عبیداللہ علیم بقلم خود
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍جولائی 1998ء میں محترم عبیداللہ علیم صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے مکرم سلیم شاہجہانپوری صاحب نے علیم صاحب کا ایک خط نقل کیا ہے جس میں علیم صاحب رقمطراز ہیں کہ تھوڑی سی تگ و دَو کرکے مَیں نے اپنی تاریخ پیدائش کا تعین 12؍جون 1939ء کرلیا ہے۔ میری تُک بندی کا آغاز 1955ء کے لگ بھگ ہوا لیکن 1958ء تک لکھا گیا سب تلف کردیا۔ 1974ء میں شائع ہونے والے میرے پہلے شعری مجموعہ ’’چاند چہرہ ستارہ آنکھیں‘‘ میں 1959ء سے 1974ء تک کا کلام شامل ہے۔ اس مجموعہ کو 1974ء میں آدم جی ادبی انعام دیا گیا۔ دوسرا مجموعہ 1986ء میں شائع ہوا۔ پھر تمام اہم ادبی رسائل اور اخبارات میں میرا کلام شائع ہوتا رہا اور مجھ پر تبصرے اور مضامین شائع ہوئے۔ 1974ء سے 1979ء تک میں رائٹر گلڈ سندھ کا منتخب سیکرٹری رہا اور 1979ء سے رائٹر گلڈ کی مرکزی مجلس عاملہ پاکستان کا منتخب رُکن ہوں۔ میرے بیشمار انٹرویو نشر ہوئے ہیں اور میں نے بیشمار مشاعرے پڑھے ہیں اور تقریباً تمام مشہور گانے والوں نے میری نظمیں اور گیت گائے ہیں جو ریڈیوسے نشر ہوتے رہتے ہیں۔ میرے انٹرویو بی بی سی لندن سے دو تین بار نشر ہوچکے ہیں۔ امریکہ کے کئی شہروں میں بھی انٹرویو ہوئے اور نشر کئے گئے۔ ہندوستان بھی دو بار جاچکا ہوں جہاں کئی مشاعرے پڑھے اور انٹرویو نشر ہوئے۔ 1967ء سے 1978ء تک ٹیلی ویژن پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی کام کرتا رہا ہوں۔ … میری شاعری تین خلافتوں کی دعاؤں کا صدقہ ہے ورنہ احمدی شاعر اور ’’اِس‘‘ فضا میں پھول پھل سکے؟ ناممکن۔ میرے پیارے آقا حضرت خلیفۃالمسیح الرابع نے از راہ دعا اور احسان میری وہ قدر افزائی فرمائی ہے کہ اگر میں اپنے اوپر لکھے ہوئے سارے مضامین ایک پلڑے میں رکھوں اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعا اور میری شاعری پر زبانی اور تحریری اظہار تحسین دوسرے پلڑے میں تو یہ پلڑا اتنا بھاری ہے کہ باقی تمام چیزیں ہیچ ہو جاتی ہیں اور یہ میرے اور میری نسلوں کے لئے اتنا بڑا انعام ہے کہ اس سے آگے کوئی انعام تصور میں نہیں آسکتا۔