’’طاہر ہسپتال نگر پا رکر‘‘ میں وقفِ عاضی

لجنہ اماء اللہ کینیڈا کے رسالہ ’’النساء‘‘ ستمبر تا دسمبر 2010ء میں مکرمہ ڈاکٹر نصرت شاہین صاحبہ نے اپنے وقف عارضی کے تجربہ کو بیان کیا ہے۔
’’لجنہ اماء اﷲ پا کستان‘‘ کی جا نب سے عظیم مالی قربانی کے نتیجے میں صو بہ سندھ کے لئے ایک بے مثال تحفہ ’’طاہر ہسپتال نگرپارکر‘‘ ہے۔ اسی ہسپتال کی جا نب سے نگرپارکر سے 22کلومیٹر کے فاصلہ پر (پاک و ہند سرحد پر واقع) ایک گاؤں ’’ پھول پورہ‘‘ میں ایک فری میڈیکل کیمپ میں خاکسار کو وقفِ عارضی کرنے کا موقع ملا۔ اس گاؤں کا کچھ رقبہ ہندوستان اور کچھ پاکستان میں شامل ہے۔ ہندوؤں کی نچلی ذاتیں کولہی اور میگواڈ وغیرہ یہاں آباد ہیں۔ لوگوں کا ذریعہ معاش کاشتکا ری اور مویشی پا لنا ہے۔ اس علا قہ میں سب سے پہلے 1960ء کی دہا ئی میں اسی گاؤں میں احمدیت کا پودا لگا۔ یہاں اب تک ایک درجن کے قریب واقفینِ زندگی اور مربیان پیدا ہو چکے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اور کئی دیگر بزرگوں کے قدم چومنے کی سعادت اس گاؤں کی سرزمین کو حاصل ہے۔
ایک صبح تقریباً 8بجے نگرپارکر سے ہسپتال کی ایمبیولینس پر کیمپ کی جانب روانہ ہوئے۔ کچا اور دشوار راستہ تھا۔ ایک گھنٹے بعد منزل پر پہنچے تو مکرم طا ہر سلیمان صاحب معلّم و صدر جماعت نے ہمیں خوش آ مدید کہا۔ بہت سے مریض انتظار میں تھے۔ دعا کے ساتھ کام کا آغاز کیا گیا۔ نواحی علاقوں سے بھی کا فی تعداد میں مریض گھوڑوں، اونٹوں اور گدھوں پر سوار اور بعض پیدل سفر کرکے بڑی مشکل سے پہنچے تھے۔ فصل کی کٹائی کا مو سم تھا لہٰذا ایسے دنوں میں لوگوں کو ان کے گھروں میں مفت دوائی ملنا کسی نعمت سے کم نہیں۔ لوگوں کی صحت بہت کمزور تھی۔ اکثر (بالخصوص خواتین) خون کی کمی کا شکار تھے۔ اسی لئے پیدا ہونے والے بچوں میں بیما ریوں کا اضا فہ ہورہا تھا۔ یہ لوگ ابھی زندگی کی انتہائی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں ۔ کئی گھنٹوں کا کچے راستہ کا سفر طے کرکے نگرپارکر علا ج معالجہ کے لئے جا تے ہیں ۔ جبکہ بعض غریب تو وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتے۔ خوراک اور پانی کی قلت کا بھی سامنا ہے ۔ سارا دارومدار بارشوں پر ہے۔ اگر سال میں دو تین اچھی بارشیں ہو جائیں تو یہ لوگ کھیتی باڑی کرلیتے ہیں اور مویشی پال لیتے ہیں ۔ ورنہ سندھ کے نہری علا قوں کی جانب ہجرت کرجاتے ہیں۔ بارش کا گندہ پا نی لوگوں اور مویشیوں کے یکساں کا م آ تا ہے۔ جب یہ پا نی ختم ہو جاتا ہے تو یہ لوگ میلوں کا سفر کرکے کنوؤں کا نمکین پانی بھر بھر کر لا تے ہیں اور بڑی احتیاط سے اسے استعمال کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے صفا ئی کا معیار بہت کم نظر آ تا ہے اور جِلدی امراض میں بھی اضا فہ ہو رہا ہے ۔ غرض لوگوں اتنی کٹھن زندگی دیکھ کر بہت دکھ ہوا ۔ یہ لو گ آج کے مشینی دَور میں بھی پیدل سفر کرتے ہیں۔ ہاتھ والی چکی سے روزانہ آ ٹا پیستے ہیں۔
اس دن ہمارے میڈیکل کیمپ سے تین سو مریضوں نے استفادہ کیا۔ وہاں نومبایعین اور احباب جماعت کے ساتھ ہم نے نماز جمعہ ادا کی۔ شام کو احمدیہ مرکز اور گوٹھ (گاؤں) دیکھنے کا موقع ملا۔ واپسی پر ایک اَور احمدیہ مرکز ’کوناڑا‘ میں تھو ڑی دیر رُکنے کا اتفا ق ہوا۔ وہا ں پر معلّم صاحب اپنی فیملی کے ہمراہ مقیم تھے۔ راستہ میں جگہ جگہ لوگ اپنے بیوی بچوں کی مدد سے اپنی فصلیں کا ٹ رہے تھے۔ کچھ بیلوں، اونٹوں اور گدھوں کے ساتھ اناج نکال رہے تھے ۔ جبکہ کچھ تیز ہوا کے منتظر تھے تاکہ اس کے ذریعے اپنی فصل صاف کرسکیں۔ گندے مندے معصوم صورت بچے، نہ تَن پہ کپڑا نہ پاؤں میں جوتا، موسمی پھلوں تربوز اور خربوزہ کے مزے لے رہے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں