سیرت حضرت مسیح موعود ؑ اور مصلح موعود کے بعض درخشندہ گوشے

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12؍ مئی و 25؍مئی 2004ء میں مکرم حبیب الرحمٰن زیروی صاحب کے قلم سے شامل اشاعت دو مضامین میں حضرت مسیح موعودؑ کی سیرۃ کو حضرت مصلح موعودؓ کے حوالہ سے بیان کیا گیا ہے۔

حبیب الرحمن زیروی صاحب

اسی سلسلہ کے دیگر مضامین قبل ازیں 19؍مارچ اور 2؍جولائی 2004ء کے شمارہ کے اسی کالم میں شائع ہوچکے ہیں۔

نماز باجماعت اور بچوں کی نگرانی
حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں: میرے نزدیک ان ماں باپ سے بڑھ کر کوئی دشمن نہیں جو بچوں کو نماز باجماعت ادا کرنے کی عادت نہیں ڈالتے۔ ایک دفعہ حضرت صاحب کچھ بیمار تھے اس لئے جمعہ کے لئے مسجد نہ جاسکے۔ میں اس وقت بالغ نہیں تھا تاہم جمعہ پڑھنے کیلئے مسجد آرہا تھا کہ ایک شخص مجھے ملا۔ میں نے ان سے پوچھا: کیا نماز ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا آدمی بہت ہیں،مسجد میں جگہ نہیں تھی میں واپس آگیا۔ میں بھی یہ جواب سن کر واپس آگیا اور گھر میں آکر نماز پڑھ لی۔ حضرت صاحب نے یہ دیکھ کر مجھ سے پوچھا مسجد میں نماز پڑھنے کیوں نہیں گئے؟ آپ کے پوچھنے میں ایک سختی تھی اور چہرہ سے غصہ ظاہر ہوتا تھا۔ مَیں نے کہا کہ میں گیا تو تھا لیکن جگہ نہ ہونے کی وجہ سے واپس آگیا۔ آپ یہ سن کر خاموش ہوگئے لیکن جس وقت جمعہ پڑھ کر مولوی عبدالکریم صاحب آپؑ کی طبیعت کا حال پوچھنے کے لئے آئے تو سب سے پہلی بات جو حضور ؑ نے دریافت کی وہ یہ تھی: کیا آج لوگ مسجد میں زیادہ تھے؟ اس وقت میرے دل میں سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی کہ اگر مجھے غلط فہمی ہوئی ہے یا مجھے بتانے والے کو ہوئی ہے دونوں صورتوں میں الزام مجھ پر آئے گا کہ میں نے جھوٹ بولا۔ مولوی صاحب نے جواب دیا کہ ہاں حضور آج واقعہ میں بہت لوگ تھے۔ خدا نے میری بریت کیلئے یہ سامان کردیا کہ مولوی صاحب کی زبان سے بھی اس کی تصدیق کرادی۔ اس واقعہ کا آج تک میرے قلب پر گہرا اثر ہے۔ اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کو نماز باجماعت کا کتنا خیال رہتا تھا۔
بچوں کی دلداری
ہماری والدہ صاحبہ کبھی ناراض ہوکر فرمایا کرتیں کہ اس کا سر بہت چھوٹا ہے تو حضرت مسیح موعود ؑ فرمایا کرتے تھے یہ کوئی بات نہیں، راٹیکین جوبہت مشہور وکیل تھا اور جس کی قابلیت کی دھوم سارے ملک میں تھی اس کا سر بھی چھوٹا سا تھا۔ تو جو والدین اپنی اولاد کو شاہ دولہ کا چوہا بناتے ہیں ان کے بڑے سر اس بات پر دلالت نہیں کرتے کہ وہ بہت عقلمند ہیں۔ جو شخص اپنی اولاد کو علم وعرفان سے محروم کرتا ہے اور اس کا سر اگرچہ بڑا ہی ہو تب بھی وہ بے عقل ہی ہے۔ جس کا اتنا دماغ ہی نہیں کہ سمجھ سکے کہ خدا اور رسول کیا ہے، قرآن کیا ہے ؟وہ عرفان کیا حاصل کرسکتاہے۔
حضرت اماں جان اور برکات نزول
اس وقت میری عمر بہت چھوٹی تھی مگر یہ خدا کا فضل تھا کہ باوجود یکہ لکھنے پڑھنے کی طرف توجہ نہ تھی جب سے ہوش سنبھالی حضرت مسیح موعود ؑ پر کامل یقین اور ایمان تھا۔ اگر اس وقت والدہ صاحبہ کوئی ایسی حرکت کرتیں جو میرے نزدیک حضرت مسیح موعود ؑ کی شان شایان نہ ہوتی تو میں یہ نہ دیکھتا کہ ان کا میاں بیوی کا تعلق ہے اور میرا ان کا ماں بچہ کا تعلق ہے بلکہ میرے سامنے پیر اور مرید کا تعلق ہوتا حالانکہ میں بھی حضرت مسیح موعود ؑ سے کچھ نہ مانگتا تھا۔ والدہ صاحبہ ہی میری تمام ضروریات کا خیال رکھتی تھی۔ باوجود اس کے والدہ صاحبہ کی طرف سے اگر کوئی بات ہوتی تو مجھے گراں گزرتی۔ مثلاً خدا کے کسی فضل کا ذکر ہوتا تو والدہ صاحبہ کہتیں: میرے آنے پر ہی خدا کی یہ برکت نازل ہوئی ہے۔ اس قسم کا فقرہ میں نے والدہ صاحبہ کے منہ سے کم ازکم سات آٹھ دفعہ سنا اور جب بھی سنتا، گراں گزرتا۔ میں اسے حضرت مسیح موعود ؑ کی بے ادبی سمجھتا لیکن اب درست معلوم ہوتا ہے اور حضرت مسیح موعود ؑ بھی اس فقرہ سے لذت پاتے تھے… چنانچہ نکاح کے بعد ہی آپؑ کی ماموریت کا سلسلہ جاری ہوا۔ خدا تعالیٰ نے بڑی عظیم الشان پیشگوئیاں کرائیں اور آپؑ کے ذریعہ دنیا میں نور نازل کیا۔
بری عادت سے ٹوکنا چاہئے
مجھے ایک دوست کا احسان اپنی ساری زندگی میں نہیں بھول سکتا۔ 1903ء کی بات ہے جب حضرت مسیح موعود ؑ مولوی کرم دین والے مقدمہ کی پیروی کے لئے گورداسپور میں مقیم تھے۔ وہ دوست مراد آباد (یوپی) کے رہنے والے تھے اور فوج میں رسالدار میجر تھے۔ محمد ایوب ان کا نام تھا۔ وہ حضورؑ سے ملنے آئے تھے۔ انہوں نے دوباتیں ایسی کیںجو میرے لئے ہدایت کا موجب ہوئیں۔ دلی میں رواج تھا کہ بچے باپ کو تم کہہ کر اور لکھنؤ وغیرہ میں ’’آپ‘‘ کے لفظ سے مخاطب کرتے ہیں۔ گھر میں ہمیشہ تم تم کا لفظ سنتے رہنے سے میری عادت بھی تم کہنے کی ہو گی ۔ چنانچہ میں نے آپؑ سے بات کرتے ہوئے ’تم‘ لفظ استعمال کیا۔ یہ لفظ سن کر اس دوست نے مجھے بازو سے پکڑ لیا اور مجلس سے ایک طرف لے گئے اور کہا ’’میرے دل میں آپ کا بڑا ادب ہے لیکن یہ ادب ہی چاہتا ہے کہ آپکو آپکی غلطی سے آگاہ کروں۔ اور وہ یہ کہ آپ کو حضرت مسیح موعود ؑ کو مخاطب کرتے وقت کبھی بھی ’تم‘ کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہئے بلکہ ’آپ‘ کے لفظ سے مخاطب کریں ورنہ آپ نے پھر یہ لفظ بولا تو جان لے لوں گا‘‘۔
اسی طرح ایک دفعہ میں نے لاہور آنے پر یہاں بعض لڑکوں کو نکٹائی لگاتے دیکھا اور میں نے بھی شوق سے ایک نکٹائی پہننی شروع کر دی۔ گورداسپور ہی کا واقعہ ہے کہ وہی دوست مجھے ایک طرف لے گئے اور کہنے لگے ’’آج آپ نے نکٹائی پہنی ہے تو ہم کل کنچنیوں کا تماشہ دیکھنے لگ جائیں گے کیونکہ ہم نے تو آپ سے سبق سیکھنا ہے، جو قدم آپ اٹھائیں گے ہم بھی آپ کے پیچھے چلیں گے ‘‘۔ یہ کہہ کر انہوں نے مجھ سے نکٹائی مانگی اور میں نے اتار کر اُن کو دیدی۔
پس ان کی یہ دو نصیحتیں مجھے کبھی نہیں بھول سکتیں اور میں سمجھتاہوں کہ ایک مخلص متنبع کو ایسا ہی ہونا چاہئے۔ اگر ہمارے خاندان کا کوئی نوجوان اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھتا تو صاحبزادہ صاحب! صاحبزادہ صاحب کہہ کر اس کا دماغ بگاڑنا نہیں چاہئے بلکہ اس کو کہنا چاہئے کہ اپنی اصلاح کریں۔‘‘
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلام کوئی ظاہری لباس معین کرتا ہے جس کا ترک کرنا کسی انسان کو قابل مؤاخذہ بنا دے؟ واقعہ یہ ہے کہ انگریز ہندوستان میں ایک حاکم کے طور پر آیا اور اس کے لباس اور عادات اور اطوار کو ہندوستانیوں نے اس بناء پر قبول نہیں کہ ان میں کوئی فوقیت پائی جاتی تھی بلکہ یہ نقل ایک غلامانہ ذہنیت کے نتیجہ میں شروع ہوئی۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے صحابہؓ آپؑ کی اولاد سے اتنی بلند توقعات رکھتے تھے کہ ان کیلئے ایک ادنیٰ سی لغزش بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔
حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ کی رائے چالیس آدمیوں کے برابر
ایک دن حضرت صاحب اندر آئے تو والدہ صاحبہ سے کہا کہ انہیں ( یعنی مجھے) انجمن کا ممبر بنا دیا ہے نیز ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب کو اور مولوی صاحب کو تاکہ اور لوگ کوئی نقصان نہ پہنچادیں … آپ کو کہا گیا 14نام لکھ لئے ہیں۔ حضرت صاحب نے فرمایا اور چاہئیں، باہر کے آدمی بھی ہوں … اس پر کہا گیا کہ زیادہ آدمیوں سے کورم نہیں پورا ہوگا۔ آپ نے فرمایا اچھا تھوڑے سہی۔ پھر کہا: مولوی صاحبؓ کی رائے چالیس آدمیوں کے برابر ہو۔ اس وقت ان لوگوں نے دھوکا دیا کہ حضرت! ہم نے مولوی صاحب کو پریذیڈنٹ بنا دیا ہے اور پریذیڈنٹ کی آراء پہلے ہی زیادہ ہوتی ہیں۔ حضرت صاحب نے کہا ہاں یہی میرا منشاء ہے کہ ان کی آراء زیادہ ہوں۔ مجھے اس وقت انجمنوں کا زیادہ علم نہ تھا ورنہ بول پڑتا کہ پریذیڈنٹ کی ایک ہی زائد رائے ہوتی ہے۔ انہوں نے پھر تفصیلی قواعد مجھے ہی دئیے جو میں حضرت صاحب کے پاس لے گیا۔ آپؑ کوئی ضروری کتاب لکھ رہے تھے۔ آپؑ نے پوچھا کیا ہے؟ مَیں نے کہا: انجمن کے قواعد ہیں۔ فرمایا: لے جاؤ ابھی فرصت نہیں، گویا آپ نے ان کو کوئی وقعت نہ دی۔
حُقّہ
ہم ایک دفعہ پہاڑ پر جارہے تھے تو میرے ساتھیوں میں ایک احمدی پٹھان کو نسوار کھانے کی عادت تھی، بدقسمتی سے وہ اپنی ڈبیا گھر میں بھول آئے تھے۔ راستہ میں ایک کشمیری مزدور آرہا تھا جس نے اپنے کندھے پر لکڑیاں اٹھائی ہوئی تھیں وہ اسے دیکھتے ہی نہایت لجاحت کے ساتھ کہنے لگے اے بھائی کشمیری جی! اے بھائی جی! آپ کے پاس نسوار ہے ۔ مجھے یہ بات سن کے بے اختیار ہنسی آگئی کہ جو شخص تکبر کی وجہ سے اپنی گردن بھی نیچی نہیں کرتا تھا آج نشہ پورانہ ہونے کی وجہ سے کس قدر لجاجت پر اتر آیا ہے۔
حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں جو دوست آتے تھے ان میں بعض حقہ کے عادی ہوتے تھے۔ ان دنوں قادیان میں صرف ہمارے ایک تایا کے پاس حقہ ہوا کرتا تھا جو سخت دہریہ تھے مگر حقہ کی عادت کی وجہ سے لوگ اُن کے پاس بھی چلے جاتے اور مجبوراً ان کی باتیں سننی پڑتیں۔ہمارے تایا دین سے ایسے بے تعلق تھے کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول نے ان سے پوچھا کہ آپ نے کبھی نماز پڑھی ہے۔ وہ کہنے لگے میں تو بچپن سے ہی بڑا سلیم الطبع واقع ہوا ہوں۔ میں چھوٹی عمر میں ہی دیکھتا کہ لوگوں نے سرنیچے اور سرین اوپر کئے ہوئے ہیں تو میں ہنستا کہ یہ کیسے بیوقوف لوگ ہیں۔ اور اب تو میں بہت سمجھدار ہوں میں نے نماز کیا پڑھنی ہے۔ ایک دفعہ ایک احمدی وہاں حقہ پینے کے لئے چلا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد اپنے آپ کو گالیاں دیتے ہوئے واپس آگیا۔ کسی نے پوچھا کہ کیا بات ہے۔ وہ کہنے لگا کہ میں اپنے آپکو اس لئے برابھلا کہہ رہا ہوں کہ محض حقہ کی عادت کی وجہ سے مجھے اُس کے پاس جانا پڑا اور حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف باتیں سننی پڑیں۔
حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ کی وفات
1905ء آیا۔ مولوی عبد الکریم صاحبؓ بیمار ہوئے۔ میری عمر سترہ سال کی تھی اور ہم سارا دن کھیل کود میں مشغول رہتے تھے۔ ایک دن یخنی لے کر میں مولوی صاحب کے لئے گیا تھا، اس کے سوا یاد نہیں کہ کبھی پوچھنے بھی گیا ہوں۔ اس زمانہ کے خیالات کے مطابق یقین کرتا تھا کہ مولوی صاحب حضرت مسیح موعود ؑ کے بعد فوت ہونگے۔ مولوی صاحب کی طبیعت تیز تھی ایک دو سبق ان کے پاس الف لیلہ کے پڑھے پھر چھوڑ دئیے۔ اس سے زیادہ ان سے تعلق نہ تھا۔ ہاں ان دنوں میں یہ بحثیں خوب ہوا کرتی تھیں کہ حضرت مسیح موعود ؑ کادایاں فرشتہ کون سا ہے اور بایاں فرشتہ کون سا ہے۔ بعض کہتے مولوی عبد الکریم صاحب دائیں ہیں اور بعض حضرت استاذی المکرم خلیفہ اول کی نسبت کہتے کہ وہ دائیں فرشتے ہیں۔ علموں اور کاموں کا موازنہ کرنے کی اس وقت طاقت ہی نہ تھی۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں اس محبت کی وجہ سے جو حضرت خلیفہ اولؓ مجھ سے کیا کرتے تھے میں نورالدینیوں میں سے تھا۔ ہم نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ سے بھی دریافت کیا تھا اور آپؑ نے ہمارے خیال کی تصدیق کی۔ غرض (حضرت) مولوی عبد الکریم صاحب سے کوئی زیادہ تعلق مجھے نہیں تھا سوائے اس کے کہ اُن کے پُرزور خطبوں کا مداح تھا اور ان کی محبت حضرت مسیح موعود ؑ کا معتقد تھا مگر جونہی آپ کی وفات کی خبر میں نے سنی میری حالت میں ایک تغیر پیدا ہوا۔ وہ آواز ایک بجلی تھی جو میرے جسم کے اندر سے گزرگئی۔ دوڑ کر اپنے کمرہ میں گھس گیا ۔ پھر ایک بے جان لاش کی طرح چارپائی پر گر گیا اور میری آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ دنیا کی بے ثباتی، مولوی صاحب کی محبت اور خدمت مسیح موعود ؑ کے نظارے آنکھوں کے سامنے پھرتے تھے۔ باربار خیال آتا تھا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے کاموں میں یہ بہت ہاتھ بٹاتے تھے اب آپؑ کو بہت تکلیف ہوگی۔ اور پھر خیالات پر ایک پردہ پڑجاتا تھا اور میری آنکھوں سے آنسو کا دریا بہنے لگتاتھا۔ اس دن میں نہ کھانا کھا سکا نہ میرے آنسو تھمے حتی کہ حضرت مسیح موعود ؑ کو بھی تعجب ہوا اور آپؑ نے حیرت سے فرمایا: محمود کوکیا ہوگیا ہے اس کو تو مولوی صاحب سے کوئی ایسا تعلق نہ تھا یہ تو بیمار ہوجائے گا۔
ایک عہد
1908ء کا ذکر میرے لئے تکلیف دہ ہے۔اس سال وہ ہستی جو ہمارے بے جان جسموں کیلئے بمنزلہ بینائی کے تھی اور ہمارے تاریک دلوں میں بمنزلہ روشنی کے تھی، ہم سے جدا ہوگئی۔ یہ ایک قیامت تھی۔ اللہ تعالیٰ گواہ ہے اس وقت صرف ایک خیال تھا کہ اگر ساری دنیا بھی مسیح موعود ؑ کو چھوڑ دے تو میں نہیں چھوڑوں گا۔ اور پھر اس سلسلہ کو دنیا میں قائم کروں گا۔
قلم کا جہاد
انبیاء کا دل بڑا شکرگزار ہوتا ہے۔ معمولی سے معمولی بات پر بھی بڑا احسان محسوس کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی کتابیں جب دن رات چھپتیں تو باوجود اس کے کہ آپ کئی کئی راتیں بالکل نہیں سوتے تھے لیکن جب کوئی شخص رات کو پروف لاتا تو اس کے آواز دینے پر خود اٹھ کر لینے کیلئے جاتے اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے جاتے کہ جَزَاکَ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَآئِ، اس کو کتنی تکلیف ہوئی ہے۔یہ لوگ کتنی تکلیف برداشت کرتے ہیں خدا ان کو جزائے خیر دے۔ حالانکہ آپ خود ساری رات جاگتے رہتے تھے۔ میں کئی بار آپ کو کام کرتے دیکھ کر سویا اور جب کہیں آنکھ کھلی تو کام کرتے ہی دیکھا حتی کہ صبح ہوگئی۔
حضورؑ کے والد صاحب کی وفات
حضرت مسیح موعود ؑ کے والد صاحب فوت ہوگئے تو آپؑ روزہ داری اور شب بیداری میں ہی اپنے اوقات بسر کرنے لگ گئے اور اخبارات ورسائل کے ذریعہ دشمنانِ اسلام کے حملوں کا جواب دیتے رہتے۔ اِس زمانہ میں لوگ ایک ایک پیسہ کے لئے لڑتے ہیں مگر آپؑ نے اپنی سب جائیداد اپنے بڑے بھائی صاحب کے سپرد کر دی۔ کھانا ان کے گھر سے آپؑ کو آجاتا اور جب وہ ضرورت سمجھتے کپڑے بنوادیتے اور آپ نہ جائیداد کا حصہ لیتے اور نہ اس کا کوئی کام کرتے لوگوں کو نماز روزہ کی تلقین کرتے اور غریبوں مسکینوں کی بھی خبر رکھتے۔ اَور تو آپ کے پاس کچھ تھا نہیں بھائی کے ہاں سے جو کھانا آتا اسی کو غرباء میں بانٹ دیتے اور بعض دفعہ دوتین تولہ غذا پر گزارہ کرتے اور بعض دفعہ یہ بھی نہ باقی رہتی اور فاقہ سے ہی رہ جاتے، یہ نہیں تھا کہ آپ کی جائیداد معمولی تھی۔ بلکہ ایک سالم گاؤں آپ کے اور آپ کے بھائی کا مشترکہ تھا اور علاوہ ازیں جاگیر وغیرہ کے بھی آمدن تھی۔
والد صاحب کی غرباء کی خبر گیری
حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے تھے کہ آپ کے والد صاحب ایک موسم میں خاص مقدار میں غرباء میں غلہ اور نقدی تقسیم کرتے۔
قادیان کے دو حصے
حضرت مسیح موعود ؑ فرمایا کرتے تھے کہ قادیان کے اندر دوملّا تھے جن میں بسا اوقات اس قسم کی باتوں پر جھگڑا ہوجایا کرتا تھا کہ کسی شخص کے مرنے پر اس کے کفن کی چادر کے متعلق ایک کہتا تھا کہ یہ میرا حق ہے اور دوسرا کہتا تھا کہ میرا حق ہے۔ ہمارے والد صاحب نے ان جھگڑوں کو دیکھ کر قادیان کے دوحصے کرکے ان میں بانٹ دئیے تاکہ ان میں لڑائی نہ ہو مگران میں سے ایک ملّا دوتین دن کے بعد روتا ہوا والد صاحب کے پاس آیا اور چیخ مار کر کہنے لگا: مرزا صاحب! آپ نے انصاف سے کام نہیں لیا۔ والد صاحب نے پوچھا تمہارے ساتھ کیا بے انصافی ہوئی تو وہ کہنے لگا آپ نے میرے حصہ میں جن لوگوں کو رکھا ہے ان کا قد تو اتنا چھوٹا ہے کہ ان کے کفن کی چادر سے دوپٹہ بھی نہیں بن سکتا۔
چھ ماہ کے روزے رکھنا
جب ہمارے دادا فوت ہوگئے تو باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی توجہ دین کی طرف اس قدر تھی کہ بڑے بھائی سے جائیداد وغیرہ کے متعلق کوئی سوال نہ کیا۔ آپ دن رات مسجد میں پڑے رہتے۔ میں نے حضرت مسیح موعود ؑ سے سنا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ان دنوں میں بھنے ہوئے چنے اپنے پاس رکھ لیا کرتا تھا اور آخر عمر تک باوجود یکہ بڑھاپا آگیا تھا آپ کو چنوں کا شوق رہا۔ اور شاید یہ ورثہ کا شوق ہے جو مجھے بھی ہے اور مجھے دنیا کی نعمتوں کے مقابلہ میں چنے اچھے لگتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود ؑ فرمایا کرتے تھے کہ میں پوشیدہ طور پر روزے رکھتا تو چنوں پر گزارہ کرلیتا تھا۔آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے چھ ماہ تک متواتر روزے رکھے۔اس عرصہ میں بسااوقات دوپیسے کے چنے آپ بھنوا کر رکھ لیتے۔
تبلیغ کا شوق آپ کو شروع سے ہی تھا۔ ہندو لڑکوں کو اپنے پاس جمع کر لیتے اور ان سے مذہبی گفتگو کرتے رہتے۔ حافظ معین الدین صاحب جو آپ کے خادم تھے اور نابینا تھے فرمایا کرتے تھے کہ مجھے حضرت مسیح موعود ؑ جب گھر سے کھانا لانے کے لئے بھیجتے تو بعض اوقات اندر سے عورتیں کہہ دیا کرتیں کہ انہیں تو ہر وقت مہمان نوازی کی فکر رہتی ہے ہمارے پاس کھانا نہیں ہے۔ پھر حضرت مسیح موعود ؑ اپنا کھانا دوسروں کوکھلا دیتے اور خود چنوں پر گزارہ کرتے۔
والدہ ماجدہ کی وفات
حضرت مسیح موعود ؑ کو اپنی والدہ سے بہت محبت تھی۔ آپ جن دنوں قادیان سے باہر تھے کہ آپ کو خبر پہنچی کہ آپ کی والدہ سخت بیمار ہیں۔ یہ سن کر آپ فوراً قادیان کی طرف روانہ ہوگئے تو جو شخص (آپ کو) لینے کے لئے آیا ہوا تھا۔ وہ باربار یکہ والے سے کہنے لگا کہ ذرا جلدی کرو بی بی صاحبہ کی طبیعت بہت خراب تھی، خدا خیر کرے۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد اور زیادہ تاکید کرنے لگا اور کہا کہ کہیں خدانخواستہ فوت ہی نہ ہو گئی ہوں۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے اس فقرہ سے سمجھ لیا کہ وہ فوت ہو چکی ہیں اور یہ مجھے اس صدمہ کے لئے تیار کر رہا ہے اور آپ نے اس سے کہا کہ تم ڈرو نہیں اور جو سچ بات ہے وہ بتادو۔ اس پر اس نے کہا: بات تو یہی ہے کہ وہ فوت ہو چکی ہیں۔
عدالت میں سچی گواہی
حضرت مسیح موعود ؑ کی بعثت سے پہلے خاندانی جائیداد کے متعلق ایک مقدمہ تھا۔ زمین اِن کی تھی لیکن قبضہ مکان کے مالک کا تھا۔ آپ ؑ کے بڑے بھائی صاحب نے اس زمین کے حصول کے لئے مقدمہ چلایا۔ اس پر اس گھر کے مالکوں نے کہا کہ ان کے چھوٹے بھائی کو بلا کر گواہی لی جائے اور جو وہ کہہ دیں ہمیں منظور ہوگا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ بطور گواہ عدالت میں پیش ہوئے اور پوچھنے پر بتایا کہ آپؑ ایک عرصہ سے ان لوگوں کو اس رستہ سے آتے جاتے اور اس پر بیٹھتے دیکھ رہے ہیں۔ اس پر عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ آپ کے بڑے بھائی صاحب بہت ناراض ہوئے مگر آپؑ نے فرمایا کہ جب امر واقعہ یہ ہے تو میں کس طرح انکار کر سکتا ہوں۔
رشتہ داروں کی مخالفت
حضرت مسیح موعود ؑ کا بائیکاٹ کیا گیا، لوگوں کو آپ کے گھر کا کام کرنے سے روکا جاتا، رشتہ دار طرح طرح کی تکلیفیں دیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ گجرات کے کچھ دوست جو سات بھائی تھے قادیان میں آئے اور باغ کی طرف اس واسطے گئے کہ وہ حضرت مسیح موعود ؑ کی طرف منسوب ہوتا تھا۔ راستہ میں ہمارے ایک رشتہ دار باغیچہ لگوا رہے تھے۔ اُنہوں نے ان سے دریافت کرنے کے بعد کہ کہاں سے آئے ہو اور کیوں آئے ہو؟ بتایا کہ دیکھو میں ان (یعنی حضرت اقدسؑ) کے ماموں کا لڑکا ہوں اور میں خوب جانتا ہوں کہ یہ ایسے ہیں ویسے ہیں۔ ان میں سے ایک نے اس کو پکڑ لیا اور کہا: میں تمہیں مارتا نہیں کیونکہ تم حضرت مسیح موعود ؑ کے رشتہ دار ہو، میں اپنے بھائیوں کو تمہاری شکل دکھانا چاہتا ہوں کیونکہ ہم سنا کرتے تھے کہ شیطان نظر نہیں آتا مگر آج ہم نے دیکھ لیا ہے کہ وہ ایسا ہوتا ہے۔
دادا کے دربار میں پانچ سو حفاظ
حضرت مسیح موعود ؑ اپنے دادا مرزا گل محمد صاحب کے متعلق بیان فرمایا کرتے تھے کہ ان کے دربار میں پانچ سو حفاظ تھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سپاہی وغیرہ ہر قسم کے پیشہ کے لوگ جوان کے دربار میں تھے ان میں سے ایک کثیرحصہ نے قرآن کریم کو حفظ کیا ہوا تھا۔… غرض قرآن کریم کی حفاظت کا ایک سامان خدا تعالیٰ نے یہ کیا کہ دلوں میں اس کے حفظ کی رغبت پیدا کر دی اور اس طرح لاکھوں لوگوں کے سینے میں قرآن کا ایک ایک لفظ بلکہ زیر اور زبر تک محفوظ کردی۔
حکومت کی طرف سے اعزاز کی پیشکش
حضرت مسیح موعود ؑ سے بھی کہا گیا اور دو دفعہ مجھے بھی کہلایا گیا کہ کیا حکومت اگر کوئی خطاب دے تو اسے قبول کرلیا جائے گا؟ مَیں نے کہا: اگر حکومت ایسا کرے گی تو وہ میری ہتک کرے گی۔ ہمیں خداتعالیٰ سے جو کچھ مل چکا ہے اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے اور اس سے بڑھ کر حکومت کیا دے سکتی ہے۔ اپنے متعلق خطاب کا ذکر تو الگ رہا، اگر جماعت احمدیہ کا کوئی شخص بھی خطاب کے متعلق کچھ سوچتا ہے تو میں اُسے یہی کہتا ہوں کہ مجھے تو انسانی خطاب سے گھن آتی ہے۔ احمدی کہلانے سے بڑا خطاب اور کیا ہوسکتا ہے۔
دعاؤں کی عادت
میں 1889ء میں پیدا ہوا اور 1898ء میں حضرت مسیح موعود ؑ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ گو بوجہ احمدیت میں پیدائش کے، مَیں پیدائش سے ہی احمدی تھا مگر یہ بیعت گویا میرے احساس قلبی کے دریا کے اندرحرکت پیدا ہونے کی علامت تھی۔
حضرت مسیح موعود ؑ سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا کہ میں تیری سب دعائیں قبول کروں گا، سوائے ان کے جو شرکاء کے متعلق ہوں۔ خدا کا یہ فرستادہ ہنری مارٹن کلارک والے مقدمہ کے موقع پر مجھے، جس کی عمر صرف 9سال کی تھی، دعا کے لئے کہتا ہے۔ گھر کے نوکروں اور نوکرانیوں کو کہتا ہے کہ دعائیں کرو۔ پس جب وہ شخص جس کی سب دعائیں قبول کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہوا تھا، دوسروں سے دعائیں کرانا ضروری سمجھتا ہے اور اس میں اپنی ہتک نہیں سمجھتا تو ایک ڈاکٹر کا دوسرے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا، کس طرح ہتک کا موجب ہوسکتا ہے۔
خاندان کی جنگی تاریخ
ہمارے خاندان کی تاریخ، جنگی تاریخ ہے اور اب بھی ہمارا فوج کے ساتھ تعلق ہے میں نے خود مرزا شریف احمد صاحب کو فوج میں داخل کرایا ہے اور اب ان کا لڑکا فوج میں شامل ہورہا ہے۔ ہمارے دادا فوجی جرنیل تھے۔ دلّی کے بادشاہوں کی چٹھیاں ہمارے پاس محفوظ ہیں جن میں اس امر کا اعتراف ہے کہ ہمارا خاندان ہی تھا جس نے سکھوں کے زمانہ میں اسلام کی حفاظت کے لئے قربانیاں کیں۔
حضرت مسیح موعود ؑ کا جبہ
میری عمر گیارہ سال کی تھی، اس وقت نماز کبھی کبھی نہ پڑھتا تھا اور شرعاً مجھ پر فرض نہ تھی۔ مگر ایک دفعہ میں نے حضرت صاحب کا جبہ تبرک کے طور پر پہن کر دعا کی کہ اب میں کبھی نماز نہ چھوڑوں گا۔ چنانچہ پھر کبھی نہ چھوڑی۔
توبہ جان کندنی تک قبول ہوتی ہے
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: جب غرغرہ موت شروع ہوجاتا ہے تو انسان کے حواس پر اثر پڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ توبہ جان کندنی تک قبول ہوتی ہے۔
میرا یقین بڑھ گیا
میری عمر جب نو یا دس برس کی تھی۔ میں اَور ایک طالب علم گھر میں کھیل رہے تھے۔ وہیں الماری میں ایک کتاب پڑی ہوئی تھی، اس میں لکھا تھا کہ اب جبرائیل نازل نہیں ہوتا۔ میں نے کہا یہ غلط ہے میرے ابا پر تونازل ہوتا ہے۔ اس لڑکے نے کہا جبرائیل نہیں آتا، کتاب میں لکھا ہے۔ آخر ہم دونوں حضرت صاحب کے پاس گئے اور دونوں نے اپنا اپنا بیان پیش کیا۔ آپ نے فرمایا۔ کتاب میں غلط لکھا ہے، جبرائیل اب بھی آتا ہے۔
طوفان سے بچاؤ
مجھے اپنی زندگی کے جن واقعات پر ناز ہے۔ ان میں وہ ایک حماقت کا واقعہ بھی ہے کہ ایک رات ہم سب صحن میں ہو رہے تھے کہ آسمان پر بادل آیا اور زور سے گرجنے لگا۔ اسی دوران میں قادیان کے قریب ہی بجلی گری جس کی کڑک اس زور کی تھی کہ قادیان کے ہر گھر والوں نے یہ سمجھا کہ یہ بجلی شاید ان کے گھر میں ہی گری ہے۔ اس کڑک اور کچھ بادلوں کی وجہ سے لوگ کمروں میں چلے گئے۔ حضرت مسیح موعود ؑ جب اندر جانے لگے تو میں نے اپنے دونوں ہاتھ آپ ؑ کے سر پر رکھ دئیے کہ اگر بجلی گرے تو مجھ پر گرے، ان پر نہ گرے۔ بعد میں مجھے اپنی اس حرکت پر ہنسی آئی کہ ان کی وجہ سے تو ہم نے بجلی سے بچنا تھا، نہ یہ کہ ہماری وجہ سے وہ بجلی سے محفوظ رہتے۔
قبول حق
میں نے حضرت صاحب کو والد ہونے کی وجہ سے نہیں مانا بلکہ جب میں گیارہ سال کے قریب تھا تو میں نے مصمم ارادہ کیا تھا کہ اگر میری تحقیقات میں وہ نعوذ باللہ جھوٹے نکلے تو میں گھر سے نکل جاؤں گا۔ مگر میں نے ان کی صداقت کو سمجھا اور میرا ایمان بڑھتا گیا حتی کہ جب آپؑ فوت ہوئے تو میرا یقین اور بھی بڑھ گیا۔
1900ء کا یادگار سال
1900ء میں مَیں گیارہ سال کا تھا۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے لئے کوئی شخص چھینٹ کے قسم کے کپڑے کا ایک جبہ لایا تھا۔ میں نے آپؑ سے وہ جبہ لے لیا تھا کیونکہ اس کا رنگ اور اس کے نقش مجھے پسند تھے۔ میں اسے پہن نہیں سکتا تھا کیونکہ اس کے دامن میرے پاؤں کے نیچے لٹکتے رہتے تھے۔ 1900ء میں میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں خدا تعالیٰ پر کیوں ایمان لاتا ہوں اس کے وجود کا کیا ثبوت ہے؟ میں دیر تک رات کے وقت اس مسئلہ پر سوچتا رہا۔ آخر دس گیارہ بجے میرے دل نے فیصلہ کیا کہ ہاں ایک خدا ہے۔ وہ گھڑی میرے لئے کیسی خوشی کی گھڑی تھی جس طرح ایک بچہ کو اس کی ماں مل جائے تو اسے خوشی ہوتی ہے اسی طرح مجھے خوشی تھی کہ میرا پیدا کرنے والا مجھے مل گیا ۔ میں نے اس وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور ایک عرصہ تک کرتا رہاکہ خدایا مجھے تیری ذات کے متعلق کبھی شک پیدا نہ ہو۔ آج میں 35 سال کاہوں مگر آج بھی میں اس دعا کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ اب میں دعا میں اس قدر زیادتی کرتا ہوں کہ خدایا مجھے تیری ذات کے متعلق حق الیقین پیدا ہو۔
تو ایک دن ضحی یا اشراق کے وقت میں نے وضو کیا۔ اور وہ جبہ اس وجہ سے نہیں کہ خوبصورت ہے بلکہ اس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کا ہے اور متبرک ہے۔ یہ پہلا احساس میرے دل میں خدا تعالیٰ کے فرستادہ کے مقدس ہونے کا تھا، پہن لیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں