سیرۃ حضرت مصلح موعودؓ کے بعض پہلو

ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان 4 تا 11؍فروری 1999ء میں مکرم مولانا محمد یوسف صاحب انور نے اپنے مضمون میں حضرت مصلح موعودؓ کی سیرت کے بعض درخشندہ پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔
سیدنا مصلح موعودؓ اگرچہ اپنے والدین کے بہت لاڈلے تھے لیکن آپؓ کی تربیت کا بہت خیال رکھا جاتا تھا۔ چنانچہ حضرت سید فضل شاہ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت مسیح موعودؑ چوبارے کے صحن میں بیٹھے تھے اور مَیں بادام توڑ رہا تھا کہ اتنے میں حضرت میاں محمود احمدؓ جن کی عمر چار پانچ سال کی ہوگی، تشریف لائے اور سب بادام اٹھاکر جھولی میں ڈال لئے۔ حضرت اقدس نے یہ دیکھ کر فرمایا: ’’یہ میاں بہت اچھا ہے، زیادہ نہیں لے گا، صرف ایک دو لے گا، باقی سب ڈال دے گا‘‘ جب حضرت صاحب نے یہ فرمایا تو میاں نے جھٹ سب بادام میرے آگے رکھ دیئے اور صرف ایک یا دو بادام لے کر چلے گئے۔
حضورؓ بچپن میں ہی بہت ذہین تھے۔ چنانچہ جب آپؓ کی عمر نو سال تھی تو کھیلتے کھیلتے آپؓ نے یونہی ایک کتاب اٹھالی جس میں لکھا تھا کہ جبرائیل اب نازل نہیں ہوتے۔ آپؓ نے کہا یہ غلط ہے میرے اباّ پر نازل ہوتا ہے۔ کسی دوسرے لڑکے نے کہا کہ کتاب میں ٹھیک لکھا ہے۔ اس پر دونوں حضرت مسیح موعودؑـ کے پاس گئے اور مدعا بیان کیا تو حضورؑ نے فرمایا کہ کتاب میں غلط لکھا ہے، جبرائیل اب بھی آتا ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’میں علمی طور پر بتلاتا ہوں مَیں نے حـضرت صاحب کو والد ہونے کی وجہ سے نہیں مانا تھا بلکہ جب مَیں گیارہ سال کے قریب تھا تو مَیں نے مصمّم ارادہ کیا تھا کہ اگر میری تحقیقات میں وہ نعوذباللہ جھوٹے نکلے تو مَیں گھر سے نکل جاؤں گا۔ مگر مَیں نے اُن کی صداقت کو سمجھا اور میرا ایمان بڑھتا گیا۔ حتی کہ جب وہ فوت ہوئے تو میرا یقین اور بھی بڑھ گیا‘‘۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود نظر آتی ہے کہ اچھی باتوں کو قبول کرنے کا مادہ آپؓ کو بدرجہ احسن ودیعت ہوا تھا اور غلط نقش کو ردّ کر دینے کی اہلیت بھی آپؓ بخوبی رکھتے تھے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ اپنا یہ واقعہ خود بیان فرماتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ ایک لڑکے کے کندھے پر کہنی ٹیک کر کھڑا تھا کہ ماسٹر قادر بخش صاحبؓ نے جو مولوی عبدالرحیم صاحبؓ درد کے والد تھے، اس سے منع کیا اور کہا یہ بُری بات ہے۔ اُس وقت میری عمر بارہ تیرہ سال کی ہوگی۔ لیکن وہ نقشہ جب بھی میرے سامنے آتا ہے، اُن کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے‘‘۔
حضرت مصلح موعودؓ کی تعلیم کا آغاز گھر پر ہی قرآن کریم ناظرہ پڑھنے کے ذریعہ ہوا۔ حضرت حافظ احمد اللہ ناگپوریؓ کو حضرت مسیح موعودؑ نے اس غرض کیلئے مقرر فرمایا۔ جب آپؓ نے ناظرہ پڑھ لیا تو حضور نے اس خوشی میں ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا، ایک آمین لکھی جو اُس تقریب میں پڑھ کر سنائی گئی اور حافظ صاحبؓ کو ڈیڑھ صد روپیہ عطا فرمایا جو اُس زمانہ میں ایک بہت بڑی رقم تھی۔
بعد ازاں آپؓ کو اسکول میں داخل کیا گیا اور اس طرح آپؓ نے اردو اور انگریزی کی کچھ تعلیم حاصل کی لیکن آنکھوں میں ککرے پڑ جانے سے متواتر تین چار سال آپؓ کی آنکھیں دکھتی رہیں یہاں تک کہ ڈاکٹروں نے کہا بینائی ضائع ہو جائے گی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑـ نے خصوصی طور پر آپؓ کے لئے دعا شروع کی اور روزے رکھنے شروع کئے۔ جس دن آخری روزہ تھا اُس روز افطار کے وقت حضرت مصلح موعودؓ نے آواز دی کہ مجھے نظر آنے لگ گیا ہے۔ تاہم آپؓ کی ایک آنکھ میں بینائی نہ رہی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود نے اساتذہ سے کہا کہ پڑھائی اس کی مرضی پر ہوگی جتنا چاہے پڑھے، اگر نہ پڑھے تو زور نہ دیا جائے۔ چنانچہ آپؓ کلاس میں بھی بہت کم جاتے تھے۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ نے اُس وقت آپؓ سے فرمایا کہ میاں تمہاری صحت ایسی نہیں کہ تم خود پڑھ سکو، میرے پاس آیا کرو، میں پڑھتا جاؤں گا اور تم سنتے رہا کرو۔ چنانچہ انہوں نے زور دے کر پہلے قرآن اور پھر بخاری پڑھادی۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ’’مجھے سب سے بڑی تعلیم جو حضرت خلیفہ اوّل نے دی وہ یہی تھی کہ جب میں پڑھتے ہوئے کوئی سوال کرتا تو آپ فرماتے میاں آگے چلو اس سوال کے متعلق گھر جاکے خود سوچنا‘‘۔
حضرت مصلح موعودؓ کو مدرسہ کے اساتذہ ہر سال رعائتاً اگلی جماعت میں ترقی دیدیتے تھے۔ لیکن یونیورسٹی کے امتحان میں ناکام رہنے کے بعد آپؓ کی تعلیم کا یہ رسمی باب بھی ختم ہوگیا۔
آپؓ کے ایک استاد حضرت سید سرور شاہ صاحبؓ نے ایک بار آپؓ سے دریافت کیا کہ میاں! آپؓ کے والد صاحب کو تو کثرت سے الہام ہوتے ہیں، کیا آپؓ کو بھی الہام ہوتا اور خوابیں وغیرہ آتی ہیں؟ آپؓ نے فرمایا کہ ایک خواب تو تقریباً ہر روز ہی دیکھتا ہوں اور جونہی تکیہ پر سر رکھتا ہوں اس وقت سے لے کر صبح کو اٹھنے تک یہ نظارہ دیکھتا ہوں کہ ایک فوج ہے جس کی مَیں کمان کر رہا ہوں اور بعض اوقات ایسا دیکھتا ہوں کہ سمندروں سے گزر کر آگے جاکر حریف کا مقابلہ کر رہے ہیں…۔ حضرت شاہ صاحبؓ فرماتے ہیں کہ جس وقت یہ خواب آپؓ سے سنا اُسی وقت سے میرے دل میں یہ بات گڑی ہوئی ہے کہ یہ شخص کسی وقت یقینا جماعت کی قیادت کرے گا اور مَیں نے اسی وجہ سے کلاس میں بیٹھ کر آپؓ کو پڑھانا چھوڑ دیا۔ آپؓ کو اپنی کرسی پر بٹھاتا اور خود آپؓ کی جگہ بیٹھ کر آپؓ کو پڑھاتا اور مَیں نے خواب سُن کر آپؓ سے یہ بھی عرض کردیا تھا کہ میاں! آپؓ بڑے ہوکر مجھے بُھلا نہ دیں اور مجھ پر بھی نظر شفقت رکھیں۔
منصبِ خـلافت پر سرفراز ہونے کے بعد آپؓ کے شاندار کارنامے دنیا کے سامنے آئے۔ آپؓ ایک وسیع النظر اور صاحبِ فراست وجود تھے۔ مکرم مولوی محمد صادق صاحب مبلغ سماٹرا کا بیان ہے کہ ایک دفعہ سنگاپور اور ملایا میں احمدیت کی سخت مخالفت ہوئی۔ حضورؓ سے راہنمائی فرمانے کی درخواست کی گئی تو فرمایا کہ دَورے پر چلے جاؤ اور علماء اور امراء سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرو۔ حسب ارشاد مَیں نے ایک طرف سے دوسری طرف تک دورہ کیا اور قریباً ایک سو علماء سے ملاقات کی۔ قریباً نوے فیصد نے اقرار کیا کہ وہ احمدیوں کو مسلمان سمجھتے ہیں اور یہ کہ پہلے اُنہیں احمدیت کے متعلق دھوکا دیا گیا تھا۔
ایک بار مولوی صاحب مذکور نے حضورؓ کی خدمت میں عرض کی کہ تین چار ماہ سے نماز میں وہ سرور اور لذّت محسوس نہیں ہوتی جو پہلے ہوتی تھی۔ فرمایا: ’’ابتہال سے کام لیں‘‘۔ یعنی دعا پر زور دیں۔
حضورؓ کی جسمانی صحت اور اولوالعزمی کا ذکر کرتے ہوئے مکرم مولوی عبدالرحمٰن انور صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضورؓ نے قادیان کی قریبی نہر میں موضع تتلے کے پُل سے دوسرے احباب کے ساتھ تیرنا شروع کیا اور دوسرے پُل تک تیرتے چلے گئے جبکہ کئی بظاہر طاقتور نوجوان تیرنے کی بجائے چلنے لگے جبکہ صرف ایک حضورؓ ہی تھے جو تیرتے ہوئے وہاں پہنچے اور فرمایا کہ اگر حضورؓ چاہیں تو ابھی اَور کافی فاصلہ تیر سکتے ہیں۔
جلسہ سالانہ کے موقع پر حضورؓ کی تقریر کبھی کبھی مسلسل چھ سات گھنٹے تک جاری رہتی۔ اس کے بعد جماعتوں سے ملاقات کا وقت ہوتا جو رات بارہ ایک بجے تک ممتد ہو جاتا۔ حضورؓ خندہ پیشانی سے ہر ایک سے مصافحہ فرماکر حالات دریافت فرماتے اور مشورے عطا فرماتے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں