سیرۃ حضرت مصلح موعودؓ
ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ نومبر 2008ء میں مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب کے قلم سے حضرت مصلح موعودؓ کے حوالہ سے چند دلنشیں یادوں کا تذکرہ شامل اشاعت ہے۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ حضورؓ نے 1951ء میں میرا وقف قبول فرمایا۔ حضور کے علم میں تھا کہ میں ملازمت چھوڑ کر آیا تھا اس لئے فرمایا کہ آپ کو معمولی گزارہ ملے گا۔ میرے منہ سے اللہ تعالیٰ نے کہلوایا کہ حضور! اگر فاقہ بھی کرنا پڑا تو انشاء اللہ بخوشی کروں گا۔ مگر الحمدللہ کہ وقف کے الائونس میں بڑی برکتیں دیکھیں کبھی فاقہ کی نوبت نہیں آئی۔
قریباً 13 سال کی عمر میں مجھے سیالکوٹ سے قادیان جانے کا موقعہ ملا تو پہلی بار حضورؓ کی زیارت ہوئی جب حضورؓ نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ میں جب پانچویں یا چھٹی جماعت کا طالب علم تھا تو حضورؓ سیالکوٹ میں تشریف لائے۔ شہر کے ایک مشہور مقام بنام قلعہ پر رات کے وقت حضور کا لیکچر تھا۔ حضور کا قیام جس گھر میں تھا وہاں ایک غیرمبائع عزیز احمد صاحب بھی موجود تھے۔ ایک شخص نے حضورؓ سے کہا کہ مخالفوں نے لیکچر کے دوران فساد کرنے کا منصوبہ بنایا ہوا ہے اس لئے حضور وہاں تشریف نہ لے جائیں۔ اس پر حضورؓ نے بلاخوف و خطر فرمایا کہ اگر مخالفت ہے تو پھر انشاء اللہ میں ضرور جاؤں گا۔ چنانچہ حضورؓ تشریف لے گئے۔ اگرچہ ابتداء میں چاروں طرف سے خطرناک پتھرائو ہوا لیکن مخالفین کسی حربہ سے بھی حضور کو خائف نہ کرسکے جبکہ فسادیوں کے متکبرانہ نعرے بھی سنائی دے رہے تھے جن کی آواز فضا میں آہستہ آہستہ گم ہوگئی۔ بالآخر بفضل خدا حضور کے دلیرانہ عزم اور انتظامیہ کے استقلال اور حسنِ انتظام سے فسادیوں کو بھاگنا پڑا۔ اور اس کے بعد حضور نے ایسا شاندار لیکچر دیا جس سے سامعین مسحور ہو گئے اور یہ مشاہدات عزیز احمد صاحب کی بیعت کا موجب بنے۔
خاکسار 1934-1932ء میں قادیان میں طالبعلم تھا تو موسم گرما میں اہل قادیان بڑی تعداد میں ایک قریبی نہر پر پکنک منایا کرتے تھے اور بعض اوقات اس میں حضورؓ بھی شمولیت فرماتے۔ ایک مرتبہ خاکسار نے بھی حضورؓ کو نہر میں تیرتے ہوئے دیکھا۔ مَیں تیراکی سے ناواقف تھا اس لئے حضور کے ساتھ ساتھ نہر کے کنارے پر ہی چلتا جا رہا تھا۔ حضور نے نہر میں نہانے کیلئے نیم عریاںلباس کی بجائے اوپر کے حصہ میں بازئوں والی بنیان اور نیچے کھڑا پاجامہ پہنا ہوا تھا۔ حضورؓ کے عقب میں بیس پچیس نوجوان تیراک تیرتے جارہے تھے۔ تیراکی کے دوران دلچسپ گفتگو بھی ہوتی رہی تھی۔حضورؓ نے اتنے میں فرمایا کہ میں نے ابھی تک پاؤں نہیں لگائے اور میرا خیال ہے کہ (جامعہ کے ایک طالبعلم ) محمد احمد بھاگلپوری نے بھی تاحال پاؤں نیچے نہیں لگائے ہوں گے اور ساتھ ہی بلند آواز سے اُن سے پوچھا کہ آپ نے بھی ابھی تک پاؤں نہیں لگائے ہوں گے؟۔ محمد احمد صاحب بھاگلپوری بڑے اچھے تیراک تھے تاہم کہنے لگے کہ حضور میرے پاؤں ابھی لگے ہیں۔ اس پر حضور نے خوشگور موڈ میں فرمایا کہ محمد احمد میں تو آپ کی تعریف کررہا تھا، آپ نے میری تعریف پر پانی پھیر دیا ۔کچھ دیر بعد حضور نہر سے باہر نکل آئے اور فرمانے لگے کہ ہم اپنے مقام سے بہت دور آگئے ہیں اب واپس جانا چاہیے گو میں ابھی اتنا ہی مزید تیر سکتا ہوں۔
نہر سے نکل کر نہر کی پٹری پر حضور نے واپسی اختیا ر فرمائی۔ چھ سات افراد ہمراہ تھے۔ حضورؓ نے فرمایا کہ ہم نے بہت جلد قریباََ ایک میل کا فاصلہ طے کرلیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ نہر والوں کے میل چھوٹے ہوتے ہیں۔ میرے دل میں حضورؓ کے قریب ہونے کی وجہ سے حضورؓ سے بات کرنے کی خواہش کروٹیں لے رہی تھی اس لئے میں نے بغیر سوچے سمجھے کہہ دیا کہ ہاں حضور چھوٹے ہوتے ہیں۔ حضورؓ نے میری طرف غور سے دیکھا اور پوچھا آپ کو کس طرح معلوم ہوا؟ میں حضورؓ کے استفسار پر اتنا گھبرا گیا کہ ایسا معلوم ہوا کہ بات کرنے کے لئے منہ میں زبان نہیں رہی۔ حضور میری حالت کو فوراً بھانپ گئے اور تسلی آمیز انداز میں پوچھا: آپ کس کے بیٹے ہیں؟ خاکسار نے عرض کیا: حافظ عبدالعزیز صاحب کا بیٹا ہوں۔ فرمانے لگے: اچھا وہ سیالکوٹ والے حافظ عبدالعزیز۔ حضورؓ کے حافظے کی قوت سے میں حیران رہ گیا نیز حضورؓ کی اس حکمت نے بھی حیران کردیا کہ میری بگڑی حالت کو کس طرح حضور نے ازراہ شفقت بحال فرمادیا۔
اسی زمانہ میں غالباً سیرۃ النبی ﷺ کا جلسہ تھا جس میں حضورؓ کی تقریر تھی۔ اس میں تلاوت قرآن مجید ایک بزرگ حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیرآبادی نے اور نظم مَیں نے پڑھی۔ کم عمری میں خاکسار حضورؓ سے اتنا مرعوب ہوا کرتا تھا کہ حالت نارمل نہ رہتی تھی چنانچہ نظم ٹھیک طرح نہ پڑھی گئی۔ حضورؓ نے تقریر شروع فرمائی تو پہلے تلاوت اور نظم پر تبصرہ فرمایا کہ منتظین نے تلاوت کے لئے ایک بوڑھے بزرگ کو منتخب کیا جو بڑھاپے کی وجہ سے آواز بلند نہ کرسکے اور نظم کے لئے جو نظم خواں آئے تو اُن کی آواز بھی ان کے گلے پر قربان ہوکر رہ گئی۔
1934ء میں خاکسار نے دسویں جماعت کا امتحان دیا تو ہماری حضورؓ سے الوداعی ملاقات ہوئی۔ اس دوران ایک غیراز جماعت طالبعلم نوازش علی نے بیعت کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ اولاً حضورؓ نے انہیں سمجھایا کہ بیعت بہت سوچ سمجھ کر کرنی چاہئے بعض اوقات ماحول سے متاثر ہو کر بیعت کرلی جاتی ہے مگر بعد میں اسے نبھانا مشکل ہوجاتا ہے۔ اُس طالبعلم نے عرض کی کہ میں نے اچھی طرح سوچ سمجھ لیا ہے چنانچہ اس کے اصرار پر حضورؓ نے بیعت لی۔
1947ء کے بعد حضور نے پاکستان کی حمایت میں متعدد شہروں میں راہنما لیکچر دیئے۔ سیالکوٹ کے لیکچر میں احمدی افسر کرنل حیات صاحب کے توسط سے پاکستانی فوج کے افسران بڑی تعداد میں لیکچر سننے کے لئے تشریف لائے۔ حضور نے اس لیکچر میں پاکستان کو خود حفاظتی اور ترقی کے ذرائع بیان فرمائے۔ محترم کرنل صاحب نے بعد میں بتایا کہ فوجی افسران نے اظہار کیا کہ حضورؓ کے بیان فرمودہ کئی نکات ہمارے لئے بھی نئے ہیں۔ لیکچر کے بعد حاضرین آآکر حضورؓ سے مصافحہ کرنے لگے۔ وہ نظارہ بڑا قابل دید تھا۔
خاکسار سٹیج پر پہرہ دے رہا تھا اور اُن دنوں ملٹری اکاؤنٹس میں ملازم تھا۔ اور سیالکوٹ چھاؤنی میں ہی میری تعیناتی تھی۔ مصافحہ کرنے والے ہجوم میں خاکسار نے اپنے محکمہ کے ایک افسر کو بھی دیکھا جو پہلے بڑا متعصب تھا اور اپنے ماتحت احمدی کارکنوں کو بہت دکھ پہنچایا کرتا تھا مگر حضور کے لیکچر نے اس کی کایا پلٹ دی۔ سیالکوٹ میں حضورؓ احمدیہ مسجد (کبوتراں والی) بھی تشریف لے گئے اور نماز ظہر پڑھائی۔ حضورؓ بے تکلّفی سے مسجد میں وضو کرنے کے مقام پر گئے تو کوٹ اتار کر خاکسار کو پکڑا دیا۔
قادیان میں ایک بار حضورؓ تک ایک جھگڑے کی شکایت پہنچی تو حضورؓ نے مسجد مبارک میں مغرب کے وقت ایک گواہ سے حقیقت حال معلوم کی۔ گواہ نے اس طرح بیان شروع کیا کہ میں دیکھتا ہوں کہ ایک شخص آتا ہے اور دوسرے کو پکڑ لیتا ہے۔ اِس پر حضورؓ نے فرمایا کہ یہ طریق گواہی کا صحیح نہیں، فقرہ یوں ہونا چاہیے کہ ایک شخص آیا اور دوسرے کو پکڑ لیا۔
1935-36ء میں عبدالرحمن مصری نے فتنہ برپا کیا تو سیالکوٹ میں بہت صدمہ محسوس کیا گیا اور خصوصی دعائیں کی گئیں۔ اسی اثناء میں خاکسار نے حضورؓ کو خواب میں تقریر فرماتے دیکھا۔ ایک فقرہ یاد رہ گیا کہ ’’پہلے حضرت یوسف ؑ کے قصے عام تھے اب میرے قصے عام ہورہے ہیں۔‘‘ اس خواب میں حضرت یوسف ؑ سے مماثلت کے الفاظ اطمینان قلب کا باعث ہوئے۔
غالباً 1948ء میں جب صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب سیالکوٹ میں ڈپٹی کمشنر تھے تو حضورؓ وہاں تشریف لائے اور صاحبزادہ صاحب کے ہاں قیام فرمایا۔ خاکسار کے والد صاحب خاصے ضعیف ہوچکے تھے تاہم میں اپنی معیت میں اُن کو حضورؓ سے ملاقات کے لئے ایک صبح لے گیا۔ دیکھا کہ حضورؓ کہیں تشریف لے جانے کے لئے کوٹھی سے باہر تشریف لارہے تھے۔ مَیں نے حضورؓ سے والد صاحب کا تعارف کروایا تو سلام دعا کے بعد والد صاحب نے حضورؓ سے پوچھا کہ حضور کہاں تشریف لے جا رہے ہیں؟۔ اُن دنوں جنگ کے ایام تھے۔ حضور کے پروگرام کا اظہار مناسب نہ تھا اس لئے حضورؓ نے فوراً والد صاحب سے پوچھا کہ آپ کے بیٹے آجکل کہاں کہاں ہیں؟۔ اس پر والد صاحب کو اپنا سوال بھول گیا اور بتانے لگے کہ کوئی فلاں جگہ کوئی فلاں جگہ ۔ اس طرح حضورؓ نے بڑی حکمت عملی اور دانائی سے جس بات کا اظہار نامناسب تھا اُسے راز میں ہی رہنے دیا اور والد صاحب کی دلشکنی بھی نہیں ہونے دی۔
میرے والد صاحب ایک اور موقعہ پر حضورؓ سے شرف ملاقات کے لئے میری معیت میں گئے تو حضورؓ فرشی نشست میں زائرین کے جھرمٹ میں رونق افروز تھے۔ چونکہ والد صاحب کی بینائی بہت کمزور تھی تو بندہ نے اُن کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ حضورؓ نے مجھے ارشاد فرمایاکہ راستہ میں جوتیاں پڑی ہوئی ہیں اپنے والد صاحب کو احتیاط سے لائیں۔
1938ء میں بی۔اے پاس کرنے کے بعد خاکسار نے پولیس میں بھی ملازمت کے لئے کوشش کی اور سیالکوٹ سے حضورؓ کو دعا کی درخواست بھجوائی۔ دراصل تعلیم کے دوران ایک مرتبہ پولیس ہاکی کی ٹیم کے ساتھ ہمارے کالج کی ہاکی ٹیم کا میچ ہوا جس کو دیکھ کر پولیس کے انگریز IG نے ہماری ٹیم کے تین کھلاڑیوں کو ڈائریکٹ ASI بھرتی کرنے کی پیشکش کی جن میں خاکسار بھی تھا۔ میرے والدین نے پڑھائی چھوڑ کر ملازمت کرنے کو پسند نہ فرمایا اور اس طرح اس پیشکش سے فائدہ نہ اُٹھایا گیا۔ حضورؓ کی خدمت میں دعا کی جو عرض کی گئی تو اس کے دو تین ماہ بعد جلسہ سالانہ کے موقعہ پر حضورؓ سے شرف ملاقات حاصل ہوا تو حضورؓ نے دریافت فرمایا کہ آپ کی پولیس والی ملازمت کا کیا بنا؟ مجھے سخت شرمندگی ہوئی کہ حضورؓ کو نتیجہ سے باخبر نہ رکھا گیا کہ اس میں مجھے کامیابی نہ ہو سکی۔ حیرت بھی ہوئی کہ اس عرصہ میں حضورؓ کو ہزاروں خطوط ملے ہوں گے اور جلسہ سالانہ پر ہزاروں لوگوں کی ملاقات کے باوجود میری درخواست بخوبی یاد ہے۔
1950ء میں خاکسار ملٹری اکاؤنٹس کے محکمہ میں ایبٹ آباد میں متعین تھا۔ ربوہ میں آبادی کا سلسلہ جاری تھا۔ ایبٹ آباد کے صدر جماعت مکرم مولوی عبدالسبوح تھے۔ ہم دونوں نے حضورؓ کے لئے ایک بنگلے کا انتظام کیا اور مشاورت کے موقعہ پر حضورؓ سے درخواست کی کہ حضور گرمیاں گزارنے کے لئے وہاں تشریف لے آئیں۔ حضورؓ نے یکدم فرمایا: میں ربوہ سے کیسے باہر جا سکتا ہوں، تعمیر کا کام ہو رہا ہے، میں باہر جائوں گا تو تعمیر کا کام رُک جائے گا۔
ایک بے آب و گیاہ بستی میں موسم گرما کی شدت اور سہولتوں کے فقدان کا قیاس کرکے ہم حضورؓ کا جواب سن کر حیران ہوگئے۔ یہ حیرت انگیز قربانی تھی۔
وقف زندگی کے سلسلہ میں حضورؓ نے انٹرویوز میں کئی قیمتی ہدایات صادر فرمائیں۔ مثلاً اپنے کام کے متعلق اس طرح فکرمند رہنا چاہیے جس طرح ایک ماں اپنے بچے کے متعلق فکرمند رہتی ہے۔
نیز فرمایا کہ جماعت میں زیادہ سے زیادہ اچھے تعلقات قائم کرنے چاہئیں۔ اس طرح نیک ماحول میں جماعتی ذمہ داریاں بہتر رنگ میں ادا ہوتی ہیں۔
ایک انٹر ویو میں حضورؓ نے دریافت فرمایا کہ آپ کے بچے کتنے ہیں؟ عرض کیا: ابھی ایک بیٹا ہے۔ فرمانے لگے کیوں؟ (حضورؓ کو علم تھا کہ شادی کو چھ سال ہوچکے تھے)۔ عرض کیا کہ ایک بچہ مردہ پیدا ہوا تھا۔ اولاد کی طرف حضورؓ کی توجہ بڑی بابرکت ثابت ہوئی۔ بفضل خدا اس کے بعد سات بچے پیدا ہوئے۔ اس وقت کُل چھ بقید حیات ہیں تین بیٹے تین بیٹیاں۔ الحمدللہ۔ سب سے بڑا بیٹا ظفر احمد سرور مربی سلسلہ امریکہ ہے۔