سیّدنا حضرت حکیم مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ خلیفۃ المسیح الاوّل
سیّدنا حضرت حکیم مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ خلیفۃ المسیح الاوّل
(عبادہ عبداللطیف۔یوکے)
(مطبوعہ انصارالدین مئی جون 2016ء)
حضرت حافظ حکیم نورالدین خلیفۃالمسیح الاولؓ 1841ء میں بھیرہ میں پیدا ہوئے۔ آپؓ کا شجرہ نسب 34ویں پشت پر حضرت عمرؓ سے مل جاتا ہے اس لحاظ سے آپؓ قریشی ہاشمی فاروقی تھے۔ آپؓ کل سات بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ آپؓ کے والد ماجد حضرت حافظ غلام رسول صاحب قرآن کریم کے عاشق تھے۔ ان کے آباء و اجداد میں سے کم از کم دس افراد حفاظ ِ قرآن تھے اور انہیں قرآن کریم کے نسخے خریدنے اور دوسروں کو مفت ہدیہ کرنے کا بہت شوق تھا اور اس بارہ میں وہ بے دریغ روپیہ خرچ کرتے تھے۔ اسی طرح انہیں تحصیل علم کا بھی بے انتہا شوق تھا۔ چنانچہ یہ دونوں خوبیاں سیدنا نورالدینؓ کو وراثت میں ملیں۔
سیدنا نورالدینؓ نے ابتداء میں تدریس کا پیشہ اختیار کیا تھا مگر جلد ہی عربی زبان اور حکمت سیکھنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے اور رامپور میں حافظ عبدالحق صاحب کے پاس پہنچ گئے۔ یہاں آپؓ نے حصول علم کے لئے اتنی محنت کی کہ بیمار ہوگئے اور پھر طب کے شوق کو پورا کرنے کے لئے لکھنؤ کے حکیم علی حسین صاحب کی شاگردی اختیار کی۔ لکھنؤ پہنچ کر ہی آپ نے اپنی زندگی میں پہلی بار خود روٹی پکانے کی کوشش کی۔ چنانچہ آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ آپ کے ذہن میں روٹی پکانے کی جو ترکیب آئی اس کے مطابق آٹا پانی میں گھول کر توے پر ڈال دیا اس مائع آٹا کے روٹی کی طرح پکنے کا انتظار کرنے لگے۔ یہ آٹا کوئلہ بن گیا لیکن اس نے توے کا دامن نہ چھوڑا۔ یہ دیکھ کر آپؓ نے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کی ’’ بار الٰہا! یہ تو میرے بس کا روگ نہیں۔ تو کیوں اپنے رزق کو ضائع کروانا چاہتا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے پیارے بندے کا یہ بے تکلفانہ شکوہ اتنا پسند آیا کہ جب آپؓ درس لینے کیلئے حکیم صاحب کے پاس پہنچے تو انہوں نے اصرار کے ساتھ آپؓ کی رہائش اور کھانے کا انتظام اپنے ہاں کردیا ۔ حضور ؓ نے وہاں رہ کر قریباً دو برس تک طب کی تعلیم حاصل کی اور پھر قرآن اور حدیث کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھوپال چلے گئے۔
بھوپال پہنچ کر اپنا سامان ایک سرائے میں رکھ کر آپؓ شہر کی طرف روانہ ہوئے۔ جب واپس پہنچے تو دیکھا کہ سامان تو جوں کا توں موجود ہے لیکن اس میں سے رقم ساری غائب ہے۔ چنانچہ آپؓ ایک مسجد میں اٹھ آئے ۔ تین روز فاقہ میں گزرے ۔ پھر ریاست کے منشی جمال الدین نماز کے لئے تشریف لائے۔ ایک شخص کو کسمپرسی میں دیکھا تو ہمراہیوں کو استفسار کے لئے بھیجا۔ آپؓ نے کوئی سیدھا جواب نہ دیا۔ منشی صاحب زیرک آدمی تھے، خود آئے کچھ سوالات کئے اور پھر اپنی نبض دکھائی۔ آپؓ نے نسخہ تجویز کیا اور منشی صاحب نے آپؓ کو کھانے کی دعوت دی۔ آپ نے قبول نہ کی تو انہوں نے کہا کہ رسول کریمؐ نے دعوت کے انکار کو پسند نہیں فرمایا۔ اس پر آپؓ راضی ہوگئے۔ منشی صاحب کا ایک فرستادہ آپؓ کو لینے کو حاضر ہوا تو آپ نے اسے بتایا کہ آپؓ میں چلنے کی بھی سکت نہیں ہے۔ اس نے آپؓ کو اپنے کندھوں پر اٹھالیااور منزل تک پہنچایا۔
بھوپال میں قیام کے دوران ہی ایک امیرزادہ کا علاج کیا تو اس نے اتنا روپیہ پیش کیا کہ حج واجب ہوگیا چنانچہ آپؓ حج کی نیت سے حجاز مقدس روانہ ہوگئے۔ آپؓ کے استاد نے روانگی سے پہلے آپؓ کو نصیحت کی ’’نورالدین! خدا نہ بننا اور نہ خدا کا رسول‘‘۔ آپؓ کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ یہ قدرت صرف اللہ کو حاصل ہے کہ جو چاہتا ہے کرلیتا ہے اور یہ امر صرف رسولوں کو سزاوار ہے کہ ان کی بات نہ ماننے والے غضب کے مورد بنتے ہیں۔ اگر لوگ تمہاری بات نہ مانیں تو یہ نہ سمجھنا کہ وہ سارے جہنمی ہیں۔
حضرت نورالدینؓ بمبئی سے بحری جہاز پر جدہ کیلئے روانہ ہوئے، مکہ تک کا سفر اونٹ پر کیا۔ مکہ میں علماء سے درس حدیث لینا شروع کیا، پھر مدینہ منورہ جاکر تحصیل علم کی۔ واپس تشریف لائے تو بہت سی کتب ساتھ لائے یعنی ذہن بھی علم سے معمور تھا اور سامان بھی۔ بھیرہ پہنچ کر حکمت کا کام شروع کیا تو دور دور سے مریض آنے لگے۔ آپؓ نے مطب کیلئے ایک بڑا مکان تعمیر کروایا جس سے آپؓ1200 روپے کے مقروض ہوگئے۔ اس رقم کی ادائیگی کی سبیل دیکھئے کہ آپؓ بھیرہ سے سفر پر نکل کھڑے ہوئے اور ایک دوست سے کوٹ مستعار لیا۔ سٹیشن پر پہنچ کر ٹکٹ کی خرید کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو جیب میں اتنی ہی رقم موجود تھی جتنی لاہور جانے کے لئے درکار تھی۔ لاہورپہنچ کر آپؓ دہلی کا ٹکٹ خریدنا چاہتے تھے تو ایک شناسا نے دُور سے آپؓ کو دیکھا اور اپنے ذرائع سے ٹکٹ لے کر خدمت میں پیش کیا۔ آپؓ نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو دوست نے اصرار کے ساتھ کہا کہ وہ کسی قیمت پر پیسے وصول نہیں کرے گا۔ دہلی میں ایک بار پھر منشی جمال الدین سے ملاقات ہوئی جن کا داماد بیمار تھا۔ انہوں نے آپؓ کو اپنے پاس ٹھہرا لیا اور پہلے پانچ سو اور کچھ عرصہ بعد سات سو روپے پیش کئے چنانچہ سارا قرضہ اتر گیا۔
کچھ عرصہ بعد ایک رؤیا کے تحت حضرت نورالدینؓ کشمیر چلے گئے جہاں آپ شاہی طبیب مقرر ہوئے اور پندرہ برس تک اس عہدہ جلیلہ پر فائز رہے۔ جموں میں ہی آپؓ کو زخم آگیا اور ایک مہینہ کا سفر درپیش ہونے کی وجہ سے پالکی کا انتظام کیا گیا۔آپؓ نے خدا تعالیٰ کے شکریہ کے طور پر اس سفر کے دوران قرآن شریف کی تلاوت شروع کی اور چودہ پارے حفظ کرلئے۔ بعد میں بقیہ پارے یاد کرکے پورا قرآن کریم نہایت مختصر وقت میں حفظ کرلیا۔ آپؓ نے یہ دعویٰ بھی فرمایا ’’مجھ سے خدا نے وعدہ کیا ہے کہ میں تمہیں دشمن کے مقابل پر اس کے معنے سمجھاؤں گا‘‘۔
چنانچہ جب دھرم پال نے اپنی کتاب میں قرآن شریف پر اعتراضات کئے تو حضورؓ کو دو سجدوں کے درمیان توجہ کرنے پر حروف مقطعات کا وسیع علم دیا گیا۔ قادیان ہجرت فرمانے کے بعد آپؓ کا روزانہ کا معمول تھا کہ صبح سویرے بیماروں کو دیکھتے پھر طلبہ کو درس حدیث و طبی کتب دیتے، مثنوی شریف اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا درس بھی گاہے دیتے۔ بعد نماز عصر روزانہ درس قرآن شریف دیا کرتے اور عموماً صبح کے وقت عورتوں میں بھی درس قرآن شریف دیا کرتے۔ اوائل زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی کبھی کبھی آپؓ کے درس میں شامل ہوا کرتے تھے۔
حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحبؓ کا بیان ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے بار بار شاید پچاس مرتبہ مجھے فرمایا کہ مولوی نورالدین صاحب کی تفسیرِ قرآن آسمانی تفسیر ہے۔ ان سے قرآن پڑھا کرو اور اگر تم نے دو تین سپارے بھی سنے یا پڑھے تو تم کو قرآن شریف سمجھنے کا مادہ اور تفسیر کا ملکہ پیدا ہوجائے گا۔
حضورؓ کے دست شفاء کے بارے میں مکرم ملک محمد عبداللہ صاحب اپنے بچپن کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جو آپ کے بڑے بھائی نے بیان کیا کہ جب آپ کی عمر ڈیڑھ سال تھی تو آپ کی ٹانگ پر پھوڑا نکلا جو بگڑتے بگڑتے ناسور بن گیا۔ جب ہر علاج بے اثر ثابت ہوا تو شدید تکلیف میں آپ کو مشن ہسپتال سیالکوٹ لے جایا گیا جہاں کے انگریز ڈاکٹر نے فوری طور پر ٹانگ کاٹنے کا مشورہ دیا اس پر آپ کے والدین آپ کو لے کر قادیان آگئے اور بڑی بے قراری سے صورتحال حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ کی خدمت میں عرض کی۔قادیان میں ایک اور بچی بھی اسی قسم کی تکلیف کا شکار تھی۔ حضورؓ نے دو ڈاکٹروں کا ایک بورڈ مقرر فرمایا جنہوں نے معائنہ کرکے یہی مشورہ دیا کہ ٹانگ کاٹ دینی چاہئے۔ چنانچہ ایک روز بچی کا آپریشن کرکے اس کی ٹانگ کاٹ دی گئی ۔ اگلے روز ملک صاحب کا آپریشن ہونا تھا۔ چنانچہ دعائیں بھی کی گئیں اور چونکہ حضورؓ کے ایک صاحبزادے آپ کے بڑے بھائی کے دوست تھے اور انہوں نے بھی حضورؓ کی خدمت میں بار بار ٹانگ نہ کاٹنے کے لئے عرض کیاتو حضورؓ نے فرمایا کہ اس بچے کے بار بار اصرار پر میرے دل میں تحریک پیدا ہوئی ہے جسے میں الٰہی تحریک سمجھتا ہوں۔ آپؓ نے آپریشن ملتوی کرکے کچھ مرہم اور پڑیاں عطا فرمائیں جن سے اسی روز بہت افاقہ ہوا اور تین دن میں اللہ کے فضل سے بیماری کا اثر زائل ہوگیا اور چند روز میں مکمل صحت ہوگئی۔ مکرم ملک صاحب اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ آج میری عمر 85 سال ہے، ناسور کے نشان آج بھی گھٹنے پر موجود ہیں لیکن اس کے بعد کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔