صحابہ رسولؐ کا عشق قرآن
بہت سے صحابہؓ نے قرآن کریم حفظ کر رکھا تھا اور قرآن اُن کی روح کی غذا تھی۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے سالانہ نمبر1999ء میں مکرم عبدالقدیر قمر صاحب کے قلم سے ایک مضمون میں صحابہ رسولؐ کے عشق قرآنؐ کا بیان ہے۔
صحابہ قرآن کریم کا بے حد ادب کرتے۔ حضرت مصعبؓ بن سعد کا بیان ہے کہ مَیں قرآن پکڑے ہوئے تھا اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ تلاوت فرما رہے تھے۔ مَیں نے بدن کھجایا تو حضرت سعدؓ نے فرمایا: جاؤ، وضو کرکے آؤ۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ جب تک تلاوت سے فارغ نہ ہوجاتے، کسی سے کلام نہ کرتے۔
حضرت عثمان غنیؓ اُس وقت بھی تلاوت قرآن کریم میں مشغول تھے جب مفسد آپؓ کے گھر پر سنگ باری کر رہے تھے۔ آپؓ کی شہادت بھی اسی حالت میں ہوئی حتیٰ کہ آپؓ کے پاکیزہ خون کے قطرات اس مقدس کتاب پر بھی گرے۔
بہت سے صحابہؓ نے قرآن کریم حفظ کر رکھا تھا ۔ صرف جنگ یمامہ میں ہی ستّر کے قریب حفاظ شہید ہوئے۔
یہی قرآن تھا جس کی چند آیات نے حضرت عمرؓ کے دل کی کایا پلٹ دی اور وہ مسلمان ہوگئے۔
حضرت ابوذر غفاریؓ نے آنحضرتﷺ کی بعثت کی خبر سن کر اپنے بھائی کو تحقیق کے لئے مکّہ بھیجا۔ اُس نے واپس جاکر قرآن کریم کی معجزانہ تاثیر کا خصوصیت سے ذکر کیا جس کے بعد حضرت ابوذرؓ نے مکّہ آکر قبول اسلام کی توفیق پائی۔
حضرت عثمان بن مظعونؓ نے فرمایا کہ جب مَیں نے یہ آیت سنی اِن اللّٰہ یامر بِالعدل والاحسان … تو ایمان میرے دل میں قرار پکڑ گیا اور مَیں محمد رسول اللہﷺ سے محبت کرنے لگا۔
حضرت طفیل بن عمرو الدوسیؓ نے آنحضورؐ کی زبان سے قرآن سنا تو بے اختیار مسلمان ہوگئے۔
خالد العدوانی نے آپؐ سے آیت والسّمآء والطَّارِق سنی تو پوری سورۃ یاد کرلی اور بالآخر مسلمان ہوگئے۔
بے شمار صحابہؓ رات دن تعلیمِ قرآن حاصل کرنے اور آگے پہنچانے میں مشغول رہا کرتے تھے۔ کئی قبائل سے وفد بھی قرآنی تعلیم کے حصول کیلئے مدینہ آیا کرتے اور مدینہ سے بھی کئی صحابہؓ کو قرآن سکھانے کیلئے دیگر قبائل کی طرف بھجوایا جاتا۔جب نظام حکومت قائم ہوگیا اور امراء و عمال کو باہر بھجوایا جانے لگا تو سب سے پہلا فرض اُن پر قرآن کی تعلیم پھیلانے کا ہی عائد کیا جاتا۔ چنانچہ جب حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن بھیجا گیا تو آنحضورﷺ نے آپؐ کو خاص طور پر ارشاد فرمایا کہ وہاں کے لوگوں کو قرآن مجید اور احکام اسلام کی تعلیم دیں۔
حضرت عمرؓ نے اپنے عہد خلافت میں نہایت وسیع پیمانہ پر تعلیم قرآن کا سلسلہ قائم کیا اور مفتوح ممالک میں اس مقصد کے لئے مکاتب قائم کئے۔ آپؓ نے حضرت عبادہ بن صامتؓ کو حمص میں، حضرت ابو درداء کو دمشق میں، حضرت معاذؓ کو فلسطین میں اور حضرت عمران بن حصینؓ کو بصرہ میں فقہ اور قرآن کی تعلیم کے لئے مقرر فرمایا۔
حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ سورۃ البقرہ، سورۃ النساء، سورۃالمائدہ، سورۃالحج اور سورۃالنور میں احکام و فرائض کا ذکر ہے اس لئے ان کا سیکھنا مسلمانوں کے لئے لازمی ہے۔ آپؓ نے عمال کو یہ بھی لکھا کہ جو قرآن مجید پڑھ لیں اُن کی تنخواہیں مقرر کردی جائیں۔ تلفظ کا خیال رکھنے کی آپؓ نے خاص طور پر تاکید کی اور فرمایا کہ جو شخص علم لغت کا ماہر نہ ہو ، وہ قرآن مجید نہ پڑھائے۔
حضرت عثمانؓ کے دور میں آذربائیجان فتح ہوا تو آپؓ نے اشاعت دین کے لئے کچھ لوگ وہاں آباد کردیئے۔ حضرت علیؓ نے قرآن مجید کے طلبہ کے لئے دو دو ہزار کے وظیفے مقرر فرمائے۔
صحابہؓ قرآن کریم کی روح کو سمجھنے کی کوشش کرتے تھے اور اس کی تعلیم پر عمل کرنا سعادت سمجھتے تھے۔ صحابہؓ کوجس آیت کی سمجھ نہ آتی وہ اس بارہ میں آپس میں بھی سوال کرتے اور آنحضورﷺ سے بھی دریافت کیا کرتے تھے۔ آنحضورﷺ خود بھی یہ جاننے کیلئے کہ صحابہؓ نے کتنا تفقہ فی القرآن حاصل کرلیا ہے، اُن سے سوال کرتے۔
صحابہؓ نے جب بھی قرآن کا کوئی حکم سنا، فوراً اس پر عمل کیا۔ شراب حرام ہونے کا اعلان ہوا تو اُسی وقت مٹکے توڑ دیئے گئے۔ سونا چاندی جمع کرنے والوں پر عذاب کی وعید ہوئی تو حضرت مالکؓ نے اپنا سب کچھ خیرات کردیا۔ اپنی محبوب ترین چیزیں راہِ خدا میں پیش کرنے کا فرمان آیا تو حضرت طلحہؓ اور کئی دیگر صحابہ نے اپنی نہایت اعلیٰ زمینیں خدمتِ رسالت میں پیش کردیں۔
حضرت لبیدؓ جو عرب کے مشہور شاعر تھے، قرآن کے نزول سے پہلے آپ کا شمار چوٹی کے شعراء میں ہوتا تھا لیکن قرآن نازل ہوا تو آپ صرف قرآن پڑھتے اور شاعری ہمیشہ کیلئے چھوڑ دی اور کہا کرتے کہ جب سے یہ کلام نازل ہوا ہے مَیں شعر کہنا بھول گیا ہوں۔
صحابہؓ کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ قرآن کے مقابل وہ اپنی ساری منطقیں، دلیلیں اور خیالات ایک طرف رکھتے ہوئے قرآن کریم کی اتباع اور پیروی کیا کرتے۔ آنحضورﷺ کی وفات پر جب حضرت عمرؓ نے تلوار سونت لی کہ اگر کوئی یہ کہے گا کہ آپؐ وفات پاگئے ہیں تو اُس کا سر مَیں قلم کردوں گا۔ لیکن حضرت ابوبکر صدیقؓ کے قرآن کریم کی آیت:
وَمَامُحَمَّد اِلّا رَسُوۡل قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسل
پڑھتے ہی حضرت عمرؓ کی سوچ ہی بدل گئی۔