صحابہ مسیح موعودؑ کی دلگداز نمازیں
حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں: ’’پنجاب اور ہندوستان سے ہزار ہا سعید لوگوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور … بعد بیعت میں نے ایسی تبدیلی پائی ہے کہ جب تک خدا کا ہاتھ کسی کو صاف نہ کرے ہر گز ایسا صاف نہیں ہو سکتا۔ اور میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرے ہزارہا صادق اور وفا دار مرید بیعت کے بعد ایسی پاک تبدیلی حاصل کر چکے ہیں کہ ایک ایک فرد ان میں بجائے ایک ایک نشان کے ہے‘‘۔
(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 249)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5 و 6؍ اگست 2004ء میں شامل اشاعت ایک مضمون (مرتبہ مکرم عبدالسمیع خان صاحب) میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہؓ کی دلگداز نمازوں کی تصویر کشی کی گئی ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ
ایک دفعہ مسجد اقصی میں درس دیتے ہوئے اچانک حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کو شدید ضعف ہوگیا۔ آپؓ بیٹھ گئے، ہاتھ پاؤں سرد ہوگئے۔ چلنے کی قوت نہ رہی، چارپائی پر اٹھاکر لائے۔ مگر راستے میں جب مسجد مبارک کے پاس پہنچے تو فرمایا کہ مجھے گھر نہ لے جاؤ مسجد میں لے جاؤ۔ بمشکل تمام مسجد کی چھت پر پہنچ کر نماز پڑھی اور باوجود تکلیف کے نماز مغرب کے بعد ایک رکوع کا درس دیا۔ پھر چارپائی پر اٹھا کر گھر تک لائے گئے۔
آپ ؓ کا آخری عمل بھی نماز تھا۔ 13مارچ 1914ء کی دوپہر 2بجکر 20منٹ کے قریب عین حالت نماز میں اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے۔
حضرت مصلح موعود ؓ
حضرت سیدہ مریم صدیقہ (حرم حضرت مصلح موعودؓ) فرماتی ہیں: ’’حضرت مصلح موعودؓ باجماعت نماز تو مختصر پڑھاتے تھے لیکن علیحدگی میں جب آپ نماز پڑھ رہے ہوتے تھے تو آپکو عبادت الٰہی میں اتنا انہماک ہوتا تھا کہ پاس بیٹھنے والا محسوس کرتا تھا کہ یہ شخص اس دنیا میں نہیں ہے۔ میں نے آپؓ کو اس طرح روتے، کہ پاس بیٹھنے والا آواز سنے، بہت کم دیکھا ہے لیکن آنکھوں سے رواں آنسو ہمیشہ نماز پڑھتے میں دیکھے۔ چہرہ کے جذبات سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ گویا اپنی جان اور اپنا دل ہتھیلی پر رکھے اللہ تعالیٰ کی نذر کررہے ہیں۔ نماز باجماعت کا اتنا خیال تھا کہ جب بیمار ہوتے اور مسجد نہ جاسکتے تو گھر ہی میں اپنے ساتھ عموماً مجھے کھڑا کر لیا کرتے اور جماعت سے نماز پڑھا دیتے تاکہ نماز باجماعت کی ادائیگی ہوجائے۔
حضرت اماں جانؓ
حضرت اماں جانؓ کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ فرماتے ہیں: بہت خشوع وخضوع سے، بہت سنوار کر نمازیں ادا کرنے والی ، بہت دعائیں کرنے والی، کبھی میں نے آپ کو کسی حالت میں بھی جلدی جلدی نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ تہجد اور اشراق بھی جب تک طاقت رہی، باقاعدہ ادا فرماتی رہیں۔
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ فرماتی ہیں: حضرت اماں جانؓ نے اپنے بیٹے بشیر اول کی وفات کے وقت صبر اور قیام نماز کا جو نمونہ دکھایا وہ بے مثال ہے۔ آپ نے جب دیکھا کہ بچے کے اب بچنے کی کوئی صورت نہیں تو آپ نے فرمایا کہ میں پھر اپنی نماز کیوں قضاء کروں۔ چنانچہ آپ نے وضو کر کے نماز شروع کردی اور نہایت اطمینان کے ساتھ نماز ادا کر کے دریافت فرمایا کہ بچے کا کیا حال ہے تو اس کے جواب میں بتلایا گیا کہ بچہ فوت ہو گیا ہے۔ تو آپ انّا للّہ پڑھ کر خاموش ہو گئیں۔
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے متعلق صاحبزادی فوزیہ شمیم صاحبہ تحریرکرتی ہیں: “میں نے آپ کو بچپن سے قریب سے دیکھا ہے آپ گھنٹوں عبادت میں گزارتیں۔ دوپہر کو کھانے سے پہلے نماز ظہر کی نماز علیحدہ کمرہ میں ادا کرتیں اور بہت لمبا وقت دعاؤں میں لگاتیں۔ مغرب کی نماز کا تو رنگ ہی اور تھا۔ مغرب کے بعد نوافل عشاء تک جاری رہتے اور اس قاعدہ میں مَیں نے کبھی فرق نہیں دیکھا۔ اتنی عبادت کے بعد بعض اوقات آپ کوضعف کی شکایت ہوجاتی۔ ‘‘
مکرمہ صاحبزادی امۃ الشکور صاحبہ لکھتی ہیں: ’’بچپن سے جو بات میں نے دیکھی وہ بڑی امی کا بڑے اہتمام سے نماز پڑھنا تھا۔ اکیلے کمرہ میں نیم تاریکی میں نماز پڑھا کرتی تھیں اور نماز کے وقت شور سے گھبراتی تھیں اس لئے خاموشی کا خاص خیال رکھا جاتا۔ لیکن کوئی ہنگامہ ہو، شادی کی محفل ہو، بڑی امی اسی طرح وقت پر اہتمام سے نماز ادا کرتیں۔ صبح کے وقت قرآن شریف پڑھ رہی ہوتیں۔
نماز آپؓ کی روح کی غذا تھی۔ لمبی نمازوں کے بعد اکثر نہایت درجہ ضعف ہوجاتا۔ بالکل اسی طرح جیسے حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں ’’میں اتنی دعا کرتا ہوں کہ دعا کرتے کرتے ضعف کا غلبہ ہوجاتا ہے اور بعض اوقات غشی اور ہلاکت تک نوبت پہنچ جاتی ہے‘‘۔
حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ
مکرم سید سجاد احمد صاحب بیان کرتے ہیں: ’’میں نمازوں میں اکثر حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کے ساتھ کھڑا ہونے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ آپؓ قیام میں سورۂ فاتحہ کے الفاظ اھدناالصراط المستقیم اس الحاح وزاری کے ساتھ تواتر سے دہراتے تھے کہ میں حیران ہوجاتا کہ ایک ہی آیت کو دہراتے چلے جارہے ہیں اور قطعاً تھکن محسوس نہیں فرماتے۔
حضرت میاں محمد دین صاحبؓ
’’حضرت میاں محمد دین صاحبؓ 313 اصحاب میں تیسرے نمبر پر ہیں۔ آپ بچپن میں پنجوقتہ نمازوں اور تہجد کا اہتمام کرتے تھے مگر پھر اپنے ماحول کے زیر اثر تارک صلوٰۃ ہوگئے اور دہریت کا شکار ہوتے گئے۔ تقدیر الٰہی کے تابع آپ کو حضرت مسیح موعود ؑ کی کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ پڑھنے کی توفیق ملی اور ہستی باری تعالیٰ کے دلائل پڑھ کر دہریت کے سارے زنگ اتر گئے۔ اسی وقت کپڑے دھوئے اور گیلے کپڑے پہن کر ہی نماز پڑھنی شروع کی۔ محویت کے عالم میں ایک طویل نماز پڑھی۔ فرماتے ہیں یہ نماز ’’براہین‘‘ نے پڑھائی اور بعد ازاں آج تک کوئی نماز میں نے نہیں چھوڑی۔
حضرت بابو محکم الدین صاحبؓ
حضرت بابو محکم الدین صاحب وکیلؓ فرماتے ہیں: ’’جب جوان ہوئے، رسمی علم پڑھا تو دل میں بسبب مذہبی علم سے ناواقفیت اور علمائے وقت وپیرانِ زمانہ کے باعمل نہ ہونے کے شبہات پیدا ہوئے اور تسلی بخش جواب کہیں سے نہ ملنے کے باعث چند بار مذہب تبدیل کیا۔ سنی سے شیعہ بنے،… آریہ ہوئے۔ چند روز وہاں کا بھی مزہ چکھا مگر لطف نہ آیا۔ برہمو سماج میں شامل ہوئے ان کا طریق اختیار کیا لیکن وہاں بھی مزہ نہ پایا۔ نیچری بنے لیکن اندرونی صفائی یا خدا کی محبت ، کچھ نورانیت کہیں بھی نظر نہ آئی۔ آخر مرزا صاحب سے ملے اور بہت بے باکانہ پیش آئے مگر مرزا صاحب نے لطف سے مہربانی سے کلام کیا اور ایسا اچھا نمونہ دکھایا کہ آخرکار اسلام پر پورے پورے جم گئے اور نمازی بھی ہوگئے۔ اللہ اور رسولؐ کے تابعدار بن گئے‘‘۔
حضرت پیر افتخار صاحبؓ
حضرت پیر افتخار صاحبؓ بڑھاپے اور ضعف کی حالت میں بھی مسجد میں تشریف لاتے۔ آخری عمر میں زیادہ دیر تک بیٹھ نہ سکتے تھے۔ جماعت شروع ہونے سے قبل مسجد میں لیٹ جاتے اور باجماعت نماز کا انتظار فرماتے۔
حضرت حافظ عبد العزیز صاحبؓ
حضرت حافظ عبد العزیز صاحبؓ آف سرگودھا (بیعت 1907ء) فرمایا کرتے تھے کہ بیعت سے پہلے میں صوم وصلوٰۃ کا تارک تھا لیکن بیعت کے خط میں ہی حضرت اقدسؑ سے اوامر کی پابندی کے لئے دعا کی درخواست کی چنانچہ یہ خدا کا فضل ہے اس کے بعد سفر اور حضر میں بیماری اور صحت کی حالت میں ایک نماز بھی فوت نہیں ہوئی۔
حضرت حافظ ابو محمد عبد اللہ صاحبؓ فرماتے تھے کہ دس سال کی عمر سے آخر وقت تک میری کوئی نماز یا روزہ قضاء نہیں ہوا۔
حضرت چوہدری امین اللہ خان صاحبؓ (بیعت 1898ء) پانچ وقتہ نماز باجماعت نہایت التزام سے ادا کرتے۔
حضرت مولوی فضل الٰہی صاحبؓ بھیروی بغیر جماعت کے نماز ادا کرنا کمزوری سمجھتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے سوائے بیماری اور سفر کے میں نے کبھی بغیر جماعت کے نماز ادا نہیں کی۔
حضرت میاں عبد الرحیم صاحبؓ بیعت کے بعد فرصت کے دنوں میں فجر کی نماز کے لئے قادیان پہنچ جاتے اور دن بھر قادیان میں نمازیں ادا کرتے اور حضور کے کلمات طیبات سنتے۔ عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد اپنے گاؤں کو روانہ ہوجاتے۔
حضرت حکیم محمد اسماعیل صاحبؓ سیکھوانی کو جب تک صحت نے اجازت دی آپ نماز باجماعت مسجد میں ادا کرتے رہے اور نماز نہایت خشوع سے ادا کرتے۔ ہمیشہ سب سے پہلے مسجد پہنچتے اور یہ معمول صرف بڑھاپے میں ہی نہیں تھا کہ آپ فارغ تھے بلکہ کاروبار کے عین دوران اپنے ربّ کے ساتھ تعلق کو فائق سمجھتے۔
حضرت بھائی عبد الرحمن صاحبؓ عبادت نہایت خشوع و خضوع اور حضور قلب سے کرتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ گویا آپ اس دنیا میں نہیں۔
حضرت میاں جان محمد صاحبؓ رات کو جتنی بار بھی بیدار ہوتے اٹھ کر وضو کر کے نفل شروع کر دیتے پھر سوجاتے۔ پھر بیدار ہوتے تو نفل پڑھتے۔ گھٹنوں میں تکلیف کے باوجود چل کر مسجد جاتے اور دوسروں کو نماز کی بہت تلقین کرتے۔ جب آپؓ قریب المرگ تھے تو رات نماز کا وقت ہونے پر آپؓ نے تیمم کیا اور نماز شروع کر دی لیکن پڑھتے پڑھتے بیہوش ہوگئے۔ اس طرح قریباً 10یا 15دفعہ پوچھا کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے۔ پھر نماز شروع کرتے اور بیہوش ہوجاتے۔
حضرت ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحبؓ کے قریب ترین مسجد تین میل کے فاصلہ پر تھی اور رستہ خراب تھا مگر آپ فجر، عصر اور شام کی نماز کے لئے پاپیادہ بلاناغہ تشریف لاتے۔
سردار ویٹ خان
13جنوری 1892ء کو سب سے پہلا انگریز حضرت مسیح موعود ؑ کی بیعت سے مشرف ہوا تو حضورؑ نے حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ مقیم جموں کے نام اپنے قلم مبارک سے ایک مکتوب میں یہ خوشکن اطلاع دی کہ:
’’سردار ویٹ خان خلف الرشید مسٹرجان ویٹ کہ ایک جوان تربیت یافتہ، قوم انگریز دانشمند مدبر آدمی انگریزی میں صاحب علم آدمی ہیں اور کرنول احاطہ مدراس میں بعہدہ منصفی مقرر ہیں آج بڑی خوشی اور ارادت اور صدق دل سے سلسلہ بیعت میں داخل ہوگئے۔ ایک باہمت آدمی اور پرہیزگار طبع اور محب اسلام ہیں انگریزی میں حدیث اور قرآن کو دیکھا ہوا ہے… وہ مشورہ دیتے ہیں کہ ہر ایک ملک میں واعظ بھیجنے چاہئیں اور کہتے ہیں کہ ایک مدراس میں واعظ بھیجا جاوے۔ اس کی تنخواہ کے لئے میں ثواب حاصل کروں گا۔… اسلام کی سچائی کی خوشبو اس راہ میں آتی ہے۔ الغرض وہ محققانہ طبیعت رکھتے ہیں اور علوم جدیدہ میں مہارت رکھتے ہیں زیادہ ترخوشی یہ ہے کہ پابند نماز خوب ہیں۔ بڑے التزام سے نماز پڑھتا ہے۔‘‘