صحابہؓ کا عشق رسولﷺ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5 و 6؍اگست1998ء میں آنحضورﷺ کے صحابہؓ کے ایسے واقعات کا انتخاب مکرم فہیم احمد خادم صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے جو خدام کے اپنے آقا سے بے مثال عشق اور بے ساختہ محبت کے آئینہ دار ہیں-
٭ چاند کی چودھویں تاریخ کی ایک رات تھی جب آنحضورﷺ اپنے صحابہ میں سرخ قبا زیب تن کئے تشریف فرما تھے- حضرت جابرؓ بن سمرہ کبھی روشن چاند کی طرف دیکھتے اور کبھی آنحضورؐ کے رُخ تاباں پر نگاہ ڈالتے- آپؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’مجھے آپؐ کا چہرۂ مبارک، چودھویں کے چاند سے زیادہ روشن اور خوبصورت نظر آیا‘‘- یہ کوئی مبالغہ نہ تھا کیونکہ ھند بن ابی ھالہ کہتے ہیں کہ ’’آپؐ کا چہرہ، چودھویں کے چاند کی طرح روشن تھا‘‘-حضرت کعبؓ بن مالک کا کہنا تھا کہ آنحضورؐ کا چہرہ جب خوشی سے تمتما اٹھتا تو یوں لگتا جیسے چاند کا ٹکڑا ہے-
٭ مسلمان غزوۂ تبوک کے لئے روانہ ہوچکے تھے- گرمی کی شدت تھی اور دوردراز کا سفر تھا- ایک صحابی مدینہ پہنچے تو اُن کی دو بیویوں نے دو سائبان تیار کرکے چھڑکاؤ کر رکھا تھا اور ٹھنڈے پانی اور کھانے کا انتظام کیا ہوا تھا- آپؓ گھر میں داخل ہونے لگے تو سائبان کی دہلیز پر کھڑے ہوگئے اور رسول اللہ کی سفر کی صعوبتوں کو ذہن میں لاکر بے ساختہ کہا، خدا کا رسولؐ تو باہر دھوپ، لُو اور گرمی میں ہو … بخدا میں کسی ایک کے سائبان میں بھی داخل نہیں ہوں گا میں تو آنحضورﷺ کے پیچھے جاتا ہوں-
٭ آنحضورﷺ کے خادم حضرت ابو فراس ربیعہ بن کعبؓ تھے- ایک روز تہجد کے وقت جب خادم اپنے آقا کے وضو کیلئے پانی لایا تو آپؐ نے فرمایا ’’مجھ سے مانگو، تیری کیا آرزو ہے؟‘‘- انہوں نے عرض کیا مجھے اور تو کچھ نہیں چاہئے بس یہ کہ جنّت میں بھی آپؐ کی رفاقت نصیب ہو- فرمایا کوئی اَور تمناّ؟- عرض کی میری تو بس یہی تمنّا ہے- تب آپؐ نے فرمایا کہ میری اس طرح مدد کرو کہ عبادت کثرت سے بجا لایا کرو-
٭ آنحضورﷺ کو جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کی اجازت ملی تو آپؐ حضرت ابو بکرؓ کے پاس تشریف لائے اور یہ خبر پہنچائی- آپؓ نے بے ساختہ عرض کیا، یا رسول اللہ مجھے بھی ساتھ لے جائیں- فرمایا ’’ضرور‘‘- یہ سن کر آپؓ اتنے خوش ہوئے کہ آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے-
٭ قریش کا سفیر عروہ، صلح حدیبیہ کے موقع پر آیا تو گستاخی سے آنحضورﷺ سے بولا کہ اگر قریش کو غلبہ مل گیا تو انہیں (صحابہؓ کو) بھاگتے دیر نہیں لگے گی- حضرت ابوبکرؓ نے فوراً جواب دیا، جاؤ جاؤ لات کے پجاریو! کیا ہم بھاگ جائیں گے!َ کیا ہم رسول اللہ کو چھوڑ جائیں گے!؟-
اسی عروہ نے واپس جاکر قریش سے کہا کہ اے میری قوم! میں قیصر، کسریٰ اور نجاشی کے درباروں میں گیا ہوں، خدا کی قسم! جتنی عزت محمدؐ کے اصحابؓ اس کی کرتے ہیں اتنی عزت میں نے کسی بادشاہ کی، اس کے ساتھیوں کو کرتے نہیں دیکھا- جب وہ وضو کرتے ہیں تو صحابہؓ بچے کھچے پانی کے حصول کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں، اُن کے سامنے دھیمی آواز اور جھکی نظروں سے گفتگو کرتے ہیں-
٭ حضرت ابو ایوبؓ انصاری وہ خوش نصیب صحابی تھے جنہیں ہجرت کے بعد آنحضورﷺ کی مہمان نوازی کا شرف حاصل ہوا-ان کے مکان کے اوپر تلے دو حصے تھے- انہوں نے اوپر والا حصہ پیش کیا لیکن آنحضورﷺ نے اپنی اور ملاقاتیوں کی سہولت کے لئے نچلا حصہ پسند فرمایا- ایک رات اوپر والے حصہ کے فرش پر پانی گر گیا تو حضرت ابو ایوبؓ انصاری اور اُن کی اہلیہ نے اس ڈر سے کہ کہیں پانی نیچے نہ ٹپک پڑے، اپنا لحاف پانی پر ڈال دیا اور یوں پانی جذب کیا-
حضرت ابو ایوبؓ انصاری روزانہ آنحضور ﷺ کی خدمت میں کھانا بھجواتے اور جو کھانا بچ کر واپس آتا اُس پر آنحضورﷺ کی انگلیوں کے نشان دیکھتے اور جس طرف سے آپؐ نے نوش فرمایا ہوتا وہاں سے کھاتے-
٭ حضرت زیدؓ بن دثنہ کو قریش نے دھوکے سے گرفتار کیا اور جب آپؓ کو مقتل میں لے جایا گیا تو ابوسفیان نے پوچھا کہ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ آج تمہاری جگہ محمدؐ ہوتے اور تم اپنے گھر میں آرام سے بیٹھے ہوتے- حضرت زیدؓ نے تڑپ کر جواب دیا خدا کی قسم! مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ محمدﷺ کو ایک کانٹا بھی چبھ جائے اور میں اپنے اہل و عیال میں آرام سے بیٹھا رہوں-
٭ حضرت ابو بکرؓ کو ایک بار قریش نے اس قدر مارا کہ آپؓ کے قریب المرگ ہونے میں کسی کو شبہ نہ رہا- لیکن جب بھی آپؓ کو ہوش آیا تو آپؓ کے منہ سے یہی جملہ نکلا کہ محمد رسول اللہﷺ کا کیا حال ہے؟
٭ صحابہؓ تو آنحضورؐ کے رُخ انور پر اپنی جانیں وارنے کے لئے تیار بیٹھے تھے- جنگ بدر کے موقع پر حضرت مقداد بن اسودؓ نے اپنے ساتھیوں کی نمائندگی میں عرض کیا کہ ہم آپؐ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی صف آراء ہوں گے، آگے بھی صف بستہ ہوں گے اور پیچھے بھی دشمن سے نبرد آزما ہوں گے-
٭ جنگ بدر کے موقع پر جب ایک صحابیؓ کے پیٹ پر تیر لگاکر آنحضورﷺ نے صفیں سیدھی کرنے کی ہدایت کی تو انہوں نے آپؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ اس تیر سے مجھے تکلیف پہنچی ہے اور میں بدلہ لینا چاہتا ہوں- آپؐ نے اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھاکر فرمایا بدلہ لے لو- صحابیؓ آگے بڑھے اور آپؐ کے جسم سے لپٹ کر بوسہ لے لیا- بعد میں اپنے ساتھیوں سے کہا ممکن ہے یہ میری آپؐ سے آخری ملاقات ہو- میں نے چاہا کہ زندگی کے اس آخری موقع پر میرا جسم آپؐ کے جسم مبارک سے چُھو جائے-
٭ جنگ احد میں جب آنحضورﷺ کی شہادت کی افواہ پھیلی تو کئی صحابہؓ حواس باختہ ہوگئے اور سراسیمگی کی حالت میں ہمّت ہار بیٹھے- ایسے میں انسؓ بن نضر نے بے ساختہ کہا ، اب بھلا آپؐ کے بعد زندگی کس کام کی؟ اٹھو اور اس مقصد کے لئے مَر مٹو جس کے لئے آنحضورؐ نے جان دی ہے- یہ کہہ کر اکیلے ہی دشمن کی صفوں میں گھُس گئے اور جوانمردی سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے- آپؓ کے جسم پر ستر زخم آئے ، نعش پہچانی نہ جاتی تھی- آپؓ کی ہمشیرہ نے انگلیوں سے پہچانی-
٭ جنگ احد کے معاً بعد آنحضورﷺ نے حضرت سعدؓ بن ربیع کا پتہ کروایا- ایک انصاری اُن کی تلاش میں نکلے اور زخمیوں اور نعشوںکے پاس آوازیں دینے لگے لیکن کوئی جواب نہ ملا- تب انہوں نے کہا ’’اے سعد! مجھے آنحضرتﷺ نے آپ کی خبر لانے کے لئے بھیجا ہے‘‘- تب ایک نحیف آواز آئی، دیکھا تو سعدؓ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں- انہوں نے ایسے وقت میں یہی پیغام دیا کہ آنحضورؐ کی خدمت میں سلام عرض کرنا … میری قوم کو بھی سلام دینا اور کہنا کہ اگر تمہارے جیتے جی رسول اللہ کو کوئی گزند پہنچی تو خدا کے سامنے تمہارا کوئی عذر قبول نہ ہوگا-
٭ جنگ احد کے دوران ہی ایک موقع پر جب آنحضورﷺ دشمن کے نرغہ میں آگئے تو حضرت زیادؓ بن سکن پانچ انصار کے ساتھ آگے بڑھے- پانچوں یکے بعد دیگرے اپنی جانوں کا نذرانہ دیتے رہے- حضرت زیادؓ لہو لہان ہوگئے کہ صحابہ کی ایک جماعت نے کفار کو پیچھے دھکیل دیا- آنحضورﷺ نے فرمایا زیاد کو میرے قریب کردو- شدید زخمی زیادؓ کو قریب کردیا گیا اور آپؓ نے پوری قوّت سے اپنے جسم کو جنبش دی اور اپنا سر آپؐ کے قدموں میں رکھ دیا اور اس حالت میں جان دی کہ آپؓ کے گال آنحضورؐ کے قدموں سے پیوست تھے-
٭ ایسے ہی ایک موقع پر جب دشمن کے حملہ کا رُخ آنحضورﷺ کی طرف تھا، روایت کے مطابق تیس کے قریب صحابہ پروانوں کی مانند آپؐ کے گرد جمع تھے اور باری باری ہر ایک صحابی حضورؐ کے آگے گھٹنے ٹیک کر، ادب سے اپنی جان نثاری کا اس طرح اظہار کرتا تھا کہ میرا چہرہ، آپؐ کے رُخ انور پر قربان ہو، میرا وجود آپؐ پر نثار ہو، (میرے آقا!) آپؐ پر ہمیشہ ہمیش سلامتی نازل ہوتی رہے-
٭ جنگ احد سے واپسی پر ایک عورت کو اطلاع ملی کہ اُس کا والد، خاوند اور بھائی جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں- لیکن جب اُس کی نظر آنحضورﷺ پر پڑی تو وہ اپنے ہر غم سے بے نیاز ہوکر کہنے لگی اگر آپؐ بخیریت ہیں تو پھر ہر مصیبت ہیچ ہے-
٭ حضرت عمروؓ بن عاص بیان کرتے ہیں کہ ایک وہ وقت تھا کہ مجھے آنحضورﷺ سے ایسا بغض تھا کہ میری یہی خواہش ہوتی کہ اگر موقع ملے تو آپؐ کو (نعوذباللہ) قتل کردوں- لیکن بیعت کے بعد مجھے آنحضور ﷺ سے زیادہ کوئی محبوب نہ تھا –
٭ حضرت حسّان بن ثابت نے آنحضورﷺ کی وفات پر جو مرثیہ لکھا اُس میں کہا کہ آپؐ کے بغیر یہ زندگی بے رونق اور بوجھ ہوگئی ہے اور جینا دشوار ہوگیا ہے- آپؐ کے بعد کوئی بھی مَرے تو اب کیا پرواہ ہے!-