض قلیل جماعت خیال کرکے تحقیر کے درپے رہنا طریق تقویٰ کے برخلاف ہے۔ یہی تو وقت ہے کہ ہمارے مخالف علماء اپنے اخلاق دکھلائیں ورنہ جب یہ احمدی فرقہ دنیا میں چند کروڑ انسانوں میں پھیل جائے گا اور ہر ایک طبقہ کے انسان اور بعض ملوک بھی اس میں داخل ہوجائیں گے جیسا کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے تو اس زمانہ میں تو یہ کینہ اور بغض خودبخود لوگوں کے دلوں سے دُور ہوجائے گا لیکن اس وقت کی مخالطت اور مدارات خدا کے لئے نہیں ہوگی‘‘۔
٭ 1901ء میں ہی حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے مخالف رشتہ داروں کی بذریعہ خط درخواست پر مقدمہ دیوار کے سلسلہ میں اُن کے خلاف ہرجانہ اور خرچہ کی ڈگری معاف فرمادی۔
٭ 17؍نومبر کو حضورؑ نے ترکوں کا ذکر ہونے پر فرمایا: ’’اگرچہ ہمارے نزدیک اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْ ہی ہے اور ہمیں خواہ مخواہ ضروری نہیں کہ ترکوں کی تعریف کریں یا کسی اَور کی۔ مگر سچی اور حقیقی بات کے اظہار سے ہم رُک نہیں سکتے۔ ترکوں کے ذریعہ سے اسلام کو بہت بڑی قوت حاصل ہوئی ہے۔… دنیا میں خدا تعالیٰ نے دو ہی گروہ رکھے ہوئے ہیں۔ ایک ترک اور دوسرے سادات۔ ترک ظاہری حکومت اور ریاست کے حقدار ہوئے اور سادات کو فقر اور روحانی فیض کا مبدء قرار دیا۔ چنانچہ صوفیوں نے فقر اور روحانی فیوض کا مبدء سادات ہی کو ٹھہرایا ہے اور مَیں نے بھی اپنے کشوف میں ایسا ہی پایا ہے‘‘۔
٭ 30؍نومبر کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ اور حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی آمین کی تقریب منعقد ہوئی۔ حضورؑ نے شکرانہ کے طور پر ایک دعوت کا انتظام کیا اور مساکین اور یتامیٰ کو کھانا کھلایا اور دعائیہ نظم بھی کہی۔