سیرۃ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍جولائی 2002ء میں مکرم ناصر احمد ظفر بلوچ صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی بعض دلگداز یادیں بیان کی گئی ہیں۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے مضمون نگار سے یہ واقعہ بیان فرمایا کہ ربوہ جب نیا نیا آباد ہورہا تھا تو ایک غیرازجماعت تشریف لائے اور اپنا تعارف کرواکے کہنے لگے کہ مَیں آپ کا ہمسایہ ہوں، اگرچہ آپ میرے جیسے معمولی زمیندار کے تعاون کے محتاج تو نہیں ہیں مگر اس کے باوجود اگر میرے لائق کوئی خدمت یا حکم ہو تو آپ مجھے تعاون کرنے والا پائیں گے۔
حضورؒ نے فرمایا کہ کانویں والی کے معروف سماجی راہنما مہر محمد محسن لالی صاحب کے ساتھ یہ میری پہلی ملاقات تھی جس نے میرے دل و دماغ پر گہرے نقوش چھوڑے۔ بعد میں وہ ممبر اسمبلی بھی رہے۔ جب ربوہ میں پہلا جلسہ سالانہ اپریل 1948ء میں ہونا قرار پایا تو اُس وقت گندم کی فراہمی بہت مشکل نظر آئی۔ اس پر مَیں نے سید سعید احمد شاہ صاحب (ناظم سپلائی) سے کہا کہ وہ مہر صاحب کے پاس جائیں اور اگر وہ گندم فراہم کرنے کا عندیہ دیں تو اُن سے ریٹ دریافت کرنے کی بجائے اُنہیں منہ مانگی قیمت ادا کریں۔ چنانچہ شاہ صاحب نے مہر صاحب کو حضرت میاں صاحبؒ کا پیغام پہنچایا تو انہوں نے بلاتوقف کہا کہ جتنی گندم چاہیں فلاں دن لے جائیں۔ مقررہ تاریخ پر جب شاہ صاحب نے گندم ٹرک پر لدوالی اور رقم کی ادائیگی کا ذکر کیا تو مہر صاحب نے کہا کہ مَیں خود ربوہ حاضر ہوکر میاں صاحب سے رقم لے لوں گا، آپ گندم لے جائیں۔ جب شاہ صاحب نے تذبذب کا اظہار کیا تو مہر صاحب نے سنجیدگی سے فرمایا کہ شاہ صاحب! گندم لے جائیں ورنہ مَیں اپنے ڈرائیور کو حکم دوں گا کہ وہ ٹرک ربوہ لے جائے۔ اس پر شاہ صاحب گندم لے آئے اور حضرت میاں صاحبؒ سے واقعہ بیان کیا۔
غیرمعمولی تعاون کا یہ انداز حضرت میاں صاحبؒ کی طبیعت پر بہت گراں تھا۔ آپؒ نے دو تین مرتبہ رقم بھجوائی لیکن کبھی مہر صاحب نہ ملتے اور کبھی کہتے کہ مصروفیت کی وجہ سے حاضر نہیں ہوسکا، میاں صاحب کی خدمت میں میرا سلام عرض کردی، مَیں رقم لینے جلد حاضر ہوجاؤں گا۔ لیکن اس کے باوجود تشریف نہ لائے۔ کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ مہر صاحب بیمار ہیں اور لاہور میں مقیم ہیں۔ اس پر آپؒ نے ایک وفد کو عیادت کے لئے بھجوایا اور ساتھ گندم کی قیمت سے زائد رقم بھجوائی۔ وفد کو ہدایت کی کہ یہ رقم اُن کے تکیہ کے پاس رکھ دیں۔ چنانچہ مہر صاحب نے دلی شکریہ کے ساتھ رقم رکھ لی اور اپنی صحت کے لئے دعا کی درخواست کی۔ حضورؒ نے نہ صرف احسان کا بدلہ چکاکر دم لیا بلکہ مہر صاحب کی اعلیٰ ظرفی اور غیرمعمولی تعاون کو بھی ہمیشہ یاد رکھا۔
حضورؒ کی سیاسی بصیرت اور دُور اندیشی کا کرشمہ تھا کہ ربوہ کے گردونواح کے کئی زمیندار آپؒ سے راہنمائی کو کامیابی کی کلید سمجھا کرتے تھے۔ جب کوئی زمیندار آپؒ سے ملاقات کے لئے آتا تو آپؒ اُس سے پوچھتے کہ اُس کے زیراثر افراد میں کتنے خواندہ ہیں؟۔ پھر فرماتے کہ کیا خواندہ افراد کا لیڈر زیادہ طاقتور ہوتا ہے یا ناخواندہ کا؟۔ اس طرح تعلیم کی اہمیت اجاگر فرماتے۔
کئی خاندانوں کو آپؒ نے 1959ء میں بنیادی جمہوریت کے انتخابات میں کھڑے ہونے کا حوصلہ عطا فرمایا جن میں سے اکثر نے ہمیشہ جماعت کے ساتھ اپنے تعلقات سرسبز رکھے۔ ان میں سے ایک جناب مہر احمد خان صاحب ہرل تھے جو یونین کونسل کے ممبر منتخب ہوئے۔ ایک جناب مہر خورشید صاحب سپرا تھے جن کی حضورؒ کی وعدہ پروری اور اثرورسوخ سے تحصیل کونسل میں نامزدگی ہوئی تھی۔
1974ء میں جب ربوہ کے معصوم شہریوں کے خلاف مقدمات قائم ہوئے تو کئی ماہ بعد اُن کی ضمانتوں کی اُمید پر مجھے یہ فریضہ سونپا گیا کہ کم از کم یک صد ایسے ضامنوں کا انتظام کروں جو زرعی زمین کے مالک ہوں، وہ اپنی اراضی کی فرد ملکیت کے ہمراہ ربوہ تشریف لاویں۔ اس سلسلہ میں سب سے زیادہ تعاون مکرم مہر خورشید احمد صاحب اور اُن کی سپرا برادری نے کیا جو صبح ربوہ تشریف لاتے اور عدالتوں کے اوقات تک دارالضیافت کے سامنے والے پلاٹ میں ہمارے ساتھ بیٹھ کر انتظار کرتے۔ جب علم ہوتا کہ عدالت نے آج ضمانت نہیں لی اور کل کی تاریخ ڈال دی ہے تو واپس چلے جاتے۔ کئی دن تک یہ مخلص ہمسائے تشریف لاتے رہے اور حق دوستی کو کمال اخلاص سے نبھایا۔