سیرۃ حضرت مصلح موعودؓ (عائلی زندگی)

سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی عائلی زندگی کی ایک جھلک کے عنوان سے حضرت سیدہ مہر آپاؒ کا مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍ فروری 1999ء میں ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے۔
آپ بیان فرماتی ہیں کہ حضورؓ اپنی عائلی زندگی کے ہر شعبہ میں بھی پوری دلچسپی لیتے تھے۔ آپؓ بہت اچھا کھانا پکانا جانتے تھے۔ ایک بار ڈلہوزی میں قیام کے دوران فرمانے لگے کہ آج موسم بہت خوشگوار ہے، اگر تم پسند کرو تو مَیں تمہیں اپنے ہاتھ سے بریانی پکاکر کھلاؤں۔ پہلے تو مَیں مذاق سمجھی لیکن جب آپؓ نے ساری چیزیں منگوائیں اور نہایت لذیذ ڈش تیار کی تو پھر یقین آیا۔ پھر ہنس ہنس کے بار بار مجھے مخاطب کرتے اور فرماتے کیوں اب میرے پکانے کا یقین آیا یا نہیں۔ اسی طرح مختلف وقتوں میں چار پانچ ڈش پکائے۔ کبھی صرف ہدایت دیتے جاتے اور کام ہم کرتے اور کبھی اصل کام آپؓ خود کرتے اور اوپر کا کام ہم کرتے۔ چنانچہ چند ایک خاص کھانے مَیں نے حضورؓ سے ہی سیکھے ہیں۔
شادی کے بعد پہلی بار جب ہم ڈلہوزی سے قادیان واپس پہنچے تو آپؓ نے مجھے آتشدان میں آگ جلانے کے لئے فرمایا۔ مَیں نے کوئلے سلگانے کی بہتیری کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ خاصی دیر گزر جانے پر آپؓ اپنے کام کو چھوڑ کر میری طرف متوجہ ہوئے اور مسکراتے ہوئے دیاسلائی مجھ سے لے لی اور لکڑی اور کوئلوں کو خاص ترتیب سے رکھ کر اُن کو دیاسلائی دکھائی تو چند ہی لمحوں میں آگ بھڑک اٹھی۔ اور حضورؓ نے مسکراکر فرمایا اسے جادو کہتے ہیں۔ پھر میری شرمندگی کو بھانپ کر فرمایا، کوئی بات نہیں ہے ابتدا میں کام نہیں آیا کرتے، پھر آہستہ آہستہ سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔
حضورؓ کو ہر موسم میں انجوائے کرنا خوب آتا تھا۔ جب بھی فراغت ہوتی سب اہل خانہ کو اپنے پاس اکٹھا کرکے موسم کے مطابق اہتمام کرتے۔ سردیوں میں گرم کمرہ میں سبز چائے یا کافی، خشک میوہ اور تکّے وغیرہ بنانے کو کہتے۔ بھونے چنے اور مکئی کے دانے بھی بہت مرغوب تھے۔ برسات میں پکوڑوں اور پوڑوں کا اہتمام کرتے۔ گرمیوں میں شربت، آئس کریم اور فالودہ وغیرہ ہوتا۔ خدام کے لئے خاص طور پر ہدایت ہوتی کہ اُن کو بھی محظوظ ہونے کا پوری آزادی سے موقع دیا جائے۔ قادیان میں ایک دن موسلادھار بارش میں مجھے فون کیا کہ جلدی آؤ بڑے مزے کا دن ہے۔ میں نے کہا اس قدر موسلادھار بارش میں کیسے آؤں؟ بھیگ جاؤں گی۔ فرمانے لگے: نہیں آ جاؤ، بارش میں بھیگنے کا بھی مزہ ہے۔ دیکھو میں نے آموں کے ٹوکرے صحن میں رکھوائے ہیں۔ آم بارش میں خوب ٹھنڈے ہو رہے ہیں۔ بارش میں کھانے کا لطف آتا ہے۔ … اسی طرح دوسرے گھروں میں سے بھی سب کو بلوایا اور خود اپنے ہاتھ سے اچھی قسم کے آم چھانٹتے اور باری باری دیتے اور ساتھ ہی بتاتے چلے جاتے کہ یہ آم کی فلاں قسم ہے، یہ پودا مَیں نے فلاں وقت فلاں سن میں لگوایا تھا۔
آپؓ کو اعلیٰ قسم کی خوشبو سے ہمیشہ لگاؤ رہا۔ فارغ لمحات میں عطر تیار کرنا آپؓ کا مشغلہ تھا۔ آپؓ کے استعمال کے تمام کمرے خوشبو سے معطر رہتے۔ ایک دفعہ میری بہن ناصرہ کینیڈا سے حضور کے لئے عطر کی چھوٹی سی شیشی کا تحفہ لائیں۔ اتفاقاً آپؓ کو وہ سینٹ بے حد پسند آیا۔ آپؓ نے ناصرہ سے فرمایا کہ اگر مَیں تمہیں بالکل ایسا ہی سینٹ تیار کردوں تو تم مجھے کیا دو گی؟۔ وہ بے تکلّفی سے کہنے لگی کہ پھر میں اِدھر اُدھر سے سینٹ خریدنا چھوڑ دوں گی اور حضورؓ سے ہی عطر لیا کروں گی۔ آپؓ بہت محظوظ ہوئے اور اسی وقت ویسا سینٹ تیار کرنے کی کوشش شروع کردی۔ دو تین دن بوقت فرصت کوشش کرتے رہے یہاں تک کہ بالکل ویسا ہی سینٹ تیار کرلیا۔ پھر پورے اصرار سے ناصرہ سے قیمت دریافت کی اور فرمایا کہ تم نے یہ شیشی 120؍روپے میں خریدی اور ہم نے تمہیں چند پیسوں میں وہی چیز بنادی۔
حضورؓ دوسروں کے جذبات و خواہشات کا غیرمعمولی احترام کرتے تھے۔ ایک بار ٹیبل ٹینس، بیڈمنٹن اور رائفل کے متعلق بے خیالی میں اپنے شوق کا اظہار کر بیٹھی تو حضورؓ نے یکے بعد دیگرے یہ سب سامان منگوادیئے۔ رائفل کے نشانہ کی پریکٹس اپنے سامنے کروائی۔ سندھ کے سفروں میں خاص طور پر ہم لوگوں کے لئے سواری کے گھوڑے اور اونٹ منگواتے، اپنے سامنے سوار کراتے اور اپنے سامنے اترواتے۔ جب تک ہم لوگ واپس نہ آ جاتے تو برابر انتظار میں رہتے۔ … حضورؓ بہت دلداری اور دلجوئی فرماتے۔ مجھے بوٹنگ، رائیڈنگ اور ڈرائیونگ کا بھی بہت شوق تھا جو پورا کیا۔
سوئٹزرلینڈ میں قیام کے دوران ایک روز موٹرلانچ پر جھیل کی سیر کا پروگرام بنایا۔ جب سب جھیل کی سیر کر رہے تھے تو میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ مَیں خود لانچ چلاؤں۔ کچھ دیر اس ادھیڑبن میں گزرا کہ ایسا کہنے پر کہیں حضورؓ ناراض ہی نہ ہو جائیں۔ آخر ہمّت کرکے کہہ دیا۔ آپؓ نے فرمایا کہ جھیل میں بہت لہریں اٹھ رہی ہیں، کہیں کوئی غلطی نہ کر بیٹھنا۔ پھر کیپٹن کو یہ بات کہہ دی تو اُس نے سٹیئرنگ میرے حوالہ کردیا۔ دس پندرہ منٹ تک مَیں نے لانچ چلائی۔ آپؓ پوری توجہ اور دلچسپی سے دیکھتے رہے اور پھر میرے لانچ چلانے کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ اب تم بڑی لہروں کے درمیان لانچ کو لے آئی ہو، اب بس کرو۔
ایک دفعہ سندھ میں مَیں نے ٹریکٹر چلانے کی خواہش کی اور ایک روز نسیم آباد سے ناصر آباد تک خود اس طرح ٹریکٹر چلاتی ہوئی آئی کہ میرے چچا اور ماموں، ٹریکٹر کے دائیں بائیں چل رہے تھے۔ گھر کے پاس پہنچے تو کسی نے حضورؓ کو بتایا کہ مہر آپا ٹریکٹر چلا رہی ہیں۔ آپؓ باہر تشریف لے آئے اور فرمایا چلو اچھا ہوا، یہ تو پتہ چل گیا کہ تم کار چلانا آسانی سے سیکھ سکتی ہو۔
ایک دفعہ جب ہم ڈلہوزی سے قادیان پہنچے تو اتفاق سے اُس دن میری باری تھی۔ گھر کئی ماہ سے بند تھا۔ صفائی، گھر کی سیٹنگ اور سب کے کھانے پینے کا اہتمام کرنا تھا۔ سخت پریشان تھی کیونکہ نوکر فلو کی وبا کا شکار ہوگئے تھے۔ سارے کام بھاگ دوڑ کر کئے اور چار پانچ ڈشز بھی پکالیں۔مجھے ڈر تھا کہ پتہ نہیں کسی کو کھانا پسند بھی آتا ہے یا نہیں۔ خدا کا فضل ہوا کہ ہر ایک کو کھانا بہت پسند آیا۔ حضورؓ نے اپنی پسندیدگی کا اظہار اس طرح کیا کہ میری تمام کوفت دُور ہوگئی۔ پھر سارے کام کی تفصیل پوچھی اور تعجب کا اظہار کیا کہ اس قدر تھوڑے وقت میں کیسے تیاری کرلی۔ پھر نصیحت کی کہ اپنے اوپر اس قدر کام کا بوجھ نہ ڈال لینا کہ خود تمہاری صحت پر اثر پڑے۔
حضورؓ غیرمعمولی مصروفیت کے باوجود ہمارے اُن کاموں میں ہماری مدد کیا کرتے تھے جن میں ہم اکیلے ہوتے تھے۔ مثلاً کسی وقت غیرمتوقع طور پر مہمان آجاتا اور کوئی مددگار نہ ہوتا تو آپؓ فوراً خندہ پیشانی سے ہمارے ساتھ مدد کرتے۔ پہلا خیال یہ غالب ہوتا کہ مہمان کی خاطر مدارات میں تاخیر نہ ہو اور دوسرا بیوی کے آرام اور اُس کے جذبات کا احساس ہوتا۔
حضورؓ غیرمعمولی ہمّت و عزم کے مالک تھے۔ ایک دفعہ سندھ کے دورے پر آپؓ کو گاؤٹ کی تکلیف ہوگئی۔ پاؤں متورم تھا اور سلیپر کے اوپر پاؤں رکھ کر پٹی باندھی ہوئی تھی۔ حرارت بھی تھی۔ اپنی اس تکلیف کے باوجود آپؓ نے شارٹ گن بھر کر اپنے ہاتھ میں پکڑلی اور جیپ میں بیٹھ گئے۔ قافلہ روانہ ہوا۔ راستہ تسلّی بخش نہیں تھا، شام کا وقت تھا، چوروں لٹیروں کا خطرہ بھی تھا۔ چچا جان نے حضورؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور! اس طرح چلنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ آپؓ ہنس پڑے اور فرمایا: شاہ صاحب! ہم مغل ہیں۔
شادی کے ابتدائی ایک دو سال تک مَیں تقریباً ہر دوسرے تیسرے دن اپنی کوٹھی (دارالانوار) جانے کا مطالبہ کرتی۔ دارالمسیح کے چوبارے شہری طرز کے بنے ہوئے تھے اور گھروں میں کھلے صحن نہ تھے اس لئے میری طبیعت گھبرائی گھبرائی رہتی تھی۔ پھر باری کا سلسلہ تھا اور مسلسل تین دن تک حضور کا انتظار کرنا مجھے دل ہی دل میں بڑا شاق گزرتا تھا۔ اگرچہ آپؓ کا معمول تھا کہ روزانہ گھر میں کئی دفعہ آتے، حال احوال پوچھتے، بچوں سے باتیں کرتے اور واپس کام پر چلے جاتے۔ لیکن میری کمزوری تھی کہ مَیں اُن تین دن کے لئے گھر جانے کی ضد کرتی۔ آپؓ اجازت تو دیدیتے لیکن اس کے لئے کافی جدوجہد کرنا پڑتی۔ پھر تاکید فرماتے کہ جلد واپس آ جانا۔ اکثر خود ہی لینے آجاتے۔ ایک دفعہ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ آپ نے تو چوتھے دن ہی آنا ہے، اگر آپ کی روزانہ باری میرے پاس ہی ہو تو مَیں یہاں آنا بند کردوں گی۔ اس پر آپؓ تھوڑی دیر کے لئے سنجیدہ ہوگئے اور فرمایا کہ اگر مَیں تمہارے پاس ہی رہوں تو یہ سخت بے انصافی ہوگی اور خدا تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی بھی۔ مَیں تمہارا خاص خیال رکھتا ہوں پھر بھی تمہیں شکوہ ہی رہتا ہے۔
حضورؓ اللہ تعالیٰ کی رضا پر ہر حالت میں راضی رہتے تھے۔ حضرت نواب محمد علی خانصاحبؓ بیمار ہوئے تو حضورؓ کو سخت فکر تھی، دعاؤں اور ادویہ کا خاص اہتمام فرماتے اور خود دیکھنے جاتے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کی مشیت پوری ہوگئی اور حضرت نواب صاحب فوت ہوگئے تو حضورؓ اس طرح سکون و اطمینان سے اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہوگئے کہ مجھے حیرت ہوئی۔
ایک بار ڈلہوزی میں قیام کے دوران ہماری ایک بچی بجلی کے کڑکے کی آواز سے اچانک فوت ہوگئی۔ آپؓ کو اطلاع ملی کہ بچی کڑاکے کی آواز سے پکنک کے دوران بیہوش ہوگئی ہے۔ آپؓ انا للہ و انّا الیہ راجعون کہتے ہوئے تیز بھاگ پڑے۔ سلیپر پہنے ہوئے تھے۔ جس جگہ جانا تھا وہ سیدھی چڑھائی تھی جہاں ڈانڈی یا گھوڑے کے سوا چلنا مشکل تھا۔ آپؓ کے پیچھے تمام خدام بھاگ رہے تھے لیکن کیا مجال جو آپؓ راستہ میں کہیں ٹھہرے ہوں۔ جائے حادثہ پر پہنچ کر بچی کی دیکھ بھال کی لیکن جب ڈاکٹروں نے بچی کی وفات کا بتایا تو آپؓ کمال خاموشی اور سکون سے واپس تشریف لائے۔ دل پر بے حد اثر تھالیکن اگر کوئی کلمہ آپؓ کی زبان مبارک سے نکلا تو یہی تھا انّا للہ و انّا الیہ راجعون۔
حضورؓ کی طبیعت میں جہاں انتہائی صفائی و نزاکت تھی وہاں سادگی کی انتہا بھی تھی۔ آپ کھدر کے کپڑے اور سوتی لحاف استعمال کرتے۔ جب مَیں کہتی کہ عمدہ گرم کپڑے استعمال کیا کریں تو کبھی ہنسی میں ٹال دیتے اور کبھی سنجیدگی سے فرماتے تمہیں پتہ نہیں کہ کھدر گرم ہوتا ہے، تم مجھے فیشن نہ سکھایا کرو۔
ایک دفعہ ڈرائینگ روم کے درمیان میں مَیں نے کافی ٹیبل رکھ دیا۔ آپؓ کی نگاہ پڑی تو فرمایا اَسے ہٹاؤ۔ مَیں نے کہا کہ فرنیچر کا حصہ ہے اب دیکھئے صوفے اور پردے وغیرہ بھی تو موجود ہیں۔ فرمایا پردے تو گرد و غبار اور مکھی وغیرہ سے بچنے کے لئے ضروری ہیں اور جب فرش پر بیٹھے کام کرتے کرتے تکان محسوس ہوتی ہے تو صوفے ، کرسی پر کچھ وقت کام کرنے میں سہولت ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کافی ٹیبل کی کوئی ضرورت نہیں، اس لئے اس کو ابھی یہاں سے اٹھواؤ چنانچہ وہ اسی وقت اٹھوا دیا گیا۔
ایک دفعہ میرے بھائی نسیم جب حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؓ سے ملاقات کرکے آئے تو چہرہ دمک رہا تھا۔ پوچھنے پر بتایا کہ اس ملاقات سے تشنگی بجھی نہیں بلکہ بڑھ گئی ہے۔ حضورؒ نے آگے بڑھ کر مجھے دو دفعہ گلے لگایا، پیار کیا اور باوجود شدید تھکے ہوئے ہونے کے حالات دریافت فرمائے اور مشورہ دیا۔ لیکن جب حضورؒ نے مجھے گلے لگاکر پیار کیا تو مجھے حضرت مصلح موعودؓ یاد آگئے کہ آپؓ ہمیں اسی طرح بڑھ کر گلے لگایا کرتے تھے اور انتہائی محبت کا اظہار کرتے تھے، آج بڑی مدّت کے بعد پھر وہ پیار ملا تو میری عجیب کیفیت ہوگئی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں