عیسائی راہب بحیرا کی گواہی
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ 8 مارچ 2019ء)
آنحضورﷺ کے بچپن میں عیسائی راہب بحیرا کی آپؐ کے حوالہ سے ایک ایمان افروز گواہی مکرمہ امۃالباری ناصر صاحبہ کی مرتّبہ ایک کتاب سے ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ جنوری فروری 2012ء کی زینت بنائی گئی ہے۔
آنحضرت ﷺ کی عمر مبارک قریباً بارہ سال تھی۔ آپؐ کے والدین اور دادا بھی وفات پاچکے تھے اور آپؐ اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ رہتے تھے۔ جب ابوطالب ایک تجارتی قافلے کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہونے لگے تو آپؐ سے یہ جدائی برداشت نہ ہوئی اور آپؐ چچا سے لپٹ کر رونے لگے۔ خود چچا کا دل بھی اداس ہو رہا تھا چنانچہ انہوں نے آپؐ کو بھی اپنے ہمراہ لے لیا۔
قریش کا قافلہ جب شام کے جنوب میں واقع گاؤں بصریٰ میں پہنچا تو وہاں کی ایک خانقاہ (صومعہ) کے عیسائی راہب بحیرا کی نظر آپؐ پر پڑی تو اُس نے دیکھا کہ بادل کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا آپؐ پر سایہ کیے ہوئے ہے تاکہ آپؐ کو دھوپ سے بچائے۔ اُس نے کشفاً یہ نظارہ بھی دیکھا کہ آپؐ کو دیکھ کر درخت اور پتھر سجدہ میں گرگئے ہیں۔ اُس کو اندازہ ہوگیا کہ موعود نبی کے بارہ میں سات پشتوں سے سینہ در سینہ جو پیشگوئی ہے کہ وہ قریش میں سے ہوگا، عین ممکن ہے کہ یہی بچہ ہو۔
اُس نے قافلے والوں کو دعوت پر بلایا تاکہ آپؐ کو اچھی طرح دیکھ سکے۔ جب سب لوگ دعوت پر آگئے تو اُسے وہ بچہ نظر نہ آیا۔ اُس نے پوچھا کہ کیا سب قافلے والے آگئے ہیں؟ تب اُس کو بتایا گیا کہ ایک بچہ سامان کی حفاظت کرنے والوں کے ساتھ پیچھے رہ گیا ہے۔ اُس نے اصرار کرکے آپ ؐ کو بلوایا اور قریب بلواکر آپؐ سے باتیں کیں، دونوں کندھوں کے درمیان ابھرے ہوئے گوشت ’’مہرنبوت‘‘ کو محسوس کیا جو آنے والے نبی کی ایک نشانی تھی۔ جب اُسے یقین ہوگیا کہ آپؐ ہی وہ موعود نبی ہیں تو ابوطالب سے پوچھا کہ اس بچے کا آپ سے کیا رشتہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ میرا بیٹا ہے۔ راہب کہنے لگا کہ اس کا باپ زندہ نہیں۔ ابوطالب بولے: ٹھیک ہے یہ میرا بھتیجا ہے۔ تب راہب نے ابوطالب سے کہا کہ آپ اس بچے کو لے کر فوراً واپس چلے جائیں ایسا نہ ہو کہ یہودی ان نشانیوں سے اس کو پہچان لیں اور کوئی نقصان پہنچائیں۔