سیرۃ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍جون 2002ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی سیرۃ پر ایک مضمون (مرتبہ: مکرم انتصار نذر صاحب) شامل اشاعت ہے۔
1970ء میں حضورؒ نے یورپ کا جو دورہ فرمایا اس میں محترم چودھری ظہور احمد باجوہ صاحب کو بھی ہمرکاب ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ سپین میں سفر کے دوران حضورؒ کی کار بغیر کسی پروگرام کے ایک قلعہ کی طرف مُڑ گئی جو آثار قدیمہ میں تبدیل ہوچکا تھا۔ حضورؒ دیر تک ان کھنڈرات میں گھومتے رہے اور پھر مولوی کرم الٰہی ظفر صاحب سے فرمایا کہ حکومت سے یہ جگہ مقاطعہ پر حاصل کرنے کے لئے درخواست دیں، ہم سالانہ کرایہ ادا کرتے رہیں گے، آپ یہاں ڈیرہ لگالیں۔
حضورؒ سپین میں اُس مسجد میں بھی گئے جہاں طارق بن زیاد نے پہلی نماز ادا کی تھی۔ تاریخ اسلام کا ذکر کرتے کرتے حضورؒ خاموش ہوگئے اور پھر مولوی کرم الٰہی ظفر صاحب سے فرمایا کہ حکومت کو درخواست دیں کہ یہ مسجد بیس سال کے لئے ہمیں دیدی جائے… اتنے عرصہ میں شاید اللہ تعالیٰ کوئی اَور راہ کھول دے۔ چنانچہ اس مسجد کے حصول کی کوشش ہوئی لیکن کامیابی نہ ہوئی مگر اللہ تعالیٰ نے حضورؒ کی تضرعات کو سنا اور بیس کی بجائے دس سال کے بعد ہی توفیق عطا فرمائی کہ اپنے دست مبارک سے سرزمین ہسپانیہ میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھیں۔
1973ء میں جب پاکستان کی قومی اسمبلی میں یہ مسئلہ زیربحث تھا کہ صدر اور وزیراعظم کے حلف کے الفاظ ایسے ہوں جن سے احمدیوں کے لئے ان عہدوں پر منتخب ہونا ممکن نہ رہے تو کسی نے تجویز پیش کی کہ ہم ایسی قراردادیں اسمبلی میں پیش کروا دیتے ہیں کہ شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی اختلافات بھی سامنے آجائیں اور نہ ختم ہونے والی بحث چھڑ جائے۔ اس پر حضورؒ نے بڑی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ مَیں کوئی ایسی بات نہیں کرسکتا جو امّت مسلمہ میں تفرقہ کا باعث بنے۔
حضورؒ کے ایک بیٹے بیان کرتے ہیں کہ حضورؒ کو احکامات شریعت کی پابندی کا بہت خیال ہوتا تھا۔ ایک بار مَیں نے حضورؒ سے کچھ رقم بطور قرض لی۔ جب رقم لے کر واپسی کے لئے مڑا تو فرمایا: رسید دیتے جاؤ کیونکہ خدا اور اُس کے رسول نے قرض تحریر کرنے کا حکم دیا ہے۔
حضورؒ جب کھانے کی میز پر بیٹھتے تو اُس وقت تک کھانا شروع نہ کرتے جب تک پانی نہ آجاتا کیونکہ آنحضورﷺ کا یہی حکم ہے۔
ایک بار حضورؒ نے مجھے ایک باغ لگوانے کی ذمہ داری سونپی۔ باغات کے ایک ماہر نے مشورہ دیا کہ ایک ایکڑ میں جتنے درخت لگتے ہیں اُس سے زیادہ لگوائیں اور پھر دو سال جتنی ضرورت ہو رکھ کر، باقی کاٹ دیں۔ مَیں نے یہ تجویز حضورؒ کے سامنے رکھی تو فرمایا : بالکل نہیں، آنحضرتﷺ نے پھلدار درخت کاٹنے سے منع فرمایا ہے۔
مکرم مولانا ابوالمنیرنورالحق صاحب کو حضورؒ نے ایک بار فرمایا کہ جب مجھے کوئی پریشانی لاحق ہوتی ہے تو مَیں دین کے کام میں پوری طرح لگ جاتا ہوں اور اللہ تعالیٰ میری پریشانی کو دُور کردیتا ہے۔