سیرۃ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ
حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ خلیفۃالمسیح الثالث کی یاد میں مکرم ناصر احمد ظفر صاحب بلوچ کا ایک طویل مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کی اشاعتوں 18 و 30؍اگست 2001ء، 13،19 و 26؍ستمبر 2001ء اور یکم اکتوبر 2001ء میں قسط وار شائع ہوا ہے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ 1947ء میں جب بچوں اور عورتوں کا 25، 26 ٹرکوں پر مشتمل ایک قافلہ قادیان سے روانہ ہوا تو راستہ میں ایک جگہ روک لیا گیا اور ایک خوبصورت اور حسین نوجوان تمام ٹرکوں کی چیکنگ کرنے لگا۔ یہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ تھے جو اس وقت جب موت منہ کھولے کھڑی تھی، جرأت، اطمینان اور تسلّی سے جیپ پر سوار ہوکر قافلوں کی نگرانی فرما رہے تھے۔
ربوہ کے قیام کے بعد حضورؒ نے احمدنگر کو ربوہ کا دروازہ قرار دیتے ہوئے وہاں کے لوگوں کی ترقی کے لئے بہت کام کیا۔ 1960ء میں آپؒ نے مجھے طلب فرمایا اور احمدنگر میں بعض کاموں کی نگرانی میرے سپرد فرمائی۔ یہ سلسلہ 1982ء تک جاری رہا۔ علاقہ کے معززین آپؒ کے بے حد مداح تھے اور آپؒ سے رہنمائی حاصل کرتے رہتے تھے۔
حضورؒ انتہائی غریب پرور تھے۔ 1953ء میں جب آپؒ قید ہوئے تو جو مشقّتی آپؒ کو ملا آپؒ نے عمر بھر اس سے رابطہ رکھا بلکہ اُس کی وفات کے بعد اُس کی اولاد پر بھی دست شفقت رکھا۔ اپنی زمینوں کے ملازمین کی بھی ہمیشہ سرپرستی فرمائی۔
مضمون نگار نے لالیاں کے معزز خاندان کے جناب مہر سکندر حیات صاحب (جو حضورؒ کے شاگرد بھی رہے ہیں) سے رابطہ کرکے حضورؒ کے بارہ میں انٹرویو کرنے کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے کہا کہ مَیں خود کو اس قابل تو نہیں سمجھتا لیکن اس سلسلہ میں یہ شرط ہے کہ میرے استاد محترم کی خصوصی شفقت کا مجھ پر حق ہے کہ مَیں خود ربوہ آؤں نہ کہ آپ انٹرویو کے لئے لالیاں آئیں۔
چنانچہ مہر صاحب خود ربوہ تشریف لائے اور بتایا کہ حضرت میاں صاحبؒ کی خداداد صلاحیت سے تعلیم الاسلام کالج نے بہت ترقی کی۔ آپؒ ہر طالبعلم کی تعلیمی، اخلاقی اور روحانی ترقی کی طرف نگاہ رکھتے تھے۔ کالج میں دینیات کا مضمون لازمی تھا اور ہر طالب علم سے توقع تھی کہ وہ اپنے اپنے عقائد کے مطابق نماز ادا کرے گا۔ کبھی کسی قسم کی مذہبی یا گروہی بدمزگی پیدا نہیں ہوئی حتی کہ یونین کے انتخابات کے دوران بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آتا تھا۔ آپؒ انتہائی بارعب ہونے کے ساتھ ساتھ ہردلعزیز بھی تھے۔ بے شمار واقعات ہیں جنہیں بھلایا نہیں جاسکتا۔ ایک بار چنیوٹ اور کالج کے کھلاڑیوں کے درمیان میچ میں دونوں ٹیموں میں تلخی پیدا ہوگئی۔ آپؒ نے اپنے کھلاڑیوں کو بلند آواز سے فرمایا کہ لڑنا نہیں۔ چنانچہ لڑائی فوراً ختم ہوگئی۔ پھر آپؒ چنیوٹ کے طلبہ کے پاس تشریف لے گئے اور ان کی دلجوئی فرمائی تاہم چنیوٹ کے دو تین طلبہ نے کہا کہ ہم پرچہ دیں گے۔ آپؒ نے فرمایا کہ قانونی کارروائی کا آپؒ کو پورا حق ہے لیکن ٹی آئی کالج آپ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گا کیونکہ آپ ہمارے معزز مہمان ہیں۔ چنانچہ میاں صاحب کے ایسے ہی الفاظ سے کھلاڑیوں کا غصہ کافور ہوگیا۔
1962ء کے انتخابات میں جب علاقہ کی ایک قابل ذکر سماجی شخصیات نے حضورؒ سے رہنمائی کی درخواست کی تو آپؒ نے ایک ناممکن کام کو ممکن کر دکھایا۔ علاقہ کے متحارب گروپوں کے سرکردہ افراد ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے اور ایک آزاد گروپ تشکیل پایا۔ اُس کے بعد سے اب تک اس آزاد گروپ نے مختلف صورتوں میں علاقہ کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور حضورؒ نے بھی ان افراد کے ساتھ شفقت کا تعلق قائم رکھا۔ ان میں سے ایک بھروانہ صاحب تھے جو 1970ء میں رکن اسمبلی بنے تھے۔ جب اُس وقت کی حکومت نے حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب ’’سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب‘‘ ضبط کی تو حضورؒ کے ارشاد پر مکرم مولوی احمد خان صاحب نسیم اور خاکسار نے بھروانہ صاحب سے ملاقات کی اور حالات بیان کئے۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اسلام کے دفاع میں لکھی جانے والی کتاب کو ضبط کیا گیا ہے اور پھر چند سفید کاغذوں پر اپنے دستخط کرکے ہمیں مرحمت فرمائے کہ ان پر جو چاہیں لکھ کر پریس میں دیدیں یا احتجاجی بیان لکھیں، مَیں ہر جگہ اس کی تائید کروں گا بلکہ گورنر سے بھی ملاقات کرکے اس طرف توجہ دلاؤں گا۔ پھر انہوں نے گورنر ملک امیر محمد خانصاحب سے ملاقات کرکے احتجاج کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آئندہ انتخابات میں بھروانہ صاحب کو ٹکٹ سے ہی محروم کردیا گیا۔ حضورؒ کو اس بات کا احساس تھا کہ بھروانہ صاحب کو ہماری حمایت کی سزا دی گئی ہے چنانچہ حضورؒ نے اُن کے لئے دعا بھی کی اور یہ معجزہ ہے کہ اس کے بعد بھروانہ صاحب نے جب کبھی، جس حلقہ سے بھی اور جس شخصیت کے خلاف بھی انتخابات میں حصہ لیا، ہمیشہ کامیاب ہوئے اور کبھی شکست نہ کھائی۔
ایوب خان کے دور میں جب انتخابات ہوئے تو مغربی پاکستان کے گورنر امیر محمد خان نے ربوہ کے حلقہ میں مسلم لیگ کی طرف سے ایک ایسے شخص کو ٹکٹ دیدیا جسے علاقہ کے غریب لوگ پسند نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ حلقہ کی ایک بااثر شخصیت نے، جو صوبائی وزیر بھی رہ چکے تھے، حضورؒ کو فون کرکے کہا کہ آپ کوشش کریں کہ ٹکٹ اُس شخص کی بجائے کسی اَور کو مل جائے۔ حضورؒ نے فرمایا: اللہ فضل فرمائے گا۔ رات کو حضورؒ نے دعا کی کہ اے اللہ! ہم تو تیری جماعت ہیں۔ ہمیں تو کوئی خطرہ نہیں لیکن تیرے غریب شہریوں پر زیادتی ہوگی۔
اللہ تعالیٰ نے حضورؒ کی دعا قبول فرمائی اور آپؒ کو بتابھی دیا کہ یہ شخص کامیاب نہیں ہوگا۔ صبح آپؒ نے فرمایا کہ اِس بات کا اعلان عام کردیں کہ اس شخص کے مقابلہ پر جو بھی کھڑا ہوگا وہ جیتے گا، یہ نہیں جیتے گا۔ چنانچہ اگلی صبح وہ شخص جس نے حضورؒ سے اس بارہ میں کچھ کرنے کیلئے عرض کیا تھا، اُس کا فون آیا کہ کیا اس امیدوار کی ٹکٹ کی منسوخی کی اوپر بات ہوگئی ہے؟ حضورؒ نے فرمایا: ہوگئی ہے۔ اُس نے پوچھا کہ کس سطح پر (یعنی گورنر یا صدر یا کسی اَور بڑی شخصیت سے بات ہوئی ہے؟) حضورؒ نے فرمایا: فکر نہ کریں، بہت ہی اونچی سطح پر بات ہوچکی ہے۔
اتفاق یہ ہوا کہ جس کو ٹکٹ ملا تھا، وہ شخص مجھے ملا اور بڑے فخر سے کہنے لگا کہ اب تو مجھے حکومت نے بھی ٹکٹ دے دیا ہے، آپ کے پرنسپل صاحب کے اصول کا پتہ اب چلے گا۔ چونکہ مجھے حضورؒ کی اصول پسندی کا علم تھا اس لئے مَیں نے کئی لوگوں کے سامنے اُنہیں کہہ دیا کہ اگر آپ اب بھی ووٹ لے جائیں تو یہ بات ٹھیک ہوگی کہ صاحبزادہ صاحب کا کوئی اصول نہیں ہے لیکن اگر ٹکٹ ہونے کے باوجود بھی آپ کو ووٹ نہ ملیں تو پھر تسلیم کرلیں کہ صاحبزادہ صاحب انتہائی بااصول ہیں۔
اسی دوران گورنر نے کسی ذریعہ سے حضورؒ کو پیغام بھجوایا کہ جس شخص کو ہم نے مسلم لیگ کا ٹکٹ دیا تھا، اب وہ ہمارا امیدوار نہیں رہا بلکہ ہم اُس کی بجائے ایک دوسرے شخص کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس طرح خدا تعالیٰ کی بات پوری ہوئی اور مسلم لیگ کا ٹکٹ رکھنے کے باوجود یہ امیدوار شکست کھاگئے۔
1965ء میں جب بنیادی جمہوریت کے چیئرمینوں کے انتخاب کا اعلان ہوا تو ایک غیرازجماعت دوست چیئرمین شپ کے امیدوار تھے۔ انہوں نے ایک احمدی ممبر کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے حضورؒ سے درخواست کی۔ حضورؒ نے اُن کی درخواست منظور فرمالی۔ انہوں نے مزید عرض کیا کہ ’’میری مخالف پارٹی بڑی بااثر اور آپؒ کے ساتھ دیرینہ تعلق رکھتی ہے، ایسا نہ ہو کہ وہ آپؒ سے رابطہ کریں تو حضورؒ اپنے فیصلہ پر نظرثانی فرمالیں‘‘۔ حضورؒ نے فرمایا:’’ اگر ربوہ کی اٹھارہ انیس سالہ تاریخ میں ہماری بدعہدی کی ایک مثال بھی آپ پیش کردیں تو آپ کا خدشہ بجا ہوگا۔‘‘
حضورؒ نے اسی وقت مزید فرمایا کہ ’’آپ چیئرمین بننے کے بعد فلاں فلاں لوگوں سے مل جائیں گے جن کو آپ اس وقت چھوڑ رہے ہیں‘‘۔ یہ ایسی پیشگوئی تھی جو بعد میں لفظ بلفظ پوری ہوئی۔
بہرحال دوسری پارٹی نے بھی مجھ سے رابطہ کیا اور سیاسی چال چلتے ہوئے عرض کیا کہ وہ احمدی ممبر کو چیئرمین بنانا چاہتے ہیں۔ مَیں نے کہا کہ حضورؒ نے فلاں صاحب کو احمدی ممبر کا ووٹ دینے کا وعدہ فرمالیا ہے اس لئے اب تو مشکل ہے۔ دنیادار افراد نے کہا کہ ہم کو حضورؒ سے ملوادیں۔ مَیں نے کہا کہ مَیں حضورؒ کو جانتا ہوں اور میرا مشورہ ہے کہ آپ نہ جائیں لیکن مَیں بہرحال آپ کے ہمراہ نہیں جاسکتا۔ چنانچہ اُن کے اصرار پر اُن کی ملاقات کروادی گئی۔ حضورؒ سے بھی انہوں نے احمدی ممبر کو چیئرمین بنانے کی تجویز عرض کی۔ حضورؒ نے فرمایا کہ احمدی ممبر کے ووٹ کا وعدہ تو ہوچکا ہے اور وہ یہ ووٹ اپنے آپ کو بھی نہیں دے گا۔ چنانچہ لاجواب ہوکر یہ لوگ واپس آئے تو کہنے لگے: ’’حضرت صاحب تے بڑے پکّے نیں‘‘۔
حضورؒ کا طرز عمل قرآنی حکم قول سدید کے بالکل مطابق تھا۔ 1970ء کے انتخابات میں حضورؒ نے ایک صاحب کو پیغام بھیجا کہ وہ صوبائی اسمبلی کے لئے آزاد امیدوار کے طور پر کھڑے ہوجائیں۔ حضورؒ اُن کو شرافت اور نیک شہرت کی وجہ سے پسند فرماتے تھے۔ جب اُن صاحب کے مدمقابل احباب ووٹ مانگنے آئے تو اُن کے بات کرنے سے قبل ہی حضورؒ نے فرمایا کہ اگر تو آپ صوبائی نشست کے لئے ووٹ مانگنے آئے ہیں تو مَیں فلاں صاحب سے وعدہ کرچکا ہوں۔ ہاں اگر آپ قومی اسمبلی کے لئے کھڑا ہونا چاہیں تو کل شام تک مجھے بتادیں، مَیں آپ کی امداد کے لئے تیار ہوں۔
حضورؒ کے اس دو ٹوک فیصلہ سے آنے والوں کو بہت دھچکا لگا۔ ایک صاحب نے جو حضورؒ کے مرتبہ سے ناواقف تھے، حضورؒ سے اپنے فیصلہ پر نظرثانی کی درخواست کی۔ لیکن ایک اَور دوست جو حضورؒ کے اصولوں سے واقف تھے کہنے لگے: ہماری تو یہ مجال نہیں کہ یہ عرض کریں۔ اس پر ایک صاحب نے عرض کیا کہ اچھا پھر ہمارے لئے دعا ہی فرمادیں۔ حضورؒ نے فرمایا: یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ہماری امداد اور دعا میں اختلاف ہو۔
1970ء کے انتخابات میں ایک امیدوار کی درخواست پر حضورؒ نے اُن سے حمایت کا وعدہ فرمالیا۔ بعد میں ایک سیاسی جماعت کی طرف سے حضورؒ سے تعاون کی درخواست کی گئی تو حضورؒ نے فرمایا کہ ہمارا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں لیکن ہم اچھی شہرت کے حامل امیدواروں کی حمایت کریں گے۔ اس پر سیاسی جماعت کے سربراہ نے پیغام بھجوایا کہ جس آزاد امیدوار کی آپؒ حمایت کر رہے ہیں، اُسے کہیں کہ ہماری سیاسی جماعت میں شامل ہوجائے ورنہ ہم اپنا امیدوار کھڑا کردیں گے اور امید کرتے ہیں کہ آپ ہمارے امیدوار کی تائید کریں گے۔ حضورؒ نے جواباً فرمایا: ہم آزاد امیدوار سے وعدہ کرچکے ہیں اور اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کریں گے اور نہ کوئی شرط لگائیں گے کہ وہ آپ کی پارٹی میں شامل ہوجائے کیونکہ ہم نے اُسے غیرمشروط طور پر ووٹ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ ہاں آپ اپنی کوشش سے اُن کو اپنی پارٹی میں شامل کرلیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ اور اگر آپ نے چنیوٹ میں اِس آزاد امیدوار کے مقابلہ میں کوئی امیدوار کھڑا کیا تو ہم نہ صرف چنیوٹ بلکہ پورے ملک میں آپکے امیدواروں کی مخالفت کریں گے۔
یہ پیغام جب اُس سیاسی پارٹی کے سربراہ کو پہنچا تو وہ دم بخود رہ گئے اور پھر خود اس امیدوار کے پاس جاکر اُس کو منایا، رات اُس امیدوار کے گاؤں میں قیام کیا اور اُنہیں اپنی پارٹی میں شامل کرلیا۔ لیکن حضورؒ نے ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے عہد سے انحراف نہیں فرمایا۔
1970ء کے انتخابات میں ہی قومی اسمبلی کے ایک امیدوار حضورؒ کی خدمت میں مدد کی درخواست کے ساتھ حاضر ہوئے۔ اُس وقت تک حضورؒ نے کسی سے حمایت کا وعدہ نہیں فرمایا تھا لیکن ان صاحب کو حضورؒ محض اس لئے ناپسند فرماتے تھے کہ وہ غریب عوام اور ہمسایوں سے حسن سلوک نہیں کرتے۔ چنانچہ حضورؒ نے فرمایا کہ آپ پانچ سال کے بعد ووٹوں کے لئے آجاتے ہیں اس لئے آپ آج اچھے ہمسایہ اور دوستی کے فرائض نبھانے کا عہد کریں۔ آنے والے انتخابات تک آپ کو دوستی کا حق ادا کرنا چاہئے اور آپ ہم کو اس حق کی ادائیگی میں کبھی پیچھے نہ پائیں گے۔ اگر آپ دوستی کے معیار پر پورا اترے تو آئندہ انتخابات کے موقع پر آپ کو ہم سے ووٹ مانگنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی بلکہ ہم آپ کو اس طرح ووٹ دیں گے جس طرح (فلاں امیدوار ) کو، جنہوں نے ہم سے ووٹ نہیں مانگے، ہم نے کہا کہ ہم آپ کو ووٹ دیں گے کیونکہ وہ شریف دوست اور اچھے ہمسائے ہیں۔
حضورؒ کا ارشاد سن کر وہ صاحب اپنی نشست سے اٹھے، حضورؒ سے مصافحہ کیا اور وفاداری بشرط استواری کا عہد کرکے روانہ ہوئے اور بعد میں اپنے عہد کو حتی المقدور نبھایا بھی۔ چنانچہ آئندہ عام انتخابات میں جب وہ صوبائی اسمبلی کے لئے امیدوار ہوئے تو حضورؒ کی تائید اور دعا سے منتخب ہوگئے۔
یہ ربوہ کے ماحول کی برکت تھی کہ لالیاں کی اکثریت نیک شہرت اور مثبت سوچ کی حامل ہے۔ ایک بار وہاں کی ایک بارسوخ شخصیت کا ایک بیٹا فوت ہوگیا۔ یہ صاحب سیاسی طور پر بھی بہت بااثر اور مالی طور پر چالیس مربع اراضی کے واحد مالک تھے۔ 1970ء کے انتخابات میں حضورؒ نے ان کے حریف کی حمایت کی تھی لیکن اس کے باوجود حضورؒ کی روحانی شخصیت کا اُن پر غیرمعمولی اثر تھا۔ کچھ دن کے بعد انہوں نے حضورؒ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ حضورؒ نے مصروفیت کے باوجود اُن کو وقت دیدیا کہ وہ معزز ہمسایہ اور غمزدہ ہیں۔ جب ہم حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورؒ کے گھٹنوں کی طرف ہاتھ بڑھائے۔ حضورؒ نے ازراہ شفقت اُن کے ہاتھ تھام لئے، سینہ سے لگایا اور صوفہ پر تشریف رکھنے کا ارشاد فرمایا لیکن وہ خاموشی سے انتہائی ادب اور عجز سے حضورؒ کے سامنے قالین پر بیٹھ گئے۔ حضورؒ نے فرمایا یہ طریق دین کی تعلیم کے خلاف ہے، مجھے جو بھی ملنے آتا ہے، چھوٹا ہو یا بڑا، امیر ہو یا غریب، ہم سب اکٹھے بیٹھتے ہیں آپ صوفہ پر تشریف رکھیں۔ لیکن حضورؒ کے غیرمعمولی احترام کی وجہ سے باوجود کوشش کے وہ کچھ بول نہ سکے لیکن آنکھیں آبدیدہ ہوگئیں۔ آخر حضورؒ کے اصرار پر وہ صوفہ پر بیٹھ گئے لیکن چند ہی لمحوں بعد پھر قالین پر بیٹھ گئے اور کہنے لگے کہ مَیں آپ کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتا، مجھے یہیں بیٹھنے کی اجازت دیں۔ اُن کے اصرار پر حضورؒ خاموش ہوگئے۔ معزز مہمان نے اپنے بیٹے کی وفات کا ذکر کرکے کہا کہ میرا بیٹا ایک شہر میں بیمار ہوا اور دوسرے میں فوت ہوا۔ اب مَیں ان دونوں شہروں میں اپنے بچے تعلیم کے سلسلہ میں نہیں رکھنا چاہتا۔ مَیں نے خدا تعالیٰ سے رہنمائی کی دعا کی تھی تو میرے والد خواب میں آئے اور فرمایا کہ حضرت صاحب سے جاکر ملو۔ صبح مجھے سمجھ نہیں آئی کہ حضرت صاحب سے کون مراد ہیں۔ اگلی رات پھر والد صاحب آئے اور ناراضگی سے فرمایا کہ حضرت صاحب سے ملو اور بچے ربوہ داخل کراؤ۔ اتنا کہہ کر وہ شدت غم سے مغلوب ہوگئے۔ حضور نے اُن سے نہایت محبت اور شفقت کا سلوک فرمایا اور مکان وغیرہ کا انتظام کرنے کی ہدایت فرمادی۔
ایک دن مَیں انہیں ملنے اُن کے گھر گیا تو وہ بتانے لگے کہ ایک روز اُن کی بیٹی روتی ہوئی گھر میں آئی کہ اُس روز ہم اُس کو کالج سے لانے کے لئے کار نہیں بھجواسکے تھے۔ کہنے لگی کہ سڑک اتنی سنسان تھی کہ وہ ڈرتی ہوئی گھرپہنچی۔ اس پر مَیں نے شکر ادا کیا کہ دیگر شہروں میں تو چھٹی کے بعد آوارہ لڑکے لڑکیوں کے کالج کے باہر گھٹیا حرکات کرتے پھرتے ہیں لیکن ربوہ میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔
ایک بار مہر غلام حیدر بھروانہ ممبر قومی اسمبلی دو دیگر افراد کے ہمراہ حضورؒ سے ملاقات کے لئے تشریف لائے۔ اُن میں سے ایک صاحب جب باہر آئے تو بار بار اور بے ساختہ یہ کہا کہ سچے جھوٹے کا علم اللہ کو ہے لیکن اتنا خوبصورت پیر مَیں نے کبھی نہیں دیکھا، بہت ہی خوبصورت ہیں۔
اگست 1974ء میں ہنگاموں کی وجہ سے لالیاں کی پولیس نے اپنی ذمہ داری سے بچنے کے لئے وہاں کے سارے احمدیوں کو ربوہ پہنچادیا۔ اس پر مکرم مہر حبیب سلطان لالی صاحب اور اُن کے سسر مکرم مہر محمد اسماعیل لالی صاحب نے حضور سے ملاقات کی اور ان حالات میں بھی حضورؒ کے چہرہ کی مسکراہٹ سے بہت حیران ہوئے۔ بعد میں بار بار حضورؒ کی جرأت اور بہادری کی تعریف کی۔
مہر محمد اسماعیل صاحب نے کہا کہ لالیاں کے لوگ شرپسند نہیں ہیں اور جب تک ہم زندہ ہیں، لالیاں میں کسی احمدی پر زیادتی نہیں ہوگی۔ چنانچہ حضورؒ کی اجازت سے لالیاں سے آنے والے احمدیوں سے فوری طور پر رابطہ کیا گیا اور راتوں رات اُن کو ٹریکٹر ٹرالیوں کے ذریعہ مع سامان واپس لالیاں پہنچا دیا گیا۔
1974ء میں قومی اسمبلی میں ہونے والی کارروائی کے بارہ میں حضورؒ فرمایا کرتے تھے کہ چونکہ وہ صیغہ راز میں ہے اس لئے اس سلسلہ میں کچھ کہنا مناسب نہیں۔ لیکن 3؍ستمبر 1974ء کو جب مَیں جھنگ کے رکن قومی اسمبلی مہر غلام حیدر بھروانہ صاحب سے ملنے اُن کے پاس پہنچا تو وہاں دیگر اراکین اور سینیٹرز بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ بھروانہ صاحب نے ازخود بیان کیا کہ حضورؒ نے اسمبلی میں جس طرح خطاب فرمایا ہے، یہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں تھی، کتنی عجیب بات ہے کہ سوال کرنے والے تو تیاری کرنے کے بعد سوالات کرتے تھے لیکن جواب دینے والی شخصیت موقع پر ہی جواب دے رہی تھی بلکہ ساتھ آنے والے کوئی صاحب جب کوئی کتاب یا نوٹ آگے کرتے تو حضورؒ اشارہ سے فرماتے کہ رہنے دیں۔ آپؒ کے جوابات اور نورانی شخصیت سے ممبران اسمبلی بے حد متأثر ہوئے۔ آپ جب آتے تو سڑکوں پر یوں محسوس ہوتا کہ کوئی وائسرائے تشریف لارہے ہیں اور جب اسمبلی کے ہال میں داخل ہوتے تو دونوں ہاتھ اٹھاکر بلند آواز میں سلام کہتے تو بعض ممبران بے ساختہ کھڑے ہوجاتے۔ آپؒ کے نورانی چہرے اور ٹھوس دلائل سے مخالف ممبران سخت پریشان تھے اور بعض تو حضورؒ کی شخصیت اور دلائل سننے کے بعد جماعت احمدیہ کے حق میں مائل ہوتے جا رہے تھے۔
بھروانہ صاحب کی باتوں کی دیگر ممبران نے بھی تصدیق کی۔
حضورؒ انتہائی تعلق پرور شخصیت تھے۔ قطع نظر اس بات کے کہ کوئی امیر ہے یا غریب، ہمیشہ دوستی کی لاج رکھتے۔ 1977ء میں حضورؒ نے ملک نسوآنہ صاحب کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں دیگر امیدواروں کے مقابلہ میں اس لئے تائید کی کہ انہوں نے 1962ء میں ربوہ میں قائم آزاد گروپ کے کہنے پر صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لئے خود کو پیش کیا تھا حالانکہ یہ بات واضح تھی کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکتے تھے۔ لیکن محض گروپ کے فیصلہ کا انہوں نے احترام کیا تھا۔
1977ء میں فوجی حکومت نے انتخابات کروانے کا اعلان کیا تو ایک غیرازجماعت دوست حضورؒ سے مشورہ کے لئے حاضر ہوئے اور کہا کہ مَیں حج پر جانا چاہتا ہوں لیکن انتخابات بھی سر پر ہیں۔ پارٹی کا اصرار ہے کہ انتخاب لڑوں۔ حضورؒ نے فرمایا کہ آپ بلاتوقف حج پر تشریف لے جائیں کیونکہ حالات بتا رہے ہیں کہ انتخابات نہیں ہوں گے۔ حضورؒ نے مزید فرمایا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے بتایا کہ جداگانہ انتخاب کا معاملہ کھٹائی میں پڑگیا ہے۔ جب تک مخلوط انتخاب نہیں ہوں گے، کوئی انتخاب اپنی مدت پوری نہیں کرے گا۔
چنانچہ اُس دن سے لے کر آج تک یہ پیشگوئی حیرت انگیز طور پر پوری ہوتی آرہی ہے۔
حضورؒ کا طریق تھا کہ آپ انتخابات سے قبل ووٹ مانگنے کے لئے آنے والے امیدواروں کو بار بار آنے کی زحمت نہیں دیا کرتے تھے بلکہ ایک دو ملاقاتوں میں ہی واضح فیصلہ صادر فرما دیا کرتے تھے لیکن 1977ء میں اپنے فیصلہ سے ووٹ مانگنے والوں کو آگاہ نہیں فرماتے تھے اور وجہ یہ بیان فرماتے کہ جب انتخابات ہی نہیں ہونے تو ہم کیوں بلاوجہ فیصلہ کریں۔
خاکسار کی موجودگی میں ایک فاریسٹ آفیسر نے حضورؒ کو شکار کی دعوت دیتے ہوئے عرض کیا کہ میرے علاقہ کے جنگلات میں تیتر بہت ہیں۔ حضورؒ نے دریافت فرمایا کہ کیا تیتر کے شکار کی آجکل حکومت کی طرف سے ممانعت تو نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ممانعت تو ہے لیکن جنگلات کا تمام عملہ میرے ماتحت ہے اس لئے کسی مداخلت کا امکان نہیں ہے۔ حضورؒ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آپ کا جنگل اور آپ ، پاکستان سے باہر ہیں یا پاکستان میں ہے؟ پھر فرمایا کہ قانون کا احترام کیا جانا چاہئے۔
حضورؒ فرمایا کرتے تھے کہ جب ہمیں کبھی نہر کی پٹڑی پر سفر کرنا ہوتا ہے تو جب تک ہم محکمہ نہر کی طرف سے اجازت نامہ حاصل نہیں کرلیتے تب تک ہم قطعاً اس پر سفر نہیں کرتے۔
حضورؒ کی نظر میں عدل و انصاف کا جو مقام تھا وہ اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ ایک بار بلدیہ ربوہ کے چیئرمین اور وائس چیئرمین حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رہنمائی کی درخواست کی کہ ہم کس طرح اہل ربوہ کی بہترین خدمت کرسکتے ہیں؟۔ حضورؒ نے دیگر باتوں کے علاوہ ایک معاند کا نام لے کر فرمایا کہ ربوہ کی بلدیہ کے جو حقوق آپ کے ذمہ ہیں، آپ نے اُس شخص کے بھی حق ادا کرنے ہیں۔ اگر یہ منصفانہ کردار آپ نے اپنایا تو کوئی مسئلہ پیش نہیں آئے گا۔