سیرۃ حضرت مصلح موعودؓ
ماہنامہ ’’مصباح‘‘ فروری 2002ء میں حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ کا ایک مضمون پرانی اشاعت سے منقول ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کی سیرۃ پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ بیان فرماتی ہیں کہ حضورؓ کو تربیت کا خیال ہمہ وقت رہتا۔ ایک روز جب آپؓ افطاری کے وقت میرے ہاں تشریف لائے تو ایک عورت بھی آئی ہوئی تھی۔ مَیں اُس کے لئے بھی افطاری لینے لگی تو عزیزہ جمیل نے جو پاس ہی بیٹھی تھی اور بہت چھوٹی تھی، اُس عورت سے پوچھا کہ آپ کا بھی لوزہ ہے اور کیا آپ (وہ چیز) لیں گی۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا کہ بچے کو سمجھانا چاہئے کہ مہمان سے اس طرح سوال نہ کرے بلکہ جو کچھ بھی سامنے ہو اُس میں سے پیش کردے۔
ایک دفعہ کام کرنے والی لڑکی نے کھانے کی میز پر حضورؓ کا پرہیزی ڈش لانے میں دیر کی۔ حضورؓ کھانے سے جلدی فارغ ہوکر حسب معمول کام کرنا چاہتے تھے۔ فرمایا: اگر میرا پرہیزی کھانا نہیں ہے تو مَیں کیوں انتظار کروں۔ مجھے خیال آیا کہ مَیں نے بروقت انتظام کیا ہوا ہے اور لڑکی نے دیر کردی ہے اور یہ کہ اگر حضورؓ نے اب کچھ نہ کھایا تو پھر سارا دن کچھ کھانے کا سوال نہیں رہے گا۔ اس لئے جب وہ لڑکی ڈش لے کر آئی تو مَیں نے غصہ سے اُس کی طرف دیکھا۔ حضورؓ نے میری اس کیفیت کو بھانپ لیا اور فرمایا کہ اس قدر جلالی کیفیت کا اظہار تمہارے چہرہ سے نہیں ہونا چاہئے تھا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ہماری ان گنت غلطیاں دیکھتی ہے مگر رحم و کرم سے پردہ پوشی فرماتی چلی جاتی ہے، ہم تو اُس کی مخلوق ہیں، ہمیں اپنے اندر اس ذات کے اوصاف پیدا کرنے چاہئیں۔
ایک بار دوران سفر میری آنکھیں خراب ہوگئیں۔ جب تک میری ہمت نے ساتھ دیا، مَیں کام کرتی رہی کہ اچانک آپؓ کی نظر مجھ پر پڑی۔ صورتحال معلوم ہونے پر آپؓ نے فوراً میری آنکھوں میں اپنے ہاتھ سے دوا ڈالی۔ پھر حکماً مجھے اوپر والی برتھ پر لٹادیا اور خود ہی چھوٹے موٹے کام کرتے رہے بلکہ میرا خیال بھی رکھا۔ کبھی کھانا دیا، کبھی پانی، کبھی چائے۔ فرماتے کہ تم نے اپنی تکلیف کو چھپانے کی کوشش کیوں کی، تمہارے نفس کا بھی تم پر حق تھا۔ پنکھوں کا رُخ میری طرف کردیتے۔ سفر ختم ہوا تو میرا ہاتھ خود پکڑا اور احتیاط سے اتارا۔ جب تک مجھے آرام نہ آگیا، بذات خود میرا خیال رکھا اور کئی دفعہ از راہ مزاح فرمایا کہ تم ہمیں اس قدر سنگدل سمجھتی تھیں کہ اپنی تکلیف میں بھی ہماری دیکھ بھال کرتی چلی گئیں۔