’’شعور یولے‘‘ یعنی جادۂ شعور


تعارف کتاب (تبصرہ: فرخ سلطان محمود)
(مطبوعہ انصارالدین مارچ اپریل 2016ء)

زمین پر آباد کسی بھی مخصوص علاقہ کے باسی اپنی ایک خاص (مقامی) زبان کے حامل ہوتے ہیں۔ چنانچہ دنیا کے مختلف حصّوں میں زبانوں کے اشتراک یا تفریق کی بنیاد پر بھی علاقائی تقسیم یا قوموں اور خطّوں کی آزادی عمل میں آتی رہی ہے۔ تاہم اردو زبان کی ایک غیرمعمولی انفرادیت یہ ہے کہ اس کی ابتداء اگرچہ لشکری زبان کے انداز میں ہوئی لیکن اس کی پرورش وسیع و عریض برّصغیر کے ایسے ماحول میں ہوئی جہاں کئی مقامی زبانیں زمانۂ قدیم سے عوام الناس میں اپنی جڑیں مضبوطی سے گاڑے ہوئے تھیں۔ تاہم اس امر میں بھی کوئی شک نہیں کہ اردو زبان میں ایک ایسا حسن پوشیدہ تھا جو سر چڑھ کر بولا۔ بالفرض اگر اردو زبان اپنی شیریں بیانی، زبان دانی، روانی، جذب اور چاشنی سے محروم ہوتی اور اس کی کوکھ سے حدّت و جدّت کے حامل استعارات اور تشبیہات جنم نہ لیتے تو اس کا پنپنا اور اربوں دلوں کی دھڑکن بن جانا بلاشبہ ایک امر محال ہوتا۔
اردو زبان کی یہ بھی ایک عظیم سعادت ہے کہ خداتعالیٰ نے اسے مسیح الزماں کی زبان کے طور پر پسند فرماکر نہ صرف آفاقیت عطا فرمادی بلکہ احمدیت کی برکت سے اس زبان کے دامن میں ایسے نئے الفاظ، معانی اور محاورے بھی ڈال دیئے گئے جنہوں نے اردو زبان دانی کی نئی جہتوں میں جاری وسعت کو جہاں بہت سے نئے زاویوں سے آشکار کیا وہاں حضرت امام الزمانؑ کی زبان مبارک سے اردو میں بیان فرمودہ پُرمعارف کلمات کو قبولیتِ عامہ کا وہ مقام عطا فرمادیا کہ جس نے لاکھوں پاک اذہان اور قلوب صافی کو آپؑ کے قدموں میں لاکھڑا کیا۔ آپؑ کی پاک قلم سے (اردو زبان میں) اسلام کی تائید میں ایسی پُرزور انقلابی تحریروں نے جنم لیا جن کی غیرمعمولی تاثیر نے دُورونزدیک کی سعید روحوں میں غیرمعمولی ارتعاش پیدا کردیا۔ اور یہ آپؑ کے کلام کی کشش ہی تھی جس نے لاکھوں نفوس کے قلوب و اذہان کو اس طرح سے تسخیر کیا کہ اُن کے لئے اسلام احمدیت کے پاکیزہ روحانی نظام کے سائے تلے آکر سرتسلیم خم کرنا ناگزیر ہوگیا۔ چنانچہ اردو زبان میں سند کا درجہ رکھنے والے معروف ادیب شاعر اور نقّاد حضرت سیّد حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوریؓ قبولِ احمدیت کی اپنی داستان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’جن دنوں ہم شاہجہانپور میں رہتے تھے تو ہمیں اہل زبان ہونے پر بہت فخر تھااور اردو زبان کو گھر کی لونڈی سمجھتے تھے۔ ان دنوں کسی نے ہمیں آکر کہا کہ سنا ہے کہ پنجاب کے ایک گاؤں میں ایک جاٹ آج کل اردو میں بہت سی کتابیں لکھ رہا ہے۔ ہم یہ سُن کر بہت ہنسے کہ پنجاب کا جاٹ کیا اردو لکھے گا۔ اتفاقاً چند دنوں کے بعد کسی نے ہمیں ایک کتاب لاکر دی اور کہا کہ یہ اُس جاٹ کی کتاب ہے۔ جب ہم نے اس کتاب کا ایک صفحہ پڑھا تو ہم اپنا سر تھام کر بیٹھ گئے اور کہا کہ یہ کیسا جاٹ ہے جو اتنی فصیح اردو لکھتا ہے اور ایک صفحہ پر اتنی معرفت کی بات لکھ گیا ہے۔ ہم تو حیران رہ گئے۔ پھر کیا تھا اَور کتابیں منگوائیں، اُن کو پڑھا اور پھر ان کے لکھنے والے کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی اور قادیان آگیا۔ پھر یہیں کا ہو کر رہ گیا اور حضرت مسیح موعودؑ کے قدموں میں راحت محسوس کی۔ اورپھر ساری زندگی میں نے اس مقصد کے لئے وقف کردی کہ اگر کوئی معترض حضرت مسیح موعودؑ کی اردو، فارسی اور عربی تحریر پر کوئی انگلی رکھے گا تو مَیں اس کا دفاع کروں گا۔ اور اُٹھنے والے ہر اعتراض کا جواب دوں گا۔ کیونکہ اگر حضورؑ اپنی صداقت کے لئے کوئی نشان نہ دکھاتے تو بھی یہی ایک نشان کافی تھا کہ آپؑ نے اردو، فارسی اور عربی میں 90کے قریب کتب لکھیں اور کوئی لفظ اور کوئی فقرہ گرائمر کے قواعد کے خلاف نہیں‘‘۔
پس اردو زبان کی یہ عظیم سعادت تھی کہ یہ سیّدنا امام الزمان علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان قرار پائی اور بلاشبہ اس زبان میں وہ کشش رکھ دی گئی جس نے عظیم دانشوروں، فلاسفروں، مفکّروں اور دین و دنیا کے متفرّق علوم میں دسترس رکھنے والے ہزاروں علماء و پیرانِ طریقت اور اُن کے پیروکاروں … یعنی خواص و عوام کو یکساں اپنا اسیر بنالیا۔ بلکہ یہ کہنے میں بھی کوئی باک نہیں ہے کہ اردو اگر واقعی ایک بے حد خوبصورت، شائستہ اور مہذّب زبان نہ ہوتی تو شاید ایسے لوگوں کو اپنا گرویدہ نہ بناسکتی جن کی مادری زبان اور آبائی علاقہ کا اردو سے دُور کا بھی کوئی تعلق اور رشتہ نہیں تھا۔
چنانچہ حضرت امام الزمانؑ کی زبان ’اردو‘ کی ترویج و اشاعت کی توفیق اللہ تعالیٰ نے کئی ایسے وجودوں کو عطا فرمائی جنہوں نے محنتِ شاقّہ سے اردو زبان پہلے خود سیکھی اور پھر اس میں ایسی گہری دسترس حاصل کی کہ ادب و شاعری کے حوالہ سے اپنا نام روشن کیا۔ یہ سعادت ایک ایسے وجود کو بھی عطا ہوئی جو ’’تاریخ احمدیت‘‘ میں مرکز احمدیت ربوہؔ کے پہلے پھل کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔
محترم خانزادہ محمد افضل خان تُرکی صاحب کو خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے سرزمین ربوہ کے افتتاح کے موقع پر سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کے دست مبارک پر بیعت کرنے کی سعادت عطا فرمائی تھی اور اس موقع پر حضورؓ نے آپ کو ربوہ کا پہلا پھل قرار دیا تھا۔ ترکستان سے تعلق رکھنے کے باوجود آنمحترم نہ صرف اردو کی ادبی دنیا میں اپنا لوہا منواچکے ہیں بلکہ اُن کے کلام اور فنِ عروض سے متعلق اُن کی ایک نادر کتاب ’’شعور یولے یعنی جادۂ شعور‘‘ بھی منظرعام پر آچکی ہے اور آج یہی کتاب ہمارے پیش نظر ہے۔
پانچ صد سے زائد صفحات پر مشتمل یہ مجلّد کتاب ایک نہایت خوبصورت پیشکش ہے۔ خوش نما اور دیدہ زیب رنگین سرورق کے ساتھ ٹائپنگ صاف، سیٹنگ اور ڈیزائننگ عمدہ اور طباعت شاندار ہیں۔ بے شمار ظاہری خوبیوں سے مرصّع اس کتاب میں نہایت دلچسپ خودنوشت سوانح حیات اور منتخب نظمیں شامل ہیں۔ شاعری میں فن عروض پر محترم ترکی صاحب کی دسترس نہایت حیران کُن اور غیرمعمولی ذہنی صلاحیّتوں کی آئینہ دار ہے۔ نیز بہت سی نادر تاریخی تصاویر سے بھی یہ کتاب آراستہ ہے۔
’شعور یولے‘ بنیادی طور پر تین حصوں میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ مصنّف کے ذاتی اور خاندانی حالات پر مشتمل ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ آپ کی داستانِ حیات پڑھتے ہوئے کسی ناول یا افسانہ کے پڑھنے کا احساس ہوتا ہے۔ یا پھر یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا سالہاسال تک کوئی نازک پودا سنگین موسمی حالات سے نبرد آزما رہا اور قدم قدم پر خطرات کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ کی غیرمعمولی نصرت کے نظارے دیکھتا ہوا ایک ایسا مضبوط شجر بن گیا کہ کئی چہچہانے والے پرندے (نَوآموز شاعر) اس شجر کی تناور شاخوں کے گھنے سائے میں پروان چڑھ رہے ہیں۔ ان حالاتِ زندگی کے پس منظر میں ’تاریخ احمدیت‘ کی بعض جھلکیاں بھی روشن نظر آتی ہیں اور دنیاوی وجاہت کی حامل چند ہستیوں اور کئی ایسی بزرگ شخصیات سے بھی شناسائی ہوتی ہے جنہوں نے مصنّف کی تعلیم و تربیت (بہ الفاظ دیگر ایک ہیرے کو تراشنے کے عمل) میں غیرمعمولی کردار ادا کیا۔
کتاب کا دوسرا حصہ محترم ترکی صاحب کے منظوم کلام سے انتخاب پر مبنی ہے جس میں متفرق موضوعات پر صرف 35 نظمیں شامل ہیں۔ آپ کی شاعری کا آغاز آپ کے دورِ طالبعلمی میں ہوا جب ایک طرحی مصرعہ دیئے جانے پر کہی جانے والی آپ کی اوّلین غزل کا مطلع کچھ یوں تھا:

کشتی رواں ہوئی ہے کنارے کے ساتھ ساتھ
نظریں اُلجھ گئی ہیں نظارے کے ساتھ ساتھ

زیرنظر کتاب کا تیسرا حصہ علم عروض کے حوالہ سے نہایت دقیق مضامین کو سہل انداز میں پیش کرنے کی کامیاب مساعی ہے۔ ان صفحات میں اوزان و بحور کے علم کو عام فہم مثالوں سے واضح کرکے شاعری میں دلچسپی رکھنے والوں کے شعور کو متحرّک کرنے کی بہت کامیاب کوشش کی گئی ہے۔
محترم تُرکی صاحب اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ برّصغیر کے دو عظیم اور نامور شعراء نے شاعری کے میدان میں آپ کی ابتدائی تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ چنانچہ جناب احسان دانش اور جناب جگر مرادآبادی (شہنشاہِ غزل) کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنا آپ بجا طور پر ایک سعادت سمجھتے ہیں۔
اس کتاب کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ محترم خانزادہ افضل تُرکی صاحب کے خودنوشت حالات زندگی کا انگریزی زبان میں ترجمہ بھی شامل اشاعت کیا گیا ہے۔ اس نے اگرچہ اس کتاب کے حجم میں ڈیڑھ صد صفحات کا اضافہ کردیا ہے تاہم کتاب کی افادیت کو بھی دوچند کردیا ہے۔
محترم افضل تُرکی صاحب کا تعلق ترکستان کے اس شاہی گھرانہ سے ہے جس کو (اُس زمانہ میں) کمیونزم کی آمد کے بعد اپنا اصل وطن چھوڑ کر ہندوستان کی طرف ہمالیہ کی گود میں پناہ لینی پڑی تھی۔ تب سرکارِ انگلشیہ کی طرف سے اس خاندان کی قدرومنزلت کو مدّنظر رکھتے ہوئے آپ کے دادا خان بہادر بہاؤالدین خان صاحب کو ’’خان آف لدّاخ‘‘ کا خطاب دے کر لدّاخ کے تجارتی راستہ کا برٹش گورنر مقرر کیا گیا تھا۔ ترکستان کی وسیع و عریض سلطنت پر چین، روس اور برطانیہ کی طرف سے قبضہ کرنے کی کوششوں کے منفی اثرات محترم تُرکی صاحب کے خاندان پر مستقلاً اثرانداز ہوتے رہے۔ تاہم اتنا لمبا عرصہ دیارِ غیر میں گزارنے کے باوجود آج بھی جب آپ اپنے وطن میں جاتے ہیں تو آپ کا اُسی طرح پُرتپاک خیرمقدم کیا جاتا ہے جیسا کہ ایک شاہی فرد کا کیا جانا چاہئے۔ آپ کے پاس موجود اعلیٰ قومی رہنماؤں کی تصاویر اور خطوط دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ انکساری کی چادر اوڑھے یہ شخص دنیاوی لحاظ سے بھی کتنا قابل احترام وجود ہے۔
محترم افضل خان ترکی صاحب کے کہے ہوئے بعض اشعار تو واقعی ایسے ہیں کہ بے ساختہ کلماتِ تحسین ادا کئے بغیر رہا ہی نہیں جاسکتا۔ اردو شاعری میں جدّت کے انداز کے ساتھ آپ کی روانی، تشبیہات کا استعمال، شعر کی موزونیت اور علم عروض میں دسترس ایسی ممتاز خصوصیات ہیں جو داد وصول کرکے رہتی ہیں۔
کتاب میں شامل منظوم کلام میں سے محض نمونۃً چند اشعار کا انتخاب اس خواہش کے ساتھ ہدیۂ قارئین ہے کہ (لندن کے احمدیہ بکسٹالز سے دستیاب) اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے لئے ہمارے قارئین کا شوق مزید فزوں تر ہوگا۔
سب سے پہلے خوبصورت نعتیہ کلام میں سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

گلستانِ دہر میں روحِ بہاراں آپؐ ہیں
باعثِ تسکینِ دل ہیں راحتِ جاں آپؐ ہیں
میرا کیا جنت سے رشتہ میرا کیا کوثر سے کام
میری حسرت آپؐ ٹھہرے میرا ایمان آپؐ ہیں
بہرِ سجدہ کیوں نظر جائے کسی دَر کی طرف
قبلۂ ایمان و دیں ہیں شاہِ خوباں آپؐ ہیں
………………………

خلافتِ خامسہ کے مبارک دَور کے آغاز پر کہا:

جنوں کے مرحلے حُسنِ عمل سے دُور ہوں گے
فراست کی نظر ہو نُور سے معمور ہوں گے
خلافت ہی وہ طاقِ جلوۂ حُسنِ یقیں ہے
ضیاء سے جس کی اندھیرے سبھی کافور ہوں گے
بہاروں کی برات آئی ہے دیکھو گلستاں میں
کلی دل کی کھِلے گی باغباں مسرورؔ ہوں گے
………………………

سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کی یاد میں عرض کی گئی نظم:

محمودؓ! تیرے دَر پہ جو دُھونی رُمائیں گے
رنگِ بہار بن کے گلستاں پہ چھائیں گے
حُسنِ یقیں کے ساتھ ہو حُسنِ عمل تو دوست
طُوفاں ہماری ناؤ سے دامن بچائیں گے
………………………

حضرت چودھری محمد ظفراللہ خانصاحبؓ کے حوالہ سے کہی جانے والی ایک نظم سے انتخاب :

اے محبِّ ملک و ملّت ، فخرِ اقوامِ جہاں
یہ تیری ہستی ہے گویا زندہ مذہب کا نشاں
ماہرِ علم و ادب ایسا کہ خود اپنی مثال
حُسنِ سیرت یہ بھلا لعلِ بدخشاں میں کہاں
لب پہ وردِ کلمۂ صلِّ علیٰ صلِّ علیٰ
بارگاہِ حق میں پایا ہے تجھے سجدہ کُناں
………………………

محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو نوبل انعام ملنے پر کہی جانے والی خوبصورت نظم میں کہا:

محنت و کوشش کسی کی رائیگاں جاتی نہیں
مل ہی جاتا ہے بقدرِ جُہد انعام و مقام
خالقِ ہر دو جہاں کا ہوگیا تجھ پر کرم
ہو مبارک صد مبارک ڈاکٹر عبدالسلام
………………………

حضرت امام حسینؓ کی شہادت سے سبق حاصل کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا:

قوم نے سمجھا نہ مفہومِ شہادت اے حسینؓ!
یہ خلا باقی رہے گا تا قیامت اے حسینؓ!
کربلا میں سُن کے تیرا قصۂ صبر عظیم
اِک زمانہ ہے ابھی تک محوِ حیرت اے حسینؓ
………………………

محترم محمد افضل ترکی صاحب نے مختلف شخصیات اور واقعات کے حوالہ سے بھی نظمیں کہی ہیں لیکن اکثر اپنے آزاد خوبصورت خیالات کو ہی قرطاس پر منعکس کرکے قاری کی ذہنی قوّتوں کو مرتعش کیا ہے۔ مثلاً :

اب اُن کے سرِ راہ نظارے نہیں ہوتے
بس جان گئے ہم ، وہ ہمارے نہیں ہوتے
آ ہوش میں ساحل کے طلبگار مسافر!
’’دریائے محبت کے کنارے نہیں ہوتے‘‘
دَر دَر پہ صدا دینے سے اُکتائے ہوئے ہیں
یوں تیرے فقیروں کے گزارے نہیں ہوتے
………………………
ہم غم کی داستاں سناتے چلے گئے
سازِ اَلم نواز بجاتے چلے گئے
ترکیؔ وہ بات بات پر دیتے رہے فریب
ہر بار ہم فریب میں آتے چلے گئے
………………………
زخمِ دل کو لا دَوا پائیں گے ہم بھی ایک دن
محفلِ ہستی سے اُٹھ جائیں گے ہم بھی ایک دن
آپ کے حُسنِ مروّت کا فسانہ بزم میں
ہر زبانِ خلق پر پائیں گے ہم بھی ایک دن
کچھ بھی ناممکن نہیں ترکیؔ! خدا کا فضل ہو
وقت کے ہاتھوں شفا پائیں گے ہم بھی ایک دن
………………………
تم کو کیا معلوم کوئی کس قدر مشکل میں ہے
تم تو آخر وہ کرو گے جو تمہارے دل میں ہے
ہے خرد کو دیر سے میرے جنوں کی اب تلاش
تیرا دیوانہ نہ جانے کون سی منزل میں ہے
قلبِ مضطر اور اس میں آرزوؤں کا ہجوم
اِک سکوں ناآشنا عالَم میری محفل میں ہے
کوئی ترکیؔ! ناخداؤں سے کہے یہ میری بات
حادثہ طوفاں سے بڑھ کر دامنِ ساحل میں ہے
………………………
وقتِ وداع گردشِ ایّام آگیا
شکرِ خدا کہ وصل کا پیغام آگیا
جب بھی کہی کسی نے محبت کی داستاں
بے اختیار لب پہ تیرا نام آگیا
دنیا میں میرے دل کا ٹھکانا کہیں نہ تھا
اچھا ہوا غریب تیرے کام آگیا
………………………
وہ اگر مجھ سے خفا ہیں تو خفا رہنے دے
میرے اس درد کو محرومِ دوا رہنے دے
خون ہوجائے نہ جذباتِ محبت کا کہیں
درِ کاشانۂ امید کھلا رہنے دے
………………………
کبھی نالے کبھی فرقت کی آہیں
تیری اُلفت میں کس کس سے نباہیں
جہاں دل نے تمہاری آرزو کی
ابھی نمناک ہیں وہ سجدہ گاہیں
خِرد راہوں میں حائل ہوگئی ہے
جنوں جب ڈھونڈنے نکلا پناہیں
سنبھل کر ، ترکیٔؔ ناداں سنبھل کر
بڑی پُرپیچ ہیں اُلفت کی راہیں
………………………
جب حوادث کی آگ جلتی ہے
زندگی کروٹیں بدلتی ہے
جب زمانہ وفا نہیں کرتا
پھر خدا پر نگاہ پڑتی ہے
عشق نے جا لیا ہے منزل کو
عقل رستے میں سر پٹکتی ہے
جب کوئی آرزو نہیں رہتی
زندگی چین سے گزرتی ہے

اس خوبصورت کتاب کے محض چند منفرد پہلو ہی یہاں بیان ہوپائے ہیں جبکہ کئی روشن دریچے وا ہونے کے لئے آپ کے مطالعہ کے منتظر ہیں۔ خصوصاً مکرم محمد افضل خان ترکی صاحب کی زندگی کے ابتدائی سالوں کے نہایت ایمان افروز حالات و واقعات اسی نتیجہ پر قاری کو پہنچاتے ہیں کہ جس کو بھی خدائے رحیم و کریم اپنی چھتری کے سایہ میں لے لے تو اُس کی زندگی کی پُرپیچ راہوں میں آنے والی ہر تلخی اُسے صبر اور شکر کی لذّات سے آشنا کرتی چلی جاتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں