علم حاصل کرنے کا شوق اور لگن
ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ ستمبر 2004ء میں شامل اشاعت ایک مضمون (مرتبہ: مکرم طارق حیات صاحب) میں بعض احمدی بزرگوں کے علم حاصل کرنے کے شوق کے حوالہ سے چند واقعات بیان کئے گئے ہیں۔
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں کہ مجھے تحصیل علم کا شوق دراصل اپنے والد صاحب محترم کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ مزید فرمایا: ’’میرے باپ کو اپنی اولاد کی تعلیم کا بہت شوق تھا۔ مدن چند ایک ہندو عالم تھا وہ کوڑھی ہوگیا۔ لوگوں نے اسے باہر مکان بنا دیا۔ میرے باپ نے اس کے پاس میرے بھائی کو پڑھنے کے لئے بھیجا۔ لوگوں نے کہا۔ خوبصورت بچہ ہے کیوں اس کی زندگی کو ہلاکت میں ڈالتے ہو۔ اس پر میرے باپ نے کہا مدن چند جتنا علم پڑھ کر اگر میرا بیٹا کوڑھی ہوگیا تو کچھ پروا نہیں۔
تم بھی اپنے بچوں کے ایسے باپ بنو۔ میرا باپ ایسا بلند ہمت تھا کہ اگر وہ اس زمانہ میں ہوتا تو مجھے امریکہ بھیج دیتا۔‘‘
ٍ ایک بار فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ میرے باپ پر رحم فرمائے۔ انہوں نے مجھ کو اس وقت جبکہ میں تحصیلِ علم کے لئے پردیس جانے لگا۔ فرمایا: اتنی دُور جاکر پڑھو کہ ہم میں سے کسی کے مرنے جینے سے ذرا بھی تعلق نہ رہے اور تم اس بات کی اپنی والدہ کو خبر نہ کرنا‘‘۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ جب بغرض تعلیم حکیم علی حسین صاحب کے پاس لکھنؤ تشریف لے گئے تو بیان فرماتے ہیں کہ: ’’ حکیم صاحب نے فرمایا: طب کہاں تک پڑھنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا افلاطون کے برابر۔ حالانکہ مجھے قطعاًخبر نہ تھی کہ افلاطون کوئی حکیم ہے یا طبیب۔ آپ نے ہنس کر فرمایا کچھ تو ضرور ہی پڑھ لو گے۔ اگر کسی چھوٹے کا نام لیتے تو میرے دل کو بہت صدمہ پہنچتا کیونکہ ہر انسان اپنی غایت مطلوب تک نہیں پہنچتا۔‘‘
٭ حضرت مصلح موعودؓ اپنی ظاہری تعلیم کے متعلق فرماتے ہیں:۔’’میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل سے جس طرح پڑھا ہے اور کوئی شخص نہیں پڑھ سکتا۔ آدھ آدھ پارہ بخاری کا آپ پڑھاتے تھے اور کہیں کہیں خود بخود ہی کچھ بتا دیتے تھے۔ اور بعض اوقات سبق کے انتظار میں سارا سارا دن گزارنا پڑتا تھا اور کھانا بھی بے وقت کھایا جاتا تھا۔ اسی وقت میرا معدہ خراب ہوا تھا۔‘‘
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا گورنمنٹ کالج لاہور کے زمانۂ طالب علمی کا ایک واقعہ ہے کہ امتحان کے دنوں میں بعض لڑکوں کو اگلے روز ہونے والے امتحانی پرچے کا علم ہوگیا۔ انہوں نے نصف شب کو آپؒ کوجگایا اور امتحانی پرچے کی نقل دینا چاہی۔ لیکن آپؒ نے فرمایا کہ: ’’میں صرف اصل محنت کا صلہ لینے کا حقدار ہوں جو میں نے کی۔ جونمبر مفت ملتے ہیں وہ میں کبھی نہ لوں گا۔ تم نے اپنی سمجھ کے مطابق مجھے فائدہ پہنچانے کی کوشش کی، اس کے لئے میری طرف سے شکریہ۔ مگر اب مجھے سونے دیجئے۔‘‘
آپؒ کے کلاس فیلو محترم شیخ محبوب عالم خالد صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضورؒ گورنمنٹ کالج لاہور کے زمانہ میں روزانہ کالج کے علاوہ چھ سات گھنٹے پڑھتے تھے۔ اور چھٹی والے دن بارہ بارہ ، تیرہ تیرہ گھنٹے پڑھتے تھے۔
6ستمبر1934ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کو اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان بھجوادیا۔ آپ کی شادی کو ابھی ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ آپ کو اعلیٰ تعلیم کے لئے رخت سفر باندھنا پڑا۔ لیکن آپؒ نے تحصیل علم کی خاطر کئی سال کی جدائی خندہ پیشانی سے برداشت کی۔
٭ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب لاہور میں بی۔اے میں زیر تعلیم تھے جب کسی طالب علم نے اسلام یا احمدیت کے متعلق کوئی ایسا سوال پوچھا جس کا آپؓ فوری جواب نہ دے سکے۔ اس کا آپؓ کی طبیعت پر ایسا اثر ہوا کہ آپؓ نے کالج چھوڑ دیا اور یہ فیصلہ کیا کہ ’’وہ کالج تو پھر بھی مل جائے گا مگر زندگی کا کچھ اعتبار نہیں۔ ممکن ہے کہ قرآن مجید اور حدیث پڑھنے کا اور پھر وہ بھی نورالدین ایسے پاک انسان سے پھر موقعہ نہ مل سکے اس لئے میں نے یہی بہتر جانا کہ قادیان جاکر قرآن و حدیث کا علم حاصل کروں۔‘‘
٭ حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خانصاحبؓ نے 14 سال کی عمر میں باوجود آشوب چشم کے میٹرک کا امتحان دیا اور اپنے مدرسہ (امریکن مشن سکول سیالکوٹ) میں اوّل بھی آئے۔ پھر (بعمر15سال) گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے تو وہ احمدیت کی سخت مخالفت کا زمانہ تھا۔ بعض طلبہ کی شرارتوں سے دق ہوکر آپؓ نے اپنے والد سے درخواست کی کہ آپؓ کی رہائش کا انتظام ہوسٹل سے باہر کردیا جائے۔ وجہ معلوم ہونے پر انہوں نے فرمایا: تم ابھی سے گھبرا گئے ہو، زندگی میں تو تمہیں اس سے بھی بڑی مشکلوں کا سامنا ہوگا۔ اگر ابھی برداشت کی عادت نہیں ڈالو گے تو آگے چل کر کیا کرو گے۔ اس پر آپؓ خاموش ہوگئے۔
پھر انٹرمیڈیٹ کے دونوں سالوں میں گرمیوں میں آپؓ کو آشوب چشم کی بڑی سخت تکلیف رہی اور آزمائشی امتحانات میں سے اکثر میں شامل نہیں ہوسکے۔ یونیورسٹی کے امتحانات کی تیاری کے لئے سردیوں کے تین چار مہینے میسر آگئے جن میں اوسطاً دس بارہ گھنٹے توجہ کے ساتھ مطالعہ کر لیتے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطا فرمائی۔
سکول کے ابتدائی درجوں میں آپ کے والد کے تجویز کردہ پروگرام کے مطابق ملازم صبح ہوتے ہی آپؓ کو ٹیوٹر کے پاس چھوڑ آتا، وہاں سے آپؓ مدرسہ چلے جاتے، دوپہر کا کھانا مدرسے میں آجاتا اور آپؓ مدرسہ سے سیدھے ٹیوٹر کے پاس چلے جاتے۔ وہیں شام کو گھر سے دودھ آجاتا۔ شام کا کھانا گھر پر آکر کھاتے اور پھر ٹیوٹر کے پاس چلے جاتے جہاں سے رات گئے واپس آتے۔
آپؓ کے والد صاحب کی بڑی خواہش تھی کہ آپؓ کو قرآن کریم کا ترجمہ آجائے لیکن آشوب چشم کی وجہ سے رفتار سست رہی۔ جب میٹرک کے امتحان میں چھ مہینے باقی تھے تو والد صاحب نے دریافت فرمایا کہ قرآن کریم کا ترجمہ کہاں تک پڑھ لیا ہے۔ آپؓ نے عرض کی کہ ساڑھے سات پارے ختم کئے ہیں۔ اس پر انہوں نے فرمایا اس رفتار سے تو تم شائد کالج جانے تک دس پارے بھی نہ مکمل کرسکو اور میری بڑی خواہش ہے کہ کالج جانے سے پہلے تم سارے قرآن کا سادہ ترجمہ ضرور سیکھ لو۔ اس سے آگے تمہارے اپنے ذوق اور اخلاص پر منحصر ہے مگر اس قدر سکھا دینا میرا فرض ہے۔ اب وقت تھوڑا رہ گیا ہے تم دن میں فراغت کے وقت دو تین رکوع کا ترجمہ دیکھ لیا کرو اور شام کو مجھے سنا دیا کرو۔ چنانچہ اس طریق پر انہوں نے امتحان تک آپؓ سے قرآن کا ترجمہ سن لیا۔
٭ پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام صاحب لکھتے ہیں کہ میں 1946ء میں کیمبرج پہنچا جہاں میرے سب کلاس فیلوز عمر میں مجھ سے کم تھے لیکن ایسے ماحول سے آئے تھے جس میں ان کا استاد انہیں یہ سمجھا کر کیمبرج روانہ کرتا تھا کہ تم اس قوم کے فرزند ہو جس میں نیوٹن پیدا ہوا تھا، سائنس اور ریاضی کا علم تمہاری میراث ہے، اگر تم چاہو تو تم بھی نیوٹن بن سکتے ہو۔ کیمبرج میں ڈسپلن کا انداز بھی میرے لئے نیا تھا۔ یہاں بی۔اے کا امتحان آپ زندگی میں صرف ایک بار دے سکتے ہیں۔ فیل ہوجائیں تو پھر دوسری بار امتحان دینا ممکن نہیں۔
کیمبرج میں ہر طالب علم Adultتصور کیا جاتا ہے۔ اپنے سب کاموں میں مکمل ذمہ دار گنا جاتا ہے۔ اس سے بے جا تعرض نہیں ہوتا لیکن اس کے ساتھ سزائیں بھی وحشیانہ تھیں۔
کیمبرج کا طالب علم اپنے ہاتھ سے کام کرنے کا عادی ہوتا ہے۔ پہلے دن جب میں St. Johns Collegeپہنچا، تو میرا تیس سیر کا بکس ریلوے اسٹیشن سے تو Taxi پر چلا آیا لیکن جب کالج پہنچ کر میں نے پورٹر کو بلایا اور کہا یہ میرا بکس ہے تو اس نے کہا کہ وہ Wheel Borrow ہے آپ اسے اٹھاکر اپنے کمرہ میں لے جائیے۔
محترم ڈاکٹر صاحب کی ایک ہمشیرہ بیان کرتی ہیں کہ بھائی جان کا گھر میں ٹائم ٹیبل کچھ یوں ہوتا تھا کہ صبح اٹھے، نماز ، قرآن کریم کی تلاوت کے بعد ناشتہ کرنا۔ گھرکے دھلے مگر استری سے بے نیاز کپڑے پہنے، بستہ بغل میں دبائے ( جب تک سائیکل نہیں خریدا تھا) پیدل سکول جاتے تھے۔ راستہ میں کوئی ہم کلاس مل گیا تو پہاڑے یاد کرتے ہوئے سکول جاپہنچے۔ ذہن میں یہ عادت ڈال دی گئی تھی کہ رات کو جلد سوجانا ہے اور صبح اذان کے ساتھ ہی اٹھنا ہے۔ جب بھی آپ کو جگانے کے لئے کوئی آپ کے کمرہ میں جاتا تو یہی دیکھتا کہ آپ سب سے پہلے جاگ کر اپنے کمرہ میں پڑھ رہے ہوتے تھے۔ چھٹی کے دن بھی یہی معمول تھا۔
آپ جہاں بھی جاتے مختلف کتابیں ضرور خریدتے۔ اکثر کتابیں اٹلی لے جاتے تھے۔ لندن میں آپ کا گھر حقیقتاً کتابوں سے ہی سجا ہوا ہے۔ کمرہ میں کئی شیلف نہایت سیلقہ سے کتابوں سے ترتیب سے بھرے ہوئے ہیں۔ جن میں ایک بہت بڑا حصہ مختلف ممالک سے لائے ہوئے قرآن کریم سے بھی مزین کیا ہوا ہے۔
جھنگ شہر میں ایک ہمارا آبائی مکان ہے جسے بھائی جان نے نوبل انعام ملنے کے بعد 1979ء میں حکومت پاکستان کے محکمہ آثارِ قدیمہ کو ’’ان ہاؤس‘‘ میوزیم بنانے کے لئے دیدیا تھا۔ دوسرا مکان ہمارے والد صاحب نے تعمیر کرایا تھا۔ جس میں ایک کمرہ میں ٹرنک اور دوسرا گھریلو سامان رکھا ہوتا تھا۔ بھائی جان اسی کمرہ میں پڑھائی کرتے اور سوتے بھی تھے۔ ان کی چارپائی کے ساتھ ایک میز رکھی ہوئی تھی جس پر وہ اپنی کتابیں وغیرہ رکھتے تھے۔ چونکہ ان دنوں جھنگ میں بجلی نہیں تھی اس لئے وہ مٹی کے تیل کے لیمپ میں پڑھتے تھے۔ رات کو جلد سوجانے کے عادی تھے۔ اور زیادہ تر پڑھائی صبح کیا کرتے تھے کیونکہ خاموشی ہوتی تھی جس سے انہیں یکسوئی میسر آتی۔ گرمی کے موسم میں وہ پڑھائی بیٹھک میں کیا کرتے تھے کیونکہ اس کے دو طرف گلیاں ہونے کی وجہ سے ہوادار تھی۔ وہ اپنا کورس امتحان سے کم از کم دو ماہ قبل مکمل کر لیتے تھے اور امتحان سے پہلے اسے دو مرتبہ دوہرالیا کرتے تھے۔
اپنے ایک انٹرویو میں محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے بتایا کہ ’’میرا کالج ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر تھا۔ گرمیوں میں سخت گرمی سے بچنے کے لئے میں کالج میں ہی بیٹھ کر اپنا ’’ہوم ورک‘‘ ختم کر لیتا تھا۔ اکثر میرے ہم جماعت بھی میرے پاس بیٹھ جاتے اور میرے کام کو نقل کر لیا کرتے تھے۔ جب سائے ڈھل جاتے تو ہم پیدل اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے تھے‘‘۔