صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت خلق
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے سالانہ نمبر 2011ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے اصحاب کی ہمدردیٔ خلق کے بارہ میں مکرم ابن احمد صاحب کا مضمون شامل اشاعت ہے۔
٭ حضرت خلیفۃالمسیح الاول رضی اللہ عنہ کے متعلق حضرت شیخ فضل احمد صاحبؓ بٹالوی اپنے مشاہدات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ایک دن ایک یتیم بچہ آیا اور اس نے شاید رضائی بنوانے کے لئے پندرہ بیس روپے کا مطالبہ کیا جو آپ نے فوراً پورا کردیا۔
حضرت شیخ صاحبؓ مزید فرماتے ہیں کہ ایک دن مَیں آپؓکی خدمت میں حاضر تھا۔ وہاں ایک نوجوان لڑکا جو زمیندار معلوم ہوتا تھا اور بہت غریب تھا بیٹھا تھا۔ اتنے میں ہمارے بعض احمدی بھائی جن میں ایک ذیلدار اور کچھ معزز زمیندار تھے آئے اور تھوڑی دیر بعد اس غریب لڑکے کے متعلق سفارش کے طور پر عرض کیا کہ یہ واقعی غریب ہے۔ حضور خاموش رہے۔ جب ان افراد نے دوبارہ یہی بات کہی تو آپ نے حضرت حکیم صوفی غلام محمد صاحبؓ امرتسری کو ارشاد فرمایا کہ وہ بتلائیں کہ ہم اس نوجوان کے لئے کیا کررہے ہیں۔ صوفی صاحب نے بتایا کہ حضورؓ نے اس کے لئے پہلے فلاں اٹھارہ بیس روپے کی دوائی لاہور سے منگوائی جو موافق نہ آئی۔ پھر آپؓ نے فلاں دوائی منگوائی جس پر اتنے روپے خرچ ہوئے۔ پھر اس کے لئے پرہیزی کھانے کا انتظام کیا ہوا ہے اور اسے علیحدہ مکان دیا ہوا ہے اور اس پر بہت سا خرچ اب تک کیا ہے۔ حضور نے ان زمیندار بھائیوں سے کہا کہ اگر ہمیں الٰہی خوف یا فرمایا الٰہی محبت نہ ہوتی تو کس طرح ہم اتنا خرچ اس پر کرتے۔ یہ بیچارہ تو بالکل نادار ہے۔
٭ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کے بارہ میں حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ تحریر کرتے ہیں: مخلوق کی ہمدردی اور بھلائی کے لئے اُن کے دل میں درد تھا۔ چنانچہ دارالضعفاء اُن بہت سے کاموں میں سے ایک ہے جو آپؓ نے رفاہ عام کے لئے تیار کئے۔ قادیان میں ابتدا میں مکانات کی بڑی قلّت تھی اور سلسلہ کے غربا کے لئے تو اَور بھی مشکل تھی۔ اس ضرورت کا احساس کرکے انہوں نے جماعت کے غریب مہاجرین کے لئے کوٹھے بنانے کے لئے ایک تحریک شروع کی۔ اس کے لئے خود زمین دی اور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے اس کی بِنا رکھی۔
اسی طرح عام پبلک کے فائدہ کے لئے انہوں نے ایک ہسپتال کے لئے چندہ جمع کرنا شروع کیا اور چوہڑوں تک سے اس میں چندہ لیا۔ یہ اُن کی بے نفسی اور اخلاص کی ایک مثال ہے۔ وہ خداتعالیٰ کی مخلوق سے ربوبیت عامہ کے فیضان کو پا کر تفریق نہ کرسکتے تھے۔ آپؓ ہر اس کام میں جو کسی حیثیت سے رفاہ عام کا کام ہو بہت دلچسپی لیتے تھے اور جب تک اس کام کو کر نہ لیتے تھے سست نہ ہوتے تھے۔
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ یتیموں کی خبرگیری کی طرف بہت توجہ دیتے تھے۔ ایک دفعہ شدید بخار تھا اور نقاہت تھی۔ کارکن نے آکر کہا کہ کھانے کے لئے جنس کی کمی ہے اور کہیں سے انتظام نہیں ہورہا۔ لڑکوں نے صبح سے ناشتہ بھی نہیں کیا ہوا۔ آپؑ فوراً تانگے میں بیٹھ کر مخیر حضرات کے گھروں میں گئے اور جنس اکٹھی کی اور پھر ان بچوں کے کھانے کا انتظام ہوا۔ تویہ جذبے تھے ہمارے بزرگوں کے کہ بخار کی حالت میں بھی اپنے آرام کو قربان کیا اور یتیم بچوں کی خاطر گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا! آپؓ کے سامنے تو اپنے آقا ﷺ کی یہ خوشخبری تھی کہ مَیں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں اس طرح ساتھ ساتھ ہوں گے جس طرح یہ دو انگلیاں ہوتی ہیں۔
٭ محترم حافظ قدرت اللہ صاحب اپنے والد حضرت مولوی عبداللہ صاحبؓ بوتالوی کے بارہ میں بیان کرتے ہیں: ایسے افراد کی تعداد کافی زیادہ ہے جن کو آپؓ نے گھر رکھ کر اور تمام اخراجات خود برداشت کرکے کتابت وغیرہ کا کام سکھایا یا محکمہ میں انہیں چھوٹی موٹی ملازمت دلوائی۔ بعضوں کی شادیاں خود کرائیں اور ان کی تمام تر ذمہ داری کو اپنے اوپر لیا۔ اور پھر لطف کی بات یہ ہے کہ ان تمام نیکیوں کو جتانا آپ کی طبیعت میں نہ تھا بلکہ جب ایسے لوگ آسودہ حال ہو گئے تب بھی ان سے کوئی ایسی غرض وابستہ نہ رکھی بلکہ محض خدا کے لئے یہ کام کئے۔
٭ حضرت بابو فقیر علی صاحبؓ کو امرتسر کی تعیناتی کے عرصہ میں خصوصاً احمدی مسافروں کی خدمت کا خوب موقع ملا۔ ایک مسلمان ہیڈماسٹر اپنے خاندان سمیت دس روز تک آپؓ کے ہاں مقیم رہے۔ اس دوران اُن کے ہاں چار لڑکیوں کے بعد پہلے بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ آپؓ اور آپؓکی اہلیہ نے اُن کی غیرمعمولی ہمدردی اور خدمت کی۔
٭ حضرت مرزا رسول بیگ صاحبؓ کے دل میں غربا اور خصوصاً بیوگان کے لئے بے حد درد تھا اور ان کی خبرگیری بہت ہمدردی اور توجہ سے کرتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ سائل کو خالی واپس نہیں کرنا چاہئے۔ اگر پاس کچھ نہ ہو تو لطیفہ یا دلجوئی کی بات سنا کر ہی اسے خوش کردینا چاہئے۔
٭ حضرت ملک مولا بخش صاحبؓ کو ہومیوپیتھک طریقۂ علاج کا بہت شوق تھا۔ آپؓ گورداسپور میں اپنی ملازمت میں ہومیوپیتھک ادویہ سے بہت متأثر ہوئے۔ اس کے متعلق ہمیشہ کتابیں منگواتے رہتے، مطالعہ کرتے تھے اور علاج کرلیتے تھے۔ ادویہ لوگوں کو مفت دیتے تھے اور اگر کوئی ان کے عوض کچھ دیتا بھی تو نہ لیتے بلکہ صاف کہہ دیتے کہ میرا ان پر خرچ نہ ہونے کے برابر ہے اور ان کا اثر میرے خرچ سے کئی گنا خوشکُن ہے اس لئے صحتیاب ہوکر میرے لئے دعا کریں۔ بعد میں آپ نے یونانی، ویدک اور ایلوپیتھی کی چند دواؤں سے متأثر ہو کر بعض نسخے بنوا لئے تھے۔ چونکہ تقسیم ملک کے بعد آمدنی کا وہ پہلا سلسلہ نہ تھا اس لئے آخری چند ماہ میں آپ کسی کسی خاص دوائی کی قیمتِ لاگت لے لیتے تھے۔
٭ حضرت سیٹھ شیخ حسن صاحبؓ کو اللہ تعالیٰ نے امارت کے ساتھ ہی حد درجہ فیاض دل بھی عطا کیا تھا۔ آپؓ غربا، یتامیٰ اور بیوگان کی اپنے گھر میں عزیزوں کی طرح پرورش کرتے اور انہیں کبھی خادم خیال نہ کرتے۔ کسی کے سوال کو ردّ کرنا جانتے ہی نہ تھے۔ جذامیوں کے ایک پورے خاندان کی اُن سب کی وفات تک پرورش کی۔ آپؓ کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی تھی کہ غربا اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں۔ کئی خاندانوں کو روپیہ دے دیا تاکہ چھوٹاموٹا کاروبار کرکے آہستہ آہستہ رقم ادا کرتے جائیں۔ چنانچہ کئی سو خاندان اپنے پاؤں پر کھڑے ہوگئے جن میں سے کئی ایک کا کام آپؓ کے کام کے برابر تھا۔ اگر آپ کے کارخانہ کے منتظم کسی وجہ سے کسی شخص کو کام سے الگ کر دیتے تو آپؓ اُس کی بے روزگاری دُور کرنے کے لئے کوئی اور راہ سوچتے یا اس کے لئے روزگار مہیا ہونے کے لئے دعا کرتے۔ ایک دفعہ آپؓ نے یادگیر کے تمام جولاہوں کو جمع کرکے نصیحت کی کہ آئندہ تمہارا یہ کام نہ چل سکے گا اس لئے ابھی سے یہ کام ترک کرکے کوئی اور کام شروع کردو۔ چنانچہ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ اس کے بعد ان کا کام بند ہوگیا۔ جنہوں نے آپ کی نصیحت پر عمل کرکے کوئی اَور کام شروع کر دیا تھا بہت فائدہ میں رہے اور دوسروں کو تکلیف اٹھانا پڑی۔
آپؓ نے سینکڑوں شادیاں اپنے خرچ پر کرائیں۔ سینکڑوں مقروضوں نے آپؓ کو روپیہ واپس نہیں کیا۔ آپؓ بھی کبھی کسی سے قرض کی واپسی کا مطالبہ نہ کرتے بلکہ جب کوئی توجہ دلاتا تو فرماتے کہ اگر ان غربا کے پاس روپیہ ہوتا تو خود ہی لا کر دے دیتے۔ بے شمار مقروضوں کی قرض کی دستاویزات جلا دیں جن سے قریباً دو لاکھ روپیہ لینا تھا۔ آپ ہمیشہ ٹانگہ وغیرہ والوں کو حق سے زیادہ رقم دیتے۔ اگر اس کا بچہ ساتھ ہوتا تو اسے بھی کچھ رقم دے دیتے۔
ایک پٹواری سے آپؓ نے ایک باغیچہ خرید کر رجسٹری کرالیا۔ کچھ عرصہ بعد وہ فوت ہوگیا۔ اس کی بیوہ اور بچوں اور بھائی کے کہنے پر آپؓ نے وہ باغیچہ مفت میں واپس کردیا۔
چونکہ آپؓ نرم طبع تھے اس لئے جو کوئی سوال کرتا امداد حاصل کرلیتا۔ ایک تحصیلدار ایک روز کہنے لگا سیٹھ صاحب! لوگ آپ کو دھوکہ دے کر روپیہ لے جاتے ہیں۔ آپؓ ہنس کر فرمانے لگے کہ شکر ہے مَیں کسی کو دھوکہ نہیں دیتا۔
بعدازاں اسی شخص نے اپنی کوئی شدید ضرورت بتاکر ایک ہزار روپیہ آپؓ سے قرض لیا جو سترہ سال گزرنے پر بھی ادا نہیں کیا۔
ایک دفعہ آپؓ اپنے ایک کاریگر کے گھر گئے۔ مکان تنگ پایا۔ اُسے کہا کہ مجھ سے قرض لے کر مکان کو وسیع کرلو۔ کہنے لگا کہ قرض کی ادائیگی مشکل امر ہے۔ فرمایا کہ تم قرض تو لے لو، ادائیگی کا قصہ بعد میں دیکھا جائے گا۔
آپ سینکڑوں روپے ماہوار خفیہ خیرات کرتے تھے اور رمضان میں خصوصاً زیادہ خیرات کرتے تھے۔ ہر مذہب کے لوگ آپؓ سے وظائف پاتے تھے۔ آپؓ کی طرف سے کی جانے والی خفیہ خیرات کا علم تب ہوا جب آپؓ کی وفات کے بعد ان لوگوں کے وظائف رُکے اور انہوں نے مطالبہ کیا۔ چنانچہ آپؓ کے بیٹے سیٹھ عبدالحئی صاحب نے یہ وظائف دوبارہ جاری کردیئے۔
محترم سیٹھ محمد اعظم صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیٹھ صاحب ہمیشہ پوشیدہ طور پر امداد دیتے تھے۔ آپ کا طریق یہ تھا کہ مثلاً کوئی محتاج آیا اس نے کہا کہ میری لڑکی کی شادی ہونے والی ہے۔ روپیہ نہیں تو آپ کہتے کہ کل صبح کو سیر کو جاؤں گا تو میرے ساتھ چلنا۔ رات کو نوکر کے ذریعہ کچھ روپیہ منگوا کر جیب میں رکھ لیا کرتے اور حسب معمول صبح سیر کو جاتے تو اُس شخص کو ساتھ لیتے اور بالکل علیحدگی میں اسے رقم دیدیتے۔ کبھی کسی کو خالی واپس نہ کرتے۔ جب کاروبار میں نقصان ہوا تو بہت زیادہ زیربار ہو جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ سائل بدستور آتے۔ آپؓ کہتے کہ اب تو میرے پاس روپیہ نہیں، تو وہ اپنی ضروریات بیان کرکے کہتے کہ آپؓ فلاں شخص کے نام چٹھی لکھ دیں ہم اس سے رقم حاصل کرلیں گے۔ چنانچہ آپؓ بعض متموّل آدمیوں کے نام لکھ دیتے کہ آپؓ کے حساب میں انہیں قرض دے دیں۔ سو کاروباری حالت میں ضعف آنے کے ساتھ ساتھ ایسا قرض بھی بڑھتا گیا۔ لیکن آپ کی طبیعت ایسی واقع ہوئی تھی کہ گھبراہٹ نام تک کو نہ ہوتی۔ چنانچہ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہوا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے سو برس کی لمبی عمر عطا کی اور اس وقت تک وفات نہ دی جب تک کہ قرضوں کی ایک ایک پائی سے سبکدوش نہ ہوگئے۔ آپؓ کی حد درجہ کی فیاضی کی وجہ سے مشہور تھا کہ لوگوں کو پیسے دے کر احمدی بناتے ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے لوگ یہ طریق اختیار کرتے تھے کہ آپ کے پاس آئے دو ایک روز آپ کے ہمراہ نمازیں پڑھیں۔ پھر اپنی حاجت پیش کردی اور چارپانچ سو روپیہ لے لیا۔ بعض لوگ آپ سے کہتے بھی کہ یہ دکھاوے کے لئے نمازیں پڑھنے آئے ہیں۔ لیکن آپ کہتے کہ ہمیں کیا علم کہ ان کی کیا نیت ہے۔
رفاہ عام کے کسی کام سے دریغ نہیں کیا۔ آپ کے کارخانے مہمان خانہ کا کام دیتے۔ آپ نے مسجد احمدیہ یادگیر کے قریب احمدیہ مہمان خانہ بھی تعمیر کیا۔ آپ کا دسترخوان بہت وسیع ہوتا تھا۔ تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہی جاتی تھی۔ یادگیر میں آپ نے ایک ’’احمدیہ دواخانہ انگریزی‘‘ اور ایک ’’احمدیہ دواخانہ یونانی‘‘ قائم کررکھے تھے۔ گھروں پر بیماروں کو دیکھنا، ادویہ، علاج سب کچھ بلالحاظ مذہب و ملّت مفت ہوتا تھا۔ بسااوقات سرکاری ہسپتال والے بھی احمدیہ دواخانہ انگریزی سے جن ادویہ کی ضرورت پڑتی مفت منگوالیتے تھے۔ ڈاکٹروں، اطباء، عملہ اور ادویہ وغیرہ کے جملہ اخراجات سیٹھ صاحب برداشت کرتے تھے۔ مولوی عبدالقادر صاحب فرائضی احمدی سے بہت سی کتب، طب، عربی صرف و نحو دینیات اور عقائد پر تصنیف کراکے سیٹھ صاحب نے اپنے خرچ پر شائع کیں۔
ایک دفعہ قحط کی وجہ سے عوام کو بہت تکلیف تھی۔ حضرت سیٹھ صاحبؓ نے پانی کی قلّت کے دُور کرنے کے لئے اپنے باغ کا انجن اکھڑواکر بستی کے باہر تالاب کے پاس لگوادیا اور تین ماہ تک اپنے خرچ پر اسے چلایا۔ کئی جگہ باؤلیاں بنوائیں۔ سرکاری مدرسہ یادگیر کو ایک بیش بہا زمین عطیہ دی۔
محترم ملک صلاح الدین صاحب (مؤلف ’’اصحابِ احمدؑ‘‘) لکھتے ہیں کہ حضرت سیٹھ شیخ حسن صاحبؓ نے بہت سے بچے تعلیم کی خاطر اپنے خرچ پر قادیان میں بھجوائے۔ جن پر آپؓ نے نصف لاکھ کے قریب روپیہ خرچ کیا۔ اپنی نسبتی بہن کے بیٹے عبدالکریم صاحب کو بھی (جن کے متعلق سگ دیوانہ والا نشان ظاہر ہوا) آپؓ ہی نے اپنے خرچ پر قادیان بھیجا تھا۔
آپؓ نے یادگیر میں ایک مدرسہ احمدیہ بھی قائم کیا تھا جس کے جملہ اخراجات قریباً بارہ ہزار روپے سالانہ آپؓ برداشت کرتے تھے۔ اس مدرسہ میں فیس کسی سے نہیں لی جاتی تھی۔ بلکہ ناداروں کے لباس کے اخراجات بھی آپؓ کے ذمہ تھے۔ وہاں سرکاری نصاب کے علاوہ دینی تعلیم قرآن مجید، حدیث شریف، فقہ اور کتب سلسلہ احمدیہ بھی نصاب میں شامل تھیں۔ دینی ماحول میں بچوں کی پرورش ہوتی تھی۔ اس مدرسہ کی نفری ایک وقت سات صد طالب علموں اور آٹھ اساتذہ تک پہنچ گئی تھی لیکن پھر مالی خسارہ کے باعث پندرہ سال کے بعد مدرسہ بند کرنا پڑا تھا۔ مسٹر الماطیفی (ریٹائرڈ ریونیو کمشنر پنجاب) نے جو کسی زمانہ میں ریاست حیدر آباد کے ناظم تعلیمات تھے، اس مدرسہ کا دورہ کیا تھا اور وہ بعد میں بھی اس کے معیار تعلیم اور سیٹھ صاحب کے جذبۂ خدمت کی بہت تعریف کیا کرتے تھے۔ اور کہتے تھے کہ اس مدرسہ کے معائنہ کے بعد سے میرے دل میں جماعت احمدیہ کی تنظیم کی بڑی قدرومنزلت ہے۔
آپؓ نے بچیوں کی تعلیم کے لئے مدرسہ ’’احمدیہ اناث‘‘ بھی جاری کیا تھا جس میں آپؓ کی بیٹی اور دیگر استانیاں تعلیم دیتی رہیں۔ ایک وقت طالبات کی تعداد ستّر تک پہنچ گئی تھی جن کے تعلیمی اخراجات نیز مدرسہ اور نادار بچیوں کے جملہ اخراجات حضرت سیٹھ صاحبؓ کے ذمہ تھے۔ دنیوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی دی جاتی تھی اور بچیوں کی نمازوں اور اخلاق کی سخت نگرانی کی جاتی تھی۔ یہ مدرسہ دس سال تک جاری رہا۔
آپؓ نے یادگیر میں ایک احمدیہ لائبریری بھی قائم کی تھی جس میں مختلف علوم کی چارہزار کتابیں رکھی گئی تھیں اور سلسلہ کے اخبارات کے علاوہ دیگر اخبارات بھی منگوائے جاتے تھے۔ لوگوں کے مکانوں پر بھی کتب پہنچانے کا انتظام تھا۔ اس پر آپؓ تین ہزار روپیہ سالانہ صرف کرتے تھے اور سالانہ 7 ہزار اشخاص اس سے مستفید ہوتے تھے۔ اس لائبریری کے قیام میں مکرم سیٹھ عبداللہ الٰہ دین صاحب نے بھی کافی مدد دی تھی۔
٭ حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ اپنی والدہ حضرت حسین بی بی صاحبہؓ اہلیہ حضرت چوہدری نصراللہ خانصاحبؓکے متعلق تحریر کرتے ہیں: اُن کا اکثر یہ معمول تھا کہ یتامیٰ اور مساکین کے لئے اپنے ہاتھ سے پارچات تیار کرتی رہتی تھیں اور بغیر حاجتمند کے سوال کا انتظار کئے ان کی حاجت روائی کرتی رہتی تھیں۔ ایک روز ڈسکہ میں کچھ پارچات تیار کررہی تھیں کہ میاں جمّاں کے پوچھنے پر بتایا کہ فلاں شخص کے بچوں کے لئے ہیں۔ (میاں جمّاں تین پشت سے ہماری اراضیات کے منتظم چلے آتے ہیں۔) انہوں نے ہنس کر کہا کہ وہ تو احراری اور ہمارا مخالف ہے۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ وہ شرارت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت کرتا ہے۔ جب تک وہ ہمارے ساتھ ہے مخالف کی شرارتیں ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتیں۔ لیکن یہ شخص مفلس ہے، اُس کے پاس اپنے بچوں اور پوتوں کے بدن ڈھانکنے کے لئے کپڑے مہیا کرنے کا سامان نہیں۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کو یہ پسند ہے کہ اس کے بچے اور پوتے ننگے پھریں؟ اور تم نے جو میری بات کو ناپسند کیا ہے۔ اس کی سزا یہ ہے کہ یہ کپڑے جب تیار ہو جائیں تو تم ہی انہیں لے کر جانا اور اس شخص کے گھر پہنچا کر آنا۔ لیکن لے جانا رات کے وقت تاکہ کسی کو معلوم نہ ہو کہ مَیں نے بھیجے ہیں۔
اسی طرح ہمارے گاؤں کے ایک ساہو کار نے ایک غریب کسان کے مویشی ایک ڈگری کے سلسلہ میں قرق کرلئے۔ یہ کسان بھی احراریوں میں شامل تھا۔ قرق شدہ مویشیوں میں ایک بچھڑی بھی تھی۔ قرقی کے وقت کسان کے کم سن لڑکے نے بچھڑی کی رسی پکڑ لی کہ یہ بچھڑی میرے باپ نے مجھے دی ہوئی ہے، مَیں یہ نہیں لے جانے دوں گا۔ ڈگری دار نے یہ بچھڑی بھی قرق کرالی۔ اس سے چند روز قبل اسی کسان کی ایک بھینس کنویں میں گر کر مر گئی تھی۔ یہ بھی مفلس آدمی تھا اور یہ مویشی ہی ان کی پونجی تھے۔ والدہ صاحبہ ان دنوں ڈسکہ ہی میں مقیم تھیں۔ جب انہیں اس واقعہ کی خبر پہنچی تو بیتاب ہوگئیں۔ بار بار کہتیں کہ آج اس بیچارے کے گھر میں ماتم کی صورت ہوگی، اس کا ذریعہ معاش جاتا رہا، اس کے بیوی بچے کس امید پر جیئیں گے۔ جب اس کے لڑکے کے ہاتھ سے قارق نے بچھڑی کی رسی لے لی ہوگی تو اس کے دل پر کیا گزری ہوگی پھر دعا میں لگ گئیں کہ یا اللہ! تُو مجھے توفیق عطا کر کہ میں اس مسکین کی اور اس کے بیوی بچوں کی اس مصیبت میں مدد کرسکوں۔ پھر میاں جمّاں کو بلایا اور کہا کہ آج یہ واقعہ ہو گیا ہے۔ تم ابھی ساہوکار کو بلاکر لاؤ۔ میں اس کے ساتھ اس شخص کے قرضہ کا تصفیہ کروں گی اور ادائیگی کا انتظام کروں گی تا شام سے پہلے پہلے اس کے مویشی اسے واپس مل جائیں اور اس کے بیوی بچوں کے دلوں کی ڈھارس بندھے۔
میاں جمّاں نے کہا مَیں تو ایسانہ کروں گا۔ یہ شخص ہمارے دشمنوں کے ساتھ شامل ہے۔
والدہ صاحبہ نے خفگی سے کہا ’’تم مل جولاہ کے بیٹے ہو اور مَیں چوہدری سکندر خاں کی بہو اور چوہدری نصراللہ خاں کی بیوی اور ظفراللہ خاں کی ماں ہوں اور مَیں تمہیں خدا کے نام پر ایک بار کہتی ہوں اور تم کہتے ہو مَیں نہیں کروں گا، تمہاری کیا حیثیت ہے کہ تم انکار کرو۔ جاؤ جو مَیں حکم دیتی ہوں فوراً کرو اور یاد رکھو ساہوکار کو کچھ سکھانا پڑھانا نہیں کہ تصفیہ میں کوئی دقّت ہو‘‘۔
حضرت چودھری صاحبؓ رقم فرماتے ہیں کہ جب والدہ صاحبہ نے مجھ سے یہ واقعہ بیان کیا تو فرمایا کہ ظہر کا وقت ہوچکا تھا۔ مَیں نے نماز میں پھر بہت دعا کی کہ یااللہ! مَیں ایک عاجز عورت ہوں تُو ہی اس موقع پر میری مدد فرما۔ اور یہ بھی دعا کی کہ میرے بیٹے عبداللہ خاں اور اسداللہ خاں قصور اور لاہور سے جلد پہنچ جائیں (خاکسار اُن دنوں انگلستان میں تھا)۔
فرمایا کہ نماز سے ابھی فارغ ہوئی تھی کہ عبداللہ خاں اور اسداللہ خاں موٹر میں پہنچ گئے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ آپ اس قدر افسردہ کیوں ہیں؟ مَیں نے تمام ماجرا ان سے کہہ دیا اور کہا کہ تم دونوں اس معاملہ میں میری مدد کرو۔ انہوں نے کہا جیسے آپ کا ارشاد ہو۔
چنانچہ ساہوکار آیا اور والدہ صاحبہ نے اس کے ساتھ مقروض کے حساب کا تصفیہ کیا۔ ساہوکار نے بہت کچھ حیل و حجّت کی۔ لیکن والدہ صاحبہ نے اصل رقم پر ہی فیصلہ کیا اور پھر ساہوکار سے کہا کہ یہ رقم مَیں خود ادا کروں گی تم فوراً اس کے مویشی واپس لا کر اس کے حوالہ کرو۔ پھر تصفیہ شدہ رقم یوں فراہم کی کہ جس قدر اپنے پاس روپیہ موجود تھا وہ دیا اور باقی اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ وہ پیش کریں۔
جب مویشی کسان کو واپس مل گئے۔ تو اُس کے بیٹے سے کہا جاؤ اب جا کر اپنی بچھڑی پکڑ لو۔ اب کوئی تم سے نہیں لے سکتا۔ پھر اپنے بیٹوں کو دعائیں دیں کہ تم نے میرا غم دُورکیا۔ اب مَیں چین کی نیند سوسکوں گی۔