عظیم احمدی شاعر جناب عبیداللہ علیمؔ صاحب

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ اکتوبر 1999ء میں محترم عبیداللہ علیم صاحب کی سوانح حیات اور آپ کے کلام کے حوالہ سے مکرم محمد آصف ڈار صاحب کا ایک تفصیلی مضمون شامل اشاعت ہے۔
محترم علیم صاحب 12؍جون 1939ء کو بھوپال میں محلہ چندپورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مکرم رحمت اللہ بٹ صاحب اوورسیئر تھے اور انہوں نے سیالکوٹ سے بھوپال ہجرت کی تھی۔ بعد ازاں وہ انجینئر ہوئے، پھر ٹھیکیداری کی اور زمینداری بھی کی۔ اُن کی چار بیویوں میں سے آپ کی والدہ کا نمبر دوسرا تھا اور وہ بھوپال کی ہی رہنے والی تھیں۔ آپ کے دادا مکرم مولوی جان محمد صاحب اُس زمانہ میں B.A., B.T. تھے اور سیالکوٹ میں کسی سکول کے ہیڈماسٹر بھی رہے تھے۔ وہ بھی شعر کہا کرتے تھے۔
محترم علیمؔ صاحب 1946ء میں قادیان میں تیسری جماعت میں پڑھا کرتے تھے۔ پھر آپ کے والد کراچی چلے آئے تو آپ بھی اپنی والدہ کے ہمراہ وہاں آگئے لیکن آپ کے والد کو آپ کے آنے کی اطلاع نہ تھی اور آپ کو اُن کا پتہ معلوم نہ تھا چنانچہ دو چار روز اسٹیشن پر گزارنے پڑے۔ پھر اپنے والد کے ہمراہ لالوکھیت (لیاقت آباد) کے محلہ میں ایک کمرہ کے مکان میں منتقل ہوگئے۔ چند مہینے بعد والد کے ہمراہ جنگ شاہی آگئے جہاں وہ ایک سیمنٹ فیکٹری میں ملازم ہوگئے تھے۔ یہاں پڑھائی کا سلسلہ منقطع ہوگیا اور گھریلو حالات کی وجہ سے آپ کو بھی اُسی فیکٹری میں مزدوری کرنی پڑی۔ پھر حسن ابدال آنا پڑا جہاں آپ کے والد نے آپ کو پنجہ روڈ پر ایک جنرل سٹور ’’عبیدیہ جنرل سٹور‘‘ کے نام سے کھلوادیا۔ چھوٹا بھائی بھی آپ کے ہمراہ تھا جس کی ناگہانی وفات کے صدمہ سے آپ بہت غمگین ہوگئے اور پھر اپنی بڑی والدہ کے کہنے پر واپس کراچی آگئے اور تعلیمی سلسلہ دوبارہ استوار کرلیا۔ ایک سال میں دو دو کلاسیں پاس کیں، سکول کے جریدہ کے نائب ایڈیٹر بھی رہے اور بیت بازی سے بھی شغف رہا۔ نویں جماعت میں اپنی موزوں طبیعت کا ادراک ہوا۔ انہی دنوں رسالہ ’’المصلح‘‘ کراچی میں آپ کی ایک نظم بھی چھپی۔ آغاز میں آپ بزرگ شاعر شاہد منصور صاحب سے اصلاح لیتے رہے۔ میٹرک سیکنڈ ڈویژن میں پاس کرنے کے بعد دو سال تک ڈاکخانہ کے سیونگ بنک میں کلرک کے طور پر ملازم رہے۔ 1959ء میں اردو کالج میں داخلہ لے لیا اور مالی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے ٹیوشنوں کا سہارا لیا۔ اس دوران مشاعروں میں بھی بلائے جاتے اور شوق سے سنے جاتے۔ 1958ء کے مارشل لاء کے بعد سیاسی تنظیموں سے وابستہ ہوئے تو 1961ء میں انٹر کے بعد کالج کے دروازے آپ پر بند ہوگئے۔ چنانچہ پہلے کسٹوڈین ڈیپارٹمنٹ میں ملازم ہوئے اور پھر پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انڈسٹریل اکاؤنٹنسی سے وابستہ ہوگئے۔ 1963ء میں ملازمت ترک کرکے تھرڈایئر میں داخلہ لے لیا۔
اس زمانہ میں جماعتی طور پر بھی سرگرم کارکن رہے۔ 1964ء-1963ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے متعلق آپ کی ایک نظم ’’الفضل‘‘ میں شائع ہوئی تو آپ کو حضورؓ کے پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف سے ایک خط ملا کہ ’’حضور انور نے آپ کی نظم پڑھی ہے اور آپ کے لئے بہت دعا کی ہے‘‘۔ حقیقت میں اسی دَور میں ہی آپ کو خوب پذیرائی ملنا شروع ہوئی۔
محترم علیمؔ صاحب نے 1965ء میں بی۔اے فرسٹ کلاس میں پاس کیا اور دو سال بعد ایم۔اے بھی کرلیا۔ پھر ریڈیوپروڈیوسر کیلئے درخواست دی ، ڈیوٹی آفیسر کی پیشکش ہوئی مگر آپ نے انکار کردیا اور ٹیلی ویژن پروڈیوسر کے لئے درخواست دی تو کامیاب ہوئے۔ اس دوران آپ کی غزلیں ریڈیو اور ٹی وی پر گائی جانے لگی تھیں۔ ایک مشہور غزل تھی

آنکھ سے دور سہی، دل سے کہاں جائے گا
جانے والے تُو ہمیں یاد بہت آئے گا

محترم علیمؔ صاحب نے پروڈیوسر کے طور پر بچوں کے اور موسیقی کے پروگرام کئے، دو چار مشاعرے بھی کئے، پھر مذہبی پروگرام کئے اور ان سب پروگراموں کا فارمیٹ یکسر تبدیل کردیا۔ ان جدتوں کی وجہ سے 32 علماء کا فتویٰ آپ کے خلاف جاری ہوا مگر آپ کی مقبولیت کی وجہ سے بے اثر رہا۔ آخر جب ضیاء کی حکومت آئی تو پھر آپ کے عقیدہ کا سوال اٹھا تو آپ نے استعفیٰ دیدیا اور ہمہ وقت شاعری کے ہی ہو رہے۔ 1974ء میں آپ کی پہلی کتاب ’’چاند چہرہ ستارہ آنکھیں‘‘ منظر عام پر آئی اور ملک گیر شہرت حاصل کی۔ اسی سال کا ’’آدم جی ایوارڈ‘‘ بھی آپ کے حصے میں آیا۔ اب تک اس کتاب کے بیس سے زائد ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ اسی سال آپ نے رائٹرگلڈ کے ریجنل سیکرٹری سندھ زون کا انتخاب جیتا۔ ٹی وی پروگرام ’’سخنور‘‘ میں 1974ء میں آپ کو Outstanding Poet قرار دیا گیا۔ آپ کی دوسری کتاب ’’ویران سرائے کا دیا‘‘ جولائی 1986ء میں چھپی۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ آپ کے کلام کو بہت پسند فرماتے تھے اور خلافت رابعہ کے دور میں تو آپ کو ایسی محبت اور شہرت ملی جس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔ MTA کے ذریعہ تمام دنیا میں آپ کا کلام نشر ہوا۔ انگلینڈ، جرمنی اور امریکہ وغیرہ میں اعزازی مشاعرے منعقد ہوئے۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے 2؍اپریل 1998ء کے ایک خط میں آپ کو تحریر فرمایا:- ’’آپ جانتے ہیں ، مجھے آپ سے کیسی دلی محبت ہے اور آپ کی یگانہ فنی صلاحیتوں کا کس قدر دل سے مداح ہوں۔ نظم و نثر میں اس سارے زمانے میں بس ایک ہی عبیداللہ علیم ہے‘‘۔
محترم علیم صاحب ہر سال مجلس مشاورت پر ربوہ تشریف لایا کرتے تھے۔ 1998ء میں بھی تشریف لائے۔ ایک عرصہ سے دل کے عارضہ میں مبتلا چلے آتے تھے، مشاورت کے بعد دل کا شدید حملہ ہوا اور کئی روز تک فضل عمر ہسپتال میں زیر علاج رہے۔ پھر کراچی تشریف لے گئے جہاں 18؍مئی 1998ء کو 59؍سال کی عمر میں وفات پائی۔ اگلے روز احمدیہ قبرستان ’’باغ احمد‘‘ میں سپردخاک ہوئے۔ پسماندگان میں آپ نے دو بیگمات، چار بیٹے اور دو بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں۔
محترم علیمؔ صاحب نے غزل، نظم اور آزاد نظم بھی لکھی ہے مگر معتدبہ حصہ غزل پر ہی مشتمل ہے۔ آپ کی شاعری عام روش سے ہٹ کر ہے۔ زباں بہت شستہ اور رواں ہے اور شاعری میں ہر قسم کے مضامین ملتے ہیں۔ حمد و نعت کے مضامین کو بھی آپ نے غزل ہی کی کیفیت میں باندھا ہے۔ نمونہ کلام کے طور پر محض چند اشعار پیش ہیں:-

کرکے سپرد اک نگہ ناز کے حیات
دنیا کو دین، دین کو دنیا کرے کوئی

وہ حسن اس کا بیاں کیا کرے جو دیکھتا ہو
ہر اک ادا سے کئی قد نئے نکلتے ہوئے

ہر اچھی بات پہ یاد آیا
اک شخص عجیب مثال ہوا

ایسا لگتا ہے کہ اس کی صورت
عالم خواب نما سے آئی
چلتے ہیں نقش قدم پر اس کے
جس کو رفتار صبا سے آئی
یونہی قامت وہ قیامت نہ ہوا
ہر ادا ایک ادا سے آئی
حسن اس کا تھا قیامت اس پر
وہ قیامت جو حیا سے آئی
یہ ادا عشق و وفا کی ہم میں
اک مسیحا کی دعا سے آئی

محترم علیمؔ صاحب کی شاعری میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی ذات کو اکثر محسوس کیا جاسکتا ہے۔

سایہ سایہ ایک پرچم دل پہ لہرانے کا نام
اے مسیحا تیرا آنا زندگی آنے کا نام
جس پہ اترا وہ مسیحا دل مینارہ، دل دمشق
استعارے پھول میں خوشبو کو سمجھانے کا نام

عرش سے تا فرش اک نظارہ و آواز تھا
جب وہ اترا جامہ نور سخن پہنے ہوئے

نور سے بھر جائے دل وہ رنگ ہے تحریر کا
آپ کیا ہوگا کہ جب عالم ہے یہ تصویر کا
جب ہوئے ہم گوش بر آواز تو ہم پر کھلا
ہر نئے عالم میں اک عالم تیری تقریر کا

موج نشاط و سیل غم جاں تھے ایک ساتھ
گلشن میں نغمہ سنج عجب عندلیب تھا
مَیں بھی رہا ہوں خلوت جاناں میں ایک شام
یہ خواب ہے یا واقعی مَیں خوش نصیب تھا
رکھتا نہ کیوں مَیں روح و بدن اس کے سامنے
یوں بھی تھا وہ طبیب، وہ یوں بھی طبیب تھا

وہ جس پہ رات ستارے لئے اترتی ہے
وہ ایک شخص دعا ہی دعا ہمارے لئے
دئے جلائے ہوئے ساتھ ساتھ رہتی ہے
تمہاری یاد تمہاری دعا ہمارے لئے

نوروں نہلائے ہوئے قامت گلزار کے پاس
اک عجب چھاؤں میں ہم بیٹھے رہے یار کے پاس
تم بھی اے کاش کبھی دیکھتے، سنتے اس کو
آسمان کی ہے زباں، یار طرحدار کے پاس
یہ محبت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے
چل کہ خود آئے مسیحا کسی بیمار کے پاس
پھر اسے سایہ دیوار نے اٹھنے نہ دیا
آکے اِک بار جو بیٹھا تیری دیوار کے پاس
تجھ میں اک ایسی کشش ہے کہ بقول غالب
خود بخود پہنچے ہے گُل گوشہ دستار کے پاس

اے شخص! تُو جان ہے ہماری
مر جائیں اگر تجھے نہ چاہیں
سو بار مریں تو تیری خاطر
سو بار جیئیں تو تجھ کو چاہیں

سائے میں تیرے دھوپ نہائے بصد نیاز
اے چھاؤں چھاؤں شخص تری عمر ہو دراز

وطن سے اپنی محبت کو آپ نے یوں بیان کیا:

مَیں تری خاک سے لپٹا ہوا اے ارض وطن
ان ہی عشاق میں شامل ہوں جو معتوب آئے
جی جان سے اے ارض وطن مان گئے ہم
جب تُو نے پکارا ترے قربان گئے ہم
ہم ایسے وفادار و پرستار ہیں تیرے
جو تُو نے کہا، تیرا کہا مان گئے ہم

محترم علیمؔ صاحب نے کراچی کے حالات پر بھی کھل کر اپنے کرب کا اظہار کیا ہے:-

مَیں یہ کس کے نام لکھوں، جو الم گزر رہے ہیں
میرے شہر جل رہے ہیں، میرے لوگ مر رہے ہیں
کبھی رحمتیں تھیں نازل اسی خطۂ زمیں پر
وہی خطۂ زمین ہے کہ عذاب اتر رہے ہیں
کچھ کم نہیں تھا پہلے بھی پامال میرا شہر
یہ کس کے پاؤں نے اسے پامال تر کیا

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں