عمرخیام کی فارسی رباعیات

روزنامہ ’’الفضل‘‘ 16؍جنوری 1999ء میں مکرم یعقوب امجد صاحب کے قلم سے عمرخیام کی فارسی رباعیات کے بارہ میں ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔

عمر خیام کا مجسمہ

عمرخیام کا مقام مختلف علوم کے اعتبار سے نہایت بلند ہے لیکن فارسی ادب میں انہیں ایک رباعی گو کی حیثیت سے شہرت حاصل ہوئی۔ یورپ کی متعدد علمی زبانوں میں اس کی رباعیات کے ترجمے ہوچکے ہیں۔ اردو زبان میں نثری ترجمہ کے علاوہ ایک منظوم ترجمہ بھی ملتا ہے جو آغا شاعر قزلباش دہلوی کی کاوش ہے۔
عمر خیام نے اپنے حالات کو ہی رباعیات کا موضوع بنایا تھا۔ آپ کی رباعیات سادہ انداز کی ہیں مگر اپنے اندر بلا کی تاثیر رکھتی ہیں۔ شاعر کا پہلا تاثر تو یہی ہے کہ انسان نادانی و بے خبری میں عمر گنوا دیتا ہے اور یہ نہیں معلوم کرتا کہ اسے کس لئے پیدا کیا گیا ہے۔
شاعر کا دوسرا تاثر اُس کا غم ہے جس کے بوجھ تلے اُس کا دل خون ہوا جاتا ہے۔ یہ غم وہ اس لئے کھاتا ہے کہ وہ سوچتا ہے کہ انسانی زندگی کا درخت سدابہار کیوں نہیں رہتا اور خشک ہوکر پیوندِ خاک کیوں ہو جاتا ہے؟ ۔
شاعر کا تیسرا تاثر یہ ہے کہ ظاہر داری، فریب کاری، دورُوئی اور دروغ گوئی عام ہے۔ خصوصاً مذہب کے واعظین سے اسے شکایت ہے کہ وہ ظاہر میں تقویٰ و تقدس کا نمونہ پیش کرتے ہیں، مگر باطن میں وہ اپنے اغراض و مقاصد پورا کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔
عمر خیام کی چند رباعیوں کے تراجم ذیل میں پیش ہیں:-
٭ کہتا ہے کہ وہ دن کہ جو گزر چکا ہے، تُو اسے یاد نہ کر۔ آنے والا دن، جو ابھی آیا نہیں ہے، اس کے لئے (قبل از وقت) فریاد نہ کر، پس ہر وہ دن، جو ابھی آیا نہیں اور جو گزر چکا ہے، تُو اسے بنیاد نہ بنا، بلکہ اپنے حال میں خوش رہ (کر زندگی بسر کر) اور عمر کو برباد نہ کر۔
٭ ہر وہ انسان جسے اس دنیا میں آدھی روٹی میسر آتی ہے اور وہ سر چھپانے کے لئے آستانہ رکھتا ہے، وہ نہ کسی کا خادم اور نہ کسی کا مخدوم ہے۔ اُسے کہہ دے کہ تُو ہنسی خوشی زندگی بسر کر، کہ وہ اپنے لئے ایک خوشیوں بھرا جہاں رکھتا ہے۔
٭ اگر دو دن میں ایک روٹی اور ایک ٹوٹی ہوئی صراحی میں کچھ ٹھنڈا پانی مل جایا کرے تو کسی غیر کے محکوم ہونے یا اپنے ہی جیسے کسی شخص کی خدمت کرنے کے کیا معنی ہیں؟
٭ یہ دنیا ایک ایسا معبد ہے کہ جس نے لاکھوں عیسیٰ دیکھے۔ یہ ایک ایسا طور ہے جس نے لاکھوں موسیٰ دیکھے۔ یہ ایک ایسا محل ہے جس میں لاکھوں قیصر رہ چکے ہیں اور یہ محل کی ایسی محراب ہے جس نے لاکھوں کسریٰ دیکھے ہیں۔
٭ یہ پرانی سرائے کہ جس کا نام دنیا ہے اور صبح و شام کے چتکبرے گھوڑے کی آرامگاہ ہے۔ یہ ایسی بزم ہے جو جمشید جیسے سینکڑوں بادشاہوں کی چھوڑی ہوئی ہے (اور) یہ ایسا محل ہے جو بہرام جیسے سینکڑوں بادشاہوں کا تکیہ گاہ رہا ہے۔
٭ اے دوست اس دنیا کا بے فائدہ غم نہ کھا (اور) تو فضول اس فرسودہ دنیا کا غم نہ کھا۔ جب ماضی گزر گیا اور جو موجود نہیں یعنی مستقبل ابھی ظاہر نہیں ہوا تو تجھے خوش خوش رہنا چاہئے اور گزشتہ اور آئندہ کا غم نہیں چاہئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں