شہید کون ہوتا ہے

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 3 جولائی 2020ء)

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ 2۔2010ء) کی زینت حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کا یہ ارشاد بھی ہے کہ
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میں سے بہت سے قتل تو ہوں گے مگر

وَلَاتَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتٌ

تم یہ نہ سمجھنا کہ جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں مریں گے وہ مُردہ ہوگئے

بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لَّاتَشْعُرُوْنَ۔

بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم کو ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے۔ اللہ کی راہ میں جو مارا جاوے اسے احیاء کہتے ہیں اور تین طرح سے وہ زندہ ہوتے ہیں جن کو ایک جاہل بھی سمجھ سکتا ہے اور متوسط درجہ کا آدمی بھی، ایک مومن بھی سمجھ سکتا ہے۔ گویا ان کی حیات قائم رہتی ہے اسے تو ایک مومن سمجھ سکتا ہے۔ دوسری بات کہ متوسط درجہ کا عرب سمجھ سکتا ہے کہ اہلِ عرب کا محاورہ ہے کہ جس کا بدلہ لیا جاوے اُسے وہ مُردہ نہیں کہتے بلکہ زندہ کہتے ہیں۔ شہید کے بارے میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جو تم میں سے مرے گااس کا بدلہ لیا جاوے گا۔ تیسری بات کہ ایک جاہل بھی سمجھ سکتا ہے یہ ہے کہ جب میدان ہاتھ آوے اور فتح ہوجاوے تو پھر مُردوں اور مقتولوں کو مُردہ اور مقتول نہیں سمجھتے اور نہ ان کا رنج و غم ہوتا ہے۔ میرا اپنا اعتقاد ہے کہ شہید کو ایک چیونٹی کے برابر بھی درد محسوس نہیں ہوتا اور مَیں نے اس کی نظیریں خود دیکھی ہوئی ہیں۔‘‘
(البدر 20؍مارچ 1903ء)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں