سیرۃ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 27؍دسمبر 2003ء کا شمارہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی درخشاں سیرۃ کے حوالہ سے ’’سیدنا طاہر نمبر‘‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ قریباً ایک سو صفحات کا یہ ضخیم شمارہ متعدد دلچسپ مضامین، نظموں اور یادگار تصاویر پر مشتمل ہے۔ آغاز میں خلافت حقہ اسلامیہ کے بارہ میں قرآن کریم اور احادیث سے بہت سے حوالے اس شمارہ میں شامل اشاعت ہیں۔ جس کے بعد سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اس خصوصی اشاعت کے لئے ارسال کیا جانے والا پیغام طبع کیا گیا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغام میں دو امور پر خصوصیت سے زور دیا ہے۔ اوّل دعا پر، چنانچہ فرمایا:
’’حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ کا وجود نہایت پاک اور خدا تعالیٰ کی ذات میں ڈوبا ہوا وجود تھا۔ آپ کو خدا تعالیٰ پر کامل توکل تھا اور دعاؤں پر بہت زور دیتے تھے۔ آپ نے اپنی ساری زندگی سب سے زیادہ دعا کو ہی اہمیت دی۔… کیونکہ یہ دعا ہی تو ہے جو ہماری عبادتوں کا مغز ہے۔ پس حضورؒ کی یادوں کو زندہ رکھتے ہوئے مَیں بھی آپ سب کو دعاؤں کی طرف ہی توجہ دلاتا ہوں۔ یاد رکھیں کہ دعاؤں سے ہی انسان اللہ تعالیٰ کا مقرب بنتا اور منعم علیہ میں داخل ہوتا ہے۔ قرآن کریم کی اوّل بھی دعا پر ہے اور انتہاء بھی دعا پر۔ دنیا میں کوئی نبی نہیں آیا جس نے دعا کی تعلیم نہیں دی اور انبیاء علیھم السلام کی زندگی کی جڑ اور ان کی کامیابیوں کا اصل اور سچا ذریعہ دعا ہی تھی اور ایک عظیم الشان حربہ ہے جو اس آخری زمانہ میں حضرت مسیح موعودؑ کو فتوحات کے لئے عطا ہوا ہے‘‘۔
دوسرا امر جس پر حضور انور نے اپنے پیغام میں زور دیا وہ نظام خلافت سے وابستگی ہے۔ حضور ایدہ اللہ فرماتے ہیں:
’’حضرت صاحبؒ کی زندگی کا دوسرا عظیم الشان مقصد خلافت احمدیہ کے استحکام اور نظام جماعت کی مضبوطی کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ آپؒ نے خلافت احمدیہ کے ہر پہلو سے استحکام کے لئے انتھک محنت کی ہے چنانچہ آپ کی زندگی میں نمایاں شان سے خلافت کا مقام ہر دل میں اُجاگر اور قائم ہوا ہے… یہی نظام ہے جو آپ کے لئے آب حیات کی حیثیت رکھتا ہے۔ پس اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیںا ور خلافت سے وفا اور اخلاص کا تعلق پیدا کریںا ور اس کی قدر و منزلت کو اپنے دلوں میں بٹھائیں، اپنی اولادوں کو خلافت کی اہمیت اور عظمت سے آگاہ کریں۔ امام کے ماتحت اعمال میں ہی برکت ہوتی ہے۔ یہ عظیم الشان نعمت ہے۔ آپ کی اور آپ کی آئندہ نسلوں کی روحانی بقاء اسی میں ہے کہ اس نعمت سے فائدہ اٹھائیں‘‘۔
اس کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کا خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍جولائی 1982ء کا طویل اقتباس پیش کیا گیا ہے۔ حضورؒ نے اس خطبہ جمعہ میں فرمایا تھا کہ آنحضورﷺ کے خلفاء میں ہر ایک سنّت مصطفیﷺ پر چلنے والا تھا لیکن اس کا اپنا ایک انفرادی رنگ بھی تھا۔ جن لوگوں نے اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھا انہوں نے نادانی میں خلفاء کا ایک دوسرے سے مقابلہ شروع کردیا۔ حضرت عمرؓ کی زندگی میں کہنے لگے کہ حضرت ابوبکرؓ تو یوں کیا کرتے تھے اور حضرت علیؓ کے دور میں حضرت عثمانؓ کے ساتھ مقابلے شروع ہوگئے۔ حالانکہ نادان اور ناواقف نہیں سمجھتے کہ کسی نے کونسا عمل کیوں اختیار کیا۔ یہ اللہ ہی بہتر جانتا تھا۔ بندہ کا کام نہیں کہ وہاں زبان کھولے جہاں زبان کھولنے کے لئے اس کو مقرر نہیں کیا گیا۔ اس لئے مَیں جماعت احمدیہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ایسی لغو دلچسپیوں سے باز رہیں۔ کسی کے کہنے سے کسی خلیفہ کے مقام میں، اس کے منصب میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جو فرق پڑے گا اور پڑتا ہے وہ صرف اللہ کی نظر میں ہے۔ انسان کو کیا پتہ کہ کس کی استعداد کیا تھی اور کون خدا کی نظر میں اپنی استعدادوں کو کمال تک پہنچا کر ان کے نقطۂ منتہا تک پہنچ گیا۔ پس اپنی لاعلمی اور جہالت کو سمجھنا چاہئے اور یہی تقاضہ ہے انکساری کا۔ بندے کا کام یہ ہے کہ استغفار سے کام لے اور دعائیں کرے خلیفہ وقت کی کمزوریوں کی پردہ پوشی کی اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے اور جو استطاعت اُس کو بخشی ہے، اُس کے بہترین استعمال کا موقع اُس کو عطا فرمائے تاکہ اُس کی رضا کی نظر اُس پر پڑے۔ اگر آپ کے خلیفہ پر آپ کے اللہ کی رضا کی نظر پڑے گی تو مَیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ساری جماعت پر اللہ کی رضا اور محبت اور پیار کی نظریں پڑیں گی۔
اس شمارہ میں خلافت رابعہ سے تعلق میں مختلف احباب کے بعض رویا و کشوف بھی بیان کئے گئے ہیں۔ مکرمہ امۃالرشید صاحبہ نے قریباً 1940ء میں نہایت صاف آواز سنی کہ ’’خلیفۃالمسیح حضرت میاں طاہر احمد صاحب ہوں گے‘‘۔ آپ نے یہ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں تحریر کی تو حضورؓ نے تحریر فرمایا کہ خلیفہ کی زندگی میں ایسے رؤیا و کشوف صیغہ راز میں رہنے چاہئیں اور تشہیر نہیں کرنی چاہئے۔ خلافت ثالثہ کا انتخاب ہوا تو وہ سمجھیں کہ شاید یہ مراد تھی کہ طاہر اور مطہر خلیفہ عطا ہوگا۔ لیکن پھر خلافت رابعہ کے انتخاب کے وقت معاملہ واضح ہوگیا۔ اسی طرح مکرم ثاقب زیروی صاحب نے خلافت رابعہ کے انتخاب سے ایک روز قبل رات کے نوافل کے دوران آواز سنی: ’’ابن مریم آ رہا ہے‘‘ (حضورؒ کی والدہ محترمہ کا نام مریمؓ تھا)۔ پھر مکرم ضیاء الدین حمید صاحب کا قریباً 1979ء کا کشف ہے کہ انہیں بتایا گیا کہ چوتھے خلیفہ کے والد نہیں ہوں گے، بھائی نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی بیٹا ہوگا۔ پھر القاء ہوا یہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ہیں۔ اسی طرح مکرم عبدالباری صاحب اور مکرم خواج احمد صاحب نے ایک ہی خواب دیکھا جس میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے اپنی پگڑی حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کو پہنادی۔