صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کی قبولیت دعا
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍ستمبر 2002ء میں مکرم عطاءالوحید باجوہ صاحب کے قلم سے حضرت مسیح موعودؑ کے اصحابؓ کی قبولیت دعا کے ایسے واقعات شائع ہوئے ہیں جن کا تعلق ملازمت ملنے اور ملازمت یا کاروبار میں ترقی عطا ہونے سے ہے۔
جب حضرت نواب عبداللہ خان صاحبؓ کو سندھ میں بہت دشوار گزار حالات سے گزرنا پڑا تو اُن کے خطوط ملنے پر حضرت نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ بہت پریشانی میں دعائیں کرتی تھیں۔ اسی دوران آپؓ نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعودؑ تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں: دیکھو تکلّفات میں نہ پڑنا، تکلّفات اخلاص اور محبت کی جڑیں کاٹ دیتے ہیں۔ آپؓ یہ خواب دیکھ کر بہت گھبرائیں اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سے اس کا ذکر کیا۔ حضرت میاں صاحبؓ نے فرمایا کہ یہ تمہاری دعاؤں کا جواب ہے کیونکہ کچھ ہوگا تو تکلّفات میں پڑو گی یعنی میاں عبداللہ کا کام بہت اچھا ہوجائے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت خان صاحبؓ کو بہت منافع عطا فرمایا لیکن دونوں میاں بیوی نے حضرت مسیح موعودؑ کی تنبیہ کا بہت خیال رکھا اور ہمیشہ سادگی پسند رہے۔
حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ صوفی عبدالرحیم صاحب آف امرتسر کی خواہش پر حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ اور مَیں نے اُن کی ترقی کے لئے دعا کی۔ رات کو بھی خاص توجہ سے دعا کی تو رؤیا میں بتایا گیا کہ اُن کو ترقی مل جائے گی۔ اُن کے کہنے پر رؤیا اُن کو لکھ کر دے دی۔ چنانچہ وہ چار پانچ سو روپے ماہوار سے پندرہ سو روپے ماہوار تک جاپہنچے۔
حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ کو حضرت مصلح موعودؓ کا پیغام ملا کہ عالمی عدالت میں جج کی آسامی کے لئے حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ امیدوار ہیں، ان کے لئے دعا کریں۔ چنانچہ آپؓ نے متواتر دعا اور استخارہ کیا جس کے نتیجہ میں آپ کو الہاماً یقینی کامیابی اور اللہ تعالیٰ کی نصرت اور برکت عطا ہونے کی بشارت ملی۔
حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالویؓ تحریر کرتے ہیں کہ 1934ء میں مجھے لاہور چھاؤنی میں تبدیل کردیا گیا۔ بار بار کے تبادلوں سے میری طبیعت اکتاگئی اور مَیں چاہتا تھا کہ کسی طرح مجھے پنشن مل جائے اور مَیں بقیہ زندگی قادیان میں گزاروں۔ سو اللہ تعالیٰ نے چند ہی ہفتوں میں میری خواہش پوری کردی اور مَیں طبی لحاظ سے ناقابل ملازمت قرار دیا جاکر 1935ء میں قادیان آگیا۔ یہاں کمرہ بند کرکے مَیں نے دعا کی کہ الٰہی! تُو میری خواہش کے مطابق یہاں لے آیا ہے، ایک اَور نظررحم کر کہ مجھے کسی کے در پر رزق اور ملازمت کے لئے جانا نہ پڑے حتیٰ کہ خلیفہ کے در پر بھی نہ لے جائیو اور اپنے فضل سے میرے رزق کے سامان کرنا۔ دعا کے بعد مَیں نے کمرہ کا دروازہ کھولا تو ایک دوست کھڑے تھے۔ انہوں نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا خط دیا کہ آپؓ سے ملوں۔ چنانچہ ملنے پر حضرت میاں صاحبؓ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ مَیں آپؓ کے دفتر میں کام کروں۔ مَیں نے خوشی کے ساتھ تعمیلِ ارشاد کی۔ پھر مجھے احمدیہ سٹور کا مینیجر بھی مقرر کردیا گیا اور اس طرح مجھے اتنی ہی آمدنی ہونے لگی جتنی سابقہ ملازمت میں تھی۔
حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ کے بارہ میں مکرم مستری علم الدین صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ قادیان میں مجھے بیس پچیس روز کوئی کام نہ ملا اور ایک دوسرے دوست کے ساتھ مَیں پریشانی میں مغلپورہ جانے کے لئے روانہ ہوا۔ قادیان میں ہی حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ سے ملاقات ہوئی تو ہم نے انہیں دعا کے لئے عرض کیا۔ آپؓ نے وہیں کھڑے ہوکر دعا کی۔ جب ہم مغلپورہ پہنچے تو اسٹیشن پر ہی ایک شخص آواز دے رہا تھا کہ کوئی مستری ہے۔ چنانچہ ہم اُس کے ساتھ ہولئے اور بیس پچیس روز اُس کے ساتھ کام کیا اور ہماری مالی پریشانی کشائش میں بدل گئی۔