سیرۃ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ
ماہنامہ ’’مصباح‘‘ فروری 2002ء میں حضرت سیدہ چھوٹی آپا صاحبہ کا ایک مضمون پرانی اشاعت سے منقول ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کی سیرۃ پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ بیان فرماتی ہیں کہ حضورؓ جب نماز باجماعت پڑھاتے تو عموماً جلدی ختم کردیتے لیکن جب اکیلے نماز پڑھتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ گویا اس دنیا میں نہیں ہیں۔ مَیں نے نماز میں آپؓ کے رونے کی آواز بہت کم سنی ہے لیکن آنکھوں سے رواں آنسو ہمیشہ دیکھے ہیں۔ تہجد کی نماز بعض دفعہ اتنی لمبی ہوجاتی کہ مجھے حیرت ہوتی کہ اتنا لمبا وقت آپؓ کھڑے کس طرح رہتے ہیں۔ مَیں نے سجدہ کی نسبت قیام میں آپ کو زیادہ دعائیں کرتے دیکھا ہے۔ نماز باجماعت کا اتنا خیال تھا کہ بیماری کی حالت میں گھر میں مجھے ساتھ کھڑا کرکے نماز جماعت سے پڑھا دیتے۔ ذکر الٰہی کی اتنی عادت تھی کہ رات کو کروٹ بدلتے ہوئے ہمیشہ مَیں نے یہی کہتے ہوئے سنا: سبحان اللّہ وبحمدہ سبحان اللّہ العظیم۔
جمعہ کے دن خاص اہتمام فرماتے۔ باقاعدگی سے نہاکر خوشبو لگاتے۔ اچھی اور نفیس خوشبو پسند تھی۔ ناک کی حِس اتنی تیز تھی کہ معمولی سی بو برداشت نہیں کرسکتے تھے اور بہت تیز خوشبو سے نزلہ یا سردرد ہوجاتا تھا۔ خوشبو سونگھتے ہی بتادیتے کہ کس قسم کی خوشبو ہے۔ ایک بار ایک انگریز قادیان آیا جو خوشبوؤں کا خاص ماہر تھا اور اُس نے اپنی ناک کئی ہزار پاؤنڈ میں بیمہ کروائی ہوئی تھی۔ اُس نے حضورؓ کو بعض خوشبوئیں سنگھائیں تو آپؓ نے اُن کے اجزاء بتانے شروع کئے۔ اُس نے حیرت کا اظہار کیا کہ ایک مذہبی راہنما کا خوشبوؤں کے بارہ میں علم اُس ماہر کے علم سے بھی زیادہ ہے۔
فرماتے کہ جمعہ کا دن مسلمانوں کے لئے عید کا دن ہے۔ اس روز کھانے کا بھی خاص اہتمام فرماتے۔ تحریک جدید کے دنوں میں جب صرف ایک کھانا پکانے کی تاکید تھی تو بھی جمعہ کے روز ایک آدھ چیز زائد تیار کرنے کی اجازت تھی۔
قرآن مجید کی تلاوت آپؓ کثرت سے فرمایا کرتے اور زبانی بھی قرآنی دعائیں ا ور آیات بلند آواز سے پڑھتے رہتے تھے۔ سفر میں اکثر چھوٹی حمائل جیب میں ہوتی۔ ایک بار مَیں نے عرض کی کہ جلسہ کے لئے تقریر تیار کرنی ہے، سمجھ نہیں آتی کس موضوع پر کروں۔ فرمایا: یہ بھی کوئی مشکل بات ہے، قرآن مجید کھولو، جس آیت پر سب سے پہلے نظر پڑے اس کے مطابق مضمون تیار کرلو۔ میرا تو یہی طریق رہا ہے سوائے اس کے کہ کوئی خاص مضمون بیان کرنا ہو۔
طبیعت میں سادگی لیکن بہت نفاست تھی۔ فرمایا کرتے کہ کھانے کے وقت سب بچوں کو بھی ساتھ بٹھایا کرو، یہی تو وقت ہوتا ہے کہ جس میں بچوں کی عادات و اخلاق کا مَیں مطالعہ کرتا ہوں۔
اولاد سے بے حد محبت کے باوجود اگر کوئی ایسی بات ملاحظہ فرماتے جس میں احمدیت کیلئے غیرت کا سوال ہوتا تو بے حد ناراض ہوتے۔ ایک بچی کی شادی کے موقع پر اُس نے سہیلیوں سے سنا کہ سہرا بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔ اُس نے منگوالیا۔ حضورؓ کو پتہ چلا تو بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ ابھی میرے پاس لاؤ۔ سہرا لایا گیا تو آپ اٹھے کہ ابھی اسے جلاؤں گا تاکہ آئندہ سبق ملے کہ ہم نے بدرسوم کو نہیں اپنانا اور دوسروں کے لئے نمونہ بننا ہے۔ آپؓ سہرا ہاتھ میں پکڑے باورچی خانہ کی طرف جارہے تھے کہ راستہ میں صحن میں حضرت اماں جانؓ بیٹھی تھیں۔ اُن کے دریافت فرمانے پر سارا معاملہ بیان کیا۔ انہوں نے فرمایا: میاں! شادی کا سامان تو سہاگ کی نشانی ہوتا ہے، جلاؤ نہ، پھینک دو۔ چنانچہ آپ نے قینچی منگواکر اُسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے کوڑہ میں ڈال دیا۔ اس طرح دو سبق دیئے: ایک بدرسوم سے نفرت کا اور دوسرا حضرت اماں جانؓ کے احترام کا۔
اسی طرح ایک بچی نے ایک نئی قسم کا بلاؤز خریدلیا اور یہ خیال نہ کیا کہ نیم آستین ہے۔ پہنا تو حضورؓ نے دیکھ لیا۔ حکم دیا کہ فوراً بدلو اور میرے پاس لاؤ۔ تعمیل ہوئی تو قینچی لے کر بلاؤز کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا تاکہ آئندہ کسی اَور کو اس کی خلاف ورزی کی جرأت نہ ہو۔
جب کسی خاص امر کیلئے دعا کر رہے ہوتے تو بیویوں اور بچوں کو بھی دعا کے لئے کہا کرتے تھے اور یہ بھی کہتے کہ اگر کوئی خواب آئے تو مجھے بتانا۔
چندہ کی تحریک کرتے تو اس بات کا خیال رکھتے کہ بچے کتنا چندہ لکھواتے ہیں۔ اگر کسی کا کم دیکھتے تو متوجہ کرتے کہ تم اس سے زیادہ قربانی کرسکتے ہو یا اگر کوئی چندہ کی ادائیگی میں دیر کرتا تو ماؤں سے کہتے کہ بچوں کو توجہ دلاؤ۔ شروع میں تحریک جدید کا اعلان صرف تین سال کے لئے تھا۔ پھر اسے دس سال تک کے لئے بڑھادیا اور فرمایا کہ اگر کوئی چاہے تو چوتھے سال کا وعدہ اپنے تیسرے سال کے چندہ سے کم کرسکتا ہے لیکن پھر اس وعدہ میں ہر سال اضافہ کرتا جائے۔ مَیں نے حالات کی تنگی کے باعث اس سال کا وعدہ کم کردیا۔ آپ ؓ نے مجھے لکھا کہ بے شک اجازت مَیں نے دی تھی لیکن تم سے امید نہیں رکھتا تھا کہ کم کردوگی۔ جتنا مَیں تمہیں جیب خرچ دیتا ہوں، اتنے میں بعض لوگ اپنے بیوی بچوں کا خرچ چلاتے ہیں۔ (اُس زمانہ میں ہمیں 15 روپے ملتے تھے)۔