سیرۃ حضرت مصلح موعودؓ کے بعض پہلو
حضرت سیدہ اُمّ متین مریم صدیقہ رحمہا اللہ کا حضرت مصلح موعودؓ کی سیرۃ کے بارہ میں ایک نہایت قیمتی مضمون ماہنامہ ’’خالد‘‘ 1999ء میں روزنامہ ’’الفضل‘‘ کی ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے۔
حضرت اماں جانؓ یعنی حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کو اپنے چھوٹے بھائی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ سے بڑی محبت تھی۔ چنانچہ جب حضرت مصلح موعودؓ کی پیدائش ہوئی تو آپؓ کی خواہش تھی کہ آپؓ کے بھائی کے گھر کوئی لڑکی پیدا ہو جسے آپؓ اپنی بہو بناکر لائیں۔ لیکن حضرت میر صاحبؓ کی پہلی شادی سے کوئی اولاد نہ ہوئی تو آخر حضرت اماں جانؓ اور حضرت مصلح موعودؓ کے زور دینے پر 1917ء میں حضرت میر صاحبؓ کی دوسری شادی حضرت مرزا محمد شفیع صاحبؓ کی بڑی لڑکی امۃاللطیف صاحبہ سے ہوئی اور 7؍اکتوبر 1918ء کو حضرت میر صاحبؓ کے ہاں ایک بچی پیدا ہوئی جس کا نام آپؓ نے مریم رکھا اور اپنی بیٹی کو راہِ خدا میں وقف کردیا اور اس وجہ سے اس بچی کا دوسرا نام ’’نذر الٰہی‘‘ بھی رکھا۔ آپؓ اپنے ایک مضمون میں 1921ء کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’آدھی رات تو ہو ہی چکی تھی، مَیں چوکھٹ پر سر رکھے پڑا تھا اور اٹھنے کا خواہشمند تھا کہ اٹھنے کی اجازت ملی۔ وہیں دروازہ کے ساتھ ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا اور اپنی زبان میں اظہار تعشق یا یوں کہو مناجات شروع کی۔ ایسی مؤثر، ایسی رقّت بھری کہ سنگدل سے سنگدل معشوق بھی اس کو سن کر آبدیدہ ہو جائے۔ آخر میرا جادو چل گیا اور یوں محسوس ہوا کوئی پوچھتا ہے کہ کیا چاہتا ہے۔ مَیں نے عرض کیا … جو کچھ ہے وہ آپ کا ہی دیا ہوا ہے۔ ’’جان اور ایک چیز سب سے عزیز‘‘۔… مَیں نے ویسی فجر کی نماز ساری عمر نہ پڑھی تھی۔ اُف وہ خوشی… میرا ہر ذرّہ تن قریب تھا کہ اس خوشی سے پھٹ جائے یا شادی مرگ ہو جائے… زہے نصیب، وہ اور مجھے اپنا چہرہ دکھائیں اور مجھ سے ایک عزیز چیز کی نذر طلب کریں۔… دن کے آٹھ نہیں بجے تھے کہ ایک سیاہ بکرا اور سفید مینڈھا کوچہ بندی میں کٹے پڑے تھے اور عالم روحانی میں اُن کے ساتھ دو اور نفس بھی ذبح ہوچکے تھے۔ اور بارہ نہیں بجے تھے کہ میری سب سے عزیز چیز یعنی مسجد مبارک والا مکان میرے قبضہ سے نکل کر صدر انجمن کی تحویل میں منتقل ہوچکا تھا۔ ان باتوں سے فارغ ہوکر گھر گیا تو ایک اَور عزیز چیز نظر آئی جس کا نام مریم صدیقہ تھا۔ مَیں نے اسے اٹھاکر کہا کہ اس کا نام ہی شاہد ہے، میرا پہلے سے ارادہ تھا، اب اسے بھی قبول فرمائیے‘‘۔
حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ بیان فرماتی ہیں کہ اباجان نے ہمیشہ مجھے یہی سبق دیا کہ ہر صورت میں دین کو دنیا پر مقدم کرنا ہے۔ جب مَیں چھوٹی تھی تو ایک دعائیہ نظم بھی آپؓ نے کہی جس کا آخری شعر تھا ؎
میرا نام ابا نے رکھا ہے مریم
خدایا تُو صدیقہ مجھ کو بنا دے
مجھے 30؍ستمبر 1935ء کو سترہ سال کی عمر میں حضرت مصلح موعودؓ کی زوجیت میں آنے کا شرف حاصل ہوا۔ اُس وقت حضرت سیدہ اُمّ طاہر زندہ تھیں جنہیں حضورؓ ’’مریم‘‘ کہہ کر بلاتے تھے۔ چونکہ ایک ہی نام سے دونوں بیویوں کو بلانا مشکل تھا اس لئے حضورؓ نے شروع سے ہی مجھے صدیقہ کہہ کر بلایا۔ شادی کی پہلی رات بے شک عشق و محبت کی باتیں بھی ہوئیں مگر زیادہ تر عشق الٰہی کی باتیں تھیں اور مجھ سے یہ عہد لیا جارہا تھا کہ مَیں ذکر الٰہی کی عادت ڈالوں، دین کی خدمت کروں اور حضورؓ کی عظیم ذمہ داریوں میں آپ کا ہاتھ بٹاؤں۔
میرے اباجان نے میری شادی کے موقع پر مجھے جو نصائح لکھ کر دیں اُن میں یہ بھی لکھا کہ خدا تعالیٰ کا شکر کرو کہ اس نے اپنے فضل سے تم کو وہ خاوند دیا ہے جو اس وقت روئے زمین پر بہترین شخص ہے … جس کی بابت وحی ہے فرزند دلبند۔ گرامی ارجمند، مظھرالحق والعلا کَانَّ اللّٰہ نَزَلَ مِنَ السَّماء۔ … پس تم اپنی خوش قسمتی پر جس قدر بھی ناز کرو، بجا ہے۔ … تم اندازہ نہیں کر سکتیں کہ حضرت خلیفۃالمسیح پر خدمت دین کا کتنا بوجھ اور اس کے ساتھ کس قدر ذمہ داریاں اور تفکرات اور ہموم و غموم وابستہ ہیں اور کس طرح وہ اکیلے تمام دنیا سے برسر پیکار ہیں… پس اس مبارک وجود کو اگر تم کچھ بھی خوشی دے سکو اور کچھ بھی اُن کی تکان اور تفکرات کو اپنی بات چیت، خدمت گزاری اور اطاعت سے ہلکا کرسکو تو سمجھ لو کہ تمہاری شادی اور تمہاری زندگی بڑی کامیاب ہے…۔
شادی کے بعد حضورؓ نے میری تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور بی۔اے کے بعد دینی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا اور قرآن کریم کا کچھ حصہ سبقاً پڑھا۔ نوٹس لینے کی عادت بھی آپؓ ہی نے مجھے ڈالی جو بعد میں حضورؓ ملاحظہ فرمایا کرتے تھے۔ فرمایا کرتے کہ ایک ایک لفظ لکھنا ہے، بعد میں دیکھوں گا۔ آہستہ آہستہ اتنا تیز لکھنے کی عادت ہوگئی کہ حضورؓ کے جلسہ کی تقریر بھی نوٹ کرلیتی تھی۔ 47ء کے بعد تو قریباً ہر خط، مضمون اور تقریر کے نوٹ مجھ سے ہی املا کروائے۔ تفسیر صغیر کے مسودہ کا اکثر حصہ مجھ سے ہی املا کروایا۔ قرآن مجید پڑھاتے ہوئے اس بات پر زور دیتے تھے کہ خود غور کرنے کی عادت ڈالو۔ صَرف و نحو مکمل آپؓ نے خود پڑھائی اور ایسے سادہ طریق سے پڑھائی کہ یہ مضمون کبھی مشکل ہی نہ لگا۔ تقریر کرنا آپؓ نے خود سکھایا۔ جب آپؓ نے مجھ سے جلسہ سالانہ پر تقریر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو مَیں نے عرض کیا کہ آپؓ لکھ دیں، مَیں پڑھ دوں گی۔ فرمایا اس طرح تمہیں کبھی تقریر کرنی نہیں آئے گی۔ اس موضوع پر مَیں تمہارے سامنے تقریر کرتا ہوں تم غور سے سنو، ضروری حوالہ جات وغیرہ نوٹ کرو اور پھر انہی کی مدد سے تم تقریر کرو مَیں سنوں گا۔
ہر جلسہ کے موقعہ پر فرماتے کہ میری تقریر کے نوٹس ضرور لینا مَیں آکر دیکھوں گا۔ آپؓ کی ایک صاحبزادی کو جب پہلی بار حضورؓ کی تقریر سمجھ آئی تو اُس نے گھر آکر خوشی سے کہا کہ اباجان کو بھی تقریر کرنی آگئی ہے۔ آپؓ نے لطیفہ سنا تو ہنسے اور فرمایا معلوم ہوتا ہے کہ آج اسے پہلی بار میری تقریر سمجھ آئی ہے۔
جن دنوں حضورؓ نے تفسیر کبیر لکھی ، نہ آرام کا خیال رہتا تھا نہ سونے کا نہ کھانے کا، بس ایک ہی دھن تھی کہ کام ختم ہو جائے۔ رات کو عشاء کی نماز کے بعد لکھنے بیٹھتے تو کئی دفعہ ایسا ہوا کہ صبح کی اذان ہوگئی اور لکھتے چلے گئے۔ تفسیر صغیر تو لکھی ہی بیماری کے حملہ کے بعد۔ ڈاکٹر کہتے تھے آرام کریں، فکر نہ کریں، زیادہ محنت نہ کریں لیکن آپؓ کو ایک دھن تھی کہ قرآن کے ترجمہ کا کام ختم ہو جائے۔ بعض دن صبح سے شام ہو جاتی اور لکھواتے رہتے۔ کبھی مجھ سے املا کرواتے، مجھے گھر کا کام ہوتا تو مولوی یعقوب صاحب مرحوم کو ترجمہ لکھواتے رہے۔ آخری سورتیں لکھوا رہے تھے کہ مجھے تیز بخار ہوگیا۔ میرا دل چاہتا تھا کہ میرے ہی ہاتھوں سے یہ مقدس کام ختم ہو۔ مَیں نے کہا کہ مَیں نے دوائی کھالی ہے، آج یا کل بخار اتر جائے گا۔ دو دن آپ بھی آرام کرلیں اور آخری حصہ مجھ سے ہی لکھوائیں۔ نہیں مانے کہ میری زندگی کا کیا اعتبار۔ تمہارے بخار اترنے کے انتظار میں مجھے موت آجائے تو؟ سارا دن ترجمہ اور نوٹس لکھواتے رہے اور شام کے قریب تفسیر صغیر کا کام ختم ہوگیا۔
قرآن کریم کی تلاوت کا کوئی وقت مقرر نہ تھا، جب بھی وقت ملا، تلاوت کرلی۔ عموماً یہ ہوتا کہ صبح اٹھ کر ناشتہ سے فارغ ہوکر ملاقاتوں کی اطلاع ہوئی، آپ انتظار میں ٹہل رہے ہیں اور ایک ورق بھی نہیں الٹا۔ دوسرے دن دیکھا تو پھر وہی صفحہ۔ مَیں نے کہا کہ آپ پڑھ نہیں رہے تو فرماتے ایک آیت پر اٹک گیا ہوں جب تک اس کے مطالب حل نہیں ہوتے آگے کس طرح چلوں؟
ایک دفعہ یونہی مَیں نے پوچھا کہ آپ نے کبھی موٹر چلانی سیکھی؟ کہنے لگے ہاں ایک دفعہ کوشش کی مگر اس خیال سے ارادہ ترک کردیا کہ ٹکر نہ مار دوں۔ ہاتھ پہئے پر تھے اور دماغ قرآن مجید کی تفسیر میں الجھا ہوا تھا۔ موٹر کیسے چلاتا؟
اکثر قرآن پڑھتے پڑھتے کہتے اچھا بتاؤ اس آیت کا کیا مطلب ہے؟ مَیں جو سمجھ آتی، کہہ دیتی تو پھر کہتے کہ یہ نکتہ سوجھا ہے اور اس آیت کے یہ نئے مطالب ذہن میں آئے ہیں۔
جب تفسیر کبیر کی پہلی جلد شائع ہوئی تو فرمایا کہ اسے پڑھو، میں تمہارا امتحان لوں گا۔ مَیں نے کہا اتنی موٹی کتاب ہے اگلے سال امتحان لے لیں۔ کہنے لگے نہیں صرف ایک ماہ۔ اگر زیادہ مہلت دی تو تم کبھی بھی نہیں پڑھو گی، یہی خیال ہوگا کہ بڑا وقت پڑا ہے، پڑھ لوں گی۔ پڑھنے کا یہ مطلب نہیں کہ زبانی یاد کرو بلکہ شروع سے آخر تک بس پڑھ جاؤ، خود ہی ذہن نشین ہو جائے گا۔ جب مَیں نے بہت اصرار کیا تو کہنے لگے اچھا اڑہائی مہینے۔ پھر اڑہائی مہینے بعد آپؓ نے دو تین سوال پوچھ کر میرا امتحان لیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی عزت رکھ لی کہ جواب آگئے۔
جب حضورؓ عورتوں میں ہفتہ وار درسِ قرآن دیا کرتے تھے تو اُن کا بھی امتحان لیا کرتے تھے۔ کچھ عرصہ بخاری شریف کا درس بھی عورتوں میں دیا تھا۔
حضرت مسیح موعودؑـ اور حضرت اماں جانؓ سے بے حد محبت تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ کے ذکر پر اکثر آنکھیں بھیگ جاتیں۔ ایک دفعہ ایک عورت نے آپؓ سے شکایت کی میرا بیٹا میرا خیال نہیں رکھتا آپ سمجھائیں۔ آپؓ بے اختیار رو پڑے اور کہنے لگے مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کوئی بیٹا ماں سے بُرا سلوک کر ہی کیسے سکتا ہے۔ حضرت اماں جان کا خود باوجود عدیم الفرصتی کے بہت خیال رکھتے تھے اور اپنی بیویوں سے بھی یہی امید رکھتے تھے۔ کبھی فراغت ہوتی تو حضرت اماں جانؓ کے پاس بیٹھ جاتے اور کوئی واقعہ یا کہانی سناتے۔ سفروں میں اکثر اپنے ساتھ رکھتے، اپنے ساتھ موٹر میں بٹھاتے۔ کہیں باہر سے آتے تو سب سے پہلے حضرت اماں جانؓ سے ملتے اور آپؓ کی خدمت میں تحفہ پیش کرتے۔
اپنے بہن بھائیوں سے بہت پیار تھا۔جب آپؓ پاکستان تشریف لا چکے تھے تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ابھی قادیان میں تھے اور حالات بہت خراب ہو رہے تھے۔ آپؓ ٹہل ٹہل کر دعائیں کرتے۔ جب حضرت میاں صاحبؓ لاہور پہنچے اور گھر میں داخل ہوئے تو آپؓ فوراً سجدہ میں گرگئے اور پھر حضرت میاں صاحبؓ کا ہاتھ پکڑ کر حضرت اماں جانؓ کے کمرہ میں تشریف لے گئے اور فرمانے لگے کہ ’’لیں اماں جان! آپؓ کا بیٹا آگیا‘‘۔ گویا بڑے بھائی ہونے کے لحاظ سے جو فرض آپؓ پر عائد ہوتا تھا اس سے سبکدوش ہوگئے۔
26؍دسمبر 1960ء کو آپؓ گھبرا کر اٹھے اور مجھے کہا کہ مَیں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میاں شریف احمد صاحب فوت ہوگئے ہیں۔ اسی وقت فون پر پیغام بھجوایا کہ داؤد سے کہو کہ خود اُن کے پاس جاکر اُن کو دیکھ کر آئے۔ جب علم ہوا کہ خیریت سے ہیں تو کچھ تسلّی ہوئی لیکن اس خواب کے اثر سے قریباً ساری رات جاگتے رہے اور دعا کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت دیکھیں کہ اُس نے اُس وقت دعا سے اپنی تقدیر ٹال دی اور ٹھیک ایک سال بعد اُسی تاریخ کو یعنی 26؍دسمبر 1961ء کو حضرت میاں صاحبؓ کی وفات ہوگئی۔
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ سے بہت زیادہ محبت اور بے تکلّفی تھی۔ جب وہ آتیں تو اکثر حضرت مسیح موعودؑـ کے زمانہ کے پرانے اور اپنے بچپن کے واقعات دہراتے، کبھی خود سناتے اور کبھی اُن سے سنتے۔ جب کوئی نئی نظم کہتے تو فرماتے مبارکہ کو بلاؤ اُن کو بھی سناؤں۔ حضرت نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہ سے بیٹیوںکی طرح مشفقانہ سلوک تھا۔ اُن کی ذرا سی بھی تکلیف کا علم ہوتا تو بیقرار ہو جاتے۔
بچوں کے لئے انتہائی شفیق باپ تھے۔ تربیت کی خاطر لڑکوں پر وقتاً فوقتاً سختی بھی کی لیکن ان کی عزت نفس کا خیال رکھا۔ ایک دفعہ کسی بچہ کو پڑھائی ٹھیک نہ کرنے پر سخت ڈانٹا۔ میں اس خیال سے باہر نکلی کہ دیکھوں کیا بات ہے اور اسی وقت واپس آگئی۔ بعد میں جب آپؓ اندر کمرہ میں آئے تو کہنے لگے کہ مَیں جب اپنے بچہ کو ڈانٹ رہا تھا تو تمہیں وہاں آنا نہیں چاہئے تھا، اس سے وہ شرمندہ ہوگا۔
بیٹیوں سے بہت محبت کرتے لیکن جہاں دین کا معاملہ آ جائے تو آنکھوں میں خون اتر آتا تھا۔ نماز کی سستی بالکل برداشت نہ تھی۔ 1918ء میں انفلوئنزا کے شدید حملہ میں اور پھر مئی 1959ء میں شدید بیماری میں جب اپنی وصیت شائع کروائی تو اُس میں اسی خواہش کا اظہار کیا کہ یہ بچے دین کے لئے وقف ہوں۔ 14؍مئی 1939ء کو آپؓ نے اپنی ڈائری میں ایک عہد درج کیا جس میں قسم کھاکر یہ لکھا کہ حضرت مسیح موعود کی نسل سیدہ سے جو بھی اپنی زندگی سلسلہ کی خدمت میں خرچ نہیں کر رہا، مَیں اُس کے گھر سے کھانا نہیں کھاؤں گا اور اگر مجبوری یا مصلحت کی وجہ سے مجھے ایسا کرنا پڑے تو مَیں ایک روزہ بطور کفارہ رکھوں گا یا پانچ روپے بطور صدقہ ادا کروں گا۔ یہ عہد سردست ایک سال کے لئے ہوگا۔
آپؓ کئی بار فرماتے کہ لوگ رشتہ داروں کی مدد بطور احسان کے کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ذی القربیٰ کی مدد انسان پر فرض رکھی ہے۔ آپؓ کے عزیزوں، بیویوں کے عزیزوں، عزیزوں کے عزیزوں میں کوئی بھی ایسا نہیں نکلے گا کہ کسی کو کوئی ضرورت پیش آئی ہو اور آپؓ نے اُس کی طرف دستِ مروّت نہ بڑھایا ہو۔ اُس کو کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی، آپؓ خود خیال فرماتے۔
افرادِ جماعت آپؓ کو اپنی بیویوں، بچوں اور عزیزوں سے زیادہ پیارے تھے اور اُن کے دکھ میں مَیں نے بارہا آپؓ کو کرب میں مبتلا ہوتے دیکھا۔ کبھی مجبوراً کسی کو سزا دی تو خود بھی افسردہ ہو جاتے تھے۔ کئی دفعہ بعض کارکنوں کو دفتر کا کام ختم نہ کرنے پر ہدایت دی کہ کام ختم کرنے سے پہلے گھر نہیں جانا۔ اور پھر اندر آکر کہنا کہ فلاں کے لئے کچھ کھانے کو بھجوادو وہ گھر نہیں گیا، بے چارہ دفتر میں کام کر رہا ہے۔
میرے گھر میں لجنہ کی کوئی تقریب تھی اور بہت سی بہنیں چائے پی رہی تھیں کہ ملک عبدالرحمان خادم صاحب کی وفات کی اطلاع آئی۔ آپؓ نے انتہائی غم کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ سلسلہ کے ایک دیرینہ خادم کا جنازہ آ رہا ہے اور تم سب نیچے چائے پی رہے ہو، سب کو رخصت کردو۔ اسی طرح جب ڈاکٹر غفورالحق صاحب کی وفات کی اطلاع ملی تو اُس دن صاحبزادی امۃالباسط صاحبہ کے ہاں شاید بچی کا عقیقہ تھا ۔ ہم نے اُس کے گھر جانا تھا کہ حضورؓ نے روک دیا۔
قادیان میں میری شادی کے ایک سال بعد حضورؓ نماز پڑھ کر مسجد مبارک سے آ رہے تھے۔ حضرت اماں جانؓ کے صحن میں کسی گاؤں کی ایک بوڑھی عورت آپؓ کا انتظار کر رہی تھی۔ اُس نے لمبی بات شروع کردی اور حضورؓ کھڑے ہوئے توجہ سے سنتے رہے۔ میری طبیعت خراب تھی، میں پاس تخت پر بیٹھ گئی۔ جب وہ عورت بات ختم کرکے چلی گئی تو فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو حضرت مسیح موعودؑ کے ابتدائی ماننے والوں اور قربانی کرنے والوں میں سے ہیں۔ مَیں تو اس کے احترام کے طور پر کھڑا ہوگیا اور تم بیٹھ گئیں۔
اپنی زیادہ بیماری کے ایام میں بھی کسی کی تکلیف کا معلوم ہوجاتا تو بہت کرب محسوس فرماتے تھے۔