عباد صالحین
(مطبوعہ رسالہ ’’انصارالدین‘‘ جنوری فروری 2025ء)
مجلس انصاراللہ برطانیہ کے سالانہ مقابلہ مضمون نویسی میں اوّل آنے والا مضمون
عبادِ صالحین کی ضرورت و اہمیت
اللہ تعالیٰ کی قدیم سے یہ سنت چلی آرہی ہے کہ وہ دُنیا کی ہدایت کے لیے اپنےمامورین اور مرسلین کو نورِ ہدایت کے ساتھ منورکرکے مبعوث فرماتا ہے۔ یہ مامورین و مرسلین اللہ کے انتہائی محبوب بندے ہوتے ہیں جن پر خدا کا سایہ ہوتا ہے۔خدا کے یہ محبوب بندے اپنے عملی نمونہ کے ذریعہ اور اپنی دُعاؤں کے ذریعہ عبادِ صالحین کی ایک جماعت پیدا کر دیتے ہیں جن کو دیکھ کر خدا یاد آتا ہے جو ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں اور حقیقی عبد کہلاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ عبادت یعنی اپنے پروردگار کی حمد وثنا اور اس پر فداہوجانے کی خواہش انسان کی فطرت کا ایک حصہ ہے اور اس کے ضمیر کی ایک آواز ہے اور اس کےارتقاکی ایک سیڑھی ہے اسی راستہ سے وہ اپنےمقصد پیدائش تک پہنچتا ہے۔ عبادت کا بنیادی ماحصل وصال الٰہی ہے اور اسی سے اُسے خداشناسی کا ادراک ہوتاہے۔اس کی روحانیت ترقی کرتی ہے۔ یہاں تک کہ انسان حقیقی معنوں میں عبد یعنی خدانماوجود بن جاتاہے جو روحانیت کا ایک اعلیٰ مقام ہے۔ عبادت سے انسان کا تزکیۂ نفس ہوتا ہے خداکا اس میں کوئی ذاتی فائدہ نہیں۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ مَنْ تَزَكَّى فَإِنَّمَا يَتَزَكَّى لِنَفْسِهِ۔جو بھی پاکیزگی اختیار کرے تو اپنے ہی نفس کی خاطر پاکیزگی اختیار کرتا ہے۔
عبادِ صالحین کا فلسفہ
عبادِ صالحین خدا تعالیٰ کے وہ پاک، صالح، عابد، زاہد، نیک متقی، پرہیزگار اور خدانُما وجود ہوتے ہیں جن کی زندگی ہر قسم کی ظاہری و باطنی آلائشوں اور نجاستوں سے پاک صاف ہوتی ہے۔یہ پاک وجود اللہ تعالیٰ کی محبت، اس کے عشق اور اطاعت و فرمابرداری میں فنا کے مقام پر فائز ہوتے ہیں جن کی تمام نفسانی خواہشات جل کر خاکستر ہو جاتی ہیں۔ جو صبغۃ اللہ کے حقیقی مصداق ہوتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے عشق اور اُس کی محبت اور اُس کی صفات کارنگ اپنے اندر پیدا کرلیتے ہیں اور اِس کے نتیجہ میں اِن کو نفسِ مطمئنہ کا اعلیٰ مقام حاصل ہو جاتا ہے۔ عبادِ صالحین کا یہ مقام اور مرتبہ اور یہ درجہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہی کسی کو حاصل ہوتا ہے۔عبادِ صالحین کی صحبت میں رہنے والوں کو بھی بے شمار انعامات اور برکات حاصل ہوتے ہیں۔ ان نیک اور صالح ہستیوں کی صحبت کے نتیجہ میں ایک انسان خود بھی عبدِ صالح کے زمرہ میں داخل ہو جاتا ہے۔ ایک عبد ِ صالح اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق گزارنا سعادت سمجھتا ہے جس کے نتیجہ میں ایسے انسان کی دُنیا اور آخرت دونوں سنور جاتی ہیں۔
عبادِ صالحین کے معنے
عبد کے معنے بندے کے ہیں۔ عباد اس کی جمع ہے۔اور صالح کے معنے نیک، متقی، پرہیزگار، زاہد، عبادت گزار، بزرگ کے ہیں۔ صالحین اِس کی جمع ہے۔ اس لحاظ سے عبادِ صالحین جو مرکب ہے اس کے اصطلاحی معنے یہ ہوںگے کہ اللہ تعالیٰ کے نیک، برگزیدہ، عبادت گزار، متقی، پرہیزگار، زاہد اور بزرگ بندے۔
اسی طرح عبادِ صالحین کی حقیقی تشریح مامور زمانہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یوں بیان فرمائی ہے:’’صالحین وہ ہوتے ہیں جن کے اندر سے ہر قسم کا فساد جاتا رہتا ہے جیسے تندرست آدمی جب ہوتا ہے تو اُس کی زبان کا مزہ بھی درست ہوتا ہے۔ پورے اعتدال کی حالت میں تندرست کہلاتا ہے کسی قسم کا فساد اندر نہیں رہتا۔ اِسی طرح پر صالحین کے اندرکسی قسم کی روحانی مرض نہیں ہوتی اور کوئی مادہ فساد کا نہیں ہوتا۔ اس کا کمال اپنے نفس میں نفی کے وقت ہے اور شہید، صدیق، نبی کا کمال ثبوتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 342)
صالحین کی مزید تشریح کرتے ہوئے آپ ؑ فرماتے ہیں کہ ’’ صلاح کی حالت میں انسان کو ضروری ہے کہ ہرایک قسم کے فساد سے خواہ وہ عقائد کے متعلق ہو یا اعمال کے متعلق پاک ہو جیسے انسان کا بدن صلاحیت کی حالت اُس وقت رکھتا ہے جبکہ سب اخلاط اعتدال کی حالت پر ہوں اور کوئی کم زیادہ نہ ہو۔ لیکن اگر کوئی خلط بھی بڑھ جائے تو جسم بیمار ہوجاتا ہے، اسی طرح پر ہر روح کی صلاحیت کا مدار بھی اعتدال پر ہے۔ اسی کا نام قرآن شریف کی اصطلاح میں اَلصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ہے صلاح کی حالت میں انسان محض خدا کا ہو جاتا ہے جیسے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی حالت تھی۔ اور رفتہ رفتہ صالح انسان ترقی کرتا ہوا مطمئنہ کے مقام پر پہنچ جاتا ہے اور یہاں ہی اس کا انشراح صدر ہوتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 119 تا 120)
عبادِ صالحین کا ذکر قرآن کریم میں
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُہَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ (الانبیاء 106:)
ترجمہ: اور یقیناً ہم نے زبور میں ذکر کے بعد یہ لکھ رکھا تھا کہ لازماً موعود زمین کو میرے صالح بندے ہی ورثہ میں پائیںگے۔
قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اور محبوب بندوں میں سے ایک انتہائی اعلیٰ مرتبے کا طبقہ صالحین کا ہے۔ صالحین کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ اِن افراد کی زندگی اعمالِ صالحہ سے عبارت ہوتی ہے۔ وہ بطور عادت خواہشاتِ نفس کی بجائے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی پیروی کرتے ہیں۔
عبادِ صالحین کی بنیادی اور ابتدائی صفت قرآن کریم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ خواہشات نفسانی سے مکمل طور پر اجتناب کرتے ہیں۔ صالحین اپنی نفسانی خواہشات کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع کردیتے ہیں۔ اس لیے کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ خواہشاتِ نفس کی پیروی گویا انہیں معبود قرار دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے کہ اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ (الفرقان 46:) کیاتم نے اُس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنامعبود بنا لیا ہے۔
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒ اس تعلق سے فرماتے ہیں کہ
’’ خواہشاتِ نفسانی کی نفی سے اللہ تعالیٰ کا فعل تجھ پر جاری ہوگا اور افعالِ الٰہی کے نافذ ہوتے وقت تیرے اعضاء ساکن وغیرمتحرک ہوںگے۔ قلب مطمئن ہوگا۔ سینہ فراخ و کشادہ ہوگا، چہرہ روشن و پُرنور ہوگا اور تعلق باللہ کی روحانی توانائی پاکر کائنات کی تمام چیزوں سے بے نیاز ہو جائے گا۔‘‘ (فتوح الغیب صفحہ 15)
سو عبادِ صالحین خواہشاتِ نفس کی پیری سے مکمل اجتناب کرتے ہیں کیونکہ یہی خواہشات قتل، زنا، جھوٹی گواہی سمیت تمام گناہوں کی بنیاد ہیں۔ عبادِ صالحین کا اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ وہ ہر قدم اور ہر مرحلہ پر اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے رہتے ہیں۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے عبادِ صالحین بندے تکبّر اور رعونت سے پاک ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو کمتر اور عاجز اور اللہ تعالیٰ کو برتر اور اعلیٰ سمجھتے ہوئے اُس سے دُعا و مناجات کا تعلق و رشتہ قائم کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے :
وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ (الفرقان 66:)
ترجمہ:اور وہ لوگ جو کہتے ہیں اے ہمارے ربّ ! ہم سے جہنم کا عذاب ٹال دے یقیناً اِس کا عذاب چمٹ جانے والا ہے۔
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام عبادِ صالحین کی ایک علامت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ اولیاء اللہ کی بھی ایسی ہی حالت ہوتی ہے کہ ان میں تکلفات نہیں ہوتے۔بلکہ وہ بہت ہی سادہ اور صاف دِل لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے لباس اور دوسرے امور میں کسی قسم کی بناوٹ اور تصنع نہیں ہوتا مگر اِس وقت اگر پیرزادوں اور مشائخوں کو دیکھا جاوے تو اُن میں بڑے بڑے تکلفات پائے جاتے ہیں۔ ان کا کوئی قول اور فعل ایسانہ پاؤگے جو تکلف سے خالی ہو۔ گویا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ امت محمدیہ ہی میں سے نہیں ہیں۔ ان کی کوئی اور ہی شریعت ہے۔ اُن کی پوشاک دیکھو تو اس میں خاص قسم کا تکلّف ہوگا یہاں تک کہ لوگوں سے ملنے جلنے اور اور کلام میں بھی ایک تکلف ہوتا ہے۔ ان کی خاموشی محض تکلف سے ہوتی ہے۔ گویا ہر قسم کی تأثیرات کو وہ تکلف ہی سے وابستہ سمجھتے ہیں برخلاف اس کے آنحضرت ؐ کی یہ شان ہے وَمَا اَنا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْن اور ایسا ہی دوسرے تمام انبیاء و رسل جو وقتاً فوقتاً آئے وہ نہایت سادگی سے کلام کرتے اور اپنی زندگی بسر کرتے تھے۔ اُن کے قول و فعل میں کوئی تکلف اور بناوٹ نہ ہوتی تھی۔‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 417)
اسی طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ عبادِ صالحین کی ایک صفت یہ بھی بیان فرماتا ہے کہ وہ بلند اخلاق کے حامل ہوتے ہیں۔ اِن کی بعض اخلاقی اقدار کے متعلق قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَي الْاَرْضِ ہَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا (الفرقان 64:)
ترجمہ: اور خدائے رحمان کے مقبول بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب اِن سے جاہل لوگ ناپسند یدہ بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے ہوئے ان سے الگ ہو جاتے ہیں۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَالَّذِيْنَ لَا يَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ۰ۙ وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا (الفرقان74:) یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو کذب اور باطل کاموں میں حاضر نہیں ہوتے اور جب بیہودہ کاموں کے پاس سے گزرتے ہیں تو دامن بچاتے ہوئے نہایت وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’ ’یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب انسان کسی کا مقابلہ کرتا ہے تو اسے کچھ نہ کچھ کہنا ہی پڑتا ہے جیسے مقدمات میں ہوتا ہے۔ اِس لیے آرام اِسی میں ہے کہ تم ایسے لوگوں کا مقابلہ ہی نہ کرو، سدِّباب کا طریق رکھو اور کسی سے جھگڑا مت کرو۔ زبان بند رکھو۔ گالیاں دینے والے کے پاس سے چپکے سےگزر جاؤ گویا سنا ہی نہیں اور اُن لوگوں کی راہ اختیار کرو جن کے لیے قرآن شریف نے فرمایا ہے : وَاِذَا مَرُّوْا باللَّغْوِمَرُّوْا کِرامًا۔ اگر یہ باتیں اختیار کرلوگے تو یقیناً یقیناً اللہ تعالیٰ کے سچے مخلص بن جاؤگے۔‘‘ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 131)
اس کے علاوہ قرآن کریم نے عبادِ صالحین کے اور بہت سے اوصاف کا ذکر کیا ہے سورۃ حٰم السجدہ آیت 31 میںعبادِ صالحین کی ایک صفت استقامت کا ذکر فرمایا۔ سورہ یونس آیت نمبر 63 تا 65 میں عبادِ صالحین کی دو بنیادی صفات ایمان اور تقویٰ کا ذکر فرمایا۔ یہ وہ اعلیٰ صفات ہیں جن کے حامل عبادِ صالحین ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے عبادِ صالحین بندے یہ صفات اپنے اندر پیدا کرکے جہاں ایک طرف اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں وہاں دوسری طرف اپنی صحبت صالحہ کے ذریعہ دوسروں کی ہدایت کا باعث بھی ہوتے ہیں۔
عبادِ صالحین کی علامات و اوصاف از روئے احادیث
کتبِ احادیث میں بھی بڑی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ عبادِ صالحین کی علامات، اوصاف اوران کی اہمیت اور برکات کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت عمرانؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا بہتر لوگ میرے زمانہ کے ہیں پھر وہ جو اِن کے بعد آئیں گے۔ بہرحال آپ ؐ نے اِس کے بعد فرمایا:’’ ان لوگوں کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو بِن بلائے گواہی دیںگے، خیانت کے مرتکب ہوں گے، دینداری چھوڑدیںگے، نذریں مان کر پوری نہیں کریںگے، عہد کے پابند نہ رہیں گے اور عیش و آرام کی وجہ سے موٹاپا ان پر چڑھ جائے گا۔ یا رہبانیت اور ترکِ فرائض کی طرف اِن کا رجحان بڑھ جائے گا اور آہستہ آہستہ تقاضائے حالات سے غافل ہو جائیں گے۔ ‘‘ (مسلم کتاب الفضائل باب فضل الصحابۃ)
حضرت عمر بن خطاب ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :میں نے اپنے صحابہ کے اختلاف کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی۔ اے محمد ؐ ! تیرے صحابہ کا میرے نزدیک ایسا مرتبہ ہے جیسے آسمان میں ستارے ہیں۔ بعض بعض سے روشن تر ہیں لیکن نور ہر ایک میں موجود ہے۔ پس جس نے تیرے کسی صحابی کی پیروی کی میرے نزدیک وہ ہدایت یافتہ ہوگا۔ حضرت عمرؓ نے یہ بھی کہا کہ حضور ؐ نے فرمایا کہ میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں۔ ان میں سے جِس کی بھی تم اقتدا کروگے ہدایت پا جاؤگے۔ (مشکوٰۃ کتاب المناقب مناقب الصحابۃ)
حضرت عبد اللہ بن مغفل ؓ بیان کرتے ہیں ہیںکہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے خوف سے کام لینا۔ انہیں طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنانا۔ جو شخص اُن سے محبت کرےگا تو وہ دراصل میری محبت کی وجہ سے کرے گا اور جو شخص اُن سے بغض رکھے گا دراصل وہ مجھ سے بغض کی وجہ سے اُن سے بغض رکھے گا۔ جو شخص اُن کو دُکھ دے گا اُس نے مجھ کو دُکھ دیا اور جس نے مجھے دُکھ دیا اُس نے اللہ کودُکھ دیا اور جس نے اللہ کو دُکھ دیا اور ناراض کیا تو ظاہر وہ اللہ کی گرفت میں ہے۔ (ترمذی کتاب المناقب عن رسول اللہ)
حضرت انس ؓ کی ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ سے پوچھا گیا کہ آپؐ کی آل سے کیامراد ہے۔ آپؐ نے فرمایا ہر نیک اور متقی آدمی میری آل میں شامل ہے۔ (المعجم الصغیر للطبرانی باب الجیم)
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے روزِ روشن کی طرح یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ صحابہ کرام ؓ بھی عبادِ صالحین میں سے تھے۔ اللہ اُن سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔ ان صحابہ کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول میں گزرا۔ یہ اعلیٰ نمونے صحابہ کرام نے آنحضرت ﷺ سے سیکھے اور رسولِ عربی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ عبادِ صالحین میں سب سے اعلیٰ و ارفع اور بلند مقام رکھتے تھے۔آپ ؐ تمام عبادِ صالحین کے سردار ہیں۔ دُنیا کو عبادِ صالحین کی اعلیٰ تعلیم دینے والے اور پھر اپنے اعلیٰ اور حسین عملی نمونے کے ذریعہ ان عبادِ صالحین کو خدانما وجود بنانے والے ہمارے آقا سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کواُسوۂ حسنہ قرار دیا۔ اس لیے اگر کوئی عبدِ صالح بننا چاہتا ہے تو اس کو اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے اخلاق و عادات کی پیروی کرنی ہوگی۔اس کے بغیرایک انسان منعم علیہ گروہ کے کسی زمرہ میں داخل نہیں ہوسکتا۔
عبادِ صالحین میں سب سے اعلیٰ و ارفع مقام آنحضرت ﷺ کاہے
صالحیت میں سب سے اعلیٰ و ارفع اور انتہائی بلند مقام اگر کسی کا تھا تو وہ ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا تھا۔ آپ ﷺ عبد کامل تھے۔ آپؐ عبدِ صالح تھے۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے:اِنَّ اللہَ يُحِبُّ التَّـوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِيْنَ (البقرہ 223:) اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ آپؐ ظاہری و باطنی پاکیزگی کا پورا خیال رکھتے تھے۔ آپؐ کے اندر تمام پاکیزہ عادات و اطوار تھیں۔ اِسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ ؑ کے متعلق یہ گواہی دی کہ وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ ( القلم 5:) یعنی آپؐ عظیم الشان اخلاق پر فائز تھے۔ اِس آسمانی شہادت سے بہتر آپؐ کے اخلاق کی تصویر کشی کون کرسکتا ہے ؟ رسول اللہ ﷺ کی رفیقۂ حیات حضرت عائشہ ؓ کی یہ شہادت ہے کہ اللہ کی رضا کے تابع آپؐ کے سب کام ہوتے تھے اور جس کام سے خدا ناراض ہو آپؐ اُس سے دور رہتے تھے۔ حضرت یزید بن بابنوس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت عائشہ ؓ سے عرض کیا اے امّ المومنین! رسول اللہ ﷺ کےاخلاق کیسے تھے؟ انہوں نے فرمایا رسول اللہ ؐ کے اخلاق قرآن تھے۔
پھر فرمانے لگیں سورۃ المومنون یاد ہے تو سناؤ۔ حضرت یزید ؓ نے اِس سورت کی پہلی دس آیات کی تلاوت کی جو قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ سے شروع ہوتی ہیں اور جن میں یہ ذکر ہے کہ وہ مومن کامیاب ہوگئے جو اپنی نمازوں میں عاجزی اختیار کرتے ہیں وہ لغو چیزوں سے پرہیز کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں وہ اپنے تمام سوراخوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے اِن آیات کی تلاوت سُن کر فرمایا کہ یہ تھے رسول اللہﷺ کے اخلاقِ فاضلہ۔ الغرض حضرت عائشہ ؓ کی چشم دید شہادت کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی ؐ کے اخلاق قرآن تھے۔ جس کا یہ مطلب ہےکہ اوّل قرآن شریف میں بیان فرمودہ تمام اخلاق اور مومنوں کی جملہ صفات کی تصویر آنحضرت ﷺ کی ذات تھی۔ آپؐ جہاں عبدِ کامل تھے وہاں عبدِ صالح کے ارفع اور اعلیٰ ترین مقام پر بھی فائز تھے۔ دوم قرآن نے جو حکم دیے وہ سب آپؐ نے پورے کر دکھائے۔ گویا آپؐ چلتے پھرتے مجسم قرآن تھے۔ قرآن شریف میں اِس عبدِ صالح ؐ کی شخصیت آپ ؐ کے لباس، حقوق العباد کی نازک ذمہ داریوں، بے پناہ روز مرہ مصروفیات، انقطاع الی اللہ، عبادات، ذکر الٰہی تبلیغ اور پاکیزہ اخلاق، سچائی، راستبازی، استقامت، رافت و رحمت عفو و کرم وغیرہ کے واضح اشارے ملتے ہیں۔ اس عبدِ صالح کی پُرکشش شخصیت کا عکس آپؐ کے خوبصورت اور پرکشش چہرہ اور آپؐ کے اخلاقِ فاضلہ سے خوب نمایاں تھا جس کے ہزاروں فدائی اور عاشق پیدا ہوئے۔آپ ﷺ جہاں خودعبادِ صالحین کے سردار تھے اور عبادِ صالحین کے سب سے اعلیٰ اور ارفع مقام پر فائز تھے۔ وہیں آپ ؐ کے عملی نمونہ کی پیروی کے نتیجہ میں آپؐ کے صحابہ کرام اور آپ کے بعد بھی بے شمار انسان عبادِ صالحین کے زمرہ میں داخل ہوئے۔
عبادِ صالحین کے مصداق صحابہ ؓ رسول اللہ ﷺ
صحابہ کرام آنحضرت ﷺ کی پیروی کے نتیجہ میں عبادِ صالحین کے زمرہ میں شامل ہوگئے اور اللہ اُن سے اور وہ اپنے اللہ سے راضی ہوگئے۔
آنحضرتﷺ کے نقشِ قدم اور اُسوہ ٔ حسنہ پر چلتے ہوئے صحابہ رسول ؐ بھی عبادِ صالحین کے زمرہ میں شامل ہوگئے اور عبادت گزاری، زہد و اِتقا، باطنی و ظاہری صفائی، ایثار، قربانی، راست گفتاری، دیانت اور امانت صبر و رضا اور اطاعت کے ایسے اعلیٰ نمونے دکھائے جو آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
عبادِ صالحین کے زمرہ میں شامل اِن صحابہ کرام کی عبادت گزاری اور زہد و اتقا کی چند جھلکیاں پیش ہیں جن کو پڑھ اور سُن کر آج بھی انسان پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ زہد و اتقا اور عبادت گزاری کے بغیر انسان عبادِ صالحین کے زمرہ میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے خاص کر صحابہ کرام کے زہد و اتقا اور عبادت گزاری کے اعلیٰ نمونوں اور واقعات کو ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ کے متعلق ثابت ہے کہ آپؓ نے عالم جوانی میں اسلام قبول کیا مگر شب بیداری آپؓ کا محبوب مشغلہ تھا۔ آپ ؓ کا کنبہ نہایت مختصر اور صِرف تین اصحاب پر مشتمل تھا یعنی آپؓ خود آپؓ کی بیوی اور ایک خادم مگر اس مقدّس خاندان نے عبادتِ الٰہی کے لیے ایسی تقسیم اوقات کر رکھی تھی کہ جِس سے ساری رات ہی عبادت میں بسر ہو اور وہ اِس طرح کہ تینوں باری باری ایک تہائی رات جاگتے اور عبادت کرتے تھے۔ (ترمذی ابواب الذہد)
حضرت عبد اللہ بن عمر جوانی میں ہی نہایت متقی عبادت گزار اور عبدِ صالح تھے۔ عبادت کے شوق میں رات کو مسجد کے فرش پر سو رہے دُنیاوی دل فریبیوں سے کوئی سروکار نہیں تھا اور خواہش نفسانی پر پوراقابورکھتے تھے۔ آنحضرتﷺ پر آپ ؓ کی عبادت گزاری اور پاکبازی کا اِس قدر اثر پڑا تھا کہ آپؐ نے برملا آپ ؓ کو عبدِ صالح کا لقب عطا فرمایا۔ چنانچہ اسی وجہ سے ایک مرتبہ ام المؤمنین حضرت حفصہ ؓ سے آپؐ نے فرمایا کہ عبد اللہ’’ جو ان صالح ‘‘ ہے۔ (تہذیب التہذیب جلد 5 صفحہ 330)
حضرت ابو طلحہ ؓنے بالکل نو عمری میں اسلام قبول کیا تھا۔ لیکن عبادت کے ذریعہ تقویٰ اور طہارت میں وہ بلند مقام حاصل کرلیا تھا کہ جلیل القدر صحابہ کرام آپؓ سے دُعائیں کرواتے تھے۔ آپؓ اِس کثرت سے عبادت کرتے تھے کہ آپؓ کا لقب ’’ سجاد‘‘ پڑ گیا تھا۔ (مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 374)
اسلام لانے سے قبل حضرت ابو سفیان مخالفت میں بڑھے ہوئے تھے مگر مسلمان ہونے کے بعد اپنے اندر غیر معمولی تبدیلی اور انقلاب پیدا کر لیا اور عبادِ صالحین کے زمرہ میں شامل ہوگئے۔ آپؓ اسلام قبول کرنے کے بعد اسلامی تعلیم کا ایک زندہ نمونہ بن گئے تھے۔ رات اور دِن کا اکثر حصّہ عبادت الٰہی میں گزارتے تھے۔ اس وجہ سے آنحضرت ﷺ نے آپؓ کو جوانانِ جنت کا لقب دیا تھا۔ (اسدالغابہ جلد 3 صفحہ 323)
پس یہ چند واقعات اختصار کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں جن سے یہ بخوبی عیاں ہو جاتا ہے کہ صحابہ کرام عبادِ صالحین کے گروہ میں شامل تھے۔
صالحیت کا مقام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں جن چار درجات کا ذکر کرتا ہے اُن میں سے ایک درجہ صالحیت کا مقام ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہےکہ
وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّہَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ۰ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا (النساء آیت 70)
ترجمہ: اور جس نے اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کی پس یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات نازل ہوئے نبیوں میں سے، صدیقوں میں سے، شہداء میں سے اور صالحین میں سے اور کتنے بہترین ہیں یہ ساتھی۔
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اِس آیت کی تفسیر میں صالحین کے درجے اور مقام کی جو پُر حکمت تشریح بیان فرمائی وہ ذیل میں درج کی جاتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’ ہم نماز میں یہ دُعا کرتے ہیں کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ ۥۙ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ اِس سے یہی مطلب ہے کہ خدا سے ہم اپنی ترقی ایمان اور بنی نوع کی بھلائی کے لیے چار قسم کے نشان چار کمال کے رنگ میں چاہتے ہیں۔ نبیوں کا کمال، صدیقوں کا کمال، شہیدوں کا کمال، صلحاء کا کمال … اور مرد صالح کا کمال یہ ہے کہ ایسا ہر ایک قسم کے فساد سے دور ہو جائے اور مجسم صلاح بن جائے کہ وہ کامل صلاحیت اُس کی خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان مانی جائے۔‘‘
(الحکم جلد12 مورخہ 6مئی 1908ء صفحہ 5)
اسی طرح ایک اور مقام پر صالحین کی صفات بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ ’’ صالحین وہ ہوتے ہیں جن کے اندر سے ہر قسم کا فساد جاتا رہے۔‘‘ (تفسیر حضرت مسیح موعود ؑ جلد اول صفحہ 255)
نیزفرمایا: ’’ صالحین کے اندر کسی قسم کی روحانی مرض نہیں ہوتی اور کوئی مادہ فساد کا نہیں ہوتا۔‘‘ (الحکم جلد 6 مورخہ 24 جولائی 1902ء صفحہ 6)
جب انسان صالحین میں داخل ہو جائےتو اُس پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔اِس بارہ میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’صلاح کی حالت میں انسان کو ضروری ہوتا ہے کہ ہر ایک قسم کے فساد سے خواہ عقائد کے متعلق ہو یا اعمال کے متعلق پاک ہو جیسے انسان کا بدن صلاحیت کی حالت اُس وقت رکھتا ہے جبکہ سب اخلاط اعتدال کی حالت پر ہوں۔‘‘ (الحکم جلد5 مورخہ 17 اگست1901ء صفحہ2)
انسان عبادِ صالحین کے مقام میں کس طرح داخل ہوسکتا ہے۔ اس کا تفصیل کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’ چوتھا درجہ صالحین کا ہے جن کو موادِ ردیہ سے صاف کردیا گیا ہے اور اِن کے قلوب صاف ہوگئے ہیں۔ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب تک موادِ ردیہ دورنہ ہوںاور سوءِ مزاج رہے تو مزہ زبان تک کا بھی بگڑجاتا ہے، تلخ معلوم دیتا ہے اور جب بدن میں پوری صلاحیت اور اصلاح ہو اُس وقت ہر ایک شے کا اصل مزہ معلوم ہوتا ہے اور طبیعت میں ایک قسم کی لذّت اور سرور اور چستی اور چالاکی پائی جاتی ہے۔ اِس طرح پر جب انسان گناہ کی ناپاکی میں مبتلا ہوتا ہے اور روح کا قوام بگڑ جاتا ہے اور پھر روحانی قوتیں کمزور ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ عبادات میں مزہ نہیں رہتا طبیعت میں ایک گھبراہٹ اور پریشانی پائی جاتی ہے لیکن جب موادِ ردیہ جو گناہ کی زندگی سے پیدا ہوئے تھے توبۃ النصوح کے ذریعہ خارج ہونے لگیں تو روح میں وہ اضطراب اور بے چینی کم ہونے لگتی ہے یہاں تک کہ آخر ایک سکون اور تسلی ملتی ہے۔ پہلے جو گناہ کی طرف قدم اُٹھانے میں راحت محسوس ہوتی تھی اور پھر اسی فعل میں جو نفس کی خواہش کا نتیجہ ہوتا تھا اور جھکنے میں خوشی ملتی تھی اُس طرف جھکتے ہوئے دُکھ اور رنج معلوم ہوتا ہےروح پر ایک لرزہ پڑ جاتا ہے، اگر اِس تاریک زندگی کا وہم یا تصوّر بھی آجائے اور پھر عبادات میں ایک لُطف، ذوق، جوش اور شوق پیدا ہونے لگتا ہے اور روحانی قویٰ جو گناہ آمیز زندگی سے مردہ ہو چلے تھے اُن کا نشونما شروع ہوتا ہے اور اخلاقی طاقتیں اپنا ظہور کرتی ہیں۔‘‘ (الحکم جلد 5 مورخہ 24 مارچ 1901ء صفحہ 1 تا 2)
عبادِ صالحین بننا اور مقامِ صالحیت پر فائز ہونا منعم علیہ گروہ میں داخل ہونا ہے۔
حضرت مسیح موعود ؑ اِس تعلق سے افرادِ جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ منعم علیہ چار قسم کے لوگ ہوتے ہیں: نبی، صدیق، شہید اور صالح۔ انبیاء علیھم السلام میں چاروں شاخیں جمع ہوتی ہیں کیونکہ یہ اعلیٰ کمال ہے۔ ہر ایک انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ ان کمالات کے حاصل کرنے کے لیے جہاں مجاہدہ صحیحہ کی ضرورت ہے اُس طریق پر جو آنحضرت ﷺ نے اپنے عمل سے دکھایا ہے کوشش کرے … اور ہماری جماعت کو خصوصیت سے اِس طرف متوجہ ہونا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اِس سلسلہ کے قائم کرنے سے یہی چاہا ہے کہ و ہ ایسی جماعت تیار کرے جیسی آنحضرت ﷺ نے تیار کی تھی تاکہ اِس آخری زمانہ میں یہ جماعت قرآن شریف اور آنحضرت ﷺ کی سچائی اور عظمت پر بطور گواہ ٹھہرے۔‘‘ (الحکم جلد 9 مورخہ 31مارچ 1903ء صفحہ 6)
پس سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے اِذن سے مقامِ صالحیت اور عبادِ صالحین کے فضائل، برکات، اہمیت اور اوصاف کا جس قدر شاندار الفاظ میں نقشہ پیش کیا ہے اُس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی بخش تحریرات کی روشنی میں عبادِ صالحین کے زمرہ میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
عبادِ صالحین کی صحبت میں رہنے کی اہمیت و برکات
عبادِ صالحین کا مقام اور مرتبہ بہت اعلیٰ ہے۔ اِن عبادِ صالحین کی صحبت صالحین میں رہنے والوں کو جہاں اللہ تعالیٰ کا قرب اور اُس کی رضا حاصل ہوتی ہے وہاں بےشمار برکات اور حسنات کا حصول بھی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بھی قرآن کریم میں حکم ہے:يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ(التوبہ119:) یعنی اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ عبادِ صالحین بننے کے لیے صالحین اور صادقین کی صحبت اختیار کرناانتہائی ضروری ہے کیونکہ بُری صحبت سے انسان ہلاک اور تباہ ہو جاتا ہے،شیطان کے پنجوں میں گرفتار ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ سے دُور ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَقَدْ اَضَلَّنِيْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَاۗءَنِيْ۰ۭ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا۲۹ وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا (الفرقان 29: تا 30)
ترجمہ:اے وائے ہلاکت کاش میں فلاں شخص کو پیارا دوست نہ بناتا۔ اُس نے یقیناً مجھے اللہ کے ذکر سے منحرف کردیا۔ بعد اُس کے کہ وہ میرے پاس آیا اور شیطان تو انسان کو بے یارومددگار چھوڑ جانے والا ہے۔
پس شیطان سے بچنے اور ہلاک اور برباد ہونے سے بچنے کے لیے صحبتِ صالحین اور صحبتِ صادقین کو اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے۔
حضرت مُصلح موعود رضی اللہ عنہ عبادِ صالحین کی صحبتِ صالحین اختیار کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’قرآن کریم نے مومنوں کو خاص طور پر نصیحت فرمائی ہے کہ تم ہمیشہ صادقوں کی معیّت اختیار کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے گِردو پیش کی اشیاء سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا مگر وہ اپنی دوستی اور ہم نشینی کے لیے اُن لوگوں کا انتخاب کرے گا جو اعلیٰ اخلاق کے مالک ہوںگے اور جن کا مطمحِ نظر بلند ہوگا تو لازماً وہ بھی اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرے گا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 381)
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام صحبتِ صالحین کی برکات بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ ’’ صحبت میں بڑا شرف ہے۔ اس کی تاثیر کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچا ہی دیتی ہے۔ کسی کے پاس اگر خوشبو ہو تو پاس والے کو بھی پہنچ جاتی ہے۔ اس طرح پر صادقوں کی صحبت ایک روح صدق کی نفخ کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے قرآن شریف میں كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ فرمایا ہے اور اسلام کی خوبیوں میں سے یہ ایک بے نظیر خوبی ہے کہ ہر زمانے میں ایسے صادِق موجود رہتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 609)
ایک اور مقام پر آپؑ صحبتِ صالحین اختیار کرنے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ جب انسان ایک راستباز اور صادق کے پاس بیٹھتا ہے تو صدق اِس میں کام کرتا ہے لیکن جو راستبازوں کی صحبت کو چھوڑ کر بدوں اور شریروں کی صحبت کو اختیار کرتا ہے تو اُن میں بدی اثر کر جاتی ہے … سخت بدنصیب ہے وہ شخص جو صحبتِ صالحین سے دور رہے … غرض نفس مطمئنہ کی تاثیروں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اطمینان یافتہ لوگوں کی صحبت میں اطمینان پاتے ہیں۔ امارّہ والے میں نفس امّارہ کی تاثیر یں ہوتی ہیں۔ اور لوّامہ والے میں لوّامہ کی تاثیر یں ہوتی ہیں اور جو شخص نفسِ مطمئنہ والے کی صحبت میں بیٹھتا ہے اس پر بھی اطمینان اور سکینت کے آثار ہونے لگتے ہیں اور اندر ہی اندر اسے تسلی ملنے لگتی ہے۔‘‘ (الحکم جلد 8 نمبر 2 مورخہ 17 جنوری 1904ء صفحہ 1)
صحبتِ صالحین میں رہنے کے کیا روحانی فوائد ہیں اِس کا ذکر کرتے ہوئے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’ دو چیزیں ہیں ایک تو دُعا کرنی چاہیے اور دوسرا طریق یہ ہے کہ راستبازوں کی صحبت میں رہو تاکہ ان کی صحبت میں رہ کر تم کو پتہ لگ جاوے کہ تمہارا خدا قادر ہے، دیکھنے والا ہے، سننے والا ہے۔ دُعائیں قبول کرتا ہے اور اپنی رحمت سے اپنے بندوں کو صدہا نعمتیں دیتا ہے۔‘‘ (البدر جلد نمبر 2 مورخہ 31 جولائی 1903ء صفحہ 1)
احادیث میں بھی خصوصیت کے ساتھ صحبت صالحین اختیار کرنے اور عبادِ صالحین کے ساتھ رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اور اس کی برکات کا ذکر کیا گیا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نیک ساتھی اور بُرے ساتھی کی مثال ان دو شخصوں کی طرح ہے جن میں سے ایک کستوری اُٹھائے ہوئے ہو اور دوسرا بھٹی جھونکنے والاہو۔ کستوری اُٹھانے والا تجھے مفت خوشبو دے گا یا تو اُس سے خرید لے گا۔ ورنہ کم از کم اس کی خوشبو اور مہک تو سونگھ ہی لے گا۔ اور بھٹی جھونکنے والا یا تیرے کپڑوں کو جلا دے گا یا اس کا بدبو دار دھواں تجھے تنگ کرے گا۔ (مُسلم کِتَاب البِّرْ وَالصلَۃ)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مذکورہ حدیث مبارکہ کے حوالے سے صحبت صالحین کی برکات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ اللہ تعالیٰ ہم سب کو کستوری کی خوشبو بانٹنے والا بنائے اور ہمارے اندر وہ پاک تبدیلیاں پیدا ہوں جو نہ صرف ہمیں فائدہ پہنچا رہی ہوں بلکہ لوگ بھی ہم سے فائدہ اُٹھا رہے ہوں۔پس اس کے لیے بہت مجاہدے کی ضرورت ہے۔ اپنی نسلوں کو بچانے کے لیے بھی بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔‘‘ (خطبات ِ مسرور جلد دوم صفحہ 397تا 398)
پس قرآنِ کریم، احادیث، سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ اور خلفاءِ کرام کے ارشادات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگر ایک انسان عبادِ صالحین کے منعم علیہ گروہ میں شامل ہونا چاہتا ہے تو صحبت صالحین اختیار کرے عبادِ صالحین اور عباد الصادقین کی صحبت ہی ہے جو انسان کو صالحین کے گروہ میں داخل کرسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ہمیشہ صحبتِ صالحین میں رہنے والا اور عبا د الصالحین میں داخل ہونے والا بنادے۔ آمین
نماز میں( تشہد )میں نمازی کے السَّلامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِیْنَ کہنے کی فضیلت
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ جب ہم نبی کریمﷺؐ کے پیچھے نماز پڑھتے تو کہتے: سلام ہو جبرائیل اور میکائیل پر۔ سلام ہو فلاں اور فلاں پر، سلام ہو اللہ پر۔ آنحضرت ؐ ایک روز ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اللہ تو خود سلام ہے۔ تم اللہ کو کیا سلام کرتے ہو، اس لیے جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو یہ کہے: تمام آداب بندگی، تمام عبادات اور تمام بہترین تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ آپ پر سلام ہو اے نبی ؐ اور اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں۔ سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام صالح بندوں پر۔ جب تم یہ کہوگے تو تمہارا سلام آسمان اور زمین میں جہاں کوئی اللہ کا نیک بندہ ہے، اس کو پہنچ جائے گا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ؐ اِس کے بندے اور رسول ہیں۔ (صحیح البخاری)
اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ السَّلامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِیْنَ کہہ کہ تمام عبادِ صالحین پر سلامتی بھیجی گئی ہے کیونکہ عبادِ صالحین منعم علیہ گروہ میں سے ہیں۔ عبادِ صالحین کے گروہ میں شامل ہونا اور اس کے نتیجہ میں سلامتی حاصل کرنا یہ بہت بڑا انعام ہےجو اس گروہ کو حاصل ہوتا ہے۔تمام ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء عبادِ صالحین میں شامل تھے جن پر اللہ کی طرف سے سلامتی نازل ہوئی۔اور ہمارے آقا حضرت محمد ﷺ منعم علیہ کے چاروں گروہوں میں سب سے افضل و اکرم اور اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز تھے۔ اس لیے تمام مومنین کو آنحضرت ﷺ پر درود اور سلامتی پہنچانے کا حکم ہے اور اِس درود میں جب ہم آلِ محمد کہتے ہیں تو اس میںبھی تمام عبادِ صالحین شامل ہوتے ہیںکیونکہ خدا کے نیک، متقی، پرہیزگار اور مومن بندے بھی آنحضرت ﷺ کی ’’آل‘‘ میں شامل ہیں۔ پس عبادِ صالحین بننا اور اِس گروہ میں شامل ہونا بے شمار افضال و برکات اور انعامات کا وارث بننا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی عبادِ صالحین میں شامل ہونے کی توفیق اور سعادت عطا فرمائے۔ آمین۔
پس یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عبادِ صالحین بننا اور نیک اعمال بجا لانا اور اِس طرح منعم علیہ گروہ میں شامل ہوکر تمام برکات اور حسنات حاصل کرنا جن کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے ایک احمدی کی اوّلین ذمہ داری ہے۔ اسی طرح عبادِصالحین بننے کے لیے صالحین کی صحبت میں رہنا بھی ضروری ہے۔ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ ’’تزکیہ نفس کے واسطے صحبت صالحین اور نیکوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنا بہت مفید ہے۔‘‘ (خطبات مسرور جلد دوم صفحہ 404)
اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ ’’ بعض لوگ ایسا خیال کرتے ہیں کہ یہ بدی ہم کرلیں پھر نیک بن جائیں گے۔ ایسے آدمیوں کو نیکیوں کی توفیق حاصل نہیں ہوتی۔ بعد میں توبہ کرلینے کی نیتّ کے ساتھ بدی کی طرف جھکنا کبھی اعمالِ صالحہ کی توفیق نہیں دیتا۔ (حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ 388)
پس یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عبادِ صالحین میں داخل ہونے کے لیے مکمل طور پر ہر قسم کی بدی سے بچنا ہوگا اور نیکیاں اختیار کرنی ہوںگی۔ تبھی ایک انسان کامل طور پر عبادِ صالحین کے گروہ میں شامل ہوسکتا ہے اور اُن تمام برکات اور انعامات کا حقیقی وارث بن سکتا ہے جن کا تعلق عبادِ صالحین کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں حقیقی معنوں میں عبادِ صالحین بننے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ وہ تمام پیشگوئیاں جلد از جلد پوری ہوں جن کا تعلق عبادِ صالحین کے ساتھ ہے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ آمین۔