سیّدی ابّاجان – حضرت مصلح موعودؓ
جماعت احمدیہ امریکہ کے ماہنامہ ’’النور‘‘ فروری 2007ء میں محترم صاحبزادی امۃالرشید صاحبہ کے پرانے دو مضامین میں سے کچھ حصہ شامل اشاعت ہے جو آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کے بارہ میں اپنی یادوں کے حوالے سے رقم کئے تھے۔
آپ بیان فرماتی ہیں کہ حضورؓ کی چار بیویاں تھیں اور متعدد بچے۔ لیکن اتنے بڑا گھرانہ پیار اور محبت کا نمونہ نظر آتا تھا۔ آپؓ اپنی بیویوں کے بارے میں کامل عدل سے کام لیتے تھے، نہایت محبت سے پیش آتے، سفروں میں باریاں مقرر تھیں اور ہر ایک کے حقوق کا پورا خیال رکھتے تھے۔ سب بیویاں دل کی گہرائیوں سے حضورؓ کی مداح تھیں۔ اسی طرح عدیم الفرصتی کے باوجود بچوں کی تربیت کا بہت خیال رکھتے۔ ہر رشتہ دار کی تعظیم اور اکرام مدّنظر رہتا۔ مخاطب کو ہمیشہ عزت سے خطاب فرماتے۔ صفائی کا اس قدر خیال تھا کہ النظافۃ من الایمان آپؓ کی پیشانی پر لکھا ہوا نظر آتا۔ جو لوگ گھر کے کام کے لئے رکھے جاتے، اُن کے لئے ہمیں تاکیدی حکم تھا کہ نوکر کا لفظ استعمال نہ کیا جائے۔ اسی طرح ہمارے گھر میں سب کے لئے ایک ہی قسم کا کھانا تیار ہوتا۔ کام کرنے والوں اور بچوں کے کھانے میں کوئی تمیز نہ ہوتی۔
مَیں بہت چھوٹی تھی جب میری امّی (حضرت سیدہ امۃالحئی بیگم صاحبہ بنت حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ) کی وفات ہوئی۔ لیکن سیدنا ابّا جان نے ہم سے ایسی محبت کی کہ کبھی ماں کی محبت سے محرومی کا احساس تک نہ ہونے دیا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کا اس قدر خیال رکھتے جس کا تصور کرنا ناممکن ہے۔ کئی بار اپنے ہاتھوں سے ہماری کنگھی کی۔ ہماری غذا اور دوا کا پورا اہتمام اپنی نگرانی میں کرواتے۔ تقریباً روزانہ ہی پوچھتے کہ دودھ پیا ہے یا نہیں۔ اگر کبھی اس میں غفلت ہوجاتی تو اپنے ہاتھ سے دودھ پلاتے۔ دوسری طرف حضورؓ کی عدیم الفرصتی کا یہ عالم تھا کہ بچپن میں مَیں سمجھا کرتی تھی کہ شاید اباّجان کو نیند آتی ہی نہیں کیونکہ رات کو جب بھی مَیں نے دیکھا، آپؓ کو دینی کاموں میں مصروف دیکھا۔لیکن کبھی تکان کا اثر بھی نہیں دیکھا۔
جن بچوں کی مائیں فوت ہوجائیں اُن کی دل جوئی خصوصیت کے ساتھ کرتے۔ ایک بار ہم حضورؓ کے ساتھ منالی پہاڑ پر گئے ہوئے تھے کہ آپؓ نے ’’تبّت پاس‘‘ جانے کا پروگرام بنایا۔ ہمیں معلوم ہوا کہ اس پروگرام میں بچے شامل نہیں ہیں تو مَیں بے تکلّفی سے دوڑتی ہوئی حضورؓ کے پاس گئی اور جانے کی ضد کی۔ آپؓ سمجھانے لگے کہ راستہ بہت خطرناک ہے لیکن مَیں نے اس قدر اصرار کیا کہ حضورؓ نے اپنا سفر بھی ملتوی کردیا۔ اس پر سب گھر والے میرے پیچھے پڑ گئے کہ مَیں نے اُن کی سیر خراب کی ہے۔ میری طبیعت پر بھی بہت اثر ہوا اور مَیں اداس ہوگئی۔ مجھے اداس دیکھ کر حضورؓ نے فرمایا کہ میری بچی کو کیوں اداس کردیا ہے، مَیں تو خود اس کے بغیر جانا نہیں چاہتا۔ پھر کچھ دیر کے لئے اپنے کمرہ میں چلے گئے اور پھر باہر آکر مجھے گلے لگاکر بار بار یہ شعر پڑھا:
تبسم لب پہ ہے ہر دل شناسائے محبت ہے
نہ ظاہر تجھ کو دے دھوکہ یہ لڑکی بیش قیمت ہے
یہ سن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔
میری بیٹی امۃالنور کو ایک دفعہ سندھ میں ڈبل نمونہ ہوگیا اور بچنے کی کوئی امید باقی نہ رہی۔ مَیں نے سیدنا ابّا جان کو دعا کے لئے تار دیا۔ آپؓ کا جواب آیا کہ نوشی اچھی ہوجائے گی، لمبی عمر پائے گی۔ چنانچہ چند ہی دن میں وہ بالکل تندرست ہوگئی۔ ڈاکٹر حیرانی سے اسے معجزہ کہتے تھے۔ اسی عرصہ میں ابّاجان کا خط ملا کہ میری تار سے دو روز قبل آپؓ نے خواب میں دیکھا تھا کہ نوشی کافی بڑی عمر کی ہے اور نہایت صحتمند ہے اور ابّا حضور، ابّا حضور کہتی ہوئی آپؓ سے لپٹ گئی ہے۔ چنانچہ جب تار ملا تو آپؓ سمجھ گئے کہ یہ خواب بچی کی شفایابی اور لمبی عمر پانے کے متعلق ہے۔
جب دہلی میں جلسہ مصلح موعود ہوا تو معاندین نے حضورؓ پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔ پتھراؤ کے نتیجے میں میرے میاں (محترم میاں عبدالرحیم احمد صاحب) کو سر پر بہت شدید چوٹ آئی کہ دہلی کے بڑے ڈاکٹروں نے بھی کہہ دیا کہ بچنے کی کوئی امید نہیں۔ اُس وقت بھی مَیں نے حضورؓ کو نہایت کرب اور بے چینی کی حالت میں ٹہلتے اور دعا کرتے دیکھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کی اور میرے میاں کو ایسی معجزانہ شفا عطا فرمائی کہ ہندو اور عیسائی ڈاکٹر بھی کہنے لگے کہ یہ حضورؓ کی دعاؤں کا معجزہ ہے۔
بعض دفعہ بچوں کا نام اُن کے بزرگوں کے نام پر رکھتے تاکہ یاد تازہ رہے۔ میری چھوٹی بچی کا نام میری امّی کے نام پر امۃالحئی رکھا۔ جب بھی وہ آتی، آپؓ فرماتے: تم تو اپنی نانی ہو!۔ وہ بھی خوش ہوکر دوسروں کو بتاتی کہ ابّا حضور مجھے اس لئے زیادہ پیار کرتے ہیں کہ میرا نام امۃالحئی ہے۔
میرے بیٹے ظہیر سے پوچھا کرتے کہ بڑا ہوکر وہ کیا بنے گا؟ پھر خود ہی فرماتے کہ میرا بیٹا تو مبلغ بنے گا اور خدمتِ اسلام کرے گا۔ ایک دفعہ پوچھا تو ظہیر کہنے لگا کہ مَیں ڈاکٹر بنوں گا۔ یہ سن کر فرمایا کہ ہمارے بڑے ماموں جان (یعنی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ) جیسے ڈاکٹر بننا۔ ڈاکٹر بھی اور مبلغ بھی۔ خدمت خلق بھی کرنا اور خدمت اسلام بھی۔ اسی طرح آپ اکثر یہ فرماتے کہ یہ خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی طرح خدمتِ خلق کرے گا اور مبلغ بھی بنے گا۔
1956ء میں حضورؓ نے مجھے مری سے خط لکھا کہ تم لوگ بھی میرے پاس آجاؤ۔ چنانچہ مَیں، میرے میاں اور بچے مری چلے گئے۔ حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو فرمایا کہ پروفیسر صاحب (میرے خسر) کہاں ہیں۔ مَیں نے عرض کیا کہ ربوہ میں۔ اس پر آپؓ کا چہرہ متغیّر ہوگیا اور بہت ناراض ہوئے کہ اُن کو چھوڑ کر کیوں آئی ہو، میرا یہ مقصد تو نہیں تھا کہ وہ تنہا وہاں رہیں۔ پھر میرے میاں سے فرمایا کہ جاکر اُنہیں لے کر آؤ۔ جب وہ آگئے تو اُسی وقت اُن سے ملاقات کی اور فرمایا کہ یہ بچے بھی عجیب ہیں، آپ کو تنہا چھوڑ کر آگئے حالانکہ مَیں نے تو آپ کو بھی بلایا تھا۔ اس کے بعد تقریباً دو ماہ کے قیام کے دوران حضورؓ مجھے دن میں کئی بار اُن کا خیال رکھنے کی تاکید فرماتے اور کھانے کی میز پر بیٹھتے ہی پوچھتے کہ پروفیسر صاحب کا کھانا گیا ہے یا نہیں۔
حضورؓ کے عشق الٰہی کی کیفیت اس واقعہ سے ظاہر ہوسکتی ہے کہ غالباً 1940ء میں سیدنا ابّا جان اور جماعت کے بعض احباب نے حضورؓ کے وصال کے متعلق خواب دیکھے۔ جس پر حضورؓ نے جماعت کے نام ایک وصیت لکھی۔ احباب جماعت کو جو محبت اپنے آقا سے تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہ تھی۔ لوگ روزے رکھ کر، اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوکر اور نماز تہجد میں اپنے آقا کی درازیٔ عمر کے لئے دعائیں کر رہے تھے۔ یہ دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے احسان فرمایا اور خوابوں کے ذریعے ہی حضورؓ کی درازیٔ عمر کی خوشخبری بھی اپنے پیاروں کو دیدی۔ سیدی ابّاجان نے بھی کوئی خواب دیکھا۔ اُس روز آپ رات کے کھانے کے لئے تشریف لائے تو گاؤتکیہ کے سہارے خاموش اور بہت ہی اداس لیٹے تھے۔ کئی بار آپا جان (سیدہ امّ طاہرؒ) نے کہا کہ کھانا ٹھنڈا ہورہا ہے۔ کافی دیر بعد آپ ایک دم اٹھے اور بڑے درد سے یہ شعر پڑھنے لگے:
ہم دونوں میں حائل تھی جو دیوارِ گراں وہ گر نہ سکی
قسمت میں جدائی لکھی تھی مَیں جا نہ سکا وہ آ نہ سکے
آپا جان نے پوچھا کہ اتنے اداس کیوں ہیں اور یہ شعر کیوں پڑھا ہے؟ تو فرمایا کہ مَیں تو سمجھا تھا کہ بس جلد ہی اب اپنے خدا سے جا ملوں گا لیکن تم لوگوں نے مجھے جانے نہ دیا۔