صحابہؓ کرام کی ہمدردیٔ خَلق
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے سالانہ نمبر1999ء میں شامل اشاعت مکرم انتصار احمد نذر صاحب کے ایک مضمون میں صحابہ رسولؐ کی ہمدردیٔ خلق کے حیرت انگیز واقعات کا بیان ہے۔
صحابہؓ عام بنی نوع انسان کے لئے سرتاپا ہمدردی میں غرق تھے۔ جب اخوت کے رشتے میں باندھے گئے تو اپنی جائیدادیں بھی اپنے بھائیوں کو پیش کردیں۔ خدا تعالیٰ نے خود صحابہؓ کے بارہ میں گواہی دی ’’وہ باوجود خود بھوکے ہونے کے دوسروں کو اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں‘‘۔
عرب معاشرہ میں صحابہؓ نے غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی بنیادیں ڈالیں۔ یتیم کے حقوق کا خاص طور پر تحفظ کرنے لگے۔ اصحاب صفہ وہ مساکین تھے جن کا کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا۔ بعض صحابہؓ روزانہ ایک ایک یا دو دو مساکین کو اپنے گھر لے جاکر کھانا کھلاتے۔ حضرت سعد بن عبادہؓ بعض دفعہ اسّی اسّی آدمیوں کو اپنے گھر کھانا کھلاتے۔ اسی طرح حضرت جعفرؓ بن ابی طالب کا سلوک بھی اصحاب صفہ سے بہت محبت کا تھا۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ لوگوں میں سے مسکین کے ساتھ حسن معاملت کرنے میں حضرت جعفرؓ سب سے بہتر تھے۔ وہ مساکین کو گھر لے جاکر جو کچھ میسر ہوتا سامنے رکھ دیتے۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ ہماری بھوک کا یہ عالم ہوتا کہ گھی کا خالی برتن بھی چاٹ لیتے۔
امّ المومنین حضرت زینبؓ بہت صدقہ و خیرات کرتی تھیں۔ آنحضورﷺ نے ایک بار فرمایا کہ تم (یعنی ازواج مطہرات) میں سے مجھے سب سے پہلے وہ آن ملے گی جس کے ہاتھ لمبے ہوں گے۔ چنانچہ آنحضورﷺ کے بعد ازواج مطہرات میں سے سب سے پہلے آپؓ نے وفات پائی اور تب ازواج کو یہ بات سمجھ آئی کہ لمبے ہاتھ سے مراد صدقہ و خیرات کی عادت ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کسی مسکین یا غریب کو شامل کئے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے۔
آنحضورﷺ نے اشعری قبیلہ کے لوگوں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ جب جنگ کے وقت زادراہ ختم ہوجائے یا کھانا کم پڑ جائے تو جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے اسے ایک کپڑے میں جمع کرلیتے ہیں اور پھر برابر تقسیم کرلیتے ہیں۔ پھر فرمایا: وہ مجھ سے ہیں اور مَیں اُن سے ہوں۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ دوسروں کے چھوٹے چھوٹے کام کردیا کرتے تھے۔ آپؓ مدینہ کے ایک گھر میں بکریوں کا دودھ دوہ دیتے تھے۔ جب آپؓ خلیفہ بنے تو اُس گھر کی ایک کمسن لڑکی نے سادگی سے پوچھا کہ اب ہماری بکریوں کا دودھ کون دوہے گا؟ حضرت ابوبکرؓ کو علم ہوا تو فرمایا کہ مَیں ہی تمہاری بکریاں دوہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے جو منصب عطا فرمایا ہے اس سے میرے اخلاق تبدیل نہیں ہوں گے۔
حضرت سلمان فارسیؓ غلامی کی حالت میں مدینہ آئے اور اسلام قبول کیا تو آنحضورﷺ نے انہیں فرمایا کہ مکاتب بن جاؤ (یعنی اپنے مالک سے ایک خاص رقم کا معاہدہ کرلو کہ اتنی کماکر دوں گا تو آزاد ہوجاؤں گا)۔ وہ اپنے مالک سے مسلسل درخواست کرتے رہے، آخر اُس نے کھجور کے تین سو پودے لگانے اور چالیس اوقیہ چاندی دینے کے عوض آپؓ کو مکاتب بنادیا۔ رسول اللہﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ اپنے بھائی کی کھجور کے پودوں سے مدد کرو۔ چنانچہ صحابہؓ نے مل کر گڑھے کھودے اور پودے فراہم کئے تو آنحضورﷺ کو اطلاع دی۔ آپؐ تشریف لائے اور اپنے ہاتھوں سے پودے گڑھوں میں رکھے اور دعا کی۔ حضرت سلمان فارسیؓ کہتے ہیں کہ ان میں سے کوئی پودا نہیں مرجھایا۔
آنحضورﷺ کے علم میں یہ بات آتی کہ کسی نے اپنے غلا م کو مارا ہے تو آپؐ اس غلام کو آزاد کرنے کا حکم دیتے جس کی صحابہؓ فوری تعمیل کرتے۔