صحابہؓ کرام کی مہمان نوازی
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے سالانہ نمبر1999ء میں شامل اشاعت مکرم حبیب الرحمان زیروی صاحب کے مضمون میں صحابہ رسولؐ کے خلق مہمان نوازی کا تفصیلی بیان ہے۔
جب مالی حالات اچھے نہ تھے تو ایک مہمان دربار نبوی میں آیا۔ آنحضرتﷺ کے تحریک فرمانے پر ایک صحابیؓ اُس مہمان کو رات ٹھہرانے کے لئے اپنے ہاں لے گئے۔ اُن کی بیوی نے بتایا کہ کھانا صرف اتنا ہے جو بچوں کو کفایت کرسکے۔ اس پر صحابیؓ نے کہا کہ بچوں کو دلاسا دے کر سلادو اور کھانا مہمان کو کھلادو۔ اگر مہمان اصرار کرے کہ میزبان بھی کھانے میں شامل ہوں تو بیوی روشنی ٹھیک کرنے کا بہانہ کرکے چراغ گُل کردے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور دونوں میاں بیوی یونہی بیٹھے منہ مارتے رہے لیکن مہمان نے سیر ہوکر کھانا کھایا۔ اللہ تعالیٰ کو اُن کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ رسول کریمﷺ کو وحی کے ذریعہ اس واقعہ کی خبر دی۔
ابوعزیز بن عمیر جنگ بدر میں قیدی ہوکر آیا۔ وہ کہتا ہے کہ مسلمان مجھے تو پکی ہوئی روٹی دیتے تھے اور خود کھجوریں وغیرہ کھاکر گزارہ کرلیتے تھے۔ اگر اُن کے پاس روٹی کا ٹکڑا بھی ہوتا تو مجھے دیدیتے اور خود نہ کھاتے، اگر مَیں تامل کرتا تو اصرار کے ساتھ کھلاتے تھے۔
حضرت امّ شریکؓ ایک دولتمند صحابیہ تھیں۔ انہوں نے اپنے مکان کو مہمان خانہ بنادیا تھا۔ آنحضورﷺ کی خدمت میں جو باہر سے مہمان آتے وہ اکثر ان ہی کے مکان پر ٹھہرتے تھے۔
حضرت جابرؓ کی روایت ہے کہ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اُس قوم کے لئے ہلاکت ہے جو اُس چیز کو اپنے ساتھیوں کے سامنے پیش کرنے میں حقارت محسوس کرے جو اُس کے گھر میں ہے۔
ابویعلی کی ایک روایت ہے کہ آدمی کی شرارت کے لئے یہی بات کافی ہے کہ جو چیز اُس کے سامنے پیش کی جائے، اُسے حقیر سمجھے۔
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنے اصحاب سے فرماتے کہ ہر آدمی اپنی وسعت کے مطابق کچھ مہمان اپنے ہمراہ لے جائے۔ چنانچہ کوئی ایک آدمی کو لے جاتا، کوئی دو کو اور کوئی تین کو اور باقی لوگوں کو رسول اللہﷺ اپنے ساتھ لے جاتے۔