صاحبزادہ حبیب الرحمٰن ۔ قلندر مومند
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍جون 2007ء میں اخبار ’’سنڈے ایکسپریس‘‘ 4؍فروری 2007ء سے ایک تفصیلی مضمون منقول ہے (مرسلہ: مکرم نعیم احمد صاحب) جو محترم صاحبزادہ حبیب الرحمٰن صاحب المعروف قلندرمومند کے بارہ میں ہے۔ قبل ازیں آپ کا ذکرخیر 14؍نومبر 1997ء اور 15؍اگست 2003ء کے شماروں میں اسی کالم کی زینت بن چکا ہے۔
پشتو ادب کے افق پر ستاروں کی طرح چمکنے والے شعراء و ادباء میں منفرد حیثیت کے مالک قلندر مومند بھی ہیں، جن سے پشتو زبان میں ایک نئے ادبی دبستان کا آغاز ہوتا ہے۔ آپ یکم ستمبر 1930ء کو پشاور کے گاؤں بازید خیل میں پیدا ہوئے۔ میٹرک کرکے اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا لیکن سیاسی وجوہ کی بناء پر تعلیم مکمل نہ کر سکے اور محکمہ زراعت میں ملازمت کرلی۔ چند برس بعد اے جی آفس چلے گئے۔ وہاں بھی دل نہ لگا تو ایک کنسٹرکشن کمپنی میں ملازم ہوگئے۔ اس دوران پرائیویٹ طور پر اعلیٰ تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ پھر پشاوریونیورسٹی میںداخل ہوکر انگریزی ادب میں M.A. کیا۔ اس دوران یونیورسٹی کے ’’جرنل آف انگلش لٹریری کلب‘‘ کے مدیر بھی رہے۔ پھر پبلک سروس کمیشن کی وساطت سے انگریزی ادب کے لیکچرر مقرر ہوئے لیکن ملک دشمنی کا جھوٹا الزام لگا کر ملازمت سے فارغ کئے گئے۔ 1973ء میں انہوں نے قانون کا امتحان پاس کیا۔ 1980ء میں گومل یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے لیکچرر مقرر ہوئے۔ 1982ء میں لاء کالج کے پرنسپل بنائے گئے۔1983ء میں پشتو زبان کی ڈکشنری کی تیاری کے دس سالہ منصوبہ کی نگرانی آپ کے سپرد ہوئی، 1993ء میں یہ مشن تکمیل کو پہنچا اور ’’دریاب‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔
قلندر مومند صوبۂ سرحد کی مشہور ادبی تنظیم ’’اولسی ادبی جرگہ‘‘ کے بانی رکن تھے اور اس کے سیکرٹری جنرل بھی رہ چکے تھے۔ 1962ء میں جرگہ کی تحلیل کے بعد آپ نے ادبی تنظیم ’’دساھولیکونکومرکہ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ نیز روزنامہ ’’انجام‘‘ (کراچی)، ’’شہباز‘‘ اور ’’بانگ حرم‘‘ میں مدیر کی حیثیت سے جبکہ سابقہ مشرقی پاکستان سے شائع ہونے والے انگریزی رسالوں’’دی ینگ پاکستان‘‘ اور ویکلی ’’ہالیڈے‘‘ سے بطور نمائندہ وابستہ رہے۔ اس کے علاوہ خیبر میل، پشاور ٹائمز، فرنٹیر گارجین، نقیب، سرحد اور روزنامہ انقلاب سے بھی منسلک رہے۔ روزنامہ مشرق اور روزنامہ ’’آج‘‘ کے کالم نگاری بھی رہے۔ قلندرمومند کی طبع شدہ تصانیف (نظم و نثر) پندرہ سے زیادہ ہیں۔
4فروری 2003ء کو 73سال کی عمرمیں قلندرمومند نے وفات پائی۔
قلندرمومند بہترین کلاسیکی روایات سے وابستہ رہنے والے شاعر ہیں لیکن ترقی پسند تحریک کے زیر اثر بھی تھے۔ انہوں نے اپنے تخلیقی تجربے اور فن شاعری کے تمام اصولوں اور قواعد پر بے پناہ عبور حاصل کرکے پشتو کی جدید غزل کو خشک بغاوت اور نعرہ بازی کے گرداب سے باہر نکال کر اپنی زمین اور سماجی رشتوں سے متعارف کروایا۔ اِس پر چند غزل گو شاعروں نے اُن کے خلاف ہنگامہ بھی برپا کیا اور فتوے جاری کئے۔ جس کا جواب قلندرمومند نے بڑی ثابت قدمی اور جرأت سے اپنے مخالفین کو اپنے اس شعر میں دیا: (ترجمہ) رقیبوں کی غزل کا غرور ٹوٹ گیا تو اب شور مچاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ قلندر کو مصلوب کر دو، کیوں کہ قلندر اشتراکی ہے۔
قلندر مومند نے زبان و ادب کی تاریخ میں کبھی کسی سیاسی، قومی اور ذاتی پسندو ناپسند کا خیال نہیں رکھا۔ بلکہ حقیقت کو تاریخی اسناد اور معتبر دلائل کے ساتھ پیش کیا۔ پشتو ادب کے اوّلین تذکرہ ’’پٹہ خزانہ‘‘ پر تنقیدی معروضات لکھنے پر ان کی ذات اور عقیدہ پر بھی حملے کئے گئے۔ تاہم قلندر مومند نے جواباً کبھی بھی ادبی اخلاق کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ بلکہ اُن کا موقف یہی رہاکہ میں کسی جاہل کو جواب دینے سے خواہ مخواہ اس کی اہمیت کیوں کر تسلیم کر لوں اور اپنا وقت برباد کروں!۔
شاعر، افسانہ نگار، صحافی، مترجم، محقق، نقاد، ماہر لسانیات، ڈرامہ نگار، دانش ور اور کئی زبانوں پر مکمل عبور رکھنے والے قلندر مومند جدید پشتو ادب میں اپنے دیگر ہم عصر شاعروں اور ادیبوں میں ایک منفرد اور جداگانہ علمی حیثیت کے مالک تھے اور بقول خوشحال خان خٹک: ’’چاہے نظم ہو نثر یا املا و انشاء ہو، پشتو زبان پر میرا بے حساب حق ہے‘‘۔ اگر یہ دعویٰ اپنی زندگی میں قلندر مومند کرتے تو شاید غلط نہ ہوتا۔ کیونکہ انہوں نے پشتو زبان میں ایسے شاہکارفن پارے پیش کیے ہیں، جن کے معیار کا ان کے مخالفین بھی اعتراف کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں کے متعلق ڈاکٹر محمد اعظم کا کہنا ہے کہ پشتو افسانے کا آغاز جس نے بھی کیا ہے، تاہم اس کا اختتام قلندر مومند کے لکھے ہوئے افسانے ’’گجرے‘‘ پر ہوا ہے۔
قلندر مومند نے اپنے وسیع علم اور تنقیدی بصیرت سے پشتو زبان کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ضرورت کے تحت ایک نیا رسم الخط بھی وضع کیا۔ وہ ایک شفیق استاد اور مہربان عالم تھے۔ ہر شاگرد کا دعویٰ ہے کہ وہ اُسے دوسروں سے زیادہ چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنی ادبی تنظیم کے پلیٹ فارم سے سینکڑوں شاعروں اور ادیبوں کی تربیت کی اور آج پشتو کے جدید ادب میں جو بڑے بڑے شاعر و ادیب نظر آتے ہیں، ان میں اکثریت اُن کے شاگردوں کی ہے۔
قلندرمومند نے حالات کو نئے زاویوں سے دیکھا ، غزل کی قدیم علامتیں، استعارے اور تلمیحات ان کے ہاں نئے روپ میں ملتی ہیں۔ اُن کی ادب اور صحافت میں اپنے نظریے کے ساتھ پوری وابستگی اور عقیدت ملتی ہے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ میری زندگی کا فلسفہ بہت سادہ ہے جس کی بنیاد سچائی پر ہے۔ زندگی میں میری دلچسپی صرف اتنی ہے کہ میں اپنا کردار اچھی طرح ادا کرسکوں، مجھ سے دنیا کی کوئی طاقت، ادبی اور سیاسی محاذ پر مخالفتوں کا بڑھتا ہوا سیلاب، قید و بند کی صعوبتیں، غربت، بے روزگاری، بیماری اور اپنوںکے دیے ہوئے داغ اور میرا کردار نہیں چھین سکیں، کیونکہ: (ترجمہ) میری روح ایک بھڑکتا ہوا شعلہ ہے، میرا دین الفت اور محبت ہے، میری سیاست ہر جابر اور ظالم سے نفرت ہے۔