شاہی قلعہ لاہور
لاہور کا شاہی قلعہ پاکستان میں موجود مغلیہ دور کے آثار میں سے ایک عظیم الشان یادگار ہے- اس کا طول 1500؍ فُٹ اور عرض 1200؍ فُٹ ہے- اس بارے میں ایک مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍ اگست 1998ء میں مکرم شمشاد احمد قمر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے-
اس قلعے کی بنیاد کب رکھی گئی؟ اس کے متعلق تاریخ خاموش دکھائی دیتی ہے تاہم اتنا معلوم ہوتا ہے کہ لاہور پر محمد بن سام نے 1180ئ، 1184ء اور 1186ء میں جب تین حملے کئے تو اس وقت لاہور میں ایک قلعہ موجود تھا- خیال کیا جاتا ہے کہ وہ یہی قلعہ تھا- 1241ء میں منگولوں نے اسے تباہ کیا اور پھر 1267ء میں غیاث الدین بلبن نے اسے دوبارہ تعمیر کروایا- 1398ء میںامیر تیمور کی فوج نے دوبارہ اسے تباہ کیا اور سلطان مبارک شاہ نے 1421ء کے آغاز میں پھر اسے مٹی سے تعمیر کروایا لیکن صرف پانچ ماہ بعد ہی شیخان گکھڑ نے اس قلعہ کو پھر برباد کردیا اور بالآخر 1432ء میں شیخ علی والیٔ کابل نے لاہور فتح کیا اور اس قلعہ کو پھر مرمّت کروایا- اس طرح جلال الدین اکبر کے دور تک بیرونی حملہ آور یہاں آگ اور خون کا کھیل کھیلتے رہے-
جلال الدین اکبر نے قریباً سوا چار سو سال پہلے مٹی کے قلعے کو مسمار کر کے اس کی جگہ پختہ اینٹوں کی عمارت بنوائی- تعمیر کا کام 1568ء سے قبل مکمل ہوگیا تھا- اکبر کے بعد جہانگیر، شاہجہان اور اورنگ زیب عالمگیر نے بھی اپنے اپنے دور میں اس قلعے کی توسیع میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور موجودہ قلعہ ان چار مغل بادشاہوں کی کوششوں کا ایک خوبصورت، دلفریب اور تاریخی شاہکار ہے-
عالمگیری دروازہ: یہ دروازہ اور اس کے ساتھ ملحقہ خوبصورت اور مضبوط دیواریں شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے دور 1678ء میں بنوائی گئیں- یہ دروازہ قریباً ایک صدی تک بند رہا اور قیام پاکستان کے بعد سردار عبدالرب نشتر کے ہاتھوں 18؍نومبر 1949ء کو کھول دیا گیا-
دروازہ شاہ برج: اس دروازے پر شاہجہان کا نام لکھا ہوا ہے- بادشاہی عہد میں یہ بند رہتا تھا- انگریزوں کے دور میں دوسرے تمام دروازے بند کرکے اس کو کھول دیا گیا-
ہاتھی پول دروازہ: اس دروازہ سے بیگمات اور شہزادیاں ہاتھی پر سوار ہوکر سیر کیلئے نکلا کرتی تھیں- یہ شاہی محل تک رسائی کا محفوظ ترین راستہ ہے-
شیش محل: یہ ایک نہایت خوبصورت عمارت ہے جسے شاہ جہاں نے 1231ء میں تعمیر کروایا- یہ مغلیہ دور میں لاہور کی شاہی قیام گاہ تھی- یہی وہ جگہ ہے جہاں 26؍دسمبر 1846ء کو ہنری ہارڈنگ نے سکھوں کے ساتھ معاہدے پر دستخط کئے تھے اور پھر یہیں مارچ 1849ء میں انگریزوں نے پنجاب پر اپنے تسلّط کا اعلان کیا تھا- شیش محل کے درمیان میں ایک وسیع آنگن ہے- آنگن میں ایک چھوٹا سا حوض ہے جس کے وسط میں ایک چھوٹا سا خوبصورت چبوترہ ہے- حوض کا پانی نکالنے کے لئے چاروں طرف چھوٹی چھوٹی نہریں ہیں جو آنگن کو چار حصوں میں تقسیم کر دیتی ہیں-
نولکھا: سنگ مرمر سے بنی ہوئی یہ ایک خوبصورت عمارت ہے- ایک روایت کے مطابق اس پر اُس وقت نو لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے اس لئے اس کا نام ’’نو لکھا‘‘ رکھا گیا-
آٹھ دری: اسے رنجیت سنگھ نے تعمیر کروایا تھا- اس کے مشرق میں لمبے چبوترے کے عقب میں ایک آبشار کے نشان بھی ملتے ہیں- چبوترے کے شمالی سِرے کے قریب مشرق میں ایک برج ہے جسے کالا برج کہتے ہیں اور اسکے چاروں طرف غلام گردشیں بنی ہوئی ہیں- کالے برج سے ذرا آگے مشرقی جانب ایک اور برج ہے جو لال برج کہلاتا ہے-
دیوان خاص: یہ سنگ مرمر کی ایک خاصی بڑی اور خوبصورت بست دری ہے جسے شاہجہان نے 1645ء میں تعمیر کروایا تھا- اس کے مغرب میں شاہی حماموں کی قطار شرقاً غرباً چلی جاتی ہے-
احاطہ جہانگیری: شاہی حماموں کے مشرق کی طرف خشتی چبوترے سے ذرا نشیب میں احاطہ جہانگیری ہے جو شہنشاہ جہانگیر نے تعمیر کروایا تھا- اس کے بعض ستون مربع بعض پہلودار اور بعض سادہ ہیں جن پر ہاتھیوں، شیروں اور پرندوں کی تصاویر بنی ہوئی ہیں-
عجائب خانہ: یہ جہانگیر کی خوابگاہ تھی- یہ عمارت تین کمروں پر مشتمل ہے، مشرقی کمرہ میں نقشے اور فوٹو وغیرہ ہیں اور باقی دو میں الماریوں کے اندر سکھوں کے زمانہ کے مختلف قسم کے ہتھیار جن میں تلواریں، کٹاریاں، خنجر، چُھرے، پستول، توڑے دار اور چقماقی بندوقیں، برچھے بھالے، تیرکمانیں، زرہ بکتر اور خود وغیرہ نہایت قرینے سے رکھے گئے ہیں-
دیوان عام: شاہی قلعہ کے اکبری دروازے سے آگے بڑھ کر ایک پیچ دار راستے سے گزر کر دیوان عام آتا ہے جو 730 فُٹ لمبا اور 460 فٹ چوڑا ہے- اسے اکبر نے 1566ء میں تعمیر کروایا تھا اور اس کے چاروں طرف کمرے بنے ہوئے تھے جن کا اب کوئی نام و نشان باقی نہیں ہے، صرف موتی مسجد کے سامنے ایک صحن رہ گیا ہے-
ساٹھ ستونوں پر مشتمل یہ دیوان ایک بڑے احاطے میں قائم ہے جس کے پیچھے 8 فُٹ کی بلندی پر چند کمرے ہیںجنہیں تخت یا دربار کہا جاتا ہے- دیوان کا عقبی حصہ جو دولت خانہ خاص و عام کہلاتا ہے دو منزلہ عمارت پر مشتمل ہے- اس میں ایک جھروکہ بھی ہے جو مسند شاہی کہلاتا ہے-
جس چبوترے پر دیوان عام بنا ہوا ہے اس کے عین وسط میں نقار خانہ تھا جہاں بادشاہ کے تخت نشین ہوتے ہی فوجی سازندے فوجی دُھنیں بجایا کرتے تھے- انگریزوں کے تسلّط کے بعد اس ایوان کو انگریزوں کی سکونت کیلئے تبدیل کردیا گیا لیکن قریباً 72 سال قبل ایوان کو پھر کشادہ کردیا گیا-
مکاتیب خانہ: دیوان عام کے وسیع میدان کے مغربی گوشے میں یہ ایک قسم کا باب داخلہ تھا جہاں دولت خانہ جہانگیری میں آنے جانے والوں کا ریکارڈ مرتّب کرنے کی غرض سے محرّر بیٹھا کرتے تھے- اسی وجہ سے یہ مکاتیب خانہ مشہور ہوا-
موتی مسجد: یہ دراصل زنانہ مسجد تھی جس کا نام مہاراجہ رنجیت سنگھ نے بدل کر موتی مندر رکھ دیا اور سلطنت کا خزانہ بھی اسی مسجد میں رکھا جاتا تھا- سکھوں کے بعد انگریزی سرکار بھی صوبہ پنجاب کا خزانہ اسی مسجد میں رکھتی تھی-