صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑاور قبولیت دعا

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍اکتوبر 2003ء میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے بعض صحابہؓ کے قبولیت دعا کے واقعات شامل اشاعت ہیں جنہیں مکرم عطاء الوحید باجوہ صاحب نے مرتب کیا ہے۔

٭ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں: میں نے کسی روایت کے ذریعہ سنا تھا کہ جب بیت اللہ نظر آئے تو اس وقت کوئی ایک دعا مانگ لو وہ ضرور قبول ہوجاتی ہے۔ میں علوم کا اس وقت ماہر تو تھا ہی نہیں جو ضعیف و قوی روایتوں میں امتیاز کرتا۔ مَیں نے دعا مانگی۔ ’’ الٰہی! مَیں تو ہر وقت محتاج ہوں۔ اب مَیں کون کونسی دعا مانگوں۔ پس مَیں یہی دعا مانگتا ہوں کہ جب ضرورت کے وقت تجھ سے دعا مانگوں تو اس کو قبول کرلیا کر‘‘۔ روایت کا حال تو محدثین نے کچھ ایسا ویسا ہی لکھا ہے مگر میرا تجربہ ہے کہ میری تو یہ دعا قبول ہی ہوگئی۔ بڑے بڑے نیچریوں، فلاسفروں، دہریوں سے مباحثہ کا اتفاق ہوا اور ہمیشہ دعا کے ذریعہ مجھ کو کامیابی حاصل ہوئی اور ایمان میں بڑی ترقی ہوتی گئی۔
مزید فرماتے ہیں کہ دھرم پال نے جب کتاب ’’ترک اسلام‘‘ لکھی تو اس سے بہت پہلے مجھے ایک خواب آیا تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’اگر کوئی شخص قرآن شریف کی کوئی آیت کے متعلق تجھ سے پوچھے اور وہ تجھ کو نہ آتی ہو اور پوچھنے والا منکر قرآن ہو تو ہم خودتم کو اس آیت کے متعلق علم دیں گے‘‘۔ جب دھرم پال کی کتاب کے جواب کی توفیق اللہ تعالیٰ نے مجھے دی تو حروف مقطعات کے متعلق اعتراض تک پہنچ کر ایک روز مغرب کی نماز میں دو سجدوں کے درمیان میں نے صرف اتنا ہی خیال کیا کہ مولا! یہ منکر قرآن مقطعات پر سوال کرتا ہے۔ اسی وقت دو سجدوں کے درمیان قلیل عرصہ میں مجھ کو مقطعات کا وسیع علم دیا گیا۔ جس کا ایک کرشمہ میں نے رسالہ نورالدین میں مقطعات کے جواب میں لکھا اور اس کو لکھ کر مَیں خود بھی حیران ہوگیا۔
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی قبولیت دعا کے بارہ میں حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں: ریاست پٹیالہ میں ایک سکھ ذیلدار میرا سخت مخالف تھا۔ پہلے وہاں تحصیلدار اور افسر مال دونوں مسلمان تھے وہ تبدیل ہوکر سکھ افسر مال آگیا۔ ذیلدار نے اس کو بہت بھڑکایا تو اس افسر نے نمبردار کے ذریعہ مجھے گالی دے کر پیغام بھجوایا کہ ملازمت ترک کرکے چلا جاؤں ورنہ سخت سزا دی جائے گی۔ مَیں نے اُسے جواب بھجوایا کہ جس قدر داؤ کرنے ہیں کرلو، مَیں یہاں ملازمت از خود ترک نہیں کروں گا۔ اورگالی کا مَیں جواب نہیں دیتا کیونکہ آپ میرے آفیسر ہیں۔ ہاں اگر میرا خدا چاہے تو وہ خودجواب دے سکتا ہے۔
ظہر کا وقت تھا مَیں نے نماز ادا کی اور اس میں دعا کی۔ دعا کرنے کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کے نام ایک خط میں یہ سارا واقعہ تحریر کیا اور یہ خط اُسی وقت اپنے سسر کے ہاتھ قادیان بھجوادیا۔ جب وہ مسجد مبارک میں داخل ہوئے اس وقت تکبیر ہورہی تھی۔ انہوں نے نہایت سرعت کے ساتھ بڑھ کر نماز شروع ہونے سے پہلے میرا خط حضورؓ کی خدمت میں دیدیا۔ حضورؓ نے نیت باندھنے سے پہلے ہی وہ خط پڑھ لیا اور پچھلی طرف مڑ کر ان سے مخاطب ہوکر فرمایا ان کو لکھ دو، مَیں نے دعا کردی۔ چنانچہ اُسی دن شام کو افسر مال صاحب دورہ پر چلے گئے جہاں جاتے ہی رات ہیضہ ہوگیا۔ وہاں سے رتھ میں پٹیالہ کو روانہ ہوئے۔ جب میرے حلقہ کی حد میں آئے تو فوت ہوگئے۔
٭ حضرت چوہدری ظفراللہ خانصاحب ؓ کی دعا کی قبولیت کا ذکر کرتے ہوئے مکرم بشیر احمد رفیق خان صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت چوہدری صاحبؓ نے بتایا کہ جب مَیں اقوام متحدہ کے سترھویں سیشن کا صدر منتخب ہوا تو میرے دل میں اس بات پر تشویش پیدا ہوئی کہ مَیں نے اسمبلی کے قواعد و ضوابط کا مطالعہ بھی نہیں کیا جبکہ افغانستان کے سفیر دن میں کئی کئی بار پوائنٹ آف آرڈر اٹھانے میں مشہور تھے اور بار بار قواعد کی طرف متوجہ کرکے صدر کو آگے نہیں چلنے دیتے تھے۔ مَیں نے بڑی تضرع سے دعا کی اور میرے مولیٰ نے میری تضرعات کو یوں شرف قبولیت بخشا کہ میری صدارت کے دوران ایک سال کے عرصہ میں ایک بھی پوائنٹ آف آرڈرنہیں اٹھایا گیا اور یوں یہ سیشن اس لحاظ سے بھی ایک تاریخی حیثیت اختیار کر گیا۔
آپ مزید بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر پر مَیں کار چلارہا تھا۔ حضرت چوہدری صاحبؓ میرے ساتھ اگلی سیٹ پر تشریف فرما تھے۔ آپؓ کی عادت تھی کہ ڈرائیور کو کار چلانے کے سلسلہ میں نہ تو کوئی مشورہ دیتے اور نہ ہی ٹوکتے۔ ایک کار میرے آگے جارہی تھی۔ مَیں نے تین چار مرتبہ اس سے آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن جونہی مَیں اپنی کار کی رفتار تیز کرتا، اُس کار کا ڈرائیور بھی اپنی رفتار تیز کر دیتا۔ جب وہ کار ایک طرف مڑی تو حضرت چودھری صاحبؓ کی نظریں مسلسل اس کا تعاقب کرتی رہیں۔ پھر آپؓ فرمانے لگے: جب تک آپ اس کار سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے رہے تو مَیں یہ دعا کرتا رہا کہ آپ اس سے آگے نہ نکل سکیں کیونکہ اس کار کی نمبر پلیٹ پر ALH کے لفظ نمایاں تھے۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے یہ Allah کا مخفف ہیں۔ میرے دل نے گوارہ نہ کیا کہ ہم ایسی کار سے آگے نکل جائیں۔
٭ حضرت خیر دین صاحب ؓ تحریر فرماتے ہیں کہ مَیں نے ایک دفعہ دعا کی کہ اللہ تعالیٰ تیرا قرب پانے کیلئے کون سا طریق اچھا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ دو طریق ہیں، چندہ دو یا دعوت الی اللہ کرو۔ مَیں نے عرض کی کہ اے اللہ تعالیٰ! مَیں تو اتنا پڑھا ہوا نہیں، مَیں دعوت الی اللہ کس طرح کروں؟۔ فرمایا کہ قرآن شریف تو تم کو ہم نے پڑھادیا ہے (کیونکہ جب مَیں اپنے گاؤں میں تھا تو مجھے حضرت مسیح موعودؑ خواب میں ملے تھے اور فرمایا تھا کہ تم قادیان آجاؤ، ہم تمہیں قرآن شریف پڑھادیں گے۔… اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ تم گھی بہت کھایا کرو۔ مَیں نے عرض کیا اس سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: اس سے مراد بہت دعا کرنا ہے۔ اور یہ کہ ’’ جس گھر میں دعا ہوتی ہے وہ گھر موجوں میں رہتا ہے‘‘ پھر یہ بھی آواز سنی کہ ’’ جس کے ساتھ خدا بولتا نہیں وہ مسلمان نہیں ہے‘‘۔
٭ حضرت حافظ محمد حسین صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ بہت عرصہ پہلے رات تہجد کیلئے اٹھا اور مسجد میں چلا گیا۔ اکیلا ہی تھا، نفل پڑھنے کے بعد یکدم خیال آیا کہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ تم خداکے دوست بن جاؤ۔ مدت تک آنسو جاری رہے کہ مولا کریم کا نورانور آیا اور اس نے خاکسار کو اپنی گود میں لے کر پیار فرمایا۔ تھوڑی دیر کے بعد حالت بدل گئی اور اطمینان قلب بفضل الٰہی آج تک بھی بدستور ہے۔
٭ حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ کی قبولیت دعا کا ذکر کرتے ہوئے آپکے صاحبزادے بیان کرتے ہیں کہ 1922ء میں ہماری بھینسیں چوری ہوگئیں۔ کھوج لگایا گیا لیکن چونکہ ان دنوں قادیان میں تھانہ کوئی نہ تھا۔ اسلئے حضرت مصلح موعودؓ کے حکم سے لوگوں نے ان دو گاؤں کو گھیرے میں لے لیا جہاں بھینسیں لے جائی گئی تھیں۔ ایک خاتون کو معلوم ہوا تو بولی کہ مولوی صاحب فرشتہ ہیں تو پھر فرشتے ان کی بھینسیں واپس کر جائیں؟ اگلی رات بھی لوگ پہرہ دیتے رہے اور اباجی تمام رات نماز پڑھتے رہے کہ خدا انہیں ہر شر سے محفوظ رکھے۔ پھر اسی رات چور بھینسیں واپس چھوڑ گئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں