سیرۃ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
26؍دسمبر 1958ء کو جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ میں حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کی تقریر کا ایک حصہ ایک پرانی اشاعت سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12؍ نومبر1997ء کی زینت ہے۔
آپؓ نے فرمایا کہ 1905ء کے موسم بہار میں جب کانگڑہ کا زبردست زلزلہ آیا تو اس وقت میں سو رہا تھا یا قریباً سونے کی کیفیت میں تھا۔ صبح کی نماز کے وقت قریباً نصف گھنٹے تک جھٹکے محسوس ہوتے رہے، اس دوران حضرت مسیح موعودؑ مکان کے اندر ہی استغفار کرتے رہے۔ اس زلزلے کے بعد آپؑ کچھ عرصہ باغ میں مقیم رہے۔ انہی دنوں طاعون کا موسم بھی تھا۔ چودھری حاکم علی صاحبؓ سرگودھا سے قادیان آئے تو حضورؑ نے انہیں فرمایا کہ آپ ہمارے شہر والے مکان میں چلے جائیں اس کے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے طاعون سے خاص طور پر محفوظ رکھنے کا وعدہ بھی ہم سے کیا ہے۔… ’’الدار‘‘ میں جہاں حضرت اقدسؑ کو خدائی وعدہ کے مطابق حفاظت کا کلّی یقین تھا وہاں آپؑ ظاہری اسباب کی رعایت کو بھی ہمیشہ اختیار فرماتے تھے۔ چنانچہ مکان کے نچلے صحن میں لکڑیوں کا ڈھیر لگوا کر اس کو آگ دلوایا کرتے تاکہ جراثیم اگر ہوں تو مر جائیں، ایک بڑی کوئلوں کی انگیٹھی اوپر کی منزل میں استعمال کی جاتی تھی اور بسااوقات کمروں میں گندھک کی دھونی کا بھی انتظام ہوتا تھا۔
حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں کہ کوئی شخص آپؑ کی مجلس میں کئی سوال لے کر آیایا اسے کوئی خیال پیدا ہی ہوا تو حضورؑ نے از خود اسی کے متعلق تقریر فرمادی۔ایک کشمیری دوست عمر ڈار سنوری صاحب کو حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ قادیان لائے۔ جب یہ حضورؑ کی مجلس میں پہنچے تو حضورؑ نے اپنے درس میں فرمایا کہ بعض لوگ ساری نیکیاں بجا لاتے ہیں، عبادات کی پابندی بھی کرتے ہیں مگر اپنے بہن بھائیوں اور رشتہ داروں کا خیال نہیں رکھتے…۔ یہ اتفاق تھا کہ عمر ڈار صاحب مدت سے اپنے چھوٹے بھائی کا حصہ جائیداد دبائے بیٹھے تھے، وہ اس وعظ سے ایسے متاثر ہوئے کہ قادیان سے ہی اپنے بھائی کو جائیداد کا حصہ دینے کا خط لکھ دیا اور کشمیر پہنچتے ہی عملاً بھی حصہ ادا کردیا۔
حضرت مسیح موعودؑ کو اپنے مخلصین کی اصلاح کی تڑپ تو تھی ہی لیکن حضورؑ ان لوگوں کی اصلاح کے لئے بھی ہمیشہ کوشاں رہا کرتے جو کسی زمانہ میں آپؑ سے عقیدت رکھتے تھے لیکن بعد میں شامت اعمال سے ان کی ایمانی حالت میں فرق آگیا تھا۔ چنانچہ میر عباس علی لدھیانوی کو سمجھانے کے لئے حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کو بھیجا۔ اسی طرح مولوی محمدحسین بٹالوی کے لئے بھی اکثر یہ خواہش رہتی تھی کہ وہ راہ راست پر آجائیں۔
ایک دفعہ حضرت مصلح موعودؓ بٹالہ تشریف لے گئے تو حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے حضورؓ سے ذکر کیا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کو حضورؓ کی قیامگاہ کے قریب ہی پھرتے دیکھا ہے۔ حضورؓ کے ارشاد پر حضرت شیخ صاحبؓ جو مولوی صاحب کے پرانے بے تکلف ملنے والے تھے انہیں اپنے ہمراہ لے آئے لیکن جونہی مولوی صاحب کو پتہ چلا کہ حضورؓ وہاں موجود ہیں وہ نکل بھاگے۔ حضرت شیخ صاحبؓ نے بے تکلفی سے کہا کہ مولوی صاحب اب تو ایمان لے آئیں۔ اس پر ان کا جواب تھا ’’اگر مرزا صاحب زندہ ہوتے تو میں ضرور بیعت کرلیتا ۔ اب ان کے بعد نوجوانوں کی کیا بیعت کرنی ہے‘‘۔
حضرت مسیح موعودؑ اپنے رفقاء کو زیادہ سے زیادہ اپنے پاس ٹھہرانے کی کوشش فرمایا کرتے چنانچہ کئی دوست زیادہ قیام کرتے اور فیض حاصل کرتے۔ یہ امر جہاں حضورؑ کی شفقت کی دلیل ہے وہاں ایک روحانی تغیرپیدا کرنے کی کوشش کا بھی شاہد ہے۔ وہ تغیر جو کسی مامور من اللہ یا کسی برگزیدہ خدا کے فیض نظر سے ایک لمحہ میں کسی شخص کو حاصل ہو سکتا ہے ناممکن ہے کہ وہ سینکڑوں سالوں میں ہزاروں علمی کتابوں کے پڑھنے اور سننے سے حاصل ہوسکے۔ امام اور مرکز سے دلی لگاؤ دراصل ایمان کو ترقی دینے کے لئے دو اہم اسباب ہیں اور ان دونوں سے وابستگی ہی مادیت کے طوفان میں انسانی ایمان کو محفوظ رکھنے والی کشتی ہے۔